ریحا کو دیکھنے مہمان آچکے تھے۔
اور ڈرائنگ روم میں بیٹھے باتیں کررہے تھے.
سارہ کھانے کے لوازامات لیکر اندر داخل ہوئی۔
"یہ کون ہے"شیلا بیگم نے سارہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"یہ میرے دیور کی بیٹی ہے اور میری بھانجی بھی ہے"فہمیدہ بیگم سارہ کو دیکھتے ہوئے بولیں۔
" اچھا ماشاءاللہ پیاری بچی ہے شاید فریدہ آپکی بہن ہے"شیلا بیگم نے مسکرا کر پوچھا۔
"جی ہم دونوں بہنیں بھی ہیں اور دیوررانی جیٹھانی ہیں "فریدہ بیگم مسکرا کر بولیں۔
"ہاں آپ دونوں بہنوں کی شکلیں بہت ملتی ہے "شیلا بیگم ان کی طرف دیکھ کر بولیں۔
"ماما دلہن کب آئیگی"مہرین کی چار سالہ بیٹی وفا نے پوچھا۔
"وفا دلہن نے کہا ہے وہ نہیں آئینگی کیونکہ آپ بہت شرارت کرتی ہو"نشاء نے مسکرا کر وفا کو ڈراتے ہوئے کہا۔
"نہیں میں شرارت نہیں کرونگی انکو آنے بولو نا" وفا نے معصومیت سے کہا۔
"وہ تیار ہورہی ہونگی بیٹا تھوڑی دیر تک آجائیگی"مہرین نے مسکرا کر کہا۔
وہ اپنے تین بچوں کو اپنی نند کے پاس چھوڑ آئی تھی صرف وفا کو ساتھ لیکر آئی تھی۔
اور بیٹا تم کیا کرتی ہو"شیلا بیگم نے سارہ سے پوچھا تھا۔
"کچھ نہیں آنٹی بس پڑھائی کے بعد امی کیساتھ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتی ہوں"سارہ نے مسکرا کر جواب دیا اور نشاء کیساتھ ہلکی پھلکی باتیں کرنے لگی۔
"اور بتائیں آپ کا بیٹا کیا کام کرتا ہے گھر میں کون کون رہتا ہے"فریدہ بیگم نے شیلا بیگم کی طرف چائے کی پیالی بڑھاتے ہوئیں پوچھنے لگیں۔
"میری ماشاءاللہ سے دو بیٹیاں ہیں مہرین کی تو شادی ہوچکی ہے اور نشاء ابھی پڑھ رہی ہے آزر بھی پڑھائی کے بعد اپنے ڈیڈ کیساتھ آفس جانے لگا ہے"شیلا بیگم نے تفصیل کے ساتھ کہا۔
"اچھا ماشاءاللہ "فہمیدہ بیگم نے مسکرا کر کہا۔
"انٹی ریحہ کیا کرتی ہے"مہرین نے فہمیدہ بیگم سے پوچھا۔
"بیٹا وہ انٹر کررہی ہے اسکا آخری سال ہے"انہوں نے جواب دیا۔
"اچھا دراصل ہم چاہ رہے ہیں شادی جلدی ہو جائے میں اور میرے ہسبینڈ حج کے لیے جا رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جانے سے پہلے بیٹے کی شادی کر دی جائے تاکہ بہو گھر کو سنبھال سکے اور ہمیں پیچھے سے پریشان نہ ہونا پڑے "شیلا بیگم نے مسکرا کر تفصیل سے کہا۔
"زالحج کا مہینہ تو ایک مہینے بعد شروع ہو رہا ہے اسی سال کی بات کر رہی ہیں آپ ؟" فہمیدہ بیگم نے اچھنبے سے پوچھا۔
"جی جی اسی سال کی بات کر رہی ہوں اسی سال جانا چاہتے ہیں ہم "شیلا بیگم نے کہا۔
"اتنی جلدی ہم کیسے تیاری کریں گے "فریدہ بیگم پریشان ہو کر بولیں۔
"آپ بشیر صاحب سے مشورہ کرکے دیکھ لیں پھر ہمیں جواب دیجیے گا "شیلا بیگم نے ان کی پریشانی کو سمجھتے ہوئے کہا۔
"ٹھیک ہے میں ان سے مشورہ کرکے آپ کو فون پر بتاؤں گی "فہمیدہ بیگم نے کہا۔
"انٹی آپ فریحا کو بولوالیں اب "مہرین نے فہمیدہ بیگم سے کہا۔
"سارا جاؤ بہن کو لے کر آؤ "فریدہ بیگم نے سارا سے کہا۔
"جی ماما بھی لے کر آتی ہوں شاید تیار ہو گئی ہو "سارا کہتے ہوئے اٹھی اور باہر کی طرف چلی گئی وہ آپس میں باتیں کرنے لگیں۔
***
"نجانے کہاں پھنس گئی میں ماما بابا کی خوشی کے لیے مان توگئی لیکن اب ڈر لگ رہا ہے نہ جانے آگے کیا ہوگا میں یہ رشتہ نبھانا پاؤگی بھی کہ نہیں "وہ اپنے بال سلجھاتے ہوئے سوچنے لگی۔
" میں پہلے کتنی خوش رہا کرتی تھی زندہ دل تھی ہنستی بولتی تھی لیکن اب سب کچھ بدل گیا ہے ایسا لگتا ہے خوشیوں میں میرا کوئی حق نہیں "وہ اداسی سے سوچنے لگی۔
"کیسے ایک انسان دوسرے انسان کا دل توڑ کر خوش رہ سکتا ہے شرم تک محسوس نہیں کرتا کسی کی خوشیوں بھری زندگی برباد کر اپنی زندگی خوشی سے کیسے جی لیتا ہے"اس کا دماغ پھر سے احمد کی طرف چلا گیا۔
"میں تمہیں کبھی معاف نہیں کرونگی اس دنیا میں دیکھ نہیں پائی مل نہیں پائی تو کیا ہوا اگلے جہاں میں مل کر دیکھ کر بھی تمہیں معاف نہیں کرونگی اور اللّه بھی تمہیں تب تک نہیں معاف کریگا جب تک میں تمہیں معاف نہیں کرتی"وہ خیالوں میں احمد سے مخاطب ہو کر بولی اس کی آنکھوں سے آنسوں خاموشی سے بہنے لگے۔
وہ شیشے کے سامنے کھڑی ہاتھوں سے ہولے ہولے بال سلجھارہی تھی اور سوچنے میں مصروف تھی۔
" ریحا تم تیار ہو گئی ہو یا نہیں "سارا کہتے ہوئے اندر داخل ہوئی۔
"ہاں میں تیار ہوگئی"اس نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے اور دوپٹہ سیٹ کیا۔
"ماشاءاللہ کتنی پیاری لگ رہی ہو "سارا نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے تعریف کی۔
"میں ہوں ہی پیاری "وہ زبردستی مسکرا کر بولی۔
وہ سارا کو کسی شک میں مبتلا نہیں کرنا چاہتی تھی۔
"ہاں یہ تو ہے چلو وہ لوگ بلا رہے ہیں جلدی چلتے ہیں "سارا نے کہتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑا۔
"سارا مجھے ڈر لگ رہا ہے "اسنے کنفیوز ہوتے ہوئے اپنا ہاتھ کھینچا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے کے ساتھ رگڑتے ہوئے بولی۔
"کیوں ڈر رہی ہو تم"سارا نے حیران ہو کر پوچھا۔
"پتا نہیں نہ جانے کیسے لوگ ہوں گے کیسے سوالات پوچھیں گے "وہ جزبز ہوتے ہوئے بولی۔
"پریشان مت ہو بہت اچھے لوگ ہیں ماما اور تائی خالہ تمہارے بارے میں ان کو بتا رہی ہیں سب میرے خیال میں تم سے کوئی سوال نہیں پوچھیں گی"سارہ اسے تفصیل کے ساتھ بتاتے ہوئے بولی۔
"اچھا چلو پھر چلتے ہیں "وہ خود کو ریلیکس کرتے ہوئے بولی اور سارہ کے ساتھ روم سے باہر نکل گئی۔
***
" شہزاد صاحب کی بیوی اور بیٹیاں آئی تھیں ریحا کو دیکھنے!
ان کو ہماری بیٹی پسند آئی کہ نہیں "بشیر صاحب نے اپنی گھڑی کھولتے ہوئے پوچھا۔
"وہ تو بہت خوش ہو رہے تھے ان کو ہماری بیٹی پسند آگئی لیکن۔۔۔"فہمیدہ بیگم خوشی سے بتاتے ہوے متفکر ہوئیں۔
"لیکن کیا بیگم "بشیر حمدانی نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے چونک کر پوچھا۔
"وہ چاہتی ہیں ایک مہینے کے اندر شادی کر دی جائے کیونکہ شیلہ بیگم اور ان کے ہسبنڈ حج پے جانا چاہتے ہیں اور جانے سے پہلے بیٹے کی شادی کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے بیٹے اور بیٹی اکیلے نہ پڑ جائے "فہمیدہ بیگم نے تفصیل سے انہیں بتایا۔
"ہاں مجھے شہزاد نے سب باتیں بتائیں ہیں "بشیر صاحب نے کہا۔
"پھر بھی آپ مان گئے ؟"فہمیدہ بیگم نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔
"دیکھو بیگم اتنا اچھا رشتہ آیا ہے ہماری بیٹی کا نہ جانے آگے ہمیں اچھا رشتہ ملے کہ نہیں "بشیر صاحب نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سمجھاتے ہوئےکہا۔
"وہ تو ٹھیک ہے لیکن ہم اتنی جلدی تیاریاں کیسے کریں گے وہ بھی ایک مہینے کے اندر !
اور فریحہ کی بھی پڑھائ ابھی مکمل نہیں ہوئی فریحہ کو تو کچھ پکانا آتا ہی نہیں وہاں جا کر کیا ذمہ داریاں سنبھالے گی "فہمیدہ بیگم نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔
"بیگم ان کے گھر میں نوکر چاکر ہیں سارے کام وہی کرتے ہیں ہماری بیٹی عیش کرے گی "انہوں نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
"تو ان کو بہو کی کیا ضرورت ہے "فہمیدہ بیگم ناراضگی سے بولیں۔
"بھئی وہ پورا گھر نوکروں کے ہاتھوں پہ تو چھوڑ کر نہیں جا سکتے نہ"انہوں نے اپنی بیگم کا ناراض چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔
"میں نے سوچا تھا پہلے فریحہ کی منگنی کرونگی پھر پڑھائی مکمل ہونے کے بعد اسے اچھے سے گھر داری سکھاؤں گی پھر آرام سے رخصت کرونگی "فہمیدہ بیگم ناراضگی بھرے لہجے میں بولیں۔
"آپ پریشان کیوں ہوتی ہیں بس اللہ پر توکل کرلیں اور شادی کی تیاریوں میں بھابی اور انکی بیٹیاں مدد کر دیں گی"بشیر صاحب بالکل بے فکر تھے۔
"اور ریحا کی پڑھائی کا کیا کریں کیا وہ چھوڑنے پر مانے گی؟ "فہمیدہ بیگم نے طنزیہ انداز میں ان سے پوچھا۔
"بیگم تمہیں ریحہ نے نہیں بتایا اس کے اگلے ہفتے بورڈ کے پیپر ہیں"بشیر صاحب نے مسکراتے ہوئےالٹا ان سے پوچھا۔
"نہیں تو اس نے مجھے نہیں بتایا شاید بتانا بھول گئی ہو "فہمیدہ بیگم نے حیران ہو کر کہا۔
"تو آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اس کے پیپر بھی ہو جائیں گے اور آپ لوگ شادی کی تیاریاں کرنا شروع کر دیں "بشیر صاحب نے بے فکری سے کہا۔
"چلیں جیسے آپ کو بہتر لگے میں فریحہ کو بتادوں نہ جانے وہ جلدی رخصت ہونے پر مانے گی یا نہیں "فہمیدہ بیگم نے متفکر ہو کر کہا۔
"ہمارے بیٹی ہے وہ مان جائیگی مجھے اس پر بھروسہ ہے وہ کبھی ہماری بات نہیں ٹالے گی بہت فرمابردار بچی ہے "بشیر صاحب نےمحبت سے مسکرا کر کہا۔
"ہاں یہ تو ہے اللہ اس کے نصیب اچھے کرے میں اس سے بات کر کے آتے ہو اور فریدہ کو بھی بتاتی ہوں "وہ کہتے ہوئے اٹھی اور روم سے باہر چلی گئیں۔
***
وہ لوگ فریحا کے گھر سے واپس آ کر بیٹھی تھیں اور انہی کے بارے میں بات کر رہے تھیں۔
"ماما لڑکی تو ماشاء اللہ سے بہت پیاری ہے مجھے تو بہت پسند آئی "مہرین نے وفا کو صوفے پر لٹاتے ہوئے کہا!
وفا گاڑی میں ہی سو گئی تھی۔
"ہاں صورت سے تو پیاری ہے سیرت کی بھی پیاری ہو جو ہمارے جانے کے بعد آزر اور نشاء کا خیال رکھ سکے "شیلا بیگم نے مسکرا کر کہا۔
"ہاں بھئی آپ لوگ تو خوشی خوشی جارہے ہیں میں اکیلی یہاں کیا کرونگی بھائی بھی شاید بھابھی کے ساتھ بزی ہوجائنگے آخر کو انکی نئی نئی شادی ہوگی اور میں انکے بیچ میں رہکر کباب میں ہڈی بنی رہونگی"نشاء برے برے منہ بناتے ہوئے بولی۔
"ماما اگر آپ اجازت دیں تو میں نشاء کو اپنے گھر لے جاسکتی ہوں یہ بچوں کو بھی سمبھال لیگی میرے ساتھ رہیگی تو میرے لئے بھی آرام ہوگا اور یہ بور بھی نہیں ہوگی"مہرین نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا نشاء نے اسے گھور کر دیکھا تھا۔
بحرین اپنے بچوں کے شرارت سے بے حد تنگ تھی بچوں کی نشاء سے بہت بنتی تھی اس وجہ سے وہ نشاء کو اپنے ساتھ لے کر جانا چاہتی تھی۔
"اچھا چلو میں تمھارے ڈیڈ سے پوچھونگی پھر اگر وہ اجازت دیں تو لے جانا! لو یہ دونوں بھی پہنچ گئے"
شیلا بیگم مہرین کو بولیں اور سامنے سے آتے شہزاد صاحب اور آزر کو دیکھا۔
"اسلام علیکم لیڈیز کیسے ہیں آپ سب "آزر سلام کرتے ہوئے صوفے پر بیٹھا اور اپنا آفس بیگ میز پر رکھا اور ان سے حال دريافت کیا۔
"وعلیکم السلام ہم تو بہت خوش ہیں"مہرین نے مسکرا کر کہا۔
"کیوں بھئ اتنی خوشی کیوں ہو رہی ہے لڑکی کچھ زیادہ ہی پسند آ گئی کیا "شہزاد صاحب نے اپنی بیٹیوں کے ہنستے ہوے چہرے کو دیکھ کر پوچھا۔
"جی ماشاللہ سے بہت پیاری بچی ہے فیملی بھی مجھے بہت پسند آئی میں نے تو ان کو ہاں کر دی ہے لیکن انہوں نے کہا وہ سوچ کر جواب دینگی "شیلا بیگم نے مسکراتے ہوئے تفصیل سے کہا۔
"اکرم۔۔۔ ہمارے لیے جوس لے کر آؤ ہم کب سے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں پانی تک کا نہیں پوچھا تم نے کیا اس لیے نوکری پر رکھا ہے ہم نے تمہیں "نشاء نے ناراضگی سے ملازم کو آواز دیتے ہوئے کہا۔
"جی چھوٹی بیگم معاف کیجیے گا تھوڑا کام میں مصروف تھا ابھی لے کر آتا ہوں "اکرم دوڑتا ہوا آیا اور گھبراتے ہوئے بولا۔
"اچھا جاؤ جلدی لے کر آؤں گلا سوکھ رہا ہے ہمارا "نشا نےگھورتے ہوئے کہا۔
اکرم جوس لے نےکچن کی طرف چلا گیا۔
"ماما لڑکی وہی ہے نہ جیسی تصویروں میں تھی ایسا تو نہیں تصویر میں کوئی اور ہو اصلی میں کوئی اور ہو"آزر نے جھجکتے ہوئے شیلا بیگم سے کہا۔
"بھائی آپ کا ڈر بالکل صحیح تھا تصویروں میں تو بہت پیاری تھی لیکن اصل میں اس کا رنگ بہت کم ہے اور ناک بھی تیڑھی ہےدانت بھی ٹوٹے ہوئے ہیں "نشاء نے اپنی ہنسی دبانے سے ہوئے سیریس ہوکر کہا۔
"نشا میرے بیٹے کو کیوں ڈرا رہی ہو آذر بیٹا ایسا کچھ نہیں ہے ماشاءاللہ بہت پیاری ہے جیسی تصویروں میں تھی حقیقت میں بھی ویسی ہے "شیلا بیگم نشا کو ڈانٹتے ہوئے آزر سے بولیں۔
آزر نے نشاء کو گھورا جو شرارت سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"اچھا بیگم میں بہت تھک گیا ہوں میرا جوس اوپر بھجوا دینا اور شام کو بشیر ہمدانی سے بات کرکے معاملات سیٹ کرونگا "شہزاد صاحب اٹھتے ہوئے بولے۔
"ٹھیک ہے آپ جائیں اور آرام کرے میں جوس اوپر بھجواتی ہوں"شیلا بیگم ان کا تھکا ہوا چہرہ دیکھ کر بولیں۔
شہزاد صاحب کے اوپر جانے کے بعد چاروں آپس میں باتیں کرنے میں مصروف ہوگئے۔
***