"بیٹا میں نے کیا سنا تمھاری ماں سے"بشیر صاحب نے اس سے پوچھا۔
وہ جو آرام سے کھانا کھارہی تھی انکی بات پر ڈرتے ہوئے انکی طرف دیکھا تھا۔
"جی ؟" وہ اٹک کر بول۔
"تم راضی کیوں نہیں ہو بیٹا کوئی اور پسند ہے کیا ؟ "انہوں نے اس سے پوچھا۔
"نہیں بابا ایسی بات نہیں ہے میں بس آگے پڑھنا چاہتی ہوں " اس نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا۔
"بیٹا تم جانتی ہو خاندان کا رواج تمھارے کالج پڑھنے پر سب نے کیسے باتیں سنائی تھیں لیکن میں نے سب کی مخالفت لیکر تمھارہ شوق پورا کیا اور اب تم ہماری بات نہیں مان رہی تو ہم کیا سمجھے" انہوں نے اسکے سر پہ ہاتھ رکھکر کہا۔
وہ خاموشی سے انکی باتیں سن نے لگی تھی انکی بات بھی ٹھیک تھی۔
پر وہ اپنے دل کا کیا کرتی جو کسی اور کا ساتھ کے لئے تیار نہیں تھا۔
"بیٹا ہم تمھارے لئے برا نہیں سوچیں گے جو بھی کرینگے سوچ سمجھ کر کرینگے میرا دوست کا بیٹا ہے بہت خوش رکھیگا اچھے لوگ ہیں اپنا بزنس ہے بس ہماری بات مان لو آپ بس "انہوں نے آس سے پیار سے کہا تھا۔
"بابا مجھے کچھ وقت چاہئے سوچنے کے لئے"اسنے آہستہ سے کہا۔
"ٹھیک ہے بیٹا سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا اگلے ہفتے انہوں نے دیکھنے آنا ہے"انہوں نے مسکرا کر کہا۔
"جی ٹھیک ہے " وہ بولتے ہوئے واپس کھانا کھانے لگی۔
بشیر صاحب نے اسکے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور باہر کی طرف چل دیئے۔
***
"کاش احمد تم مجھے بیچ راہ پر نا چھوڑ کر جاتے تو آج مجھے یوں ازیت میں رہنا نہیں پڑھتا کیوں چھوڑ کر چلے گئے تم لوٹ آؤ پلیز رورہی ہوں تمھارے عشق میں اک بار واپس آجاؤ "
وہ آج پھر سے ٹوٹ گئی تھی رات کے اس پہر اسکی آواز گونج رہی تھی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔
"کاش تم میرے دل کا حال جان پاتے کاش میں کیسی ہوں اس سوال کا جواب جان پاتے بڑی حسرت ہے کہ تم میرے ہوجاؤ کاش کہ تم میرے ہوجاتے"وہ اپنے آنسوؤں کا گلا گھنٹتے ہوئے دل میں سوچنے لگی۔
"کاش میرے ساتھ ایسا کھیل نہیں کھیلتے اللہ پوچھے گا تم سے اللہ کرے تمھارے ساتھ بھی یہی ہو تم بھی تڑپو جس تڑپ اور ازیت سے میں تڑپ رہی ہوں"
وہ لیٹے لیٹے دل میں اسے بددعا دیتے ہوئے بولی اسکا دل کاش میں اٹکا ہوا تھا۔
وہ اپنے آنسوں صاف کرنے لگی جو خاموشی سے اسکی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔
"تم نے کتنی لڑکیوں کی فلینگس کے ساتھ کھیلی ہیں اور میں بے وقوف تمہیں خدا سے مانگنے لگی تھی تم میرے قابل ہی نہیں ہو بلکہ تم کسی بھی لڑکی کے قابل نہیں ہو اک دن ضرور بڑا پچتاؤگے " وہ احمد کو اپنے خیالوں میں مخاطب کرتے ہوئے بولی تھی۔
اسے اس سے نفرت محسوس ہورہی تھی پر وہ جانتی تھی یہ نفرت بس کچھ وقت کے لئے ہے اسکا دل پھر احمد کو پانے کیلئے تڑپیگا۔
توڑا جائیگا میری طرح تو بھی چھوڑا جائیگا۔۔۔
کتنوں کے دل برباد کریگا آگ لگائیگا۔۔۔
تو سچ میں کتنا بے حیا ہے سچ یہ سامنے آئیگا۔۔۔
ہائے بڑا ستایا ہے مجھے جا تو بھی ستایا جائیگا۔۔۔
***
کینٹن میں اکا دکا رش تھا کچھ طالبہ چئیر میں بیٹھے نوٹس لیکے بیٹھے تھے اور کچھ اسٹوڈنس کینٹن میں بیٹھے لنچ کررہے تھے۔
حمیرا بھی لنچ کرنے میں مصروف تھی جبکہ ریحا اسکے سامنے بیٹھی سوچنے میں مصروف تھی۔
"لو تم بھی کھاؤ کیا سوچ رہی ہو "حمیرا نے کھاتے کھاتے اسکی طرف دیکھا تھا اور اسے کسی سوچ میں ڈوبا دیکھا تو پوچھا۔
"نہیں یار دل نہیں کررہا من نہیں ہے" اسنے جواب دیا۔
"کیوں من نہیں ہے ناشتہ بھی صحیح سے نہیں کیا تم بتارہی تھی کیا ہوا ہے کیا سوچ رہی ہو" حمیرا نے گھور کر پوچھا۔
"حمیرا کیا ایسا نہیں ہوسکتا وہ مجھے کیسے بھی کر کے مل جائے"وہ پرسوچ انداز میں بولی تھی۔
"پھر شوع ہوگیا تمھارا احمد نامہ "حمیرا نے اپنا سر پیٹا تھا۔
"اللہ کے بعد اک تم ہی تو میری دوست ہو جسے سب باتیں شیر کرسکتی ہوں اور کسے کہوں"وہ ہلکہ سا مسکرا کر بولی۔
اسکی مسکراہٹ کے پیچھے بھری دکھ حمیرا اچھے سے سمجھتی تھی۔
"ہاں کرسکتی ہو لیکن یار خود کو تکلیف دینا بند کرو کیوں بار بار یاد کرتی ہو اسے چار مہینے سے زیادہ ہوچکے ہیں ابھی بھی وہی کھڑی ہو موو اون کرو یار وہ تو تجھے بھول بھی گیا ہوگا اور تو اسکی یاد میں کھانا پینا بھی کم کردیا ہے کتنی کمزور ہوگئی ہو "حمیرا نے افسوس سے اسے دیکھا تھا۔
"ہممم۔۔۔مجھے اک بات بتانی تھی تجھے"وہ اسکی بات کو اگنور کرتے ہوئے بولی۔
"ہاں بول لیکن پہلے یہ کھا "حمیرا نے بولتے ہو برگر کا بائٹ زبردستی اسکے منہ میں ڈالا تھا۔
"بابا نے مجھے کہا کے وہ میری شادی کرنا چاہتے ہیں انکے کوئی دوست کے بیٹے ہیں اور تجھے پتا میرا دل اسکے علاوہ کسی اور کے لئے مانتا ہی نہیں ہے سمجھ نہیں آرہا کیا کروں"
وہ برگر کھاتے ہوئے بولی۔
"انکل جو کہہ رہے ہیں وہ کر شادی کرلے وقت کے ساتھ ٹھیک ہوجائیگا تیرا عشق کا بھوت بھی شوہر کا پیار ملیگا تو"حمیرا برگر کھاتے ہوئے ہنس کر بولی۔
"پر حمیرا میرا دل نہیں ہے میں کہی بھی نہیں کرنا چاہتی" وہ پریشان ہوکر بولی۔
"اس انسان کی وجہ سے ہاں؟ جس نے تجھے دھوکہ دیا صرف تجھے ہی نہیں اور بھی لڑکیوں کو دھوکہ دیا ہوگا تو اس انسان کی وجہ سے اپنے ماں باپ کی بات نہیں مان رہی ہے؟
کیا ہوگیا ہے یار سنبھالو خود کو کیوں کسی فضول اور گھٹیا انسان کے پیچھے خود کو تباہ کررہی ہو تمھاری اپنی اک سیلف رسپیکٹ ہے تمہیں اللہ نے اس لئے نہیں بنایا ہے اس مٹی کے انسان کے پیچھے اپنی زندگی خراب کرو!
حمیرا نے غصے سے سمجھایا تھا۔
وہ چپ کرکے اسکی باتیں سننے لگی تھی حمیرا حق بجانب تھی۔
" یارمجھے سمجھ میں سمجھ نہیں آتا آجکل کی لڑکیوں کو ہو کیا گیا ہے پیار کے چکر میں ان ماں باپ کا دل دلکھاتی ہیں۔
"جنہوں نے پیدا کیا پال پوس کر پڑھایا لکھایا اور دودن کے آئے ہوئے لڑکے کے چکر میں اپنا سب کچھ کھو بیٹھتی ہیں بعد میں جب وہ چھوڑ کر چلے جائے تو پھر انہیں کوسنے دینے لگتی ہیں ساری غلطی صرف لڑکوں کی نہیں ہیں غلطیاں لڑکیوں کی بھی ہیں وہ انکی باتوں میں آتی ہی کیوں ہیں کیا انکو اپنا معیار نہیں معلوم لڑکیوں کو ایسا ہونا چاہئے کہ کوئی غیر مرد بھی ان کے پاس نا آ پائے !
حضرت فاطمہ ہمارے لئے مثال ہیں میں یہ سب تجھے نہیں سنارہی بس آجکل کے حالات بتارہی ہوں اتنا کمزور نہیں ہونا چاہیۓ لڑکیوں کو لڑکوں کا کیا ہے انہیں تو پچاس لڑکیوں کے ساتھ منہ مارنے کی عادت ہے اور لعنت ہے ایسے لڑکوں پر جنہوں نے لفظ محبت کا نام بھی بدنام کردیا ہے اپنے ٹائم پاس کو محبت کا نام دے بیٹھتے ہیں جب دل بھر جائے تو خدا حافظ بول کر چلے جاتے ہیں اللہ انسے انکے کئے کا حساب ضرور لیگا" حمیرا نے دبی دبی آواز میں غصے سے کہا تھا وہ بہت غصے میں آگئی تھی۔
"تم ٹھیک کہہ رہی ہو ہمیں ہی موقع نہیں دینا چاہئے"وہ شرمندہ ہوتے ہوئے بولی۔
"لیکن یار اک بات ہے اگر لڑکیاں بھروسہ کر بھی لیتی ہیں تو انہیں تو ایسا نہیں کرنا چاہئے دل توڑنا کتنا بڑا گناہ ہے لیکن آج کل دل توڑنا بہت سستا ہوگیا ہےیار لیکن پھر وہی بات ہے لڑکوں پہ بھروسہ نہیں کرنی چاہئے " وو پرسوچ انداز میں بولی۔
"یہ تو ہے"ریحا نے اسکی بات پر سر ہلایا۔
"تو بس انکل اآنٹی جو کہہ رہے ہیں انکی بات مان لو وہ کبھی تیرا برا نہیں چاہینگے اور جو تیرا ہے نا وہ خود ہی چل کر تیرے والدین کے پاس آجائیگا اور جو تیرا نہیں وہ کبھی تجھے نہیں مل سکتا " حمیرا نے خود کو ٹھنڈا کرتے ہوئے رسانیت سے کہا۔
"ٹھیک ہے جیسا بابا کہتے ہیں ایسا ہی کرونگی" وہ آہستہ سے بولی اور اٹھ کھڑی ہوئی کیوں کہ بریک ختم ہوچکا تھا۔
جو ہے تیرا لب جائیگا۔۔۔
کرکے کوئی بہانہ۔۔۔
تیرے بس میں کچھ وی نہیں ہے۔۔۔
دل نوں تو سمجھاواں۔۔۔"
***