وہ دونوں واپس گھر آ چکے تھے نشا واپس مہرین کے ساتھ اس کے گھر چلی گئی تھی۔
"سنیے آپ نے جو ویڈیو بنائی ہے مجھے سینڈ کریں میرے موبائل پر"ریحہ نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
"اچھا کرتا ہوں"وہ چینجنگ روم سے نکلتے ہوئے بولا۔
"تھینکس آزر " تھوڑی دیر بعد سینڈ ہوجانے پر اسنے اسکا شکریہ ادا کیا۔
"ویلکم"وہ بولتے ہوئے بیڈ پہ لیٹ گیا۔
ریحہ بھی تھوڑے فاصلے پر اسکے ساتھ لیٹ گئی اور آزر کی بنائی ہوئی ویڈیو دیکھنے لگی۔
آزر نے اسکی طرف دیکھا فریحہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی وہ بھی اسے دیکھکر مسکرایا۔
کیا دیکھ رہی ہو جو ایسے مسکرا رہی ہو"آزر نے اس سے پوچھا۔
مبائل میں ہیڈ فون لگے ہونے کی وجہ سے آزر کو آوازیں نہیں آرہی تھی وہ کیا دیکھ رہی ہے۔
"ہماری ویڈیو"وہ جھٹ سے بولی۔
"اچھا مجھے بھی دیکھاؤ"وہ مسکرا کر بولا۔
وہ جھٹ سے اسکے تھوڑے قریب آئی اور مبائل اسکی طرف کیا تاکہ آزر بھی دیکھ سکے۔
آزر نے اسکا قریب آنا نوٹ کیا تھا لیکن ریحا کو اس بات کی خبر نہیں تھی وہ ویڈیو دکھانے کیلئے ایکسائٹڈ ہورہی تھی۔
"دیکھیں نا میرے بال کیسے اڑ رہے ہیں"وہ اسے ویڈیو دیکھاتے ہوئے بولی۔
وہ مزید اس کے قریب آیا اور اپنی نظریں موبائل کی طرف کیں۔
جہاں ان دونوں کی خوبصورت پل نظر آ رہی تھی۔
اسکرین پر ایک دم سے ایک سین واضح ہوا جہاں آزر فریحہ کو گال پر کس کررہا تھا۔
فریحہ نے گھبرا کر ویڈیو ہٹائی اور جھجھکتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔
جہاں وہ مسکراہٹ کے ساتھ مخمور نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
"ا۔۔۔ایسے کیا دیکھ رہے ہیں"ریحہ نے گھبراتے ہوئے پوچھا۔
اس کی بات پر جواب دیئے بغیر اس نے اپنے سے قریب کیا۔
"یہ۔۔۔یہ۔۔۔یہ کیا کر رہے ہیں آپ"اس نے آذر کو اپنے اوپر جھکتا دیکھا تو گھبرا کر پوچھا۔
"کچھ نہیں اپنی بیوی کو پیار کر رہا ہوں"وہ بولتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر جھکا اور نہایت نرمی کے ساتھ اس کے ہونٹوں پہ اپنے ہونٹ رکھ دیے۔
تھوڑی دیر کے بعد آزر نے اسے چھوڑ کر اس کی طرف دیکھا۔
جہاں وہ شرمائی گھبرائی سی اپنی نظریں چرارہی تھی۔
خود پر کنٹرول کرتا ہوا دوسری طرف کروٹ لیتے ہوئے لیٹ گیا۔
ریحا نے چونک کر اسکی طرف رخ کیا جہاں وہ اسکی طرف پیٹھ کرچکا تھا۔
"آ۔۔۔آپ مجھسے ابھی تک ناراض ہیں؟"اسنے ہمت جماکرتے ہوئے اس سے پوچھا۔
"نہیں تو"اسنے چونک کر اسکی طرف دیکھکر کہا۔
"پ۔۔۔پھ۔۔۔پھر آپ رک کیوں گ۔۔۔گئے"اسنے جھجھک کر پوچھا۔
آزر نے حیران ہوکر اسکی طرف دیکھا وہ اسکی بات سمجھ نہیں پایا تھا۔
"مطلب؟"اسنے حیران ہوکر پوچھا۔
"اب مجھے مطلب بھی سمجھانا پڑیگا"وہ ناراضگی سے منہ پھلا کر بولی۔
"م۔۔۔مطلب۔۔۔تم۔۔۔اجازت دےرہی ہو؟"وہ شاک سے بولا تھا۔
"اسکی بات پر وہ شرماتے ہوئے اپنی نظریں چرا رہی تھی۔
"آئی لو یو فریحا"وہ پہلی دفعہ اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے اسکے گلے لگا تھا۔
فریحہ کو ایک دم سے احمد کا کیا ہوا پرپوز یاد آگیا تھا۔
اسنے اپنی سوچوں کو جھٹکا اور دیہان آزر کی طرف کیا جو اسکے گلے لگا اپنی محبت کا اظہار کررہا تھا۔
"تم سچ میں راضی ہو نا ؟"آزر نے اسکی خاموشی محسوس کرتے ہوئے اسکی طرف دیکھکر پوچھا۔
"اور کیسے کہوں"وہ خود پہ کنٹرول کرتے ہوئے مسکرا کر بولی۔
"تھینکس "وہ ہلکی آواز میں بولا۔
"تھینکس تو مجھے آپکا کہنا چاہیے جو آپنے مجھے سمجھا میری فیلنگز کی قدر کی میرا اتنا خیال کیا میں اپنے آپ کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی سمجھتی ہوں جسے آپ جیسا ہمسفر ملا آپ میرے لیے اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا ایک تحفہ ہو میں اللہ کا جتنا بھی شکر کروں کم ہے"محبت سے اس کی طرف دیکھ کر بولی۔
"کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو"آزر نے آس سے اس سے پوچھا۔
"مجھے نہیں پتا لیکن مجھے آپ اچھے لگتے ہیں دل کرتا ہے آپ ہر وقت میرے پاس رہیں مجھے پیار کرے شاید یہی محبّت ہو"وہ شرماتے ہوے مسکرا کر بولی۔
"اس کی بات سن کر آزر نے بے خودی سے اسے اپنی طرف کھینچا اور اس کے ہونٹوں پہ جھک گیا اور دیوانہ وار اسے چومنے لگا۔
وہ اس کے چہرے کے ہر نقش کو چومنے کے بعد اس کے گردن میں جھکا۔
اس کے ہر عمل میں فریحہ کے لیے بے انتہا محبت تھی۔
وہ بھی اس کی باہوں میں گھبرائی شرمائی سی اس کے ہر عمل کو سہ رہی تھی۔
رات دھیرے دھیرے بیتنے لگی چاند بھی ان کے اس خوبصورت ملن پر دور سے مسکرایا۔
***
وہ اس وقت غصے میں اپنے روم کے ہر چیز کو توڑنے پھوڑنے میں مصروف تھی۔
اس نے جب سے فرحان اور سارہ کے رشتے کی بات سنی تب سے اس کا یہی حال تھا۔
باہر نزہت بیگم اور فہیم صاحب پریشانی سے کھڑے اس کے کمرے سے توڑ پھوڑ کی آوازیں سن رہے تھے۔
"فہیم کچھ کریں نا "نزہت بیگم نے گھبراتے ہوئے فہیم درانی سے کہا۔
"کیا کروں میں ہاں یہ سب تمھارے ڈھیل کا نتیجہ ہے دیکھو کیسے پاگل ہوگئی ہے "فہیم صاحب نے الٹا نزہت بیگم کو ڈانٹا۔
"آپ مجھے بعد میں ڈانٹ لیجئے گا پہلے ندا کو روکیں کہیں وہ اپنے ساتھ کچھ غلط نہ کرلے"نزہت بیگم پریشانی سے روتے ہوئے بولیں۔
"ندا بیٹا دروازہ کھولو کیوں کر رہی ہو یہ خود کو کوئی چوٹ نہ پہنچاؤ پلیس باہر نکلو"فہیم صاحب نے پریشانی سے آواز دیتے ہوئے کہا۔
"مجھے فرحان چاہیے میں اس سے محبت کرتی ہوں اور اسی سے شادی کرنا چاہتی ہوں اگر آپ لوگوں نے مجھے فرحان نہیں دیا تو میں خود کو کچھ کر لوں گی"ندا اندر سے چیختے ہوئے بولی۔
لاڈلی ہونے کی وجہ سے بچپن سے لے کر اسے جو بھی چیز پسند آئی تھی اس نے حاصل کیا تھا اس لیے اب وہ چیز اور انسان میں فرق کرنا بھول چکی تھی۔
اس کی بات سن کر فہیم صاحب نے غصے سے نزہت بیگم کی طرف دیکھا۔
"یہ سب کیا ہے نزہت "انہوں نے غصے سے ان سے پوچھا۔
"میں نہیں جانتی فہیم یہ سب کب ہوا ! نا میں نے آج تک اس کے ذہن میں ایسی کوئی بات ڈالی"نزہت بیگم نے گڑبڑاتے ہوئے انہیں کہا۔
"پہلے اسے باہر نکلنے بولو"فہیم صاحب نے غصے سے کہا۔
"ندا بیٹا باہر نکلو ہم آرام سے اس بارے میں بات کرتے ہیں یوں توڑ پھوڑ سے بات تھوڑی بنتی ہے"نزہت بیگم نے پچکارتے ہوئے اسے کہا۔
"نہیں ماما مجھے وہ چاہیے تو چاہیے ابھی بات کریں جو بات کرنی ہے آپ کو"وہ ضدی لہجے میں بولی۔
"ٹھیک ہے فہمیدہ اور بشیر سے تمہارے رشتے کی بات کرینگے لیکن پہلے تم یہ سب کرنا بند کرو"فہیم صاحب نے اپنے غصے پر کنٹرول کرتے ہوئے کہا۔
"ہاں بیٹا جلدی دروازہ کھولو ہم تمہارے لئے بات کریں گے ان سے تم خود کو نقصان مت پہنچاؤ باہر نکلو"نزہت بیگم نے بھیگی آواز میں کہا۔
تھوڑی دیر بعد اس نے دروازہ کھولا اور باہر نکلی اس کی حالت دیکھ کر نزد بیگم نے روتے ہوئے اسے گلے لگایا۔
"یہ کیا حالت کر دی تم نے کوئی اپنی بات منوانے کے لئے ایسا کرتا ہے کیا"فہیم صاحب نے بھیگی آواز میں کہا۔
"سوری پاپا "وو روتے ہوے انکے گلے لگی۔
"آئندہ اپنی بات منوانے کے لئے یہ سب کچھ نہیں کروگی"فہیم صاحب اس کے سر میں ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
"ٹھیک ہے پاپا لیکن آپ پھوپھو سے پہلے بات کریں"ندا نے روتے روتے کہا۔
"ٹھیک ہے بیٹا تمہاری ماں بات کریگی "انہوں نے آہستہ سے کہا۔
وہ ان کی لاڈلی بیٹی تھی وہ کیسے اس کی خواہش کو ٹال سکتے تھے۔
***
صبح کی سفیدی نمودار ہوچکی تھی چڑیا کے چہچانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔
آزر کی آنکھ الارم بجنے کی آواز سے کھل گئی اس نے سستی سے آنکھیں کھولیں۔
اور ریحہ کو اپنے باہوں میں لیٹا ہوا پایا اسے کل رات کو بتاۓ گۓ سارے پل یاد آگیے اور اس کے ہونٹوں پر خوبصورت مسکراہٹ ابھری۔
فریحہ کو نیند میں محسوس ہوا اسے سانس لینے میں مسئلہ ہو رہا ہے اس نے جھٹ سے اپنی آنکھیں کھولیں آزر کو اپنے اوپر جھکا ہوا پایا تو گھبرا گئی اس نے آزر کو پیچھے ہٹایا اور گہرے گہرے سانس لینے لگی۔
"یہ یہ کیا کر رہے تھے آپ میرا سانس بند کر دیا اگر میں مر جاتی تو"وہ پھلے ہوئے سانسوں کے ساتھ بولی۔
"میں تمہیں مرنے نہیں دیتا"وہ اسے اپنے قریب کرتے ہوئے بولا اور دوبارہ اس کے ہونٹوں پر جھکا۔
"جانتی ہو کتنی محبت کرنے لگا ہوں تم سے ایسا لگتا ہے جیسے عشق کرنے لگا ہوں تمہارے بغیر کچھ بھی اچھا نہیں لگتا پرسوں رات تو میں نے بہت مس کیا ہے جب تم آپی کے گھر میں تھی"وہ تھوڑی دیر بعد اس کے ہونٹوں کو چھوڑتے ہوئے مخمور لہجے میں بولا۔
اس کے انداز میں شدت تھی محبت کی انتہا تھی۔
"آپ نے ہی مجھے وہاں چھوڑا تھا میں رہنا نہیں چاہتی تھی"وہ ناراضگی سے منہ پھلاتے ہوئے بولی۔
"اور تمہیں وہاں چھوڑ کر میں یہاں آکے پچتا رہا تھا ساری رات کروٹیں لے رہا تھا تم ساتھ جو نہیں تھی"وہ اس کے چہرے میں آئے ہوئے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے محبّت سے بولا۔
فریحہ کو آذر کا اظہار کرنا بہت اچھا لگ رہا تھا وہ اس کے اوپر جھکا اپنی محبت چاہت اور بے چینی کا اظہار کر رہا تھا۔
"میں تم سے بہت زیادہ پیار کرنے لگا ہوں
مجھے تم سے کب عشق ہوا یہ میں نہیں جانتا !
پلیز مجھ سے کبھی دور مت جانا مجھ سے ناراض مت ہونا ورنہ میں مر جاؤں گا"وہ دیوانہ ہوتا ہوا بولا۔
"مرے آپ کے دشمن ایسی باتیں نہیں کرتے میں کبھی آپ کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گی ہمیشہ آپ کے ساتھ رہوں گی"فریحہ نے تڑپ کر کہتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھی اور بولی۔
اس کی بات سن کر آزر نے اس کی انگلی پہ کس کی اور دوبارہ اس کے ہونٹوں پر جھک گیا۔
وہ اس کے دیوانگی کی سحر دیکھ رہی تھی اسے آذر کا لمس گردن سے نیچے جاتا ہوا محسوس ہوا۔
"آپ کو آفس نہیں جانا؟ لیٹ ہو جائیں گے آپ"فریحہ نے اسے واپس کل رات والے موڈ میں آتا ہوا دیکھا تو گھبرا کر پوچھا۔
"چلا جاؤں گا پہلے تمہیں اچھے سے پیار تو کر لوں"کہتے ہوئے وہ واپس اس کے اوپر جھکا تھا۔
"بہت پیار کرلیا آپنے کل رات کافی تھا سوے بھی چار بجے میری نیند بھی پوری نہی ہوئی مجھے سونا ہے"وہ آزر کو اپنے اوپر سے ہٹاتے ہوے بولی۔
"میں سونے نہیں دونگا اسلئے شرافت سے مان جاؤں ورنہ زبردستی کرونگا پہلے ہی کافی صبر کرلیا میں بے"اسنے گھورتے ہوے کہا۔
"آپ میرے ساتھ زبردستی کرہی نہی سکتے "وہ اسکے نیچر کو جان چکی تھی اس لئے اترا کر بولی۔
"ابھی بتاتا ہوں تمہیں"وہ بولتے ہوے اسکے ہونٹوں پہ جھکا اور زور سے کاٹ لیا۔
"آہ۔۔۔آزر۔۔۔آپ بہت برے ہیں"وہ تڑپ کر اسے دور کرتے ہوے بولی اسکے ہونٹوں سے خون کی ننھی سی بوند نمودار ہوئی۔
"اب بتاؤ زبردستی کرسکتا ہوں کہ نہیں"وہ شرارت سے بولا۔
"جاۓ میں بات نہیں کرتی آپ سے"وہ ناراضگی سے بولی۔
"ایسے کیسے بات نہیں کرو گے مجھ سے"وہ شرارت سے اسے گدگدی کرتے ہوے بولا۔
"ہاہاہا۔۔۔آزر۔۔۔ہاہاہا۔۔۔چھوڑیں مجھے۔۔۔۔ہاہاہاہا مت کریں"وہ اس کے گدگدی کرنے پر زور زور سے ہنستے ہوئے بولی آزر بھی اس کی ہنسی پر ساتھ دینے لگا۔
ہنستے ہنستے اس نے اپنی مسکراہٹ روکی اور ایک دم سے ریحہ کے ہونٹوں پر جھک گیا اور دیوانہ وار اس کے ہونٹوں کو چومنے لگا۔
فریحہ بھی اب اس کا ساتھ دینے لگی تھی۔
یہ صبح ان کی زندگی کی سب سےخوبصورت صبح تھی جسے وہ کبھی نہیں بھولنے والے تھے۔
***
نزہت بیگم اور فہیم بیگم ہمدانی ہاؤس میں بیٹھے ہوے تھے۔
فہمیدہ بیگم انکی خاطر توازہ کررہی تھیں۔
بشیر صاحب بیٹھے اپنی بہن اور بہنوئی سے باتیں کرنے میں مصروف تھے۔
"اور بتاؤ فہیم تمہارا کاروبار کیسا چل رہا ہے"بشیر صاحب نے بسکٹ منہ میں ڈالتے ہوئے پوچھا۔
"اللہ کا کرم ہے سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے"فہیم صاحب نے بے خیالی سے کہا۔
"کیا بات ہے فہیم تم پریشان سے لگ رہے ہو"بشیر صاحب نے ان کا چہرہ دیکھ کر پوچھا وہ کھوئے کھوئے سے لگ رہے تھے۔
"دراصل ہم آپ سے کچھ بات کرنی ہے میں تھے لیکن سمجھ نہیں آرہا میں کیسے بات شروع کروں"ان کو سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ کیسے بات کریں۔
"ہاں بولو کیا بات کرنی ہے"بشیر صاحب نے چونک کر کہا۔
"وہ۔۔۔دراصل۔۔۔بھائی۔۔۔صاحب ہم فرحان کو اپنا داماد بنانا چاہتے ہیں"نزہت بیگم نے اٹک کر ہمت کرتے ہوئے کہا۔
وہ لڑکی کی ماں تھی اور خود سامنے سے رشتہ دینا انہیں شرمسار کر رہا تھا لیکن اپنی بیٹی کے ہاتھوں مجبور تھیں۔
"پر ہم تو فرحان کے لیے سارا کا سوچ رہے ہیں"بشیر صاحب نے حیران ہو کر کہا۔
فہمیدہ بیگم بھی خاموشی سے ان کی باتیں سن رہی تھیں۔
"ابھی سوچ ہی رہے ہیں نہ کوئی منگنی تو نہیں ہوئی برا نہ مانیں تو آپ ندا کے بارے میں سوچیں وہ ہماری اکلوتی بیٹی ہے اور ہم چاہتے ہیں اس کے لیے جیون ساتھی ہمارے فیملی کا فرد ہی ہو جو دیکھا بالا ہو"نزہت بیگم نے رسانیت سے کہا۔
"پر میں فریدہ کو کیا جواب دونگی میں نے اس سے بات بھی کر لی ہے"فہمیدہ بیگم نے پریشان ہو کر کہا وہ جانتی تھیں فرحان نہیں مانے گا۔
"تم بیچ میں مت بولو فہمیدہ میں بات کر رہا ہوں نا"بشیر صاحب کو فہمیدہ بیگم کا یوں بیچ میں بولنا برا لگا وہ انہیں ٹوکتے ہوئے بولے فہمیدہ بیگم خاموش ہوگئیں۔
"اچھا فہیم میں اس بارے میں فرحان سے بات کرونگا تم پریشان مت ہو"انہوں نے رسانیت سے کہا۔
"شکریہ بھائی صاحب آپ نے ہماری پریشانی کو سمجھا"نزہت بیگم نے تشکرسے انکا شکریہ ادا کیا۔
"شکریہ بولنے کی کوئی ضرورت نہیں باقی اللّه بہتر کریگا ہم نہیں جانتے کس کے نصیب میں کون لکھا ہے ہم تو بس کوشش ہی کر سکتے ہیں"انہوں نے مسکراکر اپنی بہن سے کہا۔
انھیں اپنی چھوٹی بہن سے بےانتہا پیار تھا ایک ہی تو بہن تھیں انکی۔
بچپن سے لیکر آج تک انکی ہر خواہش کو پورا کیا تھا یہاں تک کے جب نزہت نے فہیم سے شادی کی خواہش کی انہوں نے تب بھی انکا ساتھ دیا تھا۔
***