ہیلو ! کیسی ہو؟؟
ٹھیک ہوں ! وہ آہستہ سی آواز میں بولی ۔۔۔
مجھ سے بھی میرا حال پوچھ لو۔۔۔۔۔ وہ ہنس کے کہہ رہا تھا ۔
آ۔۔۔۔آپ کیسے ہیں ؟؟
میں بھی ٹھیک ہوں ۔۔۔ جب سے ان دونوں کا نکاح ہوا تھا یہ ان کی پہلی گفتگو تھی ۔۔۔
تم مجھے سی آف نہیں کرنے آئی جبکہ میں تمہارا انتظار کر رہا تھا ۔۔۔۔
وہ میں مصروف تھی !
کیسی مصروفیت ؟؟ وہ بات بڑھانے کے کی غرض سے بولا اس کا لہجہ سرسری تھا
رابیل کے رشتے کے لیے کچھ لوگ آ رہے ہیں نا تو بس اسی کی تیاری کرنی تھی ۔۔۔۔۔۔
کیا؟؟ رابیل کا رشتہ !! وہ ٹھٹھک کر بولا۔۔۔۔۔
کون لوگ ہیں وہ ؟؟
بابا کے جاننے والے ہیں ۔ احمر نام ہے لڑکے کا۔۔۔۔
مگر اس کا رشتہ تو عائدون سے ہونا ہے نا؟؟؟
اس کے سر پر جیسے چھت گری آ۔۔۔آپ کو کیسے پتا عائدون کا ؟؟؟ آپ کو کس نے بتایا ہے؟؟ وہ ایک ہی سانس میں کئی سوال پوچھ گئی ۔۔۔۔
مجھے کسی نے نہیں بتایا ۔ عائدون میرا دوست ہے اسی نے بتایا تھا مجھے ۔۔۔۔۔ اس دن میں رابیل کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا تھا کہ وہ یہاں کیسے ۔۔۔۔۔ وہ یاد کر کے ہنسا۔۔۔۔۔
آپ اس انسان کے دوست ہیں میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ آپ اس گھٹیا شخص کے دوست ہوں گے ۔۔۔۔
کیا کہہ رہی ہو تم فریال ۔۔۔اور اس کے لیے ایسے لفظ استعمال کرتے ہوئے تمہیں سوچنا چاہیے تھا وہ میرا دوست بعد میں بھائی پہلے ہے۔۔۔۔ وہ گہری سنجیدگی سے کہہ رہا تھا ۔۔۔
مجھے نفرت ہے اُس سے ۔۔۔۔ میں نے دو لفظ کیا کہہ دئیے آپ کو اتنا برا لگا ہے اور جو اس نے میری بہن کے ساتھ کیا ہے وہ کس کیٹیگری میں آتا ہے ۔۔۔۔۔ وہ غصے سے کہہ رہی تھی ۔۔۔
کیا کیا ہے اُس نے ؟؟ زرا مجھے بھی تو پتا چلے نا کہ ایسا کیا کر دیا ہے اُس نے ؟؟ وہ بھرپور طنزسے کہہ رہا تھا ۔۔۔۔
آپ تو بھائی ہیں نا اس کے آپ اس کے کرتوتوں
سے واقف ہی ہوں گے ۔۔۔۔ وہ بھی طنز سے بولی ۔
فریال ۔۔۔۔ وہ بہت ضبط سے بولا۔۔۔۔
مجھے بتانا پسند کریں گی آپ۔۔۔۔
آہا۔۔۔۔آپ تو جیسے جانتے ہی نہیں ہیں نا ۔۔۔۔۔ اس نے پہلے پرپوزل دیا اور چار مہینے گزرنے کے بعد اب تک وہ آیا نہیں ہے ۔۔۔۔ آپ کیا جانیں کے اس پر کیا گزرتی ہے ۔۔۔۔۔ ایک لڑکی کو پہلے پرپوز کرتے ہیں اور بعد میں اس کی اس طرح انسلٹ کی جاتی اسے بہلایا جاتا ہے طرح طرح کے بہلاوں سے ۔۔۔۔اس حرکت کو آپ کیا نام دیں گے ۔۔۔۔۔ آپ کیا کہیں گے آپ کا تو آف کورس وہ بھائی ہے ۔۔۔۔۔ وہ طنزیا انداز میں ہنس کر بولی
دوسری طرف اُس نے گہرا سانس لیا ۔۔۔۔۔
جیسا تم سمجھ رہی ہو ویسا کچھ نہیں ہے ۔۔۔۔۔وہ ۔۔۔۔
وہ جیسا بھی ہے آپ اُس کو چھوڑے اور پلیز اس کا نام بھی مت لیجے گا میرے سامنے۔۔۔۔ وہ اس کی بات کاٹ کر بولی ۔۔۔۔۔
فریال میں ہرگز نہیں چاہوں گا کہ تم میرے سے جڑے رشتوں کی اس طرح انسلٹ کرو ۔۔۔۔ وہ مجھے بہت عزیز ہے میں ہرگز یہ برداشت نہیں کروں گا ۔۔۔۔۔ وہ سختی سے بولا۔۔۔۔
اوکے وہ مجھ سے زیادہ عزیز ہے نا آپ کو تو اسے ہی رکھے اپنے پاس مجھ سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ وہ بھی غصے سے بولی ۔۔۔۔
تم ایک فضول سی بات کا ایشو بنا کے مجھ سے جھگڑ رہی ہو ۔۔۔۔
ٹھیک ہے آپ کو بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں !خدا حافظ ! اس نے فون بند کر کے بیڈ پہ پھینک دیا اور چہرہ ہاتھوں میں چھپا کے رو دی۔۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※ ※ ※
اُسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اس لڑکی کو کیسے سمجھائے وہ کتنا غلط سوچ رہی ہے عائدون کے بارے میں ۔۔۔۔۔
اس نے اسے بہت بتانے کی کوشش کی مگر بے سود ۔۔.۔۔۔۔ وہ خود بھی غصے میں کافی کچھ بول گیا تھا اب اسے پچھتاوا ہو رہا تھا ۔۔۔
مگر وہ بھی کیا کرتا وہ عائدون کے بارے میں ایسے باتیں نہیں سن سکتا تھا اگر فریال کی جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ پتا نہیں کیا کر ڈالتا۔۔۔۔
اُس لڑکی کے دل میں عائدون کے لیے اتنا غصہ اور نفرت تھی وہ تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔۔۔
کون سمجھائے اس لڑکی کو کہ ایسا کچھ بھی نہیں ۔۔۔ اور رابیل کو کیسے بتائے کہ وہ غلط سوچ رہی ہے اُس شخص کے بارے میں ۔۔۔۔
وہ کیسے ان کے دل صاف کرے گا ۔۔۔۔ کیسے ؟؟
اب اُسے ہی کچھ کرنا ہے اور وہ سوچ رہا تھا کہ اب وہ ایسا کیا کرے ، وہ لڑکی تو اُس سے ناراض ہو کر بیٹھ گئی تھی اب اُس اکیلے کو ہی کچھ کرنا تھا ۔۔۔۔۔۔ اُس کے چہرے پہ گہری سوچ کا عکس تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔،
کون جانے کے قسمت نے عائدون کے ساتھ کیا کھیل کھیلا تھا وہ اس وقت کہاں تھا ، کس حال میں تھا کوئی نہیں جانتا تھا یہاں تک کے اس کے ماں باپ بھی نہیں ،،،،،،
"انسان بھی کتنا نادان ہے وہ اپنی طرف سے ہزار منصوبے بنا لیتا ہے ، کتنی کتنی لمبی پلاننگ کرتا ہے مگر۔۔۔۔۔ وہ ایک چیز کو بھول جاتا ہے اور وہ ہے " قسمت" ۔۔۔۔ قسمت کب آپ کو منہ کے بل گرائے کوئی نہیں جانتا ۔۔۔۔۔ اپنے ارادوں کے ٹوٹنے پر ہم بے اختیار اُس ذات پاک کو یاد کرتے ہیں "اللَّہ" یہ وہ پہلا لفظ ہوتا ہے جو بے اختیار منہ سے نکلتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔"
※ ※ ※ ※ ※ ※ ※
شام کے گھنے سایے ہر طرف پھیل چکے تھے چاروں طرف خاموشی کا ڈیرا تھا سخت سردی میں ہر کوئی اپنے گھروں میں محصور تھا اسلام آباد کی سڑکیں اس وقت سنسان تھیں۔۔۔۔۔
وہ اس سخت سردی میں کافی کا کپ لیے اپنے لان میں بیٹھی تھی ، اس کے پاس صرف ایک شال تھی ۔۔۔۔ وہ اپنی سوچوں میں گم تھی ،،
قسمت کے اس مذاق پر وہ حیران تھی ایک وہ بھی دن تھا جب اس کے پاس کوئی دکھ نہیں تھا کوئی فکر نہیں تھی وہ بے فکری سے اپنی زندگی جی رہی تھی ،،،،، اور آج اسے لگتا تھا وہ سب سے زیادہ دکھی ہے اُس کا دکھ سب سے بڑا ہے ،،، مگر وہ کیا جانے کہ کوئی ہے جس کا دکھ اِس کے دکھ سے بڑا ہے اُس کی تکلیف اِس کی تکلیف سے زیادہ ہے ۔۔۔۔۔۔
رابیل سونا نہیں ہے بارہ بج گئے ہیں ۔۔۔۔ فریال کی بات اُس کو سوچوں سے باہر لے آئی ۔۔۔
تم بھی یہی آ جاؤ ۔۔۔۔ سردی بہت ہے آ جاؤ اندر چلیں ۔۔۔۔
" تمہیں پتا ہے مجھے یہ رات کی خاموشی اور اندھیرا اور تنہائی کتنی پسند ہے اور اِس کی خوشبو کتنی اچھی ہے ۔ کاش میں اس خوشبو کو قید کر سکتی " وہ اُس کی بات کو نظر انداز کر کے بولی ۔۔۔۔
فریال بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئی ،
تمہیں اندھیرا کیوں پسند ہے رابی ؟؟؟ وہ سوالیہ انداز میں اس کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔
وہ کچھ دیر چپ رہی اور پھر بولی ۔۔۔۔ وہ کسی نے کیا خوب کہا ہے ،
I have found so much beauty in the
Dark
As I have found a lot of horrors in the Light
فریال اس کی طرف دیکھ کر رہ گئی ۔۔۔۔۔
فری کبھی تم نے رات کی خوشبو کو محسوس کیا ہے ؟؟؟ وہ کھوئی کھوئی سی پوچھ رہی تھی ۔۔
رات کی خوشبو؟؟
"ہاں ! کبھی تم محسوس کرو تو تمہیں پتا چلے گا رات کی خوشبو کتنا fascinate کرتی ہے دل کرتا ہے ساری رات اسی خوشبو کو محسوس کرتے گزار دو"
چلو اٹھو اندر چلو تمہارے ارادے تو بہت خطرناک ہیں ! فریال اسے بازو سے پکڑ کر زبردستی اندر لے گئی۔۔۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※ ※ ※
وہ دونوں اس وقت ایک پارک میں آمنے سامنے بیٹھے تھے ۔۔۔۔۔ معیز نے اسے کچھ اہم بات کے لیے بلایا تھا ۔
جی معیز بھائی بتائے کیا بات ہے مجھے تو بہت ٹینشن ہو رہی ہے ۔۔۔۔ رابیل پریشانی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔
تمہیں پتا ہے میرا تم سے کیا رشتہ ہے ؟؟؟ وہ گویا ہوا۔۔
پہلے تو وہ حیران ہوئی اور پھر بے ساختہ بولی آپ فریال کے شوہر ہیں اور میرے بہنوئی ۔۔۔۔ لیکن ہوا کیا ہے پلیز بتائیں ۔۔
میرا تم سے رشتہ صرف فریال کے حوالے سے نہیں ہے میرا تم سے ایک اور بھی رشتہ ہے ۔۔۔ اس نے توقف کیا وہ حیران نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
میں عائدون کا دوست بھی ہوں بلکہ یوں کہو کہ وہ بھائی ہے میرا ۔۔۔۔۔ وہ اپنی بات کر کے اُس کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔
اور وہ ۔۔۔۔ وہ ہونقوں کی طرح اسے دیکھ رہی تھی اُس کا دل کر رہا تھا وہ یہاں سے دور بھاگ جائے وہ جتنا اس شخص کو بھولنے کی کوشش کرتی ہے اس کا ذکر اتنا ہی اس کا پیچھا کرتا ہے ۔۔۔۔۔
کیوں ؟ کیوں وہ شخص اس کا پیچھا نہیں چھوڑ دیتا؟؟؟ ہر دفعہ کیوں آ جاتا ہے اسے نئے سرے سے بکھیرنے ۔۔۔۔ وہ بمشکل ضبط کر رہی تھی ۔۔
رابیل تم اس کو غلط مت سمجھو وہ ۔۔۔۔۔۔
وہ کچھ بھی کہہ رہا تھا مگر رابیل اپنے ہوش وخرد سے بیگانہ ہو گئی ۔۔۔۔۔
رابیل ! وہ بے اختیار چیخا تھا ۔۔۔۔۔ پاس سے گزرتی دو عورتوں کی مدد سے اس نے اسے گاڑی میں ڈالا اور ہسپتال لے گیا ۔۔۔۔۔
ڈاکٹر اس کا چیک اپ کر رہے تھے اور وہ باہر سر جھکائے بیٹھا تھا وہ اس کے گھر والوں کو کیا کہے گا اور فریال وہ ناراض تو پہلے ہی تھی اب تو شاید وہ اسے قتل ہی کر دے گی ۔۔۔۔ اس نے بے اختیار جھرجھری لی ۔۔۔۔
وارڈ کا دروازہ کھول کر ڈاکٹر باہر آیا وہ بےتابی سے ان کی طرف بڑھا ۔۔۔۔
کیسی ہے رابیل کیا ہوا تھا اسے ؟؟؟
آپ کون ہیں ان کے ؟؟
وہ بہن ہے میری ڈاکٹر پلیز بتائیں کیا ہوا ہے ؟؟
زیادہ سیریس بات نہیں ہے بس انہیں ٹینشن سے بے ہوشی ہو گئی تھی ہم نے انجیکشن لگا دیا ہے وہ دو گھنٹے تک ہوش میں آ جائیں گی ۔۔۔۔
اس نے بےاختیار شکر ادا کیا اور فریال کو فون کرنے چل دیا۔۔۔۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※ ※ ※
چار ماہ پہلے !!
وہ پیپرز ہاتھ میں لیے بیٹھا تھا اور بے یقین تھا یہ نہیں تھا کہ وہ یہ چاہتا نہیں تھا مگر اس موڑ پر تو اُس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا ۔۔۔۔۔ وہ قسمت کے اس وار پر ششدر تھا ۔
اس کو ہیڈ کواٹر کی طرف سے ایک آپریشن میں بھیجا جا رہا تھا اس کی کارکردگی کو مد نظر رکھتے ہوئے اعلٰی حکام نے یہ فیصلہ کیا تھا
کاش کاش یہ فیصلہ پہلے آ جاتا ۔۔۔۔ وہ سوچ رہا تھا
اب جبکہ اُس نے اُس لڑکی کو شادی کا پیغام دے دیا تھا تو اس موڑ پہ یہ فیصلہ ۔۔۔۔۔ اُس نے گہری سانس لی
اُس کو دونوں میں سے ایک کو چننا تھا اس کے پاس انکار کا بھی آپشن تھا فیصلہ اس کو کرنا تھا اور اس نے سوچ لیا تھا ۔۔۔۔۔
اپنی محبت کو اس نے وطن کی محبت پر پر قربان کر دیا تھا اس وطن کا بہت قرض تھا اُس پر وہ اس نازک وقت میں اپنے وطن کو دشمنوں کے حوالے نہیں کر سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔
اُس کی محبت تو کسی بھی موڑ پر اسے مل سکتی تھی لیکن اگر وہ یہ چانس ضائع کر دیتا تو شاید وہ کبھی سر اٹھا کر جی نہیں سکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔
اس نے حسن صاحب سے بھی بات کی تھی انہوں نے بھی اسے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کو کہا تھا اگر بیچ میں وہ لڑکی نا ہوتی تو شائد وہ کبھی اسے سوچنے کا نا کہتے مگر اب حالات اور تھے ۔۔۔۔۔۔
انہوں نے یہ بات آمنہ سے چھپانے کو کہا تھا وہ جانتے تھے کہ وہ شاید برداشت نا کر پائیں انہوں نے سوچا تھا کہ وہ یہ بات بعد میں بتا دیں گے ۔۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※ ※ ※
اور پھر وہ روانہ ہو گیا تھا بغیر اس لڑکی کو کچھ بتائے وہ اسے کسی قسم کی امید نہیں دے سکتا تھا اسے یہ نہیں پتا تھا کہ اسے اس آپریشن میں کتنے مہینے لگے گے اور پھر کیا پتا کہ وہ زندہ واپس آتا بھی کہ نہیں ۔۔۔۔۔
وہ جانتا تھا کہ وہ لڑکی کچھ ہی دنوں میں اسے بھول جائے گی ان کے درمیان کوئی وعدے نہیں ہوئے تھے جو اسے اس بے نام سے رشتے سے جوڑ کر رکھتے ۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر ایک بات وہ جانتا تھا کہ وہ اسے کبھی نہیں بھول سکے گا وہ لڑکی اس کی ڈھرکن تھی اس کی پہلی محبت تھی اور کہا جاتا ہے کہ انسان اپنی پہلی محبت کو کبھی نہیں بھولتا ۔۔۔۔۔۔
جب وہ گیا تھا تو اُس کے کچھ دن بعد ہی معیز کا نکاح تھا ان دونوں نے مل کے بہت سی پلاننگ کی تھی مگر وہ جاتے ہوئے معیز سے بھی نہیں ملا تھا ۔۔۔۔۔۔
وہاں جا کے اس نے معیز کو فون کیا تھا وہ بہت ناراض تھا اس سے وہ چپ چاپ اس کی باتیں سن رہا تھا اور پھر آخر میں اس نے اسے اپنے آپریشن کے بارے میں بتا دیا وہ کتنا پریشان ہوا تھا اور اسے بار بار اپنا خیال رکھنے کی تلقین کی تھی ۔۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※ ※ ※
تین مہینے اس نے بہت جانفشانی سے اپنی ڈیوٹی کی تھی وہ کئی دفعہ زخمی بھی ہوا تھا مگر بہت معمولی نوعیت کے زخم تھے ۔۔۔۔۔
یہ ان لوگوں کا آخری آپریشن تھا کیونکہ بس یہی ایک جگہ تھی باقی ان لوگوں نے سارا علاقہ دشمنوں سے پاک کر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔
اس آپریشن کے دوران دشمنوں کی فائرنگ سے وہ شدید زخمی ہوا تھا اسے تین گولیاں لگی تھیں
اُس کے اور بھی ساتھی زخمی ہوئے تھے مگر معمولی ۔۔۔۔۔ وہ سب سے آگے تھا اور ان کی فائرنگ کی زد میں آ گیا ۔۔۔۔۔
اس کے دوست اسے قریبی ہسپتال میں لے گئے تھے اس کے گھر والوں کو بھی علم نہیں تھا کہ ان کا بیٹا زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے ۔۔۔۔
بےہوش ہونے سے پہلے اسے اپنی ماں کا خیال آیا تھا ان کا ہنستا ہوا چہرا اس کی آنکھوں کے سامنے آیا تھا کیا اب وہ کبھی اپنی ماں کو نہیں دیکھ پائے گا ۔۔۔۔۔۔ ایک آنسو اس کی آنکھ سے گرا۔۔۔۔۔۔
پھر اس کو رابیل کا خیال آیا تھا کاش وہ اسے معاف کر دے ! وہ جانتا تھا کہ اس نے اُس کے ساتھ اچھا نہیں کیا تھا۔۔۔۔
اس کی آنکھوں کے سامنے دھند چھا رہی تھی اس نے اپنا سر جھٹک کر اس دھند کو ختم کرنے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہیں ہوا اور پھر اس کا ذہن اندھیرے میں ڈوب گیا۔۔۔۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※ ※ ※
اس کا آپریشن پانچ گھنٹے چلا تھا اور سب کی دعاؤں سے اس کا آپریشن کامیاب ہوا تھا اس کی پوری ٹیم نے شکر ادا کیا تھا اور اس حسن صاحب کو فون کر کے بلایا تھا ۔۔۔۔۔
پورے ہسپتال کا عملہ اس کی جان بچانے کے لیے متحرک تھا ۔۔۔۔۔
اور پھر اسے آدھی رات کو ہوش آگیا تھا آنکھیں کھلنے پر سب سے پہلا چہرہ جو اس نے دیکھا تھا وہ اس کے باپ کا چہرہ تھا وہ اس پہ جھکے اس کی خیریت پوچھ رہے تھے اس نے مسکرا کر انہیں دیکھا ۔۔۔۔۔ گو کہ اسے تکلیف اب بھی تھی مگر وہ انہیں پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا
ہسپتال سے اسے دو ہفتے بعد ڈسچاج کیا گیا تھا وہ اب سہارے کے بغیر چل سکتا تھا دو ہفتے حسن صاحب اس کے ساتھ رہے تھے ۔۔۔۔۔
آمنہ کو انہوں نے یہی بتایا تھا کہ عائدون کسی کورس کے سلسلے میں بیرون ملک گیا ہوا ہے
اب وہ اپنے گھر جا رہا تھا وہ اس شہر جا رہا تھا جہاں اس کی محبت تھی وہ اسے منا لے گا اسے یقین تھا کہ وہ اس کی بات کو ضرور سمجھے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔