اس نے ایک نظر اپنے اردگرد دیکھا۔۔۔ اور مطمعن ہو کر ہاتھ جھاڑے ۔۔۔۔ اس کی تیاری مکمل تھی
اس کا شکاری اس کے جال میں پھنس چکا تھا آنے والے وقت کا سوچ کے گہری مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر رینگ گئی۔۔۔۔۔
اس کی آنکھوں میں ایک شکاری کی سی چمک تھی!!!!
اس کی آنکھ کھلی تو خود کو ایک کمرے میں پایا۔۔۔ آنکھ کھلنے کے بعد سب سے پہلا احساس اسے نامانوسیت کا ہوا تھا ۔۔۔ کچھ دیر اس نے یاد کرنے کی کوشش کی اور پھر ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی اور دروازے کی طرف بڑھی
دروازے کو کھٹکھٹانے لگی۔۔۔۔
کوئی ہے۔۔۔ دروازہ کھولو پلیز! ۔۔۔۔ وہ پورے حلق سے چلا رہی تھی ۔۔۔
کوئی تو دروازہ کھولو ! کون لایا ہے مجھے یہاں ۔۔۔
وہ چلا رہی تھی مگر یہاں اس ویرانے میں اس کی آواز سننے والا کوئی نہیں تھا۔۔۔۔
وہ تھک کر دروازے کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی آنسو لڑیوں کی صورت میں اس کی آنکھوں سے گر رہے تھے۔
وہ کام سے فارغ ہو کر تین بجے کے قریب چیمبر سے نکلی تھی اور پھر اکیڈمی چلی گئی تھی جہاں وہ اپنی judiciary تیاری کرتی تھی ۔۔۔
سات بجے وہ وہاں سے فارغ ہو کر اپنی گاڑی کی طرف آئی ابھی وہ راستے میں تھی جب اچانک ایک گاڑی اس کے سامنے رکی رابیل نے جلدی سے بریک لگائی وہ اپنی گاڑی سے نکلنے ہی والی تھی کہ دوسری گاڑی سے نکل کر کوئی اس کی طرف بڑھا اور اس کے کچھ سمجھنے سے پہلے ہی رومال اس کے منہ پر رکھا اُس نے اپنے ناخن اس کے بازو میں گاڑ دیئے مگر وہاں گرفت بہت مظبوط تھی آہستہ آہستہ اس کی مظاہمت دم توڑتی گئی اس کے بعد اسے کوئی ہوش نہیں رہا۔۔۔۔ اندھیرا ہونے کے باعث وہ اس کی شکل بھی نہیں دیکھ سکی تھی۔۔۔۔
اور اب وہ روئی جا رہی تھی سب سے پہلا خیال اسے اپنے گھر کا آیا تھا پتا نہیں اسے کتنے گھنٹے ہو گئے تھے اغوا ہوئے اس کے گھر والوں کا کیا حال ہو گا ان کا خیال آتے ہی پھر ایک دفعہ وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور دروازے کو کھٹکھٹانے لگی ساتھ ساتھ وہ آوازے بھی دے رہی تھی لیکن بہ سود۔۔۔۔
وہ کمرے میں نظر دورانے لگی شائد اسے کوئی سوراغ مل جائے مگر کمرے میں بیڈ اور سوفے کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں تھی کھڑکیاں بھی بہت اونچی تھی وہ باہر دیکھنے سے بھی قاصر تھی وہ تھک کر پھر سر گھٹنوں پہ رکھ کے رونا شروع ہو گئی تھی۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
رات کا ۱ بج چکا تھا مگر احمد ولا میں نیند ان کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔۔۔ آیدہ اور منزہ نے رو رو کر آنکھیں سوجا لی تھی ۔۔۔۔ آیدہ تو دو دفعہ بے ہوش بھی ہو چکی تھی ۔۔۔
گھر کے سارے مرد ہی رابیل کو ڈھونڈنے نکلے ہوئے تھے مگر ابھی تک انہیں کوئی کامیابی نہیں ملی تھی ۔۔۔۔
زیان اور سعد جب گھر آئے تو وہ چاروں ان کی طرف بڑھی تھیں ۔۔۔۔ کچھ پتا چلا رابی کا !
فریال نے بے تابی سے پوچھا!!
ان دونوں نے ہی نظریں چرائی تھی ۔
آیدہ ایک دفعہ پھر رونا شروع ہو چکی تھی ۔۔۔ سعد نے انہیں اپنے بازو کے گھیرے میں لیا ۔۔۔
ماں ! کچھ نہیں ہو گا رابی کو ۔۔۔۔ ماہین پانی لاؤ ۔۔۔۔
سعد پیار سے انہیں ماں ہی کہتا تھا ۔۔۔۔
سعد میری بیٹی لا دو مجھے !! وہ پتا نہیں کہاں ہو گی ! وہ روتے ہوئے بولی ۔۔
آپ پانی پئیے ! سعد نے ماہین کو اشارہ کیا
یہ میڈیسن لے ۔۔۔ اس نے ان کے ہاتھ پہ گولی رکھی ۔
مگر ۔۔۔۔ وہ کچھ کہنے لگی تھی کہ سعد نے انہیں خود دوا کھلائی اور انھیں سونے کے لیے کمرے میں لٹا دیا کچھ ہی دیر میں وہ گہری ننید میں چلی گئی تو سعد دروازہ بند کر کے باہر ہال میں آ گیا ایک گہری سانس لی اور صوفے پہ گر سا گیا ۔۔۔۔۔
سعد سچ بتاؤ کیا ہوا ہے ؟؟ منزہ نے پوچھا
کچھ نہیں امی ہر جگہ پتا کیا ہے مگر کوئی سوراغ نہیں ملا۔۔
پولیس کو اطلاع دی۔ اور تمھارے بابا اور چچا کہاں ہیں۔۔۔
وہ دونوں ڈی آئی جی کے پاس گئے ہیں ان سے مدد کا کہنے ۔۔ وہ بابا کے کافی اچھے دوست ہیں۔۔۔
یااللہ ! تو ہی ہماری مدد کر اور ہماری بچی کو اپنے حفظ و ایمان میں رکھنا ۔۔۔ سب کے منہ سے آمیں نکلا تھا۔۔۔۔
زیان کافی دیر سے کسی گہری سوچ میں ڈوبا تھا ۔۔۔ ایک نظر سب کے پریشان چہروں پر ڈالی اور پھر کسی نتیجے پہ پہنچ کے گہری سانس فضا کے سپرد کی۔۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
وہ کتنی ہی دیر سے اسی طرح سر گھٹنوں پہ رکھے بیٹھی تھی اب تو اس کے آنسو بھی خشک ہو گئے تھے وہ صبح سے بوکھی تھی اور اسے بھوک کا احساس بھی نا تھا ۔۔۔۔۔
وہ سوچ سوچ کے ہلکان ہو رہی تھی کے ایسی حرکت کون کر سکتا ہے ۔۔۔۔ شاید اسے پیسوں کے لیے اغوا کیا ہے مگر وہ اغواکار سامنے کیوں نہیں آ رہے ۔۔۔۔
آنسو ایک دفعہ پھر اس کی آنکھوں سے بہنا شروع ہو گئے تھے ۔۔۔۔
کچھ دیر بعد دروازے پہ ہلکا سا کھٹا ہوا اور دروازہ کھلنے کی آواز پہ بہ ساختہ اس طرف دیکھا۔۔۔۔
آنے والے نے بٹن ڈھونڈ کر اندھیرے کا گلہ گھونٹا ۔۔۔ اور اس کی طرف قدم بڑھانا شروع کر دئیے۔۔۔۔
آنے والی شخصیت کو دیکھ کر خوف سے اس کی آنکھیں پھٹ سی گئی۔۔۔ اور وہ وہی زمین پہ گر گئی۔۔۔۔
آنے والا بہ حسی سے اسے زمین پہ پڑا دیکھتا رہا اور پھر باہر کی طرف قدم بڑھا دئیے۔۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
عائدون نے گھر میں قدم رکھا تو حسن صاحب کو دیکھ کے ان کی طرف بڑھ آیا۔۔۔ حسن نے اپنے بیٹے کو دیکھا پولیس یونیفارم میں اس کا سراپا نمایاں تھا ان اسے ہر دفعہ دیکھ کے فخر کا احساس ہوتا تھا ۔۔۔۔
آج تم بہت تھکے ہوئے لگ رہے ہو!! وہ سلام کا جواب دینے کے بعد گویا ہوئے ۔۔۔
آج بہت کام تھا بابا ! آؤٹ آف سٹی ایک آسینمنیٹ میں بہت بزی تھا ابھی فارغ ہوا ہوں۔۔۔
آمنہ بیگم اس کے لیے چائے لے آئی۔۔۔.
Thank u maa تھکن اس کے چہرے سے نمایاں تھی۔۔۔
وہ ان دونوں کو اپنے آپریشن کے مطالق چھوٹی چھوٹی باتیں بتانے لگا۔۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
وہ کمرے میں آئی تو اس کے فون کی بیل ہو رہی تھی اس نے لپک کر فون اٹھایا نمبر دیکھ کر وہ ٹھٹھک گئی ۔۔۔۔
اس نے فون کان سے لگایا۔۔۔۔
کیسی ہو؟؟
ٹھیک۔۔۔
مجھے پتا ہے تم میرا حال نہیں پوچھو گی اسی لیے خود بتا دیتا ہو ۔۔۔ میں بھی بالکل ٹھیک ہو!!!
الفاظ کے برعکس اس کا لہجہ عجیب سا تھا ۔۔۔۔
وہ کیا کہتی سو خاموش رہی!!
تمہیں کوئی عقل آئی ہے یا پھر وہ ہی پرانی رٹ ہے !!!
وہ پھر خاموش رہی ۔۔۔
میں نے کچھ پوچھا ہے ! وہ تیز لہجے میں بولا۔۔۔
میں اب بھی اس پہ قائم ہو جو پہلے کہا تھا ۔۔۔ وہ آہستگی سے بولی،!
تم ۔۔۔ تم کبھی مجھے سمجھ نہیں سکتی تمہیں میرے علاوہ باقی سب عزیز ہیں ۔۔۔ نفرت ہو رہی ہے مجھے تم سے ۔۔۔۔ وہ سرد آواز میں کہہ رہا تھا !!!
آپ میری۔۔۔۔۔ لڑکی نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر اس نے کال کاٹ دی اور موبائل زور سے دیوار پہ دے مارا۔۔۔۔ !!
※ ※ ※ ※ ※
وہ ابھی تک بے ہوش تھی دروازہ کھول کہ اس نے اندر قدم رکھا اسے دیکھ کے لب بینچ لیے ۔۔۔
وہ اور زیادہ انتظار نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔
اُس نے اردگرد نظر دوڑائی اور پھر اسے پانی کی بوتل نظر آ گئی اس کا ڈھکن کھول کے اس نے پانی کی پوری بوتل اس پر گرا دی ۔۔۔۔
وہ ہڑبڑا کے ہوش میں آئی تھی مگر اس کا ذہن ابھی بھی کچھ سمجھنے سے قاصر تھا ۔۔۔۔۔
اردگرد نظر دوڑاتے اس کی نظر اُس پر جم گئی اور پھر وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی ۔۔۔۔
تمہیں کیا لگا میں بھول گیا ہوں !!! تمہیں یا جو تم میرے ساتھ کر رہی ہو اسے۔۔۔۔
وہ سرد آواز میں ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا۔۔۔۔
اس کی آنکھوں سے آنسو پھر بہنا شروع ہو گئے تھے ۔۔۔
وہ اپنی سرد آنکھیں اس پہ گاڑ کے بول رہا تھا۔۔۔ خود کو بہت smart سمجھتی ہو نا تم اب تمہیں میں بتاؤں گا ۔۔۔۔ بہت زعم ہے نا تمہیں خود پر !
وہ آنسو بہاتے ہوئے اسے سن رہی تھی ۔۔۔۔ آج وہ مجبور تھی اس کی ہر بات سننے کو اگر وہ کچھ بول دیتی تو اس شخص سے کچھ بعید نہیں تھی وہ کیا کر ڈالتا ۔۔۔۔
افسوس! کہ آج یہ تمہارے آنسو مجھ پہ کچھ اثر نہیں کرے گے۔۔۔۔ بہت تماشہ بنا لیا تم نے اپنا بھی اور میرا بھی اب ہر چیز میری مرضی سے ہو گی۔۔۔۔ مس وکیل صاحبہ!!
وہ چبا چبا کر گویا ہوا۔۔۔۔
آ۔۔۔آپ کیوں کر رہے ہیں یہ سب اب کیا چاہتے ہیں آپ ؟؟؟
اتنی مصوم ہو تم کے یہ بھی نہیں جانتی کہ میں کیا چاہتا ہوں۔۔۔۔ وہ سرد آواز میں گویا ہوا!!
مجھے جانے دے پلیز ! میں ۔۔۔۔۔۔ ابھی اس کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ وہ چلا کر بولا۔
واپسی بھول جائیے مس وکیل ۔۔۔۔ اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
ہیلو!
ہاں سن رہا ہوں بولو!۔۔۔
دوسری طرف سے کچھ کہاں گیا تو اس کا قہقہہ
بہ ساختہ تھا۔۔۔
میں تمہیں کبھی نہیں بھول سکتا تمہاری مدد کا بہت بہت شکریہ میرے یار۔۔۔
ہاں ہاں فکر کی کوئی بات نہیں ہے سب ٹھیک ہے
ایک دو اور باتوں کے بعد فون بند ہو گیا اس کی چہرے پر گہری سنجیدگی تھی ۔۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
وہ صبح سے بھوکی پیاسی اس کے رحم و کرم پر پڑی تھی اسے دو دن ہو چکے تھے اغوا ہوے وہ گھر والو کا سوچ سوچ کے ہلکان ہو رہی تھی۔۔۔۔
یہ لیجے گرم گرم ناشتہ ! وہ ناشتہ اس کے سامنے رکھتے ہوئے بولا ۔۔۔۔
ناشتے کو دیکھ کے اس کی بھوک چمک اٹھی مگر پھر اس کی انا آڑے آ گئی ۔۔۔۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ ناشتہ نہیں کرے گی۔۔۔
وہ بہت غور سے اس کے پر سوچ چہرے کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔
اگر تمہیں لگتا ہے کہ تمہارے کھانا نا کھانے میں اپنی بات سے ہٹ جاؤں گا تو آپ غلط ہیں مسز عائدون ! کیونکہ مجھے فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔
عائدون کی بے حسی پہ اس کے آنسو پھر نکل آئے تھے ۔۔۔۔ وہ بہ اختیار سسکنے لگی ۔۔۔
اسے روتے دیکھ کر عائدون نے لب بینچ لیے۔۔۔۔۔
میں پہلے بھی کہ چکا ہوں کہ تمہارے آنسو مجھ پہ کچھ اثر نہیں کرتے یہ ڈرامہ نا کرو میرے سامنے ۔۔۔۔۔
آپ کیوں کر رہے ہیں یہ سب ۔۔۔۔ مجھے اغوا کر کے میرے گھر والو کا تماشہ بنا کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔
"My dearest wife Rabi"
میں آپ کو حاصل کرنا چاہتا تھا اور کر لیا باقی کسی سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔
آپ کو نہیں پڑتا مگر مجھے پڑتا ہے مجھے بہت فرق پڑتا ہے آپ مجھے عزت سے لے آتے ۔۔۔۔
ہا۔۔۔ عزت سے ۔۔۔۔ وہ طنز سے بولا اگر عزت سے لاتا تو تم اس وقت یہاں نہ ہوتی ۔۔۔۔ اس سب کی زمہ دار تم ہو مجھے یہ قدم اٹھانے پہ مجبور کرنے والی بھی تم ہو اگر بھول گئی ہو تو یاد کروا دوں۔۔۔۔۔
وہ سرد لہجے میں کہہ رہا تھا۔۔۔۔
آپ نے کون سا میرے ساتھ اچھا کیا تھا ۔۔۔۔۔
بس اب اور ایک لفظ نہیں ۔۔۔۔ وہ اُس کی بات کاٹ کر بولا ۔۔
میں نے کچھ غلط نہیں کیا تھا آئی سمجھ ۔۔۔۔ میں یہ قدم نا اٹھاتا اگر تم میری بات مانتی مگر نہیں تمھیں بہت شوق تھا نا اپنی مرضی کرنے کا اب میں دیکھتا ہو کون یہاں سے لے کے جاتا ہے تمہیں ۔۔۔۔
اس کی پر تپش براؤن آنکھیں اُس کے چہرے پہ جمعی تھی ۔۔۔۔
وہ اٹھا اور دروازے کو زور دار آواز میں بند کر کے چلا گیا۔۔۔۔
دروازے کی دھمک سے وہ اچھل ہی پڑی تھی ۔۔۔۔ دھڑکن جیسے سینہ توڑ کے باہر آنے والی تھی ۔۔۔۔۔ وہ بیڈ پہ بیٹھ کے پھر سسکنے لگی اور پھر جیسے ماضی کو ناچاہتے ہوئے بھی یاد کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
نماز کے سٹائل میں دوپٹہ لپیٹے کتاب ہاتھ میں پکڑے وہ صبح صبح پڑھنے میں مشغول تھی اس کے LLB کے لاسٹ ائیر کے پیپر تھے وہ چہل قدمی کرتے ہوئے پڑھنے میں مصروف تھی ۔۔۔. یہ اُس کا روز کا معمول تھا ۔۔۔۔
اف رابیل آپی یار تم اتنی کُند زہن ہو تین گھنٹے بعد پیپر ہے اور رٹے مار رہی ہو زیان مسجد سے نماز پڑھ کے لوٹا تھا اور روز کی طرح اسے لان میں پا کر چیھڑنے سے باز نہیں آیا تھا ۔۔۔۔
زین دفع ہو جاؤں مجھے پڑھنے دو ۔۔۔۔
تمہیں پتہ ہے علامہ اقبال پیپر سے ایک ہفتہ پہلے پڑھنا چھوڑ دیتے تھے ۔۔۔۔ اور تم ان کی شاہین ایک منٹ پہلے بھی بک نہیں چھوڑو گی۔۔۔۔
رابیل نے اس کو گھورا اور اپنی مسکراہٹ دبائی جانتی تھی کہ اگر اس نے ہنستے دیکھ لیا تو وہ باتیں کبھی ختم نہیں کرے گا۔۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے ! تم اب جاؤ۔۔۔۔
وہ دوبارہ سے پھر پڑھنے میں مصروف ہو گئی۔۔
※ ※ ※ ※ ※
فریال کالج کے لیے تیار ہو کر آئی تو رابیل بھی اس کے ساتھ تھی دونوں نے بیٹھتے ہوئے سب کو سلام کیا۔۔۔۔
آج میرے بیٹے کا لاسٹ پیپر ہے ! حسان صاحب نے پوچھا۔۔۔
جی بڑے پاپا۔۔۔۔
رابیل ناشتہ کرو جلدی اور فریال تم بھی منزہ نے انھیں باتوں میں مشغول دیکھ کر کہا۔۔۔۔
ماہین آ جاؤ تم بھی ۔۔۔۔
جی ممی آئی۔۔۔۔
کیسی تیاری ہے پیپر کی ؟ ماہین نے پوچھا
اچھی ہے ۔۔۔
تو اتنا برا منہ کیوں بنایا ہے ! وہ ہنستے ہوئے بولی۔۔۔
یار بھابھی میں تو کہتی ہو پیپر نا ہی ہوا کریں بس سال پڑھائیں اور پھر کہیں مبارک ہو آپ پاس ہو گئے۔۔۔
اس کی بات پہ فریال اور ماہین کی ہنسی بہ ساختہ تھی ۔۔
واہ تمہارے نادر خیالات ۔۔۔۔ فریال بولی ۔۔۔
اچھا آپ دعا کرنا میرے لئے آج آ کے میں نے لمبی ننید سونا ہے ۔۔۔۔
اچھا جی ۔۔ خدا حافظ!!
اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ قسمت اس کی ننیدیں اڑانے کی تیاری میں ہے !!!!
※ ※ ※ ※ ※
گڈمارننگ بابا ! حسن نے اسے دیکھا وہ پولیس یونیفام میں ملبوس تھا اس کی گندمی رنگت دمک رہی تھی ۔۔۔۔
گڈمارننگ بیٹا !
ماما جلدی سے ناشتہ دیں آج جلدی جانا ہے مجھے ۔۔۔۔
کیوں کوئی خاص کام ہے آج ؟؟ حسن صاحب نے پوچھا
جی آج میٹنگ ہے میری ہیڈ آفس میں ۔۔۔۔
وہ اپنے پروفیشن سے عشق کرتا تھا اور وہ بھی پاگل پن کی حد تک۔۔۔۔ اگر اسے آمنہ کی ڈانٹ کا ڈر نا ہوتا تو وہ ناشتے کے بغیر ہی چلا جاتا مگر اس کی مجبوری تھی ۔۔۔۔۔
ناشتہ کرنے کے بعد وہ اُن دونوں کی دعاؤں کے حصار میں نکلا ۔۔۔۔ اس کے ملازم نے اسے سلیوٹ کیا ۔۔۔۔
کیا حال ہے محمد علی ؟
ٹھیک ہوں صاحب!
وہ اپنے ملازموں کا خیال بھی رکھتا اور ان کی عزت بھی کرتا مگر وہ اپنے کام میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کرتا تھا ۔۔۔۔
پولیس سٹیشن کی صورت حال جاننے کے بعد وہ میٹننگ کے لئے چلا گیا۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※