دیوار گیر گھڑی نے 12 بجنے کا اعلان کیا تو اس نے فضا میں گہری سانس لی اور اپنے لمبے بالوں کو دونوں ہاتھوں کی مدد سے سمیٹا اپنے کاغذوں کو اکھٹا کر کے فائل میں لگایا فائل کو دیکھ کے بے ساختہ ایک مسکراہٹ اس کے ہونٹوں میں بکھر گئی اب اسے کل صبح کے سورج کا انتظار تھا۔۔۔۔کل کا سوچتے سوچتے وہ ننید کی وادیوں میں اتر گئی۔۔۔۔۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
وہ دستک دے کے اندر داخل ہوی ۔۔۔ سفید لمبی قمیض اور چوڑی دار پاجامہ ،بلیک کوٹ،سفید دوپٹہ کو سر پہ اس سٹائل سے لپیٹا تھا ایک بال نظر آنا مشکل تھا وہ کوئی افسانوی کہانیوں کی طرح بہت خوبصورت لڑکی نہی تھی۔۔۔اس کی ایک خوبی تھی جو اسے دوسروں میں نمایاں کرتی تھی وہ تھی اس کی مصومیت ۔۔۔
اسلام و علیکم سر۔۔۔۔
وعلیکم اسلام ۔۔کیسی ہے رابیل بیٹا آپ؟؟
میں بلکل ٹھیک سر آپ کیسے ہیں
اللہ پاک کا شکر ہے ۔۔۔۔۔
یہ لیجے سر ۔۔۔اس نے فاعل ان کی جانب بڑھائی۔۔
اعظم صاحب نے بہ اختیار اسے دیکھا۔۔۔۔
کیا تم نے ۔۔۔۔ ان کی بات ابھی پوری بھی نہیں ہوئی تھی وہ بہ ساختہ بولی
یس سر میں نے ہی ۔۔۔آپ کھول کے دیکھیں اور داد دیں مجھے ۔۔۔۔ ایک مستقل مسکراہٹ نے اس کے ہونٹوں پر بسیرا کیا ہوا تھا۔۔۔۔
اعظم صدیقی نے فائل پڑھنا شروع کی ۔۔۔۔ آہستہ آہستہ ان کے چہرے پہ مسکراہٹ ابھرنا شروع ہوئی جوں جوں وہ پڑھتے جا رہے تھے توں توں ان کی مسکراہٹ گہری ہوئی ۔۔
بہت خوب ،زبردست، well done,I have no words to explain...
کیسے کیا یہ سب ،یہ انفارمیشن کیسے اکھٹی کی تم نے ۔۔۔ وہ واقعی حیران تھے۔۔
وہ شرارت سے مسکرائی ۔۔سر آپ اپنی بٹیی کی صلاحیتوں سے ابھی نا واقف ہیں۔۔۔آپ جانتے ہیں ہے نا میں جس کام کے پچھے لگ جاوں وہ کر کے ہی رھتی ہوں۔۔۔
میں جانتا ہوں بیٹا ۔۔۔۔ کیا تم اکیلی نے کیا ہے یہ سب ۔۔۔وہ واقعی جاننا چاہتے تھے ۔۔۔۔
وہ کھلکھلا کے ہنسی۔۔۔
ارے سر نہیں میرے سورس کام آے ہے نا ۔۔۔۔
اووووو۔۔۔تبھی ۔۔۔بھئی تمھارے sources تو بہت ہی اچھے ہیں۔۔۔وہ مسکراے۔۔۔
بہت شکریہ سر۔۔۔ اب میں چلتی ہو کل انشااللہ ملاقات ہو گی ۔۔۔
ارے کیوں بیٹا ایسے کیسے اتنا اچھا کام کیا ہے ۔۔۔کافی پی کے جانا۔۔
نہیں سر دیر ہو جاے گی آج مجھے کام ہے فری کے ساتھ۔۔۔
سر نہیں انکل سمجھ کے پی لو ۔۔۔ اعظم صاحب نے شرارت سے کہا۔۔۔
وہ بہ ساختہ مسکرا دی۔۔۔شیور انکل۔۔۔
وہ باتیں کر رہے تھے جب دروازے پہ دستک رے کے کوی اندر داخل ھوا۔۔۔
اسلام و علیکم۔۔۔
وہ آواز سن کے بہ اختیار پیچھے کو مڑی آنے والی شخصیت کو دیکھ کے اس کے چہرے کا رنگ اڑا وہ تو سوچ بی نہیں سکتی تھی کہ یہ یہاں بھی آ سکتا ہے۔۔۔۔
آو عائدون بیٹا آج کیسے یاد کر لیا ہم غریبوں کو۔۔۔۔ اعظم صاحب نے اسے گلے لگایا۔۔۔
بس انکل یہاں سے گزر رہا تھا تو سوچا آپ سے ملتا جاوں۔۔۔
وہ ان کی باتوں کے دوران بلکل خاموش بیٹھی تھی ۔۔۔ اور نظریں اپنے کافی کے کپ پہ جما دی۔۔
اعظم صاحب نے اسے دیکھا جو بلکل خاموش تھی ۔۔۔
رابیل ۔۔۔۔ انہوں نے بہ اختیار پکارا
کیا ہوا بیٹا؟
وہ ہڑبڑا کہ سدھیی ہوئی ۔۔ کہ۔۔ کچھ نہیں انکل !! میں اب چلتی ہو !! وہ کھڑی ھو گئی
وہ بھی شاید اس کے دل کی حالت سے واقف تھے
اوکے بیٹا جی ۔۔۔ اللہ کی امان ۔۔۔
اللہ حافظ ۔۔۔
اس کے جانے کے بعد عائدون کو ہوش آیا اعظم صاحب کی آواز سن کے وہ سیدھا ہوا۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
وہ سیدھا چلتی ہوئی اپنی گاڑی تک آئی اس کے ہاتھوں کی لرزش نمایا تھی۔۔۔
اس نے گاڑی کی چابی ہول میں ڈالنے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہیں ہوئی اس کے ہاتھ سے چابی زمین پہ گر گئی
اس کی آنکھوں کی زمین گیلی ہوئی بہ اختیار اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔۔۔
وہ انسان جس کی وہ شکل اپنی زندگی میں کبھی بھی نہیں دیکھنا چاہ رہی تھی وہ ہی آج اس کے سامنے آ گیا تھا اس کا ضبط آزمانے۔۔۔۔
گاڑی کا لاک کاپنتے ہاتھوں سے کھولنے کے بعد وہ گھر کہ لیے روانہ ہو گی۔۔۔
وہ بھول گی کہ اسے فریال کے ساتھ جانا تھا اسے بس یاد تھا تو یہ کہ آج اس کے زخم پھر سے تازہ ہو گئے ہیں جن پہ بہ مشکل اس نے مرہم رکھا تھا
※ ※ ※ ※ ※
وہ بڑی تیزی سے گھر کے اندر داخل ہوا راستے میں آئی ہر چیز کو اپنی ٹھوکروں سے اڑاتے ہوےاپنے کمرے میں داخل ہوا۔۔۔زور دار آواز میں دروازے کو بند کیا اور بستر پر گر گیا۔۔۔۔
گزشتہ مہینوں کی ازیت پھر سے عود کر آئی تھی۔۔۔ کیوں ؟اس کے ساتھ ہی کیوں ہوا تھا یہ سب ؟؟؟ ہر چیز اس کے ہی مخالف کیوں تھی !!
اس نے کیا سوچا تھا اور کیا ہو گیا تھا۔۔۔ تقدیر نے اسے منہ کے بل گرایا تھا ایسے کہ وہ پھر اٹھ ہی نہیں سکا۔۔۔۔۔
اس نے ہمشہ یہی سنا تھا کہ مرد کبھی مجبور نہیں ہوتا ۔۔۔۔ وہ خود بھی اس بات کو مانتا تھا لیکن گزشتہ واقعات کے بعد اب کوئی اس سے پوچھتا تو وہ یہی کہتا کہ مرد بھی مجبور ھوتا ہے زندگی کہ کسی بھی موڑ پہ محبت کے لیے کوئی بھی مرد مجبور ھو سکتا ہے۔۔۔۔۔ محبت کو وہ فارغ لوگوں کا مشغلہ مانتا تھا ۔۔۔۔مگر محبت نے ہی اسے چاروں شانے چت کیا تھا اور وہ قسمت کی اس شرارت پہ ششدر رہ گیا تھا۔۔۔۔۔
آج رابیل عثمان کو دیکھ کہ اس کی بہ رخی کو دیکھ کہ جو ازیت اسے ہوئی تھی وہ ناقابل بیان تھی ۔۔۔۔
وہ اٹھا اور ششے میں اپنا عکس دیکھنے لگا چھ فٹ سے نکلتا قد ، گندمی رنگت، براون چھوٹھی آنکھیں جن میں ازیت کے تمام رنگ تھے ، دکھ اور غصے سے اس وقت لال ہو رہی تھی ، چوڑے شانے جو اس کے ارادوں کی پختگی کو ظاہر کرتے تھے وہ اس وقت پولیس یونیفارم میں ملبوس تھا اسے چنیج کرنے کا بھی ہوش نہیں تھا۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
رابیل بیڈ پہ بیٹھی تھی آنسو ابل ابل کر اس کی آنکھوں سے گر رہے تھے اس کے درد کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔۔۔ فریال بولتی ہوئی اس کے کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔
مس رابیل ! آج شاید آپ نے۔۔۔۔۔ باقی کے لفظ اس کے منہ میں ہی رہ گئے۔ وہ اس کی حالت دیکھ کے شاکڈ ہوئی۔۔۔۔
رابیل یار شاپنگ آج نہیں ہوئی تو کوئی بات نہیں ہم کل چلے جائیں گے ۔۔اس میں اتنا رونے کی کیا بات ہے۔۔!!!
وہ چپ رہی آنسو ابھی بھی گر رہے تھے اس کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔۔۔۔
فریال نے اسے بہ اختیار گلے سے لگایا اور اس کے آنسو پونچھے۔۔۔
رابی! کیا ہوا ہے؟؟۔۔۔ کیوں رو رہی ہو اس طرح مجھے بتاو۔۔
فری۔۔۔!!!! وہ بار بار کیوں میرے سامنے آ جاتا ھے کیوں میرا ضبط آزماتا ہے؟؟؟
ہوا کیا ہے یار بتاو تو سہی ۔۔۔ کیا عادی نے کچھ کہا ہے؟؟؟
رابیل نے اسے گھور کے دیکھا۔۔۔ عادی۔۔۔
نہ۔۔۔۔ نہیں میرا مطلب ہے عائدون سے ملی تم ؟؟؟
اس نے کچھ کہا ہے؟؟؟
آنسو ایک بار پھر اس کی آنکھوں سے نکل آے۔۔۔۔
Chamber میں دیکھا ہے اسے وہ انکل سے ملنے آیا تھا ۔۔۔
کیا تم سے کوئی بات ہوئی اس کی؟؟؟۔۔۔
نہیں !!! فری تمہیں اب بھی لگتا ہے میں اس شخص کی بات سنوں گی۔۔۔
اچھا چلو اٹھو منہ دھو کے آو پھر شاپنگ پہ چلتے ہیں۔۔۔ فری اس کا دھیان بٹانے کے لیے بولی۔۔۔
آج نہیں پلیز میرا دل نہیں چاہ رہا۔۔۔۔۔
رابی ! وہ اسی شہر میں رہتا ہے تمہارا روزانہ اس سے کہیں نہ کہیں سامنہ ہو گا تم اس سے ڈر کے گھر سے باہر نکلنا چھوڑ دو گی۔
عثمان احمد دو بھائی ہیں حسان احمد بڑے اور عثمان احمد چھوٹے۔۔۔۔ حسان صاحب کی تین اولادیں ہیں سعد،فریال اور زیان ،،،، جبکہ عثمان احمد کی ایک ہی اولاد ،رابیل۔۔۔ ان کی اور پورے گھر کی لاڈلی بیٹی۔۔۔ پیار تو سب بچوں سے تھا مگر رابیل کی بات اللگ تھی۔۔۔آیدہ اور عثمان احمد کی جان تھی اپنی بیٹی میں۔۔۔ حسان احمد اور منزہ بھی بہت پیار کرتے تھے اسے ۔۔۔ وہ بہت منتوں مرادوں سے ملی تھی انھیں۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
رات کے کھانے پہ پوری فیملی جمع تھی۔۔۔ سب خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے ۔ رابیل کھا رہی تھی کہ زیان نے اسے ٹہوکا دیا۔۔۔ رابی۔۔۔۔ زیان موجود ہو اور خاموشی اور سکون ہو ،،، یہ بس خواب میں سوچا جا سکتا تھا ۔۔۔۔
کیا ہے !!
یار میں بور ہو رہا ہوں۔۔۔۔ وہ سرگوشی میں بولا۔۔
رابیل نے اسے گھورا ۔۔۔ کھانا کھاو چپ کر کے۔۔۔ !!!
زیان نے ایک نظر اسے دیکھا اور ایک نظر چچا اور والد کو وہ دونوں کھانے میں بزی تھے ۔۔۔۔
یہ اس گھر کا اصول تھا کہ کھانے کے وقت مکمل خاموشی ہوتی تھی۔۔۔۔ مگر زیان صاحب خاموش رہ جائے یہ کہاں ممکن تھا۔۔۔۔
رابی آج میں بہت اداس ہو۔۔۔۔ وہ اداس سی شکل بنا کہ بولا۔۔۔
حسان صاحب کھنکارے۔۔۔۔ اور ایک نظر ٹیبل پر اور گھر کے افراد پر ڈالی ۔۔۔ یہ اشارہ تھا
زیان نے سنجیدہ ہونے کی ناکام کوشش کی۔۔۔
رابیل نے ایک نظر اسے دیکھا اور مسکراہٹ چھپانے کے لیے گلاس منہ کو لگا لیا۔۔۔
فریال بھی مسکرا دی۔۔۔ دانا لوگ کہتے ہیں اگر کھانے کے دوران بولا نہ جائے تو کھانا ہضم نہیں ہوتا۔۔۔۔ وہ ابھی بھی باز نہی آیا تھا اور دبی آواز میں بولا۔۔۔۔
یہ دانا نہی تم کہتے ہو۔۔۔ فریال بولی۔۔۔
میں کسی دانا سے کم ہو کیا... بڑے فخر سے کہا گیا۔۔۔
رابیل نے اپنے قہقہے کا گلا بڑی مشکل سے گھونٹا تھا۔۔۔۔۔
اس کا فون کب سے بج رہا تھا مگر اسے کوئی ہوش نہیں تھا فون بج کر خود ہی خاموش ہو گیا۔۔۔ بل کی آواز اس کے دماغ میں ہتھوڑے کی طرح لگ رہی تھی مگر وہ شاید اس ازیت کا عادی ہو چکا تھا۔۔۔۔۔
وہ جب سے گھر آیا تھا تب سے کمرے میں بند تھا ۔۔۔۔ پہلے والی ازیت اب غصے میں تبدیل ہو گئی تھی ۔۔۔۔ اسے ہی کچھ کرنا تھا ۔۔۔ اور بلآخر اس نے سوچ لیا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے ۔۔۔۔ یہ تو طے تھا کے وہ اب خاموش نہیں رہے گا ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھےگا۔۔۔۔
فریش ہونے کے بعد وہ کمرے سے باہر نکلا۔۔۔ دو دفعہ ملازم اسے کھانے پہ بلانے کے لیے آیا تھا اسے اندازہ تھا کہ سب اس کے رویہ سے پریشان ہو گے ۔۔۔ چہرے پہ مسکراہٹ سجائے وہ وہ سیڑھیاں اترنے لگا۔۔۔
کھانے کی میز پہ حسب معمول اس کے ماں باپ اس کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔
سوری بابا ، ماں !! میں لیٹ ہو گیا۔۔۔۔ وہ کان کھجاتے ہوے کہ رہا تھا۔۔۔
عائدون حسن ! وقت کی پابندی ہر کام میں ضروری ہے ۔۔۔ حسن شاہ اپنے مخصوص انداز میں اس سے مخاطب تھے ۔
تمہارا پروفیشن اس بات کا متقاضی ہے۔۔۔
جی بابا! .....I am sorry
آمنہ بیگم نے اسے کھانا نکال کے دیا۔۔۔۔۔ کھانے سے فارغ ہو کر وہ دونوں باپ بیٹا چائے پی رہے تھے جبکہ آمنہ سونے کے لیے چلی گئی تھی۔۔۔۔
وہ نیوز سنتے ہوے پوری طرح مگن تھا جب اس نے حسن شاہ کی آواز سنی۔۔۔۔
کیا سوچا ہے تم نے اُس معاملے میں ! وہ ان کا اشارہ سمجھ چکا تھا۔۔۔۔ اس نے خود کو بمشکل کچھ کہنے سے روکا!
ابھی کچھ نہیں بابا !!
میں ابھی اور بہت سے معاملوں میں پھسا ہوا ہو ۔۔۔ کسی اور طرف دیکھنے کی بھی فرصت نہیں ہے۔۔۔۔
ہمممم۔۔۔۔ لیکن میں چاہتا ہو کہ جلد از جلد اس معاملےکو نپٹا دو۔۔۔۔ تم سمجھ رہے ہو نا میری بات کو۔۔۔
جی بابا ! بہت اچھی طرح سے !!! آخری الفاظ وہ آہستگی سے بولا۔
اوکے شب خیر!
شب خیر بابا ! اب اس کے ہونٹوں پر بڑی پراسرار مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
آئیے آئیے مسٹر عائدون حسن ! وہ اپنے آفس میں داخل ہوا ہی تھا کہ اس آواز پہ رک کر بہ اختیار اس کی طرف دیکھا۔۔۔۔ اس شخصیت کو دیکھ کے گہری سانس لی کیپ اتار کے ٹیبل پہ رکھی ۔۔۔اور اس کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔
جی بکو! بڑی بہ نیازی سے کہا گیا۔۔۔
معیز نے تلملا کر اس کو ایک عدد گھوری ڈالی۔۔۔ ہاں جی اب ایس پی عائدون کو میری باتیں بکواس ہی لگے گئی۔۔۔۔ رومنٹیک نہیں۔۔۔ وہ دانت نکال کے بولا۔۔۔۔
کافی مگواؤں یا چائے ! وہ معیز کی بات کو نظر انداز کر کے بولا۔۔۔۔
اگر تم مجھے بس کافی پہ ہی ٹرکھانے والے ہو تو سوری میں کیک بھی کھاوں گا اور فنگر چپس بھی۔۔۔ باقی جو تمہیں پسند ہو۔۔۔ وہ چڑانے والے انداز میں بولا۔!!!
عائدون نے اسے گھورا۔۔۔۔ تم شائد بھول رہے ہو کہ یہ پولیس سٹیشن ہے میرا گھر نہیں ۔۔۔ وہ بھی اسی کے انداز میں بولا۔۔،،،،
تو میں کب کہ رہا ہو کہ اپنے آئی جی صاحب سے پیسے لے کے مگواوں ۔۔۔۔ تمہارے پیسے میرے پیسے ہیں یار بہ فکر ہو کہ مگواوں ۔۔۔
عائدون نے سر نفی میں ہلا کے فون پر آڈر دیا۔۔۔۔ اور اس کی جانب متوجہ ہوا ۔۔ تمہارے پاس بس 20 منٹ ہیں جو بھی کہنا ہے کہو۔۔۔
معیز کی آنکھیں اس بات پہ کھلی کی کھلی رہ گئی ۔۔۔۔
تم میرے بہترین اکلوتے دوست تم مجھ غریب ، مصوم ، ہنیڈسم، ڈشینگ ، کو یہ کہ رہے ہو ۔۔۔۔ وہ تو رونے والا ہو گیا تھا۔۔۔
15 منٹ! عائدون بولا ۔۔۔ دروازے پہ دستک دے کہ ملازم کافی اور باقی چیزیں رکھ گیا معیز اب ان چیزوں کی متوجہ ہو گیا۔۔۔۔
کل میں تمہیں کال کر رہا تھا تم نے اٹھانے کی زحمت ہی نہیں کی۔۔۔۔
سوری یار ! بس تھوڑا بزی تھا۔۔۔
معیز نے سر ہلا دیا۔۔۔۔
تم اب خود جاو گے کہ میں گاڑی تک چھوڑ آو۔۔۔
عائدون بولا۔۔۔
معیز نے صدمے سے اسے دیکھا۔۔۔ عادی تم پہلے ہی اتنے بہ مروت تھے کہ ایس پی بننے کے بعد ہوئے ہو۔۔۔۔
زیادہ ایکٹنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہے مجھے بہت کام ہے
معیز نے برا سا منہ بنایا ۔۔۔۔ ہاں جیسے سارا ملک تمھارے ہی کندھوں پہ چل رہا ہے نا۔۔۔۔
تم اس طرح کروں مجھے لاک اپ میں چھوڑ آو میں زرا قیدیوں کا حال چال پوچھ آو۔۔۔۔ وہ سنجیدگی سے کہ رہا تھا !!
عائدون اسے گھور کر اپنے کام میں بزی ہو چکا تھا وہ جانتا تھا کہ وہ اتنی آسانی سے نہیں جائے گا۔
※ ※ ※ ※ ※
صبح بہت روشن اور چمکیلی تھی وہ تیار ہونے کے بعد ناشتے کی ٹبیل پہ آئی سب کو سلام کیا اور چائے نکال کے پینے لگی آیدہ اسے کچھ کہنے لگی تھی مگر پھر رک گئی۔۔۔۔۔
وہ لاء کی پرکٹیس کر رہی تھی اپنے بابا کے دوست اڈوکیٹ اعظم صدیقی کے چیمبر میں ۔۔۔۔ اور ساتھ ساتھ وہ judiciary کی تیاری بھی کر رہی تھی اعظم صاحب نے تو اسے کہا تھا کہ وہ پرکٹیس جاری رکھے مگر اسے judge بننا تھا سو وہ اس کی تیاری میں لگی تھی ۔۔۔۔
آج کتنے بجے واپسی ہو گی رابی تمھاری؟؟
عثمان صاحب نے پوچھا !
بابا سات بجے تک ! آپ کو کوئی کام ہے ؟
نہیں کام نہیں ہے ! بس کچھ ڈسکس کرنا تھا ۔۔۔
اوکے میں جلدی آنے کی کوشش کروں گی۔۔۔
عثمان صاحب نے سر ہلا دیا۔۔۔۔
فریال چلیں! رابی نے ناشتہ کرتی فریال سے پوچھا۔۔۔ وہ دونوں اکھٹی ہی جاتی تھیں۔۔۔
فریال ایم ایس سی کرنے کے بعد ایک کالج میں لیکچیرار تھی۔۔۔
ہاں چلو۔۔۔ ماہین جو کہ سعد کی بیوی تھی اس نے لسٹ فری کو پکڑای۔۔۔
یہ چیزیں یاد سے لانا۔۔۔ اوکے بھابھی ! دونوں گاڑی کی طرف بڑھیں۔۔
ویسے تم اسے معاف کیوں نہیں کر دیتی !
فریال کے دماغ میں کل واقع تھا۔۔۔
میں اس موضوع کو دوبارہ نہیں چھیڑنا چاہتی۔۔۔۔
لیکن وہ تمھارا۔۔۔۔ رابیل نے اس کی بات کاٹی ۔
پلیز ! مجھے بار بار یاد نا کرواو۔۔۔ میں اس ازیت کو بار بار نہیں یاد کرنا چاہتی۔۔۔
فریال نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا اور اس موضوع کو کسی اور وقت کے لیے رکھ چھوڑا۔۔۔۔
اپنے کالج کے سامنے اترنے کے بعد کھڑکی میں جھکتے ہوئی بولی۔۔۔
دھیان سے گاڑی چلانا۔۔۔ اور اپنا خیال رکھنا اللہ حافظ۔!!
وہ آہستگی سے ہنس دی! اوکے میری ماں ۔۔۔ اللہ حافظ۔۔۔
اس کی ہنسی کو تقدیر نے حسرت سے دیکھا! اور وہاں سے چل دی۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※