"اس کی آنکھوں میں کیا تھا جس نے مجھے نگاہیں جھکانے پر مجبور کر دیا ؟؟" بسمہ رکشے میں بیٹھی اسی کو سوچتے آ رہی تھی لیکن جو بات اسکا دل اسے بتا رہا تھا اسے اسکا دماغ ماننے سے انکاری تھا
"تو کیا واقعی وہ ۔۔۔؟؟ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔۔۔ ابھی کل ہی تو ملے تھے ملے بھی کیا صرف دیکھا تھا ضرور میرا وہم ہو گا۔" بسمہ نے اپنی سوچوں کو جھٹکا ۔۔۔ رکشہ اسکی سوسائٹی کے مین گیٹ کے پاس رکا ۔۔۔ وہ پیسے دے کر نیچے اتر گئی۔ گھر داخل ہونے سے پہلے اس نے اس سوچ کو پوری طرح جھٹک دیا تھا۔
____________
"بابا آپ کو بسمہ اچھی لگتی ہے ناں ؟؟" ڈنر کے بعد اویس اور طُوبہ نے بسمہ کی بات خضر صاحب سے کی ۔۔۔ اب وہ دونوں انکے منتظر تھے جب طُوبہ نے پوچھا
"بالکل بیٹا بلکہ بسمہ کو تو میں نے بالکل تمہاری طرح سمجھا ہے لیکن اچانک یہ بات تم دونوں نے کر دی ہے ۔۔۔ اس لیے کچھ شاک میں ہوں ۔۔۔ لیکن یہ سن کر تو اب بسمہ میرے اور زیادہ قریب ہو گئی ہے آخر میرے بیٹے کی وہ پسند ہے۔" خضر صاحب اویس کو دیکھ کر مسکرائے جواباً وہ بھی مسکرایا تھا
"مجھے اس رشتے سے کوئی اعتراض نہیں ہے۔" خضر صاحب کی بات پر طُوبہ کی خوشی دُوبالا ہو گئی ۔۔۔ اویس کے چہرے پر مسکراہٹ کا راج تھا
"تو بابا کل چلتے ہیں پھر بسمہ کے گھر۔" طُوبہ نے جوش سے کہا ۔۔۔ اسکی بے تابی پر اویس اور خضر صاحب دونوں مسکرا دیے
"گڑیا اتنی جلدی کیا ہے ؟؟" اویس نے مسکراہٹ دبائی
"لالہ یہ بات نہ کریں مجھے پتا ہے دل میں تو آپ بہت خوش ہو رہیں ہوں گے میری بات سن کر ۔۔۔ بلکہ یوں کہیں آپکے دل کی بات میں نے کہی بابا سے ۔۔۔ ورنہ آپ نے تو یہ کہنا تھا کہ بابا ابھی چلیں پھر بسمہ کے گھر ۔" طُوبہ کی بات پر جہاں خضر صاحب کا قہقہہ گونجا وہیں اویس نے اسے گھورا
"طُوبہ بیٹا ویسے اتنی جلدی کی ضرورت نہیں ہے ابھی انکی مدر کی طبیعت ٹھیک نہیں ہم کل انکی مدر کی عیادت کرنے چلتے ہیں اگلے ہفتے رشتے کی بات کرنے چلیں گئے۔" خضر صاحب نے کچھ سوچ کر کہا
"ہاں گڑیا بابا صحیح کہہ رہے ہیں کل ہم آنٹی کی عیادت کو چلتے ہیں پہلے انکی طبیعت ٹھیک ہو لینے دو۔" اویس نے باپ کی بات سے متفق ہوتے کہا لیکن اسکے "ہم" پر طُوبہ کے لبوں پر ذومعنی مسکراہٹ ابھری تھی
"لالہ ہم کیوں ؟؟ میں اور بابا جائیں گے بس۔" طُوبہ نے شرارت سے کہا تو خضر صاحب بھی مسکرائے
"گڑیا تم اپنا دماغ درست کر لو میرا مطلب آنٹی کی عیادت کے لیے جانے کا تھا بس ۔۔۔ اور مجھ سے چھوٹی ہو تم ٹانگ مت کھینچو میری ورنہ ۔۔۔" اویس نے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر اسے دھمکایا ۔۔۔ جانتا تھا تنگ کر رہی ہے
"ہاہاہا لالہ مجھے آپ صرف بہن ہی نہیں اب سالی بھی سمجھیں کیونکہ بسمہ کی میں دوست ہوں۔" طُوبہ کی آنکھوں میں واضح شرارت تھی
"پہلے بات تو ہو لینے دو لڑکی پہلے ہی اپنے لالہ سے بے وفائی اچھی نہیں۔" اویس نے اسے آنکھیں دیکھائی
"ہاہاہا اوکے اوکے۔"
"اللہ تم دونوں بہن بھائی کا یونہی پیار بنائے رکھے ۔۔۔ اور تم دونوں کی زندگی خوشیوں سے بھر دے ۔" خضر صاحب نے ان دونوں کی نوک جھونک دیکھ کر اللہ سے دعا کی۔
____________
"بسمہ اس وقت کچن میں کیا کر رہی ہو ؟؟" دوپہر کے دو بج رہے تھے جب عالیہ بیگم کو کچن سے آواز آئی اندر جھانک کر دیکھا تو بسمہ کچھ بنا رہی تھی
"امی آپکو کل بتایا تو تھا کہ آج طُوبہ آئے گی آپ سے ملنے ابھی میسج آیا ہے اسکا کہ ساتھ میں سر خضر بھی ہیں اس لیے بس انکے لیے تیاری کر رہی تھی۔" بسمہ نے مصروف انداز میں بتایا
"ہاں کل تم نے اسکی آمد کا بتایا تھا ۔۔۔ ماشاءاللہ طُوبہ بہت پیاری بچی ہے ۔۔۔ اچھا تمہارے سر خضر وہی ہیں ناں ؟؟" عالیہ بیگم نے کچھ یاد کر کے پوچھا
"جی وہی ہیں جن سے آپ ایک دن سکول میں ملی بھی تھیں ۔" بسمہ نے مختصر سا جواب دیا
ایک دن عالیہ بیگم بسمہ کو لینے خود گئی تھیں سکول سے تب انکی ملاقات خضر صاحب سے ہوئی تھی۔
"ہاں مجھے یاد ہے ماشاءاللہ بہت اچھے انسان ہیں ۔۔۔ خیر نغمہ کہاں ہے ؟؟" عالیہ بیگم نے نغمہ کی تلاش میں ایک نظر لان پر ڈال کر اس سے پوچھا
"نغمہ آپا بازار گئی ہیں کچھ سامان لانے آنے ہی والی ہوں گی ۔۔۔ شاید آ گئی ہیں میں چیک کرتی ہوں۔" بسمہ ابھی بتا رہی تھی جب بیل کی آواز سنائی دی وہ گیس کم کرتی دروازہ کھولنے کے لیے کچن سے باہر آئی ۔۔۔ لیکن دروازہ کھولا تو ساکت رہ گئی
"کیسی ہو بسمہ ؟؟" عباس اسکا کزن دروازے کے وسط میں کھڑا اسے ہی دیکھ رہا تھا اسکے پیچھے اسکے تایا ظفر اور زاہدہ بیگم تھیں لیکن ساتھ کوئی اور بھی تھا
"بسمہ کون ہے ؟؟" عالیہ بیگم نے اسے ایک ہی جگہ منجمد کھڑا دیکھا تو اسکی طرف بڑھیں تھیں لیکن سامنے دیکھ کر وہ بھی ٹھہر گئیں پھر جلدی سے خود کو سنبھال کر بولیں
"ظفر بھائی۔"
"اب کیا یہیں ہمیں کھڑا کیے رکھو گی لڑکی ؟؟" زاہدہ بیگم کی تیز آواز سنائی دی اس نے اسے دروازے کے سامنے منجمد دیکھا تو کچھ سختی سے کہا تھا
بسمہ کے وجود میں انکی سخت آواز سے حرکت ہوئی تھی اور وہ جلدی سے خود کو نارمل کرتی سلام کہہ کر سائیڈ پر ہو گئی
ظفر اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ اندر داخل ہوئے پیچھے ہی چوتھا شخص بھی داخل ہوا تھا۔ بسمہ نے اس پر غور نہیں کیا لیکن عالیہ بیگم اسے دیکھ کر پریشان ہو گئیں تھیں اسے اس چیز کی توقع نہیں تھی شاید۔
"کیسی ہیں بھابھی آپ ؟؟ سنا تھا آپکی طبیعت خراب ہو گئی تھی ۔" چھوٹے سے لان میں بیٹھے ان چاروں نفوسوں میں سے ظفر صاحب پہلے بولے تھے
"جی بھائی صاحب میں ٹھیک ہوں لیکن آپ سب۔۔۔؟ اسکی بات کو سمجھتے ظفر صاحب انکی بات کاٹ کر بولے
"بھابھی ہم نے آپکو دو دن کا وقت دیا تھا اور امید کی تھی کہ آپکا جواب ہاں میں ہی ہو گا اس امید پر ہی ہم تینوں نے فیصلہ کیا کہ سادگی سے نکاح کرا دیتے ہیں ۔۔۔ آپکا زیادہ خرچا نہیں ہو گا۔" ظفر صاحب کے الفاظ انہیں کچھ پل کے لیے منجمد کر گئے تھے
بسمہ کو وہاں کھڑے الجھن ہو رہی تھی کیونکہ وہ عباس کی نظریں خود پر محسوس کر رہی تھی ۔۔۔ لیکن اسے عباس کی نگاہیں دیکھ کر فوراً کل اویس کی اور آج عباس کی نظروں میں بہت فرق نظر آیا تھا ۔۔۔ اویس کی نگاہوں میں اسکے لیے عزت اور محبت تھی جبکہ ان نظروں میں اسے کچھ اور تاثر ہی لگا جس سے اسے بری طرح الجھن ہو رہی تھی اس لیے وہ وہاں سے اپنے کمرے میں چلی گئی
"لیکن بھائی صاحب میں نے آپکو صاف الفاظ میں انکار کر دیا تھا ۔۔۔ اور آج بھی میرا جواب وہی ہے۔" عالیہ بیگم نے حتی الامکان اپنا لہجہ مضبوط رکھا تھا
"عالیہ کیسی ماں ہو تم ۔۔۔ بیٹھے بیٹھائے تمہارا بوجھ ہم کم کر رہے ہیں اور تمہارے نخرے ہی ختم نہیں ہو رہے ۔۔۔ ہم مانتے ہیں کہ ہمیں تم لوگوں کو یوں نہیں چھوڑنا چاہیے تھا لیکن اب ہم خود ہی تو احساس کر کے تمہارے در پر آئے ہیں۔" زاہدہ بیگم کو اسکے انکار پر پتنگے ہی تو لگ گئے تھے بقول انکے بسمہ کو کون پسند کر سکتا تھا ۔۔۔ یتیم اور غریب کو لیکن شاید وہ اللہ کے فیصلوں کو نہیں جانتی تھیں
"بھابھی ۔۔۔" انکی بات پر عالیہ بیگم نے تڑپ کر انہیں دیکھا تھا
"بسمہ میری بیٹی ہے ۔۔۔ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ وہ میرے لیے بوجھ ہے بسمہ جیسی بیٹیاں اللہ ہر ماں کے نصیب میں کرے ۔۔۔ لیکن شاید آپ اس بات کو کبھی نہیں سمجھ سکتیں ۔۔۔ رہی بات آپکے آنے کی تو ہمیں خوشی ہے کہ آپ ہم سے تعلق یا رشتے توڑ کر چلے نہیں گئے بلکہ واپس آئیں ہیں لیکن میں جو رشتہ ہمارا ہے اسکے علاوہ کوئی رشتہ نہیں جوڑنا چاہتی ۔۔۔ مجھے معاف کر دیجیے بھائی صاحب لیکن میں آپکی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکتی ۔۔۔ میں اپنی بیٹی کی زندگی خراب نہیں کر سکتی۔" عالیہ بیگم نے بہت تحمل سے بات کرتے ظفر صاحب کو مخاطب کیا جو قاضی صاحب کے ساتھ بیٹھے تھے۔
___________
اویس خضر صاحب اور طُوبہ کے ساتھ بسمہ کے گھر آیا تھا ۔۔۔ گاڑی دروازے کے پاس روکی ۔۔۔ ابھی وہ تینوں گاڑی سے اترے ہی تھے جب نغمہ کو ہاتھ میں سامان پکڑے آتے دیکھا ۔۔۔ خضر صاحب کو طُوبہ نے انکے بارے میں بتایا تو انہوں نے آگے بڑھ کر اسے سلام کیا پھر طُوبہ اور اویس نے انہیں سلام کیا ۔۔۔ جس کا جواب دے کر وہ حیرانی سے اویس کو دیکھنے لگیں ۔۔۔ طُوبہ نے سمجھ کر انہیں بتایا کہ اویس اسکا بھائی ہے جس پر وہ خوش ہو گئیں ۔۔۔ انہیں لے کر وہ ابھی گھر میں داخل ہوئیں جب لان سے ابھرتی آوازوں پر وہ چاروں وہیں تھم گئے۔
__________
"بھابھی بسمہ کو ہم خوش رکھیں گے ۔۔۔ اور رشتہ تو پہلے سے ہی طے تھا اس لیے ہم اپنی امانت لینے آئے ہیں ۔۔۔ اگر عباس کی پہلے شادی کر دی ہے تو اس میں کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے اسلام میں تو چار شادیوں کی بھی اجازت ہے ۔" ظفر صاحب نے بھی تحمل سے کام لیتے انہیں قائل کرنا چاہا ۔۔۔ عالیہ بیگم نے انہیں دیکھا ۔۔۔ وہ صرف اس بات پر تو بسمہ کی شادی عباس سے نہیں کروانا چاہتی تھیں کہ وہ شادی شدہ ہے بلکہ انہیں اس بات کا علم تھا کہ اس گھر میں انکی بیٹی کو وہ عزت نہیں ملنی جس کی وہ حق دار ہے ۔۔۔ جب رشتے سے پہلے اسکے کردار پر انگلی اٹھائی گئی ہو تو بعد میں وہ کیسے امید رکھ سکتیں تھیں۔
"رہنے دو ظفر لگتا ہے انہیں اپنی بیٹی پر کچھ زیادہ ہی مان ہے ۔۔۔ ایک تو بغیر کسی لالچ کے ہم انکے گھر آئے ہیں اوپر سے یہ ہمیں باتیں سنا رہی ہیں حد ہوتی ہے بیواقوفی کی بھی عالیہ وہ ایک لڑکی ہے کبھی بھی اونچ نیچ ہو سکتی ہے ۔۔۔ یا ایسا تو نہیں کہ بسمہ ۔۔۔"
"بس آنٹی بسمہ کے بارے میں اور کچھ مت کہیے گا۔" زاہدہ بیگم کے زہریلے الفاظ اگلنے سے پہلے طُوبہ تیز آواز میں بولتی آگے بڑھی تھی جس پر سب نے دروازے کی طرف دیکھا تھا اور سامنے دیکھ کر سب کھڑے ہو گئے تھے
"بسمہ میری دوست ہے میں اسکے خلاف ایک لفظ نہیں سن سکتی کجا کہ اسکے کردار پر اٹھنے والی انگلی برداشت کروں گی۔ " طُوبہ کو اس وقت غصہ آ رہا تھا ان پر ورنہ وہ بڑوں کی عزت کرتی تھی لیکن غصہ اور دوستی اس پر غالب تھی
"تم چھٹانک بھر کی لڑکی تمہیں ذرا تمیز نہیں ہے بڑوں سے بات کرنے کی۔" زاہدہ بیگم نے اسے تیکھے انداز میں دیکھا انہیں اسکا انداز بالکل پسند نہیں آیا تھا
"جب آپ لوگو۔۔۔"
"طُوبہ خاموش۔۔" طُوبہ کے جواب دینے سے پہلے خضر صاحب نے معاملے کی سنگینی دیکھ کر اسے ٹوکا تھا
"دیکھیں بھائی صاحب آپ جو بھی بات کر رہے تھے اسے تحمل سے بھی کیا جا سکتا تھا بسمہ پر بہتان لگا کر آپ اپنی عزت کو کم کر رہے ہیں ۔۔۔ بات آرام سے ہو سکتی ہے لیکن کسی کے کردار پر انگلی اٹھانے سے پہلے سوچ لینا چاہیے ہمارے اپنے گھر میں بھی بہن بیٹیاں موجود ہوتی ہیں ۔۔۔ اور اس مکافاتِ دنیا میں کسی دن ایسے حالات سے آپکو بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔۔۔ ہم بسمہ کو اچھی طرح جانتے ہے وہ بہت نیک بچی ہے اسکی سیرت کی ہم خود گواہی دیتے ہیں ۔" خضر صاحب کو پوری بات تو سمجھ نہ آئی تھی لیکن جو سمجھ آیا انہوں نے ظفر صاحب کو مخاطب کر کے آرام سے کہا تھا ۔۔۔ انکی بات پر زاہدہ بیگم ہنسی تھیں ۔۔۔
"اگر اتنا ہی اسکی سیرت کے آپ لوگ گرویدہ ہیں تو کیا آپ اسے اپنا سکتے ہیں ؟؟ بن باپ کی بیٹی اور ماں کے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ۔۔۔ تو کیا آپ یہ کہیں گے کہ آپ بسمہ کو اپنے اس خوبرو بیٹے کے لیے اپنانے کو تیار ہیں ؟؟" ظفر صاحب کے بولنے سے پہلے زاہدہ بیگم نے اویس کی طرف اشارہ کرتے کہا ۔۔۔ انکو دیکھتے اسے اندازے ہو گیا تھا کہ وہ کافی امیر ہیں اس لیے کسی جہیز کے بغیر وہ کیوں بسمہ کو اپنائیں گے ۔۔۔ لیکن وہ بھول گئیں تھیں کہ جس انسان کی اپنی سوچ ایسی ہو وہ دوسروں کو بھی اپنے جیسا ہی سمجھتے ہیں۔
خضر صاحب کو تو چپ لگ گئی تھی انہیں ایک عورت سے ایسی امید نہیں تھی کہ برائے راست وہ ان سے مخاطب ایسی بات کہہ رہی تھیں
"کیا ہوا ؟؟ اب یہاں ضرور آپکا اسٹیٹس آڑے آ گیا ہو گا ہیں ناں ؟؟ اس لیے یہ ہمارا اپنا معاملہ ہے ہم خود مل کر سلجھا لیں گے ۔۔۔ آپکو دخل اندازی کرنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔" انہوں نے انکی خاموشی کو غلط انداز میں لیا
"بھابھی۔" عالیہ بیگم جو کب سے اپنی بیٹی کے لیے یہ عدالت اور اس میں انکے فیصلے سن رہی تھیں انہیں ٹوکنا چاہا ۔۔۔ انکی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور آواز مدھم تھی
"میں بسمہ کو اپنانے کے لیے تیار ہوں۔" اویس جو کب سے خاموش کھڑا انکی باتیں اور بے حسی کو سن اور دیکھ رہا تھا ۔۔ زاہدہ بیگم کی بات پر ساکت ہوا تھا ۔۔۔ (شاید اللہ کو یہی منظور تھا بسمہ اسی طرح اسکی زندگی میں داخل ہونی تھی ۔۔۔ اس نے اللہ کو حاضر ناظر جان کر یہ فیصلہ کر لیا تھا)
اسکی آواز سن کر جو جہاں تھا وہیں رک گیا ۔۔۔ ان سب میں سب سے زیادہ حیرت زہداہ بیگم کو ہوئی تھی ۔۔۔ ماحول میں چھائے اس فسوں کو عباس نے توڑا تھا
"تم ہوتے کون ہو یہ کہنے والے ؟؟ بسمہ کے ساتھ میرا رشتہ چار سالوں سے طے ہے ۔۔۔ وہ میری منگ ہے ۔" عباس جو ماں باپ پر سب چھوڑ کر بیٹھا تھا ۔۔۔ اویس کی بات پر آخر بول اٹھا
"منگیتر کون سی منگیتر ؟؟ تم نے تو شاید شادی کر لی ہے اسے چھوڑ کر ۔۔۔ اب کہہ رہے ہو کہ وہ تمہاری منگیتر ہے اگر چھوڑ کر شادی نہ کی ہوتی تو یہ بات قابلِ قبول بھی ہوتی لیکن آپ سب کی باتوں سے اتنا اندازہ تو ہو گیا ہے کہ تم اس سے اپنا رشتہ توڑ کر آگے بڑھ گئے ہو ، اس لیے اب یہ رشتے طے والی بات دوبارہ کبھی مت کرنا۔" اویس نے سرد آواز میں سختی سے اسے باور کروایا کہ وہ اسے چھوڑ کر آگے بڑھ چکا ہے۔
اس کے بعد اویس عالیہ بیگم کی طرف بڑھا جو ابھی تک اپنی جگہ پر کھڑی آنسو بہا رہیں تھیں
"آنٹی میں باتوں سے معاملے کی تہہ تک تو نہیں پہنچا ہوں لیکن جو باتیں سنی ہیں اس سے کچھ آشنا ہو گیا ہوں ۔۔۔ میں کسی کی باتوں یا کسی کے الفاظوں کی زد میں آ کر یہ فیصلہ نہیں کر رہا بلکہ پورے ہوش و حواس میں آپ سے اجازت مانگ رہا ہوں میں آپکی بیٹی کو اپنانا چاہتا ہوں اسے اپنی عزت بنانا چاہتا ہوں ۔۔۔ کیا آپکو منظور ہے ؟؟ فیصلہ آپکا ہو گا آپ بسمہ کی ماں ہیں جو آپکو منظور ہو گا ہم میں سے کوئی کچھ نہیں کہے گا۔" اویس نے نظریں جھکا کر اپنے دل کی بات انکے سامنے رکھی ۔۔۔ مضبوط لہجہ ۔۔۔ انکے لیے عزت ۔۔۔ اور اب انکے فیصلے کا منتظر ہو کر انہیں دیکھ رہا تھا
عالیہ بیگم تذبذب سی ہو کر اللہ کے اس فیصلے کو دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔ انسان کو کچھ انسانوں کی پہچان بہت جلد ہو جاتی ہے اویس کو وہ اچھا سمجھتی تھیں لیکن آج انہیں وہ سب سے اچھا لگا تھا جو ہر لحاظ سے انکی بیٹی کے لیے ٹھیک تھا ۔۔۔ انہوں نے اللہ پر بسمہ کا نصیب چھوڑ کر سر اثبات میں ہلا دیا ۔۔۔ ساتھ ہی دو موتی انکی آنکھوں سے گر کر رخساروں کو بھگو گئے تھے اویس نے اشارہ پا کر باپ کو دیکھا تھا انہوں نے بھی آنکھوں میں اسے ہاں کا اشارہ دیا ۔۔۔ وہ خوش تھے اپنے بیٹے پر بلکہ انہیں فخر تھا اس پر۔
"چلو ظفر ہماری عزت تو مٹی میں ملا کر رکھ دی تمہاری بھابھی نے غیروں کے سامنے ہمیں دو کوڑی کا کر دیا ۔۔۔" زاہدہ بیگم زہر خند لہجے میں کہتی ایک چبھتی نگاہ عالیہ بیگم پر ڈال کر عباس کو چلنے کا اشارہ کر کے تنفر سے باہر کی طرف بڑھ گئیں تھی ۔۔۔ انکے پیچھے ظفر صاحب اپنے قاضی کو لے کر چلے گئے۔
____________
بسمہ باہر سے آتی آوازیں سن کر روتی ہوئی وہیں بیٹھتی چلی گئی تھی جہاں اسکی قسمت کا فیصلہ اسکے کردار کو نشانہ بنا کر کیا جا رہا تھا پھر جیسے ہی اسے ماں کا خیال آیا وہ پہلے ہی ٹھیک نہیں تھیں ایسی باتوں سے انکی طبیعت بگڑ سکتی تھی اس وقت اسے خود کو کمزور پڑنے نہیں دینا تھا اس لیے خود کو مضبوط بناتی وہ دروازہ کھولنے لگی تھی جب طُوبہ کی آواز اسکے کانوں میں پڑی وہ وہیں رک گئی ۔۔۔ اسکے بعد اویس کی آواز نے اسے ہلنے ہی نہیں دیا۔
_____________
اویس نے فون کر کے اپنے مینجر خالد کو قاضی کا اور سہیل کو نکاح نامے کا فوری انتظام کرنے کو کہا ۔۔۔ ساتھ ہی بسمہ کے گھر کا ایڈریس سینڈ کر دیا ۔۔۔ اگلے ایک گھنٹے میں خالد قاضی صاحب اور سہیل نکاح نامے کے ساتھ وہاں موجود تھے ۔۔۔ اویس سے قول و اقرار کے بعد عالیہ بیگم اور خضر صاحب نکاح نامہ بسمہ کے پاس لے کر آئے جسے طُوبہ نے دوپٹہ سے اچھی طرح چھپا دیا تھا اور اسکے ساتھ ہی بیٹھی تھی ۔۔۔ بسمہ کو نہیں پتا چل رہا تھا کہ اسکے ساتھ کیا ہو رہا ہے ۔۔۔ کب اسکے پاس نکاح نامہ لایا گیا کب اس نے سائن کیے اسے نہیں پتا ۔۔۔ بس اتنا علم تھا کہ وہ اب بسمہ سیف سے بسمہ اویس بن چکی ہے ۔۔۔ اسکا دماغ بالکل سن تھا۔
______________