6۔جولائی 2017ء کی صبح دائمی مفارقت دینے والے اپنے فطین،سعادت مند اور وفا شعار نو جوان بیٹے سجاد حسین کے نام۔تم نے میرے کتب خانے میں بکھرے اورا ق کے پلندے سے میری تخلیقی تحریریں اور تنقیدی و تحقیق مضامین اور اشارات تدریس تلاش کیے ۔انھیں اپنے جدید ترین کمپیوٹر ( لیپ ٹاپ )پر کمپوزکیا،یو ایس بی میں محفوظ کیا اور اِن کی طباعت کی تمنا اپنے دِل میں لیے اچانک عدم کی بے کراں وادیوںکی جانب کُوچ کر گئے ۔ہمارے خواب آہ و فغاں کرتے ہیں کہ اجل کے بے رحم ہاتھوںنے مرکزِ تعبیر ہی چھین لیا۔ تمھاری دائمی مفارقت کے صدمے کے بعد تزکیہ ٔنفس کی خاطر تعزیتی مضمون،کہانیاں اور کتابوں پر تبصرے لکھتا رہتا ہوں ۔بچھڑنے والوں کی یادوں پر مبنی مضامین کی یہ تصویر دیکھ کر دِل تھام لیا کہ صاحبِ تصویر تو تمھاری طرح دائمی مفارقت دے گئے ۔تمھارے جانے کے بعدفضا میں سمے کے سم کے ثمر عجب گُل کھلایا کہ آب ِ رواں نے شعلۂ جوالا کی صورت اختیار کر لی اور آستین کے سانپ پھنکارنے لگے۔اس عالم میں میرا کوئی پرسان ِ حال نہیں ۔اللہ کریم تمھیں جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ہم الم نصیب جگر فگاروں کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ میری بہو کا بھیس بنا کر آنے والی طالبہ تمھارا کمپوز کیا ہوا ’’دکنی زبان اور موجودہ اردو زبان کے افعال کا تقابلی جائزہ ‘‘ اپنی سندی تحقیق کے لیے سرقہ کر کے اپنے حقیقی رُوپ میں سامنے آ گئی ہے۔ میری تدریسی زندگی کے وہ تمام نوٹس جنھیں تم نے دن رات ایک کر کے اپنے لیپ ٹاپ اور یو ایس بی میں محفوط کیا تمھارے سوئے عدم جاتے ہی میری بہو کا بھیس بنا کر آنے والی چرببہ ساز سارق نے بروٹس کے رُوپ میں ہاتھ کی صفائی دکھا کر غائب کر دئیے ۔ٹیوشنیں پڑھا کر تم نے جو جدید ترین لیپ ٹاپ ،یو ایس بی ،ڈیجیٹل کیمرہ ، میموری کارڈ ،ویب کیم ، گھڑی اورپر نٹر خرید ا تھا سب کچھ اسی سسلین مافیا نے پُر اسرا نداز میں لُوٹ لیا۔تمھاری پس انداز کی ہوئی رقم سمیت سب کچھ محافظہ ٔ رومان مصبہا بنو اور تفسہہ نے اُڑا لیا ۔ ٹھگوں کے دشت سے آنے والے فصلی بٹیرے دانہ چُگ کر اُڑ گئے ہیں۔ تمھاری محنت رنگ لائی وہ تخلیق ِ ادب سے متعلق مواد جو تم گوگل ڈرائیو میں محفوظ کیاتھا وہ ہمیں سے مِل گیاہے ۔میر ی دعا ہے اللہ کریم تمھیں جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ہمیں صبر جمیل عطا فرمائے ۔
فقیر
غلام شبیر
آہٹ سی کوئی آ ئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
سایہ کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
صندل سی مہکتی ہوئی پُر کیف ہوا کا
جھونکا کوئی ٹکرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
اوڑھے ہوئے تاروں کی چمکتی ہوئی چادر
ندی کوئی بَل کھائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
جاںنثار اختر (1914-1976)