کس طرح کرلو کسی سے محبت
مجھے اپنے سوا کوئی اچھا نہیں لگتا
جان کیا ہوا موڈ خراب ہے تیرا جیا لاونج میں دعا کی گود میں سر رکھے لیٹی ہوئی بولی
تیرے بغیر میرا دن بے حد گندا گزرا ہے دعا منہ بناتی ہوئی بولی ۔۔۔۔۔۔
تمہارے بھائی نے ہی گھٹیا پن کیا ہے ۔۔۔ جیا کو پھر حمدان پر غصہ آیا ۔۔۔۔
چھوڑ نہ ۔۔۔۔۔۔
ہممممم ۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ،شہیر ۔شاہنواز خانزادہ اندر اتے ہوئے بولے
وعلیکم السلام ۔۔۔۔۔ بڑے بابا ،بابا ۔۔ جیا شہیر خانزادہ کے گلے لگتی ہوئی بولی
وعلیکم السلام ۔چاچو بابا ۔۔۔۔۔ دعا شاہنواز خانزادہ کے گلے لگتی ہوئی بولی
ارے میرے گھر کی رونقوں کیا کیا آج ۔۔۔۔ شہیر خانزادہ دونوں کو لیے صوفے پر بیٹھے ۔۔۔
بڑے بابا میں نے اکاؤنٹ دیکھ لیا تھا آج آفس اکر اور اسکی فائل میں نے آپ کی ٹیبل پر رکھ دی تھی آپ اور بابا شاید میٹنگ روم میں تھے ۔۔۔۔ جیا شہیر خانزادہ کو بتاتی ہو بولی
جیا تین دن بعد آپ کی دوبارہ کلاسس سٹارٹ ہیں اب شکایت نہ آئے ۔۔۔۔۔ شاہنواز خانزادہ سنجیدگی سے بولے
بابا آپ کو مجھے پر یقین نہیں ہے میں پھلے دن سے کے رہی ہوں میں نے کچھ نہیں کیا ۔ نہیں کریں یقین میں نے اب آپ میں سے کسی سے بات نہیں کرنی ۔۔۔۔۔ جیا ناراضگی سے کہتی سیڑیاں چڑھنے لگی ۔۔
جیا یہاں آئیں ۔۔۔۔ خنسا بیگم کچن سے باہر آئی تو جیا کو ناراضگی سے جاتا دیکھ بلانے لگیں
خالہ جانی میں نے نہیں کرنی بات جیا نارضگی سے کہتی سیڑیوں پر ہی بیٹھ گی
خالہ کی جان خالہ کو یقین ہے یہاں آو ۔۔۔۔۔ خنسا بیگم پیار سے بلانے لگیں ۔۔۔
خالہ میں نے سچ میں کچھ نہیں کیا وہ تو جیا کہتی نیچے آنے لگی کے ایک دم روک گئی ۔۔۔۔کے حمدان اسکی بات کاٹتا ہوا بولا
اور ایک بار پھر جیا کے چہرے پر نہ گوری آ گی تھی اسکی حرکت پر ۔۔۔۔
السلام علیکم ماما کس بات پر یقین ہے آپ کو ۔۔۔۔۔۔ حمدان جیا کو جلاتا ماں کے گلے لگتا ہوا بولا
وعلیکم السلام ۔۔۔۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کی جیا نے کسی سے بدتمیزی نہیں کی ۔۔۔۔۔ خنسا بیگم یقین سے بولیں
آپا اسنے کی ہوگی تب ہی تو کیا تھا سسپینڈ خدیجہ بیگم صوفے پر بیٹھتی بولی
بلکل خالہ ۔۔۔ حمدان کہتا خدیجہ بیگم کے گود میں سر رکھ کے لیٹ گیا
نہیں ہماری جیا کر نہیں سکتی شہیر خانزادہ بھی بولے
ہاں اور ان پروفیسر سے تو جیا نے کبھی بات ہی نہیں کی
دعا کیسے پیچھے رہتی جھٹ جیا کے پاس آتی بولی
میں فریش ہوکے آتا ہوں تب تک آپ جیا خانزادہ کو سمجھایں کی اب ایسی حرکت نہ کرے ہمدان کہتا جیا کے سامنے سے گزرا
سنو خانزادہ جیا آہستہ آواز میں بولی کی کوئی متوجہ نہ ہو اور دعا کے علاوہ کوئی بھی اتنا قریب نہیں تھا
حمدان روکا تھا مگر پلٹا نہیں تھا
تم نے جو اپنی خوش فہمی کا سمندر آباد کیا ہے اس میں ڈوب کر تم مر کیوں نہیں جاتے ۔۔۔۔ جیا کاٹ کھانے لہجے میں بولی
ڈیر جیا خانزادہ اگر میں مر گیا تو تمہیں کون ماریگا یہی سوچ کے میں نہیں مارتا حمدان کہتا سٹی بجاتا اوپر نکل گیا (اوپر سے۔ مراد کمرے میں )
کمینہ۔۔۔ تمہیں تو میں چھوڑونگی نہیں گزار لو آج کی رات کل کی صبح میری ہے تمہاری زندگی حرام نہ کی تو کہنا جیا غصے سے بولی
جیری کیا کرنے والی ہے تو دعا جیا کو سامنے کرتی ہوئی بولی
تیرے بھائ کو ٹھیک کرنے والی ہوں جیا ناک پر سے مکھی اڑھاتی ہوئی بولی ۔۔۔
جیری ۔۔۔۔ نہ کر جانے دے نہ ۔دعا منت بھرے لہجے میں بولی
جان تجھے پتا ہے نہ بدلہ تو میں لیکے رہتی ہوں اب تو کل کا انتظار کر میں چلی سونے سب کو کہ دینا مجھے بھوک نہیں ہے کل صبح ڈٹ کر ناشتہ کرونگی جیا کہتی اپنے کمرے میں چلی گی
یا اللّه رحم کرنا طوفان آیے گا کل دعا کہتی موڑ کر چلی گی
تماشہ کرو نشے میں کیا رکھا ہے ********
************************
جیا جیا دروازہ کھول یار۔۔ دعا کی آواز سنتے ہی اسنے اٹھ کر دروازہ کھولا تھا
کیا کیا ہوا سب ٹھیک ہے نہ ۔۔۔ جیا دعا کو ہربڑاتا دیکھ بولی
کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے یار اور تو یہاں سو رہی ہے نیچے ہنگامہ ہو رہا ہے چل اب جلدی دعا دروازے سے ہی جیا کا ہاتھ پکڑے لے جانے لگی ۔۔۔۔
صبر فریش تو ہونے دے ایک منٹ روک میں آتی ہوں ریلکس ہوکے یہاں بیٹھ جیا دعا کو بیڈ پر بیٹھا کر فریش ہونے چل دی تھی ۔۔۔۔۔۔
ہاں چل اب جیا ڈریسنگ ٹیبل سے ہیر بینڈ اٹھا کر کہتی ہوئی بولی
چل دونوں چلتی نیچے آئی ۔۔۔۔۔ جیا نے آنکھیں اوچکا کر دعا سے پوچھا بدلے میں دعا نے بھی کندھے اوچکا دیے
منظر کچھ یوں تھا کی شہیر خانزادہ حمدان کے سامنے کھڑے تھے اور شاہنواز خانزادہ حمدان کے برابر میں جب کے خنسا بیگم سر پکڑ کر صوفے پر بیٹھی تھیں اور خدیجہ بیگم ہاتھ میں پانی کا گلاس پکڑے پاس بیٹھی تھیں
جیا نے آگے بڑھ کر نیچے سے تصویریں اٹھائیں!
تصویر دیکھ کے ایک پل کے لیے اسکی آنکھوں میں چمک آئی تھی
یہ سب کیا ہے جیا حمدان کی طرف دیکھتی ہوئی بولی
تم چپ کر جاؤ حمدان غصے سے بولا
کیوں چپ کر جاؤں ہاں یہ تصویریں کیا ہے یہ سب جیا تصویریں اٹھا کر سامنے ٹیبل پر پھنکتی بولی
بابا میرا یقین کریں یہ جھوٹی تصویریں ہیں حمدان بے بسی سے بولا
یہ نتاشہ خلیل ہے ڈی یس پی کی بیٹی اور آپ کو یاد ہے بڑے بابا اپ کچھ دن پھلے اخبار میں نیوز پڑھ رہے تھے کی نتاشہ خلیل نے خود خوشی کرنے کی کوشش کی کسی لڑکے کی خاطر مگر لڑکے کا نام منظر عام پر نہیں آیا تھا جیا بتاتی شہیر خانزادہ کے پاس آ روکی
ہاں مجھے یاد ہے بیٹا ۔۔۔ شہیر خانزادہ بولے
حمدان ۔تمہیں اگر اتنی ہی پسند تھی تو کہتے ہم تمہاری شادی کروا دیتے ۔۔۔۔۔۔ خنسا بیگم بھی غصے سے بولی
آپ لوگوں کو کیوں سمجھ نہیں آ رہی یہ تصویریں نکلی ہیں میرا کوئی رشتہ نہیں ہے اسکے ساتھ حمدان چلاتا ہوا بولا ۔۔۔۔۔۔۔
یہ تو تم جھوٹ کے رہے ہو جیا کہتی سامنے بیٹھ گی
کیا مطلب ہے تمہارا سب کو پتا ہے میں کبھی ایسے لوگوں میں نہیں گیا جو ڈرنک کرتے ہیں یہ لڑکیوں کے پیچھے ہوتے ہیں میرا کسی کے ساتھ کوئی ریلیشن نہیں ہے میرا کردار کبھی ایسا نہ تھا اور نہ ہے ۔۔۔۔۔۔ کیا کیا نہ تھا حمدان کے لہجے میں غصہ بے بسی ۔۔۔۔۔۔
ہاں وہ تو نظر آ رہا ہے جیا طنزیہ نظرروں سے تصویروں کی طرف اشارہ کرتی ہوئی بولی
تم ۔۔۔۔ابھی حمدان کچھ کہتا کی جیا اسکی بات کاٹتی ہوئی بولی
ایک مہینے پھلے میں نے خود ایسے تمہارے کیبن سے نکلتے دیکھا ہے اور میرے ساتھ دعا نے بھی دیکھا تھا
بتا دعا دیکھا تھا نہ جس دن بڑے بابا کی برتھ ڈے تھی اور میں وش کرنا بھول گی تھی پھر تو اور میں یونیورسٹی سے ڈائریکٹ آفس گے تھے ۔۔۔ جیا حمدان کو کہتی دعا کو بولی
ہاں میں نے دیکھا تھا ۔۔۔ مگر ہم دونوں نے کچھ خاص نوٹ نہیں لیا تھا اس بات کا دعا سر ہلاتے بولی
اور سچ تو یہ تھا ہی کیوں کی جیا نے نتاشہ کو تب ہی دیکھا تھا اور اس تک پوھنچی تھی
یہ میرے پیچھے پڑی ہے میں اسکے نہیں حمدان چیخ کر بولا
بس بہت ہو گیا ایک بات یاد رکھنا حمدان یہ عزت نام ہم نے بہت محنت سے کمایا ہے اگر اس پر ایک حرف تک آیا تو اچھا نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔ شہیر خانزادہ بے انتہا سخت لہجے میں بولے ۔۔۔۔۔
حمدان غصہ کنٹرول کرتا اپنے روم میں چلا گیا اور اتنی تیز دروازہ بند کیا کے پورے گھر میں خاموشی چھا گی تھی
بھائ جان کیا پتا ہمدان سچ کے رہا ہو شاہنواز خانزادہ حمدان کی فیور میں بولے ۔۔۔۔۔
ہاں حمدان کیسا ہے ہم سب کو پتا ہے خدیجہ بیگم بھی بولیں ۔۔۔۔۔۔
مائنڈ فریش کریں پھر ناشتہ کرتے ہیں ہمیں یقین ہے اپنے بیٹے پر شاہنواز خانزادہ بولے ۔۔۔۔۔۔
چلیں بس چھوڑیں بھائی جان آپا آپ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے خدیجہ بیگم بولیں
چلو ۔۔۔۔۔۔۔۔ خنسا بیگم کہتی اٹھ گئی
ٹیبل پر بھی حمدان نہ آیا تھا خاموشی سے ناشتہ کرکے سب اپنے اپنے کام میں لگ گے تھے
مگر حمدان کمرے سے نہ نکلا تھا ۔۔
***********************