ایک دفعہ ایک کسان جنگل سے گزر رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک گھونسلہ جس میں ایک انڈا بھی موجود ہے زمین پر گرا پڑا ہے۔ وہ انڈا عقاب کا تھا لیکن شاید کسی ناگہانی آفت کی وجہ سے وہ گھونسلے کے ساتھ زمیں پر آ گِرا تھا اس کسان نے سوچا کہ اگر یہ انڈا یونہی پڑا رہا تو شاید کسی جنگلی جانور کے پاوں تلے آ کر کچلا نہ جائے اس نے وہ انڈا اٹھایا اور ساتھ لئے اپنے گھر میں موجود مرغی کے انڈوں کے ساتھ رکھ دیا اور چند دن گھر میں رہنے کے بعد کسی کام سے اُسے کچھ ہفتوں کے لئے شہر سے باہر جانا پڑا۔ جب وہ کام سے فارغ ہو کر واپس آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ان انڈوں سے بچے نکل چکے تھے۔ اور چوں کہ عقاب کے بچے کے اس دنیا میں آنے کے بعد سے وہ ایک مرغی اور اس کے بچوں سے گھرا رہا تو وہ بھی ان مرغی کے بچوں کی طرح ہی برتاؤ کرتا تھا۔
لیکن چوں کہ وہ بچہ مرغی کے بچوں سے الگ تھا۔ اس کی شکل و صورت، اس کی آواز اور اس کا حجم ان سے مختلف تھا تو مرغی اور دوسرے بچوں کے ساتھ رہنے میں اسے مشکل پیش آتی تھی۔ ایک دن وہ مرغیوں کے ڈربے سے باہر آیا تو اس نے دیکھا کہ ایک اسی کی طرح کا بہت بڑا پرندہ فضا میں محوِ پرواز ہے۔ تو عقاب کا بچہ جس نے مرغیوں جیسی تربیت پائی تھی۔ اپنے جیسے پرندے کو دیکھ کر حیران ہوا اور زمین پر دوڑتے ہوئے اس کا تعاقب کرنے لگا۔ اسی تعاقب کے دوران اس نے اپنے پر پھڑپھڑائے اور اپنے ہم شکل کی طرح فضا میں پرواز کرنے لگا۔
دوستو! ہم بھی جانے انجانے میں مرغیوں کے بچوں سے گھرے ہونے کی وجہ سے اپنی صلاحیات سے نا آشنا ہیں۔ وہ مُرغیاں یا مُرغ یہ نہیں جانتے کہ آپ کی صلاحیات کیا ہیں؟ آپ کی وقعت کیا ہے؟ میں آپ کو لاکھوں لوگوں کے نام بتا سکتا ہوں جن کو اِن مُرغیوں نے دھتکار کر پھینکا اور آج وہی مُرغیاں ان کا نام جپتی نہیں تھکتیں۔
ایک دِن ایک لڑکا سکول سے جلدی اپنے گھر پہنچا اور اپنی والدہ سے کہنے لگا کہ ’اماں جان! میرے استاد نے یہ ایک خط مجھے دیا اور کہا ہے کہ جلد سے جلد یہ خط آپ تک پہنچاؤں۔ ‘ اس بچے کی والدہ نے وہ خط کھولا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ بچے کے پوچھنے پر کہ اس خط میں کیا لکھا ہے تو انہوں نے بآوازِ بلند وہ خط پڑھا،
’آپ کا بیٹا بہت ہی عقلمند ہے۔ یہ سکول بہت چھوٹا ہے اور ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ ہم اس کو اچھی تربیت دے سکیں۔ برائے مہربانی آپ خود اس کو پڑھائیں۔ ‘
اس کے کئی سال بعد ان کی والدہ کی وفات کے بعد وہی بچہ دنیا کے سب سے بڑے موجد (INVENTER) کے طور پر سامنے آیا۔ ماں کی وفات کے بعد ایک دن وہ گھر میں کچھ ڈھونڈ رہا تھے تو اسے الماری میں ایک خط پڑا ہو ملا۔ تو اس نے کھول کر پڑھنا چاہا۔ جب اس موجِد نے وہ خط کھولا تو اس میں لکھا تھا۔
’آپ کا بیٹا دماغی طور پر بیمار ہے۔ اور ہم نہیں چاہتے کہ وہ آئندہ اس سکول میں آئے۔ ‘
یہ وہی خط تھا جو انہوں نے ایک دفعہ سکول سے جلدی واپس آ کر اپنی والدہ کو دیا تھا۔ یہ خط پڑھ کر وہ بہت روئے اور پھر اپنی ڈائری پر لکھا:
’تھامس اَلوَا ایڈیسن (Thomas Alva Edison) ایک دماغی طور پر پاگل بچہ تھا جس کو اس کی ماں نے اس صدی کا سب سے عقل مند اور ذہین شخص بنا دیا۔ ‘
یہ وہی شخص تھا جس نے بجلی پہ چلنے والا بلب بنایا تھا اور اس کی ایجادات کی کُل تعداد1249 ہے۔ یہ تو تھا تاریخ کا ایک ایسا سپوت جس نے اُس دور کے پھَنے خاں لوگوں کو غلط ثابت کیا۔ اب میں آپ کو اِس دور کی لاکھوں میں سے ایک مثال دیتا ہوں۔ ایک صاحب تھے ان کو سِٹی بنک آسٹریلیا میں نوکری ملی۔ اچھا گھر، اچھی گاڑی اور تنخواہ اتنی کہ پاکستان کے امیر طبقے میں اس کا شمار کیا جا سکتا ہے یعنی تقریباً دس پندرہ لاکھ روپے ماہانہ کماتا تھا۔ ہر چیز اچھی جا رہی تھی لیکن اس کو اپنی صلاحیات پہ یقین تھا تو اس نے کیا کیا؟ نوکری کے علاوہ شام کو ایک چھوٹا سا اپنا کاروبار شروع کر لیا۔ ابھی وہاں سے اچھی کمائی آنا شروع نہیں ہوئی تھی کہ ایک دن اس کے Boss نے بلایا اور کہنے لگا کہ
میں نے سُنا ہے کہ تم اپنا بزنس بھی کرتے ہو؟
جی ہاں! کرتا ہوں۔
تم نے SOP's پڑھے نہیں تھے۔ ان میں صاف صاف لکھا ہے کہ تم اپنا بزنس نہیں کر سکتے نوکری کے ساتھ ساتھ۔
کہنے لگا کہ سَر آپ کے پاس کوئی سفید صفحہ ہے۔ بنک کے مالک سے سفید صفحہ لے کر اس پہ استعفیٰ لکھ دیتا ہے۔ گھر آتے ہی بیوی سے کہا بنک کا گھر ہے، گھر خالی کر دو۔ ہمیں یہاں سے جانا پڑے گا۔ میں نے اپنے بزنس کے لئے نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔ بیوی نے سَر پکڑ لیا۔ کہ اتنی اچھی نوکری چھوڑ دی اور وہ بھی ایسے چھوٹے سے بزنس کے لئے۔
آج وہ بندہ پاکستان میں نمبر ون ہے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں۔ نام ہے ’سلیم غوری‘۔ NETSOL نیٹ سول کمپنی کا مالک ہے۔ آج سلیم غوری کے بنائے ہوئے سافٹ وئیر چائنہ استعمال کرتا ہے۔ جس ملک کی چیزیں ساری دنیا استعمال کرتی ہے وہ سلیم غوری کے بنائے ہوئے سافٹ وئیر استعمال کرتا ہے۔ اور ان کی کمپنی اس درجہ کمال کی ہے کہ مرسڈیز (MERCEDES) موٹرز جیسی بین الاقوامی کمپنی ’نیٹ سول‘ کی کلائنٹ ہے۔
خدا کے لئے خود کو پہچانو! ایک لمحے کے لئے اس بارے میں سوچئے کہ شاہین زمین پر پھُدَک پھُدَک کے چل رہا ہو۔ تم کہو بھیّا! تمہیں پرواز کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اور وہ کہے "نہیں نہیں! مجھے یونیورسٹی نے پڑھایا ہے کہ چلنا ہے تو ٹانگوں پہ ہی چلنا ہے، اڑنا نہیں ہے۔" آپ یقیناً ہنسیں گے۔ آج ہمارا بھی اسی شاہین جیسا حال ہے۔
’ اگر انسان کو فقط اپنی طاقت اور صلاحیت کا پتا ہو تو وہ انسان غلامی برداشت نہیں کر سکتا۔ سمجھئے اس بات کو کہ خدا نے آپ کو اس دنیا میں کامیاب ہونے بھیجا ہے۔ نوکری یا غلامی کرنے نہیں۔ ‘