فرض کیجئے کہ آپ گاڑی چلا رہے ہیں۔ گاڑی انتہائی خوبصورت ہے اس کے شیشے انتہائی صاف ہیں سڑک بہت ہی اچھی ہے آپ کا سفر بہت ہی پُر سکون چل رہا ہے۔ آگے دو راستے ہیں۔ ایک ویسا ہی راستہ جس پر آپ سفر کر رہے ہیں لیکن یہ ایک لمبا راستہ ہے اس کو چننے سے آپ منزل تک پورے وقت پر پہنچ جائیں گے۔ لیکن ایک دوسرا راستہ بھی ہے جو آپ کو آپ کی منزل پر وقت سے کچھ پہلے پہنچا دے گا اور لوگوں کی اکثریت اسی راستے پر گامزن ہے۔ لیکن اس راستے کی صرف ایک خامی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ ایک کچا راستہ ہے۔ اور ہر عام شخص کی طرح آپ وقت سے پہلے اپنی منزل پر پہنچنے کے لئے وہی چھوٹا راستہ چنتے ہیں اور سب جانتے ہیں کہ کچے راستے پر چلیں گے تو دھول تو اُڑے گی۔ آہستہ آہستہ وہ دھول اُڑتی رہے گی اور آپ کی گاڑی کی حالت خراب ہوتی رہے گی۔ اس راستے پر چلتے آپ ایک دو بار اپنی گاڑی صاف کریں گے لیکن پھر آپ اس دھول زدہ شیشے کے عادی ہو جائیں گے بالکل اسی طرح جس طرح عینک لگائے رکھنے والے ایک خاص مدت کے بعد یہ بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے عینک لگا رکھی ہے۔
چلیں ایک اور مثال سے سمجھاتا ہوں کہ اگر میں آپ سے کہوں کہ آپ نیلے، پیلے یا کسی بھی ایک رنگ کی عینک لگائیں تو آپ کو اس عینک سے دیکھنے پر ہر چیز اسی رنگ کی دکھائی دے گی جس رنگ کی آپ نے عینک پہن رکھی ہو گی۔ اور اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ یہ عینک آپ کو مسلسل ایک سال تک پہنے رکھنی ہے سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے کسی بھی جگہ یا کسی بھی وقت آپ یہ عینک نہیں اتار سکتے تو کچھ عرصے کے بعد آپ یہ بھول جائیں گے کہ آپ نے عینک پہن رکھی ہے اور پھر کچھ ماہ بعد آپ یہ بھی بھول جائیں گے کہ یہ دنیا اصل میں کیسی ہے؟ اور آپ کو ہر چیزاسی رنگ میں ہی دِکھے گی اور آپ اسی کو حقیقی سمجھیں گے۔
بالکل اسی طرح جب آپ پیدا ہوتے ہیں اس وقت سے لے کر جب تک آپ ہوش سنبھالتے ہیں تب تک آپ اسی خوبصورت گاڑی پر اور اسی پہلی سڑک پر ہوتے ہیں جو بالکل آرام دہ اور پر سکون سفر کے لئے ہے۔ جیسے ہی آپ نے ہوش سنبھالا آپ کے سامنے دو راستے رکھ دئیے جاتے ہیں ایک وہ جو پر سکون راستہ ہے اور جس کو چننے کے لئے آپ کا دِل فتویٰ دے رہا ہے کہ یہی صحیح راستہ ہے۔ اور ایک وہ راستہ جس پر بہت سے لوگ رواں دواں ہیں اور یہ ایک چھوٹا راستہ ہے۔ مگر یہ کچا راستہ ہے۔ لیکن چوں کہ سبھی لوگ اسی راستے پر گامزن ہیں تو آپ بھی وہی چن لیتے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس راستے پر چلنے کے آپ کو نقصانات کیا ہوں گے۔ یہ ضروری تو نہیں کہ جو لوگ اس راستے پر چل رہے ہیں ان کی منزل بھی وہی ہے جو آپ کی ہے۔ کیا پتا کہ وہ بھی آپ ہی کی طرح کسی اور کی دیکھا دیکھی اسی راستے پر چل رہے ہوں۔
اور کیا پتا کہ آپ کے ارد گرد لوگوں نے کسی رنگ کی عینک پہن رکھی ہو اور انہیں دنیا صرف اسی رنگ کی نظر آتی ہو۔ بعض اوقات ہم مشکل راستہ صرف اسی لئے چنتے ہیں کہ بہت سے لوگ اسی راستے پر رواں دواں ہیں اور اس لئے کہ یہ ایک چھوٹا راستہ ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ دوسرا راستہ پر سکون ہے، آسان ہے۔ پھر بھی ہم چھوٹا اور مشکل راستہ ہی کیوں چنتے ہیں۔ خاص کر اس وقت جب ہم یہ بھی جانتے ہوں کہ اس راستے پر آنے والی مشکلات کیا ہیں اور ہم ان کا سامنا کر بھی پائیں گے یا نہیں۔
ضروری نہیں کہ جس راستے پر سبھی چل رہے ہوں وہی راستہ صحیح ہو۔ جب آپ چھوٹے ہوتے ہیں تو آپ اٹھنے کی کوشش میں کئی بار گرتے ہیں۔ لیکن آپ ہار نہیں مانتے اور پھر اٹھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک دن آپ بغیر کسی سہارے کے اٹھنے اور چلنے لگتے ہیں۔ جانتے ہیں کیوں؟ کیوں کہ ہماری سوچ کا شیشہ نئی گاڑی کے شیشے کی طرح بالکل صاف ہوتا ہے۔ ہم اپنی ناکامی پر کسی کو موردِ الزام نہیں ٹھہراتے۔ ہم بہانے نہیں بناتے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ فرش گیلا نہ ہوتا تو میں نہ گرتا۔ یا اگر امی جان کی انگلی ہاتھ سے نہ چھوٹتی تو میں فرش پہ نہ گرتی۔ اسی لئے ہم کامیاب ہو جاتے ہیں۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے ارد گرد موجود لوگوں کی سوچ، ان کی باتیں اور ان کے حالات کی گرد اڑتی ہے اور ہماری سوچ کے شیشیوں کو دھندلا کر دیتی ہے۔ شروع شروع میں ہم اس سے دور جانے اور اس شیشے کو صاف رکھنے کی کوشش کرتے ہیں پھر آہستہ آہستہ ہم اس گرد کے عادی ہونے لگتے ہیں اور پھر ایک وقت وہ بھی آتا ہے جب ہم اس دھندلی نظر آنے والی سچائی کو ہی حقیقی سچائی مان لیتے ہیں۔
لیکن اگر آپ یہ کتاب پڑھ رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ دھندلی سچائی کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ اور یہ بہت آسان ہے۔ سچ اور جھوٹ کی تعریف کرتے ہوئے ہزاروں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں مگر ایک یہ واقعہ جو میں آپ کو بتانے جا رہا ہوں شاید یہ آپ کی الجھن کو دور کر دے گا۔
حضرت وابصہ بن معبد بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، میں چاہتا تھا کہ نیکی اور بدی(سچ اور جھوٹ) کی ہر چیز بابت (آج) آپﷺ سے پوچھ لوں اور وہاں صحابہ کا ایک مجمع تھا۔ ’میں آپﷺ کے اتنے قریب پہنچا کہ آپ کے گھٹنوں سے میرے گھٹنے چھونے لگے ‘۔ آپ نے فرمایا ’اے وابصہ، کیا میں تمہیں مطلع کروں کہ تم مجھ سے کیا پوچھنے آئے ہو یا تم مجھ کو بتاؤ گے؟ ‘ میں نے جواب دیا ’اے اللہ کے نبی! آپ فرمائیے۔ ‘آپ نے فرمایا، ’تم مجھ سے پوچھنے آئے ہو کہ نیکی اور بدی کیا ہے ‘؟ میں نے کہا، ’جی ہاں ‘۔ تو آپﷺ نے اپنی تین انگلیوں کو یکجا کر کے میرے سینے سے کچوکا لگایا اور فرمایا، ’وابصہؓ! نیکی وہ ہے جس پر دِل مطمئن ہو اور تیرے نفس کو قرار آئے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تجھے اس کے بارے میں تردُّد ہو، خواہ لوگ تجھے (جواز کے طور پر) فتویٰ دیتے رہیں۔ ﴿ مسند احمد: 18006﴾
تو ابھی اپنی سوچ سے اس گرد کو صاف کیجئے۔ اپنے ذہن کو پُر سکون کیجئے۔ ساری پریشانیوں کو ایک طرف رکھ کر سوچئے کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ اور پھر اپنے اس فیصلے پر اپنے دِل سے فتویٰ لیجئے۔ ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ اب بھی سب کچھ بدل سکتا ہے۔ سوچ کا شیشہ جتنا صاف اور شفاف ہو گا منزل اتنی ہی قریب اور واضح ہوتی جائے گی۔
ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا، جتنی جلدی ہو سکے اپنی سوچ کے شیشے کو صاف کیجئے۔