آج کل ماں باپ کی زندگی کا سب سے اہم مسئلہ اگر پوچھا جائے تو 98 فیصد ماں باپ یہی کہیں گے:
اولاد کی خواہش تو پوری ہو گئی۔ لیکن پتا نہیں! آج کل کے بچوں کو کیا ہو گیا ہے۔ نافرمان ہیں، ہماری بات نہیں مانتے، بے ادب ہیں، ہم تو ایسے نہیں تھے وغیرہ وغیرہ۔
اور وہ بالکل صحیح ہیں۔ موجودہ دور کی بدقسمتی کہیں یا ماں باپ کی بے پروائی، کہ آج کل کے بچوں کی زندگیاں ادب و احترام سے خالی ہیں۔ بڑے چھوٹے کی کوئی تمیز نہیں رہی۔ حقیقت سے بہت دور رہنے والے یہ بچے اور نو جوان لڑکے لڑکیوں کی تمام خواہشات دولت، شہرت اور لذّتِ وجودِ نفس کے گرد گھومتی ہیں۔ دین سے دوری، دنیا سے محبت، دولت کی خواہش، شہرت کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کا جذبہ، لذّتِ وجودِ نفس کے لئے حیا و شرم کی تمام حدود کو پار کر جانے کا جنون، آج کے نوجوانوں کی رگوں میں خون سے بھی زیادہ ہے۔
اس سوال کا جواب پانا نہایت اہم اور ضروری تھا لیکن آج کل کے ماں باپ بھی اپنے بچوں کی زندگیاں بہتر بنانے کی خواہش دِل میں لئے دولت کمانے میں اِس قدر مصروف ہیں کہ اُن کو بھی اس سوال کا جواب پانے کی فُرصت نہیں۔ اور ہم چوں کہ نوجوان ہیں، اس لئے ہم فضولیات سے لطف اندوز ہونے میں اِس قدر مصروف ہیں کہ یہ سوال اُٹھانا تو کُجا، اس بارے میں سوچنا بھی حرام سمجھتے ہیں۔ لیکن اسی مصروف، ادب، احترام اور اِخلاق سے عاری دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنی ذمہ داریاں پوری دِل جوئی سے نبھا رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک عظیم استاد سے مجھے علم حاصِل کرنے کا موقع مِلا۔ جنھوں نے بہت ہی خوبصورتی سے اس کا جواب ہم تمام تلامذہ تک پہنچایا۔ اور حضور نبی کریمﷺ کے اُس فرمانِ عالیشان کے تحت کہ جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے:
’(اے لوگو) تم میں سے جو یہاں موجود ہیں، میرا پیغام اُن لوگوں تک پہنچا دیں، جو یہاں موجود نہیں ‘
کے مصداق میں اپنے استاد محترم کی گفتگو( کا کچھ حصہ جو اس موضوع سے تعلق رکھتا ہے )مختصراً آپ تک پہنچاؤں گا اور پھر کچھ واقعات آپ کے سامنے پیش کروں گا، ہو سکتا ہے کہ اس سے آپ کو کچھ فائدہ ہو۔
تزکیہ نفس کے موضوع پر جب ہم نے یہ سوال استادِ محترم جناب ریاست علی سے کیا تو انہوں نے اس کا جواب کچھ یوں بیان فرمایا:
انسان جب دنیا میں آتا ہے تو پاک اور معصوم ہوتا ہے۔ فطرتِ سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے۔ انسان پیدائشی طور پر گنہ گار، خطا کار یا چور ڈکیت یا بد اعمال نہیں ہوتا۔ ماحول، تربیت اور معاشرتی اثرات اس کو نیکی یا بدی کی طرف راغب کرتے ہیں۔
اسی بات کی طرف قرآنِ پاک میں اشارہ فرمایا گیا ہے:
قرآن پاک میں اِرشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے پھر یہ اس کے والدین ہیں جو اسے یہودی نصرانی اور مجوسی بنا دیتے ہیں۔
مزید تفصیل میں جاتے ہوئے استادِ محترم نے بیان فرمایا کہ انسان کی زندگی کے تین مراحل بہت اہم اور ضروری ہیں جس میں اسے تین دنیاؤں سے گزرنا پڑتا ہے۔
عالمِ ارواح
یہ وہ عالَم (دنیا ) ہے جس میں ہم سے یہ وعدہ لیا گیا تھا کہ کسے ہم میثاقِ اَلَست کہتے ہیں، یہاں انسان کی خوراک اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ذکر تھا۔ ذکر سے فکر آتی ہے، فکر محبت اور چاہت کو جِلا بخشتی ہے اور جب چاہت مکمل ہوتی ہے تو معرفت ملتی ہے۔ جب ہمیں عالمِ ارواح میں معرِفت مل گئی تو اللہ تعالیٰ نے سوال کیا اَلَستُ بِربِکُم کیا میں تمہارا رب ہوں؟ تو تمام انسانوں نے جواب دیا قالو بلیٰ کہ ہاں (باری تعالیٰ! تو ہمارا رب ہے )۔
یہ وعدہ اس لئے لیا گیا تا کہ روزِ محشر کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم تو بے خبر تھے۔ اور یہ وعدہ لینے کے بعد امتحان کے لئے کہ ہم اپنے اس وعدے کا کتنا پاس رکھتے ہیں۔
عالمِ مادہ
یہ اندھیری دنیا ہے۔ روح کو ایک جسم میں قید کر دیا جاتا ہے۔ کئی پردوں میں چھپی یہ ننھی سی جان دنیا و ما فیہا سے بے خبر کئی پردوں میں موجود ہوتی ہے یہاں اس کی خوراک والدین کے نظریات ہوتے ہیں۔ ماں جو کھاتی ہے، جو پیتی ہے، جو بولتی ہے، جو سنتی ہے حتی کہ ماں کا ہر عمل اس کی خوراک ہوتا ہے۔
عالمِ دنیا
یہ وہ دنیا ہے جہاں ہمیں اپنے آپ کو ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ہم کون ہیں؟ کیا ہیں؟ ہمارا مقصد کیا ہے؟ اور ہماری منزل کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔
خیر! اب آپ کو میں کچھ دنیاوی حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے ایک ایسی قوم سے روشناس کرواتا ہوں جو دنیا کے 90 فیصد بزنس، 85 فیصد حکومتوں اور 100 فیصد میڈیا پر قابض ہیں۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جن کا اپنا کوئی ملک نہیں ہے۔ ہاں! اسرائیل نامی، پاکستان سے 38 فیصد چھوٹے سے علاقے کو اپنا ملک بتاتے ہیں۔ اس کے پیچھے کیا سازش ہے اس پر کئی کُتب لکھی جا چکی ہیں اور کئی اور بھی لکھی جا سکتی ہیں۔ خیر وہ ایک الگ موضوع ہے۔
یہودی مذہب سے تعلق رکھنے والی عورت جب حاملہ ہوتی ہے تو اس کا رہن سہن مکمل طور پر بدل جاتا ہے وہ خشک میوہ جات کھاتی ہے، کیوں کہ یہ مانا جاتا ہے کہ اس سے دماغ تیز ہوتا ہے ماں اور بچے دونوں کا۔ ماں کو دنیا کے جھمیلوں سے مکمل طور پر الگ کر دیا جاتا ہے۔ اچھے کام کرتی ہے، اچھی کتابیں پڑھتی ہے۔ اور میاں بیوی بیٹھ کر مشکل سوالات کے جوابات ڈھونڈتے ہیں۔ تاریخ، نفسیات، ریاضی کے سوالات، فلسفہ کے سوالات اور بہت سے سوالات پر غور و خوض کرتے ہیں اور بآوازِ بلند کرتے ہیں۔ اور یہ سائنسی طور پر فائدہ مند ثابت ہو چکا ہے۔
اور بچہ پیدا ہونے کے بعد جب ہم اپنے بچوں کو کارٹون اور ڈراموں جیسی فضولیات دکھا رہے ہوتے ہیں، تو اُن کے بچے گھُڑ سواری، تیر اندازی اور دوڑ میں مہارت حاصل کر چکے ہوتے ہیں کیوں کہ اس سے بچے نشو و نما پاتے ہیں۔ وہ اپنے بچے کو گِرنا سکھاتے ہیں اور گِر کر اُٹھنا سکھاتے ہیں۔ اور جب وہ بچہ 14 سال کا ہوتا ہے تو وہ 21 سالہ امریکی بچے اور 30 سالہ پاکستانی نوجوان سے زیادہ ذہین، عقل مند، فرماں بردار ہوتا ہے۔
شیخ سعدی جب چار سے پانچ سال کے تھے تو آپ کے والد آپ کو تہجد کے لئے اٹھا یا کرتے تھے۔ جب شیخ سعدی اور آپ کے والد وضو کر رہے ہوتے تھے تو باقی اہلِ خانہ سو رہے ہوتے تھے۔ ایک دن شیخ سعدی نے والد گرامی سے سوال کیا کہ
ابا جان! یہ سب سوئے رہتے ہیں۔ اللہ کی عبادت کیوں نہیں کرتے؟
تو آپ نے جواب دیا کہ
وہ تم سے بہتر ہیں کم از کم کسی کی غیبت تو نہیں کر رہے۔
یہ ہوتی ہے تربیت ایک طرف تو تہجد سے قرب الٰہی حاصل کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور پھر غیبت سے دور رہنے کا سبق بھی عطا فرماتے ہیں۔
علامہ محمد اقبالؒ بچپن میں جب قرآن پڑھتے تھے تو آپ کے والدِ بزرگوار فرماتے ہیں کہ قرآن اس طرح پڑھو کہ جیسے تم پر نازِل ہو رہا ہو۔ اور تربیت میں ایسی احتیاط کہ کاروبار سے کمائے ہوئے پیسے کو اقبال پر خرچ نہیں کرتے۔ کہ انتہائی احتیاط کے باوجود کہیں حرام کا کوئی لقمہ اس میں شامل نہ ہو۔ مزدوری کر کے بکری خریدی جاتی ہے اور پھر اس کا دودھ اقبال کو پلایا جاتا ہے۔ حلال حرام کا اس قدر خیال۔
عبد الستار ایدھی کی والدہ انہیں دو آنے جیب خرچ دیتی ہیں اور ساتھ تلقین فرماتی ہیں کہ ایک آنہ خود خرچ کرنا اور ایک آنہ کسی مسکین بچے کو دینا۔ ایسے کی جاتی ہے تربیت ان بچوں کی جو ماں باپ کے فرماں بردار، مالِ حلال کمانے والے، دردِ انسانیت رکھنے والے اور ولی اللہ بنتے ہیں۔
دنیا کی رنگینیوں میں مد ہوش انسان آج خدا سے گِلا کرتا ہے کہ ایسا کیوں؟ ایسا کیوں نہیں؟ لیکن شاید یہ بھول جاتا ہے خدا نے ہزاروں راستے دیے ہیں وہ خود ہی ان سے غافل ہوا پھرتا ہے۔
اس لئے ذرا نہیں، پورا سوچئے!