ارفع کریم
بادلوں میں لپٹی ، جنوری کی ایک اداس سرد رات ، چاند ستاروں کی روشنی کو گہنا رہی تھی لیکن کیا معلوم تھا کہ یہ اندھیرا زمیں پر بسنے والے ایک درخشاں ستارے کو بھی نگلنے کو تیار ہے۔ اس ستارے نے دنیا بھر میں پاکستان کا نام ایسے وقت میں روشن کیا جب ارض ِ پاک کو عالمی سطح پر دہشت گرد ، دقیانوسی اور نجانے کن القابات سے یاد کیا جارہا تھا ۔ مگر محض نو برس کی کم عمری سب سے بڑی سو فٹ ویئر کمپنی مائیکرو سافٹ کا آئی ٹی امتحان پاس کر کے ارفع کریم ، نہ صرف دنیا کی کم عمر ترین آئی ٹی پر و فیشنل کہلائی بلکہ اس نے پاکستان کا نام بھی ہر سو روشن کیا ۔ شاید وہ ہمیشہ سے جانتی تھی کہ اس کے پاس وقت بہت تھوڑا ہے ، اسی لئے اس چھوٹی سی عمر میں وہ ایسا کارنامہ سر انجام دے گی جو ایک عام بندہ کر گزرنے میں کئی برس لگا دیتا ہے ۔ محض سو لہ برس کی عمر میں وہ اس دنیا کو داغ ِ مفارقت دے گئی مگر بے شک اس باصلاحیت ، ذہین فطین اور دوسروں کے لئے مشعل پاکستانی کو دنیا ایک طویل عر صے تک یاد رکھے گی ۔
ارفع کریم کا تعلق فیصل آباد کے ایک گائوں رام دیوالی سے تھا ، جبکہ اس کی پیدائش 1995ء میں ایک پاک فوج کے لیفٹیننٹ کر نل ( ر) امجد کریم رندھاوا کے ہاں پیدا ہوئی ۔ بچپن سے ہی پڑھائی میں بہترین ارفع کو کمپیوٹر سے خصو صی دلچسپی تھی ، اس نے اپنی عمر کے دوسروں بچوں کی مانند کمپیوٹر کو محض گیمز کھیلنے یا چیٹنگ کے مقصد کے لئے استعمال نہیں کیا بلکہ اس کے سو فٹ ویئرز اور پرو گرامنگ میں خصو صی دلچسپی دکھائی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے 2004ء میں مائیکرو سو فٹ کی جانب سے لئے گئے ٹیسٹ میں کامیابی حاصل کی اور یوں وہ نو برس کی عمر میں مائیکر و سوفٹ سر ٹیفائیڈ پرو فیشنل کہلائی۔اس کی قابلیت نے دنیا کے کمپیوٹر جینیئس اور مائیکرو سو فٹ کے مالک بل گیٹس کو بھی بے حد متا ثر کیا اور انہوں نے ارفع کو امریکہ آکر اپنی کمپنی کے ہیڈ وکارٹر کے دورے کی دعوت دی ۔ اُس کے کارنامے کی گو نج عالمی میڈیا میں سنائی دی ۔ 2005ء میں پاکستانی وزیر اعظم شو کت عزیز نے ارفع کی خدمات کے صلے میں اس کو سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں فاطمہ جناح گو لڈ میڈل عطا کیا ۔ اسی بر س صدر ِ پاکستان پرو یز مشرف نے بھی اس مو نہار کو پرائیڈ آف پر فارمنس سے نوازاجو پو رے ملک کی جانب سے اس کو خراج تحسین تھا ۔
ارفع کریم نے بین الاقوامی فورمز پر بھی پاکستا ن کی نمائندگی کی ۔ اس کو دبئی کے آئی ٹی پرو فیشنلز نے خصو صی دعوت پر دئی بلا یا جہاں اس کے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام کیا گیا ۔ اس میں پاکستان سفیر نیبھی خصو صی طور پر شر کت کی اور صدر پاکستان کی جانب سے نیک خواہشات کا پیغام پہنچایا ۔ بعد ازاں اس کو کئی میڈلز اور ٹرافی دی گئیں ۔ جبکہ ارفع کریم کو خصوصی طور پر دبئی فلائنگ کلب میں طیارہ اڑانے کی دعوت دی گئی ۔ اس وقت وہ محض دس
بر س کی تھی ، اس کے نتیجے میں وہ اپنا پہلا فائیٹ سر ٹیفکیٹ حاصل کر نے میں کامیاب رہی ۔ 2006ء ارفع کریم ایک دفعہ پھر مائیکرو سو فٹ کی دوت پر بار سلونا گئی جہاں اس نے ٹیک ایڈ ڈویلپمنٹ کانفرنس میں شر کت کی ۔ اس کانفرنش کے 5000شر کا میں وہ واحد پاکستانی تھی ۔
2011ء میں ارفع لاہور گرائمر سکول میں اے لیولز کے دوسرے سال میں تھی جب اس کو اچانک دل کا دورہ پڑا اور وہ کو مہ میں چلی گئی ۔ اس کو لاہور کے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال میں داخل کر وا یا گیا جہاں وہ 22دسمبر سے زیر علاج تھی ۔ ڈاکٹروں کی خصو صی ٹیم اس کے معالجین کے طور پر مققر تھی جبکہ وہ وینٹی لیٹر پر اپنی سانسیں کاٹ رہی تھی ۔ بل گیٹس نے ارفع کریم کے علاج میں خصو صی دلچسپی ظاہر کر تے ہو ئے امریکی ڈاکٹروں کی ایک ٹیم تشکیل دی جو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے اس کے علاج میں پاکستانی ڈاکٹروں کی معاونت کر رہی تھی ۔ 14جنوری کی دوپہر بل گیٹس نے ارفع کے والد کر نل رندھاوا کو فون کر کے اُ س کی فوری طور پر دبئی منتقل کر نے کی ہدایت کی جہاں امریکی ڈاکٹروں کی ایک ٹیم اس کے علاج کے لئے پہنچنے والی تھی ۔ مگر قسمت کو کچھ یو نہی منظور تھا کہ وہ اس چھوٹی سی عمر میں اپنی قابلیتوں کی خو شبوئیں بکھیر تی اس دنیا سے رخصت ہو گئی ۔ ارفع کا جنازہ لاہور کے کیو لری گرائو نڈ میں ادا کی گئی جس میں وزیر اعلی پنجاب سمیت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد نے شر کت کی ۔ آسماں بھی اس جواں سال مو ت پر اشکبار تھا اور زمیں بھی اس کے لئے دعا گو تھی ۔ آخر کار ارفع کریم کو اس کے آبائی گائوں رام دیوالی فیصل آباد میںمنوں مٹی تلے سپر د ِخاک کر دیا گیا ۔
پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت اور پاکستان کا ایک چہرہ یہ بھی ، جس دنیا بھر سے تحسین پائی ، صبح نو کا روشن ستارہ اچانک ڈو ب گیا ۔ اس سے بڑا نقصان کسی ملک و قوم کا کیا ہو سکتا ہے ۔ وہ قوم کی ایک ایسی بیٹی تھی جو روشن مستقبل کی اُمید تھی ۔ ھکومتی سطح پر ارفع کریم کے مشن کو جاری رکھنے کے لیے ٹھو س منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
٭٭٭٭