عزیز احمد نے اپنے ادبی سفر میں ناولوں کے علاوہ کچھ ناولٹ بھی لکھے تھے جسے عام طور پر مختصر ناول بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے زیادہ تر تاریخی ناولٹ لکھے۔ ان کے حالات زندگی سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں تاریخ کے مطالعے اور تاریخ نگاری سے دلچسپی تھی۔ اور ان کے مطالعے میں انگریزی ادب اور تاریخ کی اہم کتابیں رہیں تھیں۔ عزیز احمد کے نزدیک تاریخ ماضی کے واقعات کا کوئی ایسا مجموعہ نہیں کہ جس کا مقصد ِ مطالعہ عبرت حاصل کرنا یا صرف عروج و فتوحات کی کہانیاں سن کر یا سنا کر اپنے احساس تفاخر کو تسکین دینا تھا۔ وہ تاریخ کے بارے میں ایک مخصوص فلسفیانہ نقطہ نظر رکھتے تھے۔ عزیز احمد کا خیال تھا کہ ماضی حال میں بھی زندہ رہتا ہے۔ صرف افراد کا ماضی نہیں بلکہ تہذیبوں اور نسلوں کا بھی۔ تاریخ کا یہ ایک ایسا گہرا تناظر ہے کہ جس کی موجودگی کی شہادت صرف ان کے تاریخی افسانوں سے ہی نہیں بلکہ ان کے پورے افسانوی اد ب سے ملتی ہے۔ بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ماضی اور وقت کے بارے میں ان کا مخصوص فکری احساس ان کے لئے ایک obsession کا درجہ اختیار کرگیا ہے۔ بعض اوقات وہ ایک سےزذیادہ افسانوں میں ایک ہی نوع کے واقعات اور کرداروں کی تکرار کے ساتھ مختلف زاویہ ہائے نظر پیدا کرتے نظر آتے ہیں۔ چنانچہ ہماری تاریخ کے اہم کردار تیمور کی شخصیت پر عزیز احمد نے دو ناولٹ ’’ خدنگ جستہ ‘‘ اور’’ جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں ‘‘ لکھے۔ ان ناولوں پر وی یان اور ہیرالڈ لیم کے اثرات واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ یہ ناول تہذیبی اور روایتی سرمائے کو جدید زمانے سے ہم آہنگ کرنے کا بہترین اظہار ہیں۔ تاریخی شخصیتیں ایک نئے رنگ میں زندہ ہو کر ہمارے شعور کا حصہ بن جاتی ہیں۔ یہ دونوں ناولٹ عزیز احمد کے انتقال سے سات سال بعد مکتبہ میری لائبریری سے 1985ء میں شائع ہوئے۔ اور یہ ناولٹ تاریخی ناول نویسی میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔
خدنگِ جستہ تاتاریوں کی تہذیبی اور سماجی زندگی کا ایک حقیقت پسندانہ عکس ہے۔ لباس، غذا، رسوم و رواج اور طرز بود و باش کو خوبصورتی سے ناولٹ میں سمویا گیا ہے۔ اس غیر ترقی یافتہ معاشرے کے روز و شب زندگی اور موت کی کشمکش کے درمیان گذرتے ہیں۔ طاقت کے سامنے جھکنے والے اس معاشرے کے افراد اطاعت گذاری میں پیش پیش رہتے ہیں۔ وہاں غداری کی سزا موت تھی۔ جب کہ وفاداری کے بدلے لذیذ خوراک، عمدہ شراب اور دنیا کی نعمتیں فراہم کی جاتی تھیں۔ ان کے درمیان خون آشام جنگوں میں صرف مال و دولت اور مویشی نہیں لوٹے جاتے تھے بلکہ عورتوں کو مال غنیمت کے طور پر اٹھایا جاتا تھا۔
ناولٹ خدنگِ جستہ اس عہد کی کہانی ہے جب تیمور اپنے بیگانوں کی بے مہریوں اور بے وفائیوں کا شکار ہو کر در بدر پھرتا ہے۔ چند جانثاروں اور اپنی وفادار بیوی اولجائی کے علاوہ اس کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ یہ وہ زمانہ ہے جب وہ کبھی تو ایک شہر میں فاتح کی طرح داخل ہو رہا ہے اور اس کے کان استقبالی نعرے سن رہے ہیں تو کبھی وہ پورے وسط ایشیاء میں اپنے خون کے پیاسوں سے بچنے کے لئے چھپتے پھرتا ہے۔ لیکن اسے کوئی جائے پناہ نہیں ملتی۔ یہی تگ و دو کا دور ہے۔ جب اس کی پنڈلی میں وہ تیر پیوست ہوا جس نے ٹوٹ کر زخم کو تکلیف دہ ناسور بنا دیا اسے جسمانی طور پر لنگڑا ضرور کر دیا لیکن اس کی امنگوں اور ولولوں کو اور ذہنی ارادوں کو بدل دیا۔ اس ناولٹ میں قبائلی زندگی کے تہذیبی اور تاریخی شعور کو نمایاں انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ ایک تہذیب سادہ تھی جس میں سخت کوشی اور جفا کشی کے عنصر واضح تھا۔ قبائلی ضرورتیں ایک حد کے اندر رہتی تھیں۔ لیکن قبائلی سردار ہر وقت ایک دوسرے سے لڑتے رہتے تھے۔ سرحدوں میں توسیع پسندی ایک عام رجحان تھا۔ جس کے نتیجے میں قبائلی نہ خود آرام سے رہتے تھے اور نہ دوسروں کو آرام سے رہنے دیتے تھے۔ وفاداریاں بے حد ذاتی تھیں۔ لیکن حالات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ وفاداریاں بھی تبدیل ہوتی رہتی تھیں۔ انسانی درندگی کا چلن عام تھا۔ جنگیں صرف عورتوں کے لئے نہیں بلکہ پانی، زمین، تعلقات، مال و مویشی اور دیگر اشیاء کے لئے بھی ہوا کرتی تھیں۔ جنگ میں فتح پر مردوں کے سروں پر مینار بنائے جاتے اور جشن طرب منایا جاتا۔ اس تہذیبی اور تاریخی تناظر کو عزیز احمد نے اپنے ناولٹ خدنگِ جستہ میں بھر پور انداز میں پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر خالد اشرف عزیز احمد کے اس ناولٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ مردانہ بالادستی، جنگجوئی انداز، ہوس اور اقتدار پر مبنی اس نیم وحشی عسکری نظام میں عورت کی حیثیت نہایت کمتر تھی۔ اور اس کا رول بچوں کی پرورش کرنے، مردوں کی خدمت کرنے اور شوہر اور بھائیوں کی خدمت اور زخمی ہونے پر تیمار داری کرنے اور اپنے قبیلے کی سلامتی کی دعائیں کرنے تک ہی محدود تھا۔ ہر لمحہ عدم تحفظ کا احساس، مغویہ بنائے جانے کا خوف اور شوہر اور بھائیوں کی شکست و رسوائی اور خاندانوں کا قتل عام ایسے خدشات تھے جو عورتوں کو کسی لمحہ چین لینے نہیں دیتے تھے۔ ایک شکست کے بعد دوسری جنگ، ایک فتح کے بعد اگلی مہم اور غنیم کے ذریعے مارے جانے والے شبخون ایسے روز مرہ کے خونیں حالات تھے جن سے ان عورتوں کا ہر لمحہ ایک مستقل بے چینی اور خوف و ہراس کی اس کیفیت کے سائے میں گذرتا تھا۔ خود تیمور جیسے بہادر اور مدبر سالار کی بیوی اولجائی اپنے شوہر اور اپنے بیٹے جہانگیر کی زندگی کے بارے میں ہر وقت خوفزدہ رہتی تھی۔ وہ جنگلوں اور ریگستانوں سے دور آبادی میں چین سے رہنا چاہتی تھی۔ اور ان شہروں کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتی تھی جو ابھی لوٹے نہیں گئے اور نہ ہی جلائے گئے تھے۔ لیکن اولجائی کے یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے کیونکہ وہ تیمور کے فیصلوں اور حکمت عملی کی تابع تھی۔ اور تیمور کسی شہر میں پر امن طریقے سے گھر بار بسانے کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتا تھا۔ کیوں کہ دشمن اسے ایک لمحے کے لئے بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتے تھے۔، ، ۱۶۶؎
عزیز احمد کا تاریخی شعور کافی پختہ تھا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر حمیرا اشفاق لکھتی ہیں :
’’ عزیز احمد کا تاریخی اور تہذیبی شعور ان کا افسانوی اور غیر افسانوی تحریروں میں جا بجا منعکس ہوتا ہے۔ بالخصوص ہند مسلم ثقافت پر ان کی توجہ مرکوز رہتی ہے۔ ان کی علمی اور ذہنی وسعت انہیں ہندوستان کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کی بین الاقوامی صورتحال کو بھی احاطہ تحریر میں لانے پر اکساتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی تاریخ پر گہری نظر ہے اور مطالعہ اس قدر وسیع ہے کہ انہیں صدیوں کے تاریخی اور تہذیبی تناظرات ک بھی گرفت میں لا کر انہیں کبھی تاریخی ناول نگار اور کبھی اسلامی آ سکالر کی صورت میں سامنے لاتی ہے۔ ‘‘ ۱۶۷؎
مجموعی طور پر عزیز احمد کے اس ناول میں تیموری جاہ و جلال کے تاریخی نقشے عزیز احمد نے تہذیب و تمدن کے آئینے میں اس انداز میں پیش کئے کہ قاری کتاب کے مطالعے کے دوران اپنے آپ کو تاریخ کے اس دور میں موجود پاتا ہے۔
٭٭
’’جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں ‘‘(ناولٹ)
عزیز احمد نے تیموری تاریخ پر جو دوسرا ناولٹ لکھا اس کا نام ’’جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں ‘‘ ہے۔ یہ 125 صفحات پر مشتمل ہے یہ ناولٹ رام پور یوپی سے فروری 1966ء میں شائع ہوا۔ یہ ایک تاریخی ناول ہے۔ اور تاریخی ناول کی مختلف اقسام میں سے ایک ہے۔ عام طور پر ناول نگار کسی تاریخی شخصیت، تاریخی واقعہ یا تاریخی عہد کو بنیاد بناتے ہوئے تاریخی شعور کے ساتھ ناول لکھتا ہے۔ ڈاکٹر علی احمد فاطمی تاریخی ناول کے بارے میں لکھتے ہیں :۔
’’اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ تاریخی ناول وہی سب سے اچھا و کامیاب سمجھا جائے گا جو خوبصورتی کے ساتھ تاریخی ماحول کو پیش کرے، وہ جس دور کی منظر کشی کرے وہ آنکھوں میں اُتر آئے، اس کیلئے ضروری نہیں کہ وہ پورے تاریخی واقعات کو پوری سچائی کے ساتھ پیش کرے، پھر وہ تاریخ ہو جائے گا، تاریخی ماحول پیش کرنے کیلئے اکثر و بیشتر تخیل سے ہی کام لینا پڑتا ہے، تاریخ صرف پلاٹ اور دلچسپ واقعات دیتی ہے، اور ناول اس میں دلکشی اور لچک پیدا کرتا ہے، جہاں تاریخ کے اوراق دھندلے پڑ جاتے ہیں، ناول نگار اپنے تخیل کی روشنی سے اسے روشن اور تابناک کر دیتا ہے، تاریخی ناول، تاریخ اور ناول دونوں کی کمیوں کو اپنے اندر جذب کر کے آگے بڑھتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ سچی اور سیدھی بات کہہ دینا تو تاریخ کا کام ہے، ناول نگار اسے اپنے ڈھنگ سے سوچتا ہے اور ناول کے سانچہ میں ڈھالنے کے بعد حقیقت کو کہانی بناتا ہے ‘‘۔ ۱۶۸؎
عزیز احمد کے تاریخی ناولٹ میں مندرجہ بالا سبھی صفات مل جاتی ہیں۔ اس ناولٹ میں انہوں نے چنگیز خان کی اولاد اور چغتائی خاندان کے ایک سردار کی زندگی کو پیش کیا ہے اس ناولٹ میں سلطان حسین اور امیر تیمور دو تاریخی کردار ہیں اور ان کی زندگی کی آپسی رقابت و کشمکش کو تاریخ کے جھروکے سے عزیز احمد نے پیش کیا ہے۔
سلطان حسین جس کا تعلق چنگیز خان کی نسل سے ہے جنگ ہار کر ریگستان میں بے یار و مددگار ایک کھنڈر میں پناہ گزیں ہے۔ امیر تیمور کا ایک سپاہی جو الماٹیک سے سمر قند جا رہا تھا راستہ میں اپنے گم شدہ گھوڑے کو ڈھونڈتے ہوئے سلطان حسین تک جا پہنچتا ہے اور سلطان حسین سے جھوٹی وفاداری نبھاتے ہوئے اس کی مدد کے بہانے امیر تیمور کے سپاہی لے آتا ہے اور سلطان حسین کو قید کر لیا جاتا ہے۔ سلطان حسین نے دغا باز سپاہی ساری بوغا کو منہ بند رکھنے کیلئے ایک قیمتی ہار بھی دیا تھا لیکن ڈوبتے چاند کے مقابل چڑھتے سورج کے ساتھ دینے کی غرض سے وہ سپاہی امیر تیمور کا حق نمک ادا کر دیتا ہے اور سلطان حسین کو قید کرانے میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ امیر تیمور اور سلطان حسین میں رقابت اتنی شدید ہو چکی تھی کہ بات جنگ تک آ پہنچی اور سلطان حسین جنگ ہار کر فرار ہو گیا تھا اور اب امیر تیمور کے رحم و کرم پر تھا۔ سلطان حسین اور امیر تیمور کا برادر نسبتی تھا۔ لیکن اپنے اچھے وقت میں سلطان حسین نے امیر تیمور پر کافی سختی کی تھی اور یہ بھی کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہ اس کی بہن کا شوہر ہے، سلطان حسین کو زندگی کی بساط پر جب ہر طرف سے ہار کا منہ دیکھنا پڑتا ہے تو اس نے آخری چال چلی اس نے کہا۔
’’مجھے اب سلطنت کی ہوس باقی نہیں رہی میں اب صرف ایک استدعا کر رہا ہوں اور وہ یہ کہ مجھے اجازت ہو کہ میں حج بیت اﷲ کا ارادہ کروں میں اس سرزمین سے جہاں جہاں میں نے کچھ دن پہلے حکومت کی تھی اپنا منہ کالا کروں اور باقی ایام خانہ کعبہ کے طواف اور توبہ و استغفار میں صبر کروں ‘‘۔ ۱۶۹؎
سلطان حسین کی معافی کیلئے قاضی زین زین الدین امیر تیمور سے نرم رویہ اختیار کرنے کیلئے کہتا ہے، امیر تیمور کو یہ خدشہ تھا کہ اگر سلطان حسین کو بخش بھی دیا جائے تو مستقبل میں اس سے ہمیشہ خطرہ رہے گا، چنانچہ وہ ایک گہری چال چلتا ہے اور حاضرین میں ایک ایسے شخص کو شامل رکھتا ہے جس کے بھائی کا قتل سلطان حسین نے کروایا تھا، امیر تیمور حاضرین سے کہتا ہے، میں سلطان حسین کے معاملہ میں انصاف کرنا چاہتا ہوں ، یہ تو بیت اﷲ کی زیارت کو جانا چاہتے ہیں اگر کسی کو سلطان حسین سے تکلیف پہنچی ہو تو وہ انصاف مانگ سکتا ہے۔ قاضی زین الدین ایک مرتبہ پھر امیر تیمور سے کہتا ہے کہ وہ مصنف بنے نہ کہ مدعی وہ کہتا ہے :
’’یہ پہلا مقدمہ آپ کا پہلا امتحان ہے، بظاہر سلطان حسین کا حریف اور مدعی کیخسرو ہے، لیکن کیخسرو کو مدعی بننے کی جراء ت اس لئے ہوئی کہ اصل مدعی آپ ہیں، اے امیر اگر اس بوڑھے کی زبان کٹوانی ہو تو کٹوا دیں لیکن جب تک اس زبان میں طاقت گویائی ہے مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں کہ عدل میں سازش کا کوئی مقام نہیں، عدل ایک مقصود بالذات ہے، اور یہی میری ساری زندگی کے تجربہ کا نچوڑ ہے ‘‘۔ ۱۷۰؎
امیر تیمور، زین الدین کی باتیں سن کر مقدمہ کا فیصلہ دوسرے دن تک ملتوی کر دیتا ہے، تجربہ کار قاضی ایک مرتبہ پھر امیر تیمور سے مخاطب ہو کر کہتا ہے :۔
’’جب جسم کو فولاد کا زرہ بکتر پہنایا جاتا ہے اور سر پر آہنی خول اوڑھا جاتا ہے تب بھی آنکھیں کھلی رہتی ہیں حالانکہ آنکھیں جسم کا سب سے نازک حصہ ہیں، لیکن جب آنکھیں آہن پوش ہو جائیں تو زرہ بکتر بیکار ہے، فولادی خول بیکار ہے، تیر، ڈھال، تلوار بے کار ہے عدل میں اتنا ہی خطرہ ہے جتنا آنکھیں کھلی رکھنے میں لیکن آنکھیں آہن پوش ہونے میں اور زیادہ خطرہ ہے ‘‘۔ ۱۷۱؎
اور رات میں امیر تیمور اپنے خیمہ میں لیٹے لیٹے ماضی کے جھروکے میں چلا جاتا ہے اور اپنی زندگی کے اوراق پلٹتا جاتا ہے۔ عزیز احمد نے شعور کی روکی ٹیکنک استعمال کرتے ہوئے امیر تیمور کی یادوں کے سہارے ماضی کے حالات کو پیش کیا ہے۔ ان حالات میں امیر تیمور کے بچپن، جوانی کے حالات، اس کی اور سلطان حسین کی دوستی، رشتہ دار اور رقابت، رزم و بزم کے نقشے، دھوکہ دہی، مکر و فریب، سلطنتوں کے عروج و زوال اور شاہی زندگی کی زرق برق وغیرہ ماضی کے سارے نقوش اس کے ذہن میں اجاگر ہونے لگتے ہیں، عزیز احمد نے ان حالات کو پیش کرنے میں تاریخی ناول نگاری کے اصولوں کو روا رکھا۔ امیر تیمور ماضی کی یادوں سے اس وقت چونک پڑتا ہے، جب کتوں کے بھونکنے اور جانوروں کے ہنہنانے کی آوازیں تیز ہو جاتی ہیں، رات کا آخری پہر ہے اور امیر تیمور کا ذہن تیزی سے کام کر رہا ہے وہ کیخسرو کو بلاکر کہتا ہے سلطان حسین کے معاملہ میں وہ اتنا ہی انصاف کرسکتا ہے تو، خود قصاص کا بدلہ لے لے، چنانچہ امیر تیمور کے ذہن کی چالاکی کے مطابق کیخسرو سلطان حسین کا سر قلم کر لاتا ہے اور امیر تیمور کے راہ کے پتھر کو ہٹا پھینکتا ہے، ادھر تہجد کی نماز میں مصروف قاضی زین الدین دعا کے وقت سلطان حسین کا کٹا سر دیکھتا ہے تو دنیا کی عافیت کی دعا کرتے ہوئے خیال کرتا ہے کہ یہ سب بیکار ہے کیونکہ وہ دونوں آنکھیں آہن پوش ہو چکی ہیں، اس طرح عزیز احمد نے اس مختصر سے ناولٹ میں تاریخ کے گوشہ سے ایک واقعہ کو پیش کیا ہے جس میں تخت و تاج کے جھگڑے کو بڑی خوبی سے پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر قمر رئیس اس ناولٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔
’’ عزیز احمد نے اپنے ناول ’’جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں ‘‘ میں امیر تیمور کی زندگی کا مطالعہ ایک فاتح یا حکمراں کے بجائے ایک انسان کی حیثیت سے کیا ہے، اور دکھایا ہے کہ بچپن اور جوانیوں کی محرومیوں نے اس کی سیرت اور مزاج کو کتنا مسخ کر دیا تھا‘‘۔ ۱۷۲؎
فاروق عثمان اس ناولٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’امیر تیمور اس ناولٹ میں صرف انسان ہی نہیں بلکہ ایک چالاک انسان کی حیثیت سے پیش ہوا ہے اور اپنے دشمن کو راستہ سے ہٹانے میں جنگی فراست کا ثبوت دیا ہے۔ عزیز احمد کے اس ناولٹ میں وہ تمام عناصر شامل ہیں جو ایک تاریخی ناول کا جزو ہوتے ہیں جیسے تاریخی کردار، واقعات، رزم و بزم، حسن و عشق، سیاسی چالیں، پل پل بدلنے والی وفاداریاں، تخت و تاج کے جھگڑے، خوشی و غم کے جذبات وغیرہ اور یہ تمام باتیں قاری کو صدیوں قبل کی دنیا میں لے جاتی ہیں۔ ’’ جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں ‘‘ تیمور کے تصورات کا ایسا گرداب ہے کہ جس میں اس کی شخصیت لحظہ بہ لحظہ ڈوبتی اور ابھرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ دربدری اور صحرا نوردی کا عذاب ختم ہو چکا ہے۔ اب وہ عظمتوں کی دہلیز پر کھڑا ہے۔ اس کا سب سے بڑا دشمن اور دوست بھی شکست کھا کر ایک مجرم کی طرح اس کے سامنے آ چکا ہے۔ اب تو وقت ہے انصاف کا کہ جس کے لئے اپنی شخصیت، ذات اور سماجی مراتب سے ماورا ہو کر طرز عمل اختیار کرنا ہے۔ کس طرح عدل ایک مقصود بالذات صفت ہے۔ اس میں کسی ڈر، خوف یا سازش کا دخل نہیں ہوسکتا۔ جہاں گیری اور جہاں سوزی تو ایک آسان اور سیدھا سادہ عمل ہے۔ اس کے لئے تو صرف دوسروں کو قتل کرنا پڑتا ہے۔ لیکن جہاں بانی و جہاں آرائی مطلق قدروں کی حکمرانی کا نام ہے۔ ‘‘ ۱۷۳ ؎
عزیز احمد نے ان تاریخی ناولٹس میں تہذیبوں کے مثبت اور منفی رخ کو پیش کیا۔ تہذیبی تناظر اس طرح دیکھا جا سکتا ہے کہ جنگیں ، لوٹ مار، عورتوں کی عصمت دری اور دوسروں کے ذخائر پر قبضہ کرنا ابھی تک قبائلی تہذیب کی بنیاد تھی۔ اور اسلامی تہذیب ان میں اپنی جڑیں نہیں بنا سکی تھیں۔ طاقت کے آگے سر جھکانا اس تہذیب کا خاصہ تھا۔ یہ تہذیب بہ یک وقت اپنی مثبت اور منفی قدروں کے ساتھ موجود تھی جسے عزیز احمد نے اپنے دونوں ناولٹس میں ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا۔ عزیز احمد کی تاریخ سے دلچسپی اور گہرا تاریخی شعور ان دو ناولٹس سے جھلکتا ہے۔
٭٭
مثلث ناولٹ
عزیز احمد کا ایک طویل افسانہ نما ناولٹ ’’ مثلث‘‘ بھی ہے۔ اس ناول میں بھی ان کا تاریخی شعور جھلکتا ہے۔ یہ تاریخی شعور عالمی تہذیب کی طرف ہے۔ اور اس ناول سے تہذیبی رنگا رنگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مثلث کے تین اضلاع کی طرح عزیز احمد نے تین کرداروں کی کہانیوں کو ایک کہانی میں سمویا ہے۔ مثلث کی ہر داستان ایک الگ تاریخی تناظر رکھتی ہے۔ اس ناولٹ کا بنیادی موضوع ایک لحاظ سے یورپی تمدن اور ثقافت کے پس منظر میں مشرقی انسان کی نفسیات کا مطالعہ ہے۔ ناولٹ کو پڑھتے ہوئی تو پہلے ایک خطرے کی گھنٹی بجنے کا احساس ہوتا ہے۔ کہ کہیں عزیز احمد ایک دفعہ پھر ہوس اور مرمر اور خون کی طرف تو مراجعت نہیں کر رہے ہیں۔ کیوں کہ ناول میں جنس کا حوالہ ایک قوی صورت میں سامنے آتا ہے۔ لیکن جوں جوں واقعات آگے بڑھتے جاتے ہیں موضوع سنجیدگی اور فکر کی گہرائی کی طرف مڑتا جاتا ہے۔ عزیز احمد زندگی کے آخری دور میں اپنے جس علمی اور تہذیبی فکر کی بلندی پر تھے اس کا تخلیقی اظہار اس ناولٹ کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ پروفیسر عتیق احمد مثلث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ مثلث کے یہ تینوں اضلاع اپنی فلرٹ زندگیوں کے باوجود قابل ہمدرد ی ہیں۔ تینوں خواتین اچھی طرح جانتی ہیں کہ ایک جوان، حسین، صاحب مرتبہ مرد محض ان کی خواہش کے بدلے کہ وہ اس کے ساتھ چند گھنٹے کسی ہوٹل یا ریستوراں میں گزار کر اپنی تنہائیوں اور بے بسی کے زہر کا وقتی تریاق تلاش کرسکیں۔ انہیں کس کس طرح سے ایکسپلائٹ کر کے اپنے جنسی جذبے کی تسکین کرنا چاہتا ہے یہ سب جاننے کے باوجود وہ بار بار ایک ہی قسم کا دھوکہ جان بوجھ کر کھاتی ہیں او ر اس ایک ہی جال کی طرف جان بوجھ کر لپکتی ہیں۔ کہ جس سے متعلق انہیں یقین ہوتا ہے کہ ان کی خوبصورت اور سنہری ڈوریاں ان کو جکڑنے کی خاطر استعمال کی جا رہی ہیں۔ مگر انسانی فطرت کی کمزوری، گھبراہٹ، سہارا او دوسری ہم جنسوں کی نظر میں اپنی اہمیت تسلیم کرانے کا جذبہ مسابقت بار بار انہیں یہ دھوکہ کھانے کی دعوت دیتا ہے۔ ۱۷۴؎
اس طرح عزیز احمد نے اس ناولٹ میں تین کرداروں کی نفسیات کو پیش کیا ہے۔