’’گریز‘‘
عزیز احمد نے 1932ء میں دو ناول ’’ہوس‘‘ اور ’’مرمر اور خون‘‘ تحریر کئے تھے جوان کی ابتدائی کاوش ہونے کی بناء فکر و فن کی خوبیوں سے عاری تھے، جن میں حقیقت سے زیادہ جذباتیت تھی، ان دو ناولوں کے بعد تقریباً دس برس تک عزیز احمد نے کوئی اور ناول نہیں لکھا تھا۔ لیکن 1942ء میں انہوں نے ناول ’’گریز‘‘ لکھ کر اردو ناول کے افق پر اپنا نام روشن کر دیا اور مقبولیت دوام حاصل کی۔ اردو ناول ’’گریز‘‘ میں پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے درمیانی حالات اور خاص طور سے ہندوستان اور یورپ کی زندگی کا نقشہ بڑے دلفریب انداز میں کھینچا گیا ہے۔ عزیز احمد کے حالات زندگی سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے 1935ء میں تین سال اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے انگلستان کا سفر کیا تھا اور وطن واپسی سے قبل کچھ عرصہ یورپ کے مختلف ممالک کی سیر و تفریح میں بھی گذارا تھا، چنانچہ اپنے سفر یورپ کے مشاہدات کو انہوں نے ناول ’’گریز‘‘ میں پیش کیا۔
موضوع کے اعتبار سے ناول ’’گریز‘‘ بھی عزیز احمد کے ابتدائی دو ناولوں ’’ہوس‘‘ اور ’’مرمر اور خون‘‘ سے جدا نہیں، اس میں بنیادی طور پر جنس کا بیان ہوا ہے۔ پہلے دو ناولوں کی بہ نسبت اس ناول میں عزیز احمد کی جنس نگاری وسعت اختیار کر لیتی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عزیز احمد نے یہ ناول مخصوص نقطہ نظر سے لکھے ہیں۔ عزیز احمد نے جس عہد میں یہ ناول لکھا اس وقت ہندوستان میں ترقی پسند تحریک زور و شور سے جاری تھی، جس کے زیر اثر ادب میں حقیقت نگاری کو عروج حاصل ہوا تھا اور اسی حقیقت نگاری کے ضمن میں اور فرائڈ کے نظریات سے متاثر ہوتے ہوئے شعر و ادب میں جنسی خیالات کو آزادی کے ساتھ پیش کیا جانے لگا تھا۔ اس وقت کے فسانوی ادب میں بھی کم و بیش سبھی ادیبوں نے اپنی تخلیقات میں کسی نہ کسی طرح جنس سے متعلق مضامین کو پیش کیا۔ عزیز احمد، عصمت اور منٹو نے اپنی تخلیقات میں جنسی پہلو کو پیش کرتے ہوئے یہ دلیل پیش کی کہ جنس زندگی کی ایک حقیقت ہے اور اس سے پردہ پوشی یا احتراز ممکن نہیں۔ سماج میں موجود گھٹن کو دور کرنے کیلئے جنس کا بے باکی سے اظہار کیا جانے لگا۔ لیکن ہمارے ادیبوں نے فن کی پختگی میں کمی کی بناء جنس کے حقیقی اظہار کو عریانی اور فحش نگاری تک پہونچا دیا۔ اس طرح سماجی گھٹن دور ہونے کے بجائے جنس ایک تلذذ کا ذریعہ بن گئی۔ بعد میں ادیبوں کو اس حقیقت کا انکشاف ہوا کہ زندگی کے اظہار میں کچھ باتیں ایسی بھی ہیں جن کی پوشیدگی ہی میں ان کی عظمت و بڑائی مضمر ہے۔
عزیز احمد کا یہ ناول ’’گریز‘‘ بھی موضوع کے اعتبار سے جنسی خیالات، جنسی بے راہ روی اور زندگی کے غیر حقیقی پہلو پر مبنی ہے۔ عزیز احمد نے اپنے سفر یورپ کے مشاہدہ کی بناء پر یا اپنے موضوع کے اظہار میں آزادی حاصل کرنے کیلئے ناول کے بیشتر کرداروں اور واقعات کو پیش کرنے کیلئے یوروپ کی زندگی کی عکاسی کی ہے چونکہ عزیز احمد کا موضوع جنس ہے اور یورپ کے متعلق مشہور ہے کہ وہاں جنسی آزادی عام ہے۔ اس لئے عزیز احمد نے اپنے خیالات کو آزادی سے پیش کرنے کیلئے یورپ کا ماحول استعمال کیا ہے۔ ہندوستان کے ماحول میں اتنی آزادی ممکن نہیں حالانکہ ہندوستان میں انہیں اپنے مقصد کا مواد مل سکتا تھا۔ ناول ’’گریز‘‘ کے موضوع پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر ہارون ایوب لکھتے ہیں کہ :
’’گریز نہ ایک اظہار جنس کا وسیلہ ہے نہ ہی سماج کی اصلاح کا، اس میں تلذذ ہے جس میں دوسروں کو بھی شریک کرنے کی کوشش کی گئی ہے ‘‘۔ ۷۸؎
کچھ اس طرح کی بات وقار عظیم نے بھی عزیز احمد کی بابت کہی ہے :۔
’’گریز‘‘ پہلی اور دوسری عالمگیر جنگوں کے درمیانی وقفہ کے پر شورش یورپ اور انگلستان کی زندگی کا ناول ہے۔ اس میں اس عہد کی سیاسی و معاشی فضا کا ایک منتشر سا خاکہ ہے، لیکن ناول کے سیاسی اور معاشی پس منظر پر جنسی حقائق کا غلبہ ہے، جنہیں مصنف نے مزے لے لے کر بیان کیا اور اپنے قاری کو اس مزے میں پوری طرح شریک ہونے کی دعوت دی ہے ‘‘۔ ۷۹؎
’’گریز‘‘ میں نعیم حسن نامی ایک ایسے ہندوستانی نوجوان کا قصہ پیش کیا گیا ہے جو شہر حیدرآباد کا متوطن ہے، ماں باپ کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے سبب اپنی زندگی عسرت میں بسر کرتا ہے لیکن کسی طرح اپنی تعلیم جاری رکھتا ہے، ایک رئیسہ خانم کی بیٹی بلقیس سے ایک ایک طرفہ عشق کرتا ہے جو رشتہ میں اس کی چچا زاد بہن بھی ہے لیکن اپنی عسرت کی بناء پر شادی سے احتراز کرتا ہے، اسی دوران وہ آئی، سی، ایس کیلئے منتخب ہو جاتا ہے اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے انگلستان روانہ ہو جاتا ہے اپنی رنگین طبعیت کی بناء پر لندن اور پیرس کی حسین زندگی میں کھو جاتا ہے، طرح طرح کی لڑکیوں سے عشق رچاتا ہے اور بقول احسن فاروقی کے :
’’وہ(نعیم) آئی، سی ایس کی ٹریننگ کیلئے انگلینڈ جاتا ہے اور وہاں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سوائے عورت بازی کے کوئی اس کا مشغلہ ہی نہیں ہے ‘‘ اگر ’’گریز‘‘ سے یورپ کا اندازہ لگایا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان حصوں میں جہاں نعیم گئے سوائے قحباؤں کے اور کوئی بستا نہیں ‘‘۔ ۸۰؎
نعیم یورپ کے اس رنگین ماحول میں تین سال گذار کر تعلیم کے اختتام پر جب وطن واپس ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ بلقیس کسی اور کی ہو چکی ہے، اپنی محبت کی ناکام حسرتیں لئے ملازمت کے سلسلہ میں دربدر پھرتا ہے، لوگوں کے کہنے کے باوجود شادی سے گریز کرتا ہے اور یاس و حسرت میں اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔
ناول ’’گریز‘‘ میں 1936ء سے 1942ء کے درمیانی زمانہ میں حیدرآباد اور یورپ کے بڑے بڑے شہروں کی زندگی کی تصویر کشی کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ایک ہندوستانی نوجوان کے آئی سی ایس میں انتخاب کے بعد انگلستان جا کر کیا کیا تبدیلیاں آتی ہیں، اس کی دماغی حالت کیا ہو جاتی ہے اور وہ زندگی کو کس نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔ یورپ کے آزاد ماحول میں کس طرح وہ عیش پرستانہ زندگی بسر کرتا ہے۔
ان سب باتوں کو بڑی فن کاری سے ’گریز، میں پیش کیا گیا ہے، ناول کا عنوان ’’گریز‘‘ اسی لئے رکھا گیا ہے کہ اس میں ’’نعیم ‘‘ شروع سے آخر تک زندگی کے دور میں گریز کرتا ہے۔ ’’گریز‘‘ میں زندگی اور اس کے حقائق، محبت، عشق، عیش پرستی کی ناکامیوں کی تلخی، سب سے گریز دکھائی دیتا ہے۔
عزیز احمد نے ناول ’’گریز‘‘ میں اس دور کی دنیا کی معاشرتی، تہذیبی، سیاسی، سماجی زندگی کے نمونے بڑی عمدگی سے پیش کئے ہیں، یہ وہ دور تھا جب صنعتی انقلاب کے بعد زندگی کے مختلف شعبوں میں شکست و ریخت اور تعمیر و ترتیب کا عمل جاری تھا، سائنسی علوم کی ترقی سے زندگی کی رفتار میں تیزی آ گئی تھی، مختلف طرح کے نئے انداز فکر، رجحانات، تحریکوں سے لوگوں کی ذہنیت میں نمایاں تبدیلی آنے لگی تھی۔ حقیقت پسندی کا رجحان بڑھنے لگا تھا، سائنس اور نفسیاتی علوم کی ترقی نے سماج میں جنس کی اہمیت کو واضح کر دیا تھا جس سے یہاں کا ادب بھی متاثر ہوا تھا۔ عزیز احمد کا ناول ’’گریز‘‘ بھی اسی دور کی نمائندگی کرتا ہے۔
ناول کا مرکزی کردار ’’نعیم حسن‘‘ ہے یہ کردار ناول میں شروع سے آخر تک چھایا ہوا ہے یہ کردار بیسویں صدی کے ایک ایسے ہندوستانی نوجوانوں کا کردار ہے جو مغربی طرز تعلیم، طرز فکر سے آشنا ہے۔ سرپر ماں باپ کا سایہ نہ ہونے کے باوجود تعلیم جاری رکھتا ہے۔ حیدرآباد اس کا وطن ہے جہاں وہ اپنے رئیس چچا کی بیٹی بلقیس کے بارے میں سنہرے خواب دیکھتا ہے، لیکن احساس کمتری اُسے اظہار محبت سے روکتی ہے، لیکن جب وہ آئی سی ایس کے باوقار عہدے کیلئے منتخب ہو جاتا ہے تو اپنے آپ کو ساتویں آسمان پر پہنچا لیتا ہے نعیم کے خیالات ملاحظہ ہوں :
’’جب میں نے سنا تھا کہ خانم چاہتی ہیں اس کی شادی مجھ سے ہو تب سے بلقیس کی ’’شان پارسائی‘‘ میں فرق آ گیا تھا، کشش کا بہت برا باعث یہ تھا کہ میری مفلسانہ طالب علمی زمانہ میں وہ میری پہونچ سے باہر تھی، آئی سی ایس کے انتخاب نے مجھے اتنا اوپر اٹھا دیا کہ میرا ہاتھ اس تک پہنچ سکتا تھا‘‘۔ ۸۱؎
آئی سی ایس کی ٹریننگ کیلئے نعیم انگلستان روانہ ہو جاتا ہے وہاں سے وہ ایک خط اپنے چچا عاقل خان کو لکھتا ہے اور اشارۃً یہ کہتا ہے کہ بلقیس کی شادی کہیں اور نہ کی جائے۔
’’پھر بھی مجھے بڑی ہی مسرت ہو گی اگر میری واپسی تک بلقیس کی شادی ملتوی رہے، آخر مجھے بھی تو بلقیس کی شادی میں شرکت کا حق ہے ‘‘۔ ۸۲؎
بلقیس کی محبت کو خیالوں میں بسائے جب نعیم یورپ کی مغربی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو بہت جلد وہ یہاں کی رنگینیوں میں کھوسا جاتا ہے، اور بلقیس کی صرف یاد سی رہ جاتی ہے، عزیز احمد نے نعیم کے کردار کو اس انداز میں پیش کیا ہے کہ وہ نڈر اور بے باک ہے، یورپ کے لڑکوں اور لڑکیوں کو آسانی سے دوست بنا لیتا ہے اور اپنی علمی قابلیت اور باتوں سے انہیں اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے وہ لندن اس لئے جاتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرے لیکن عزیز احمد نے اپنے موضوع کی بنا تعلیمی زندگی کے بجائے عیش پرست زندگی کے حسین مرقع ناول پیش کئے ہیں۔ نعیم دوسرے ممالک سے آئی لڑکیوں میں بہت تیزی سے گھل مل جاتا ہے اور ایک دو ملاقات ہی میں محبت کے سارے مراحل طے کر جاتا ہے، لڑکیوں سے دست درازی اور بوسہ بازی اس کے لئے عام بات ہے۔ یورپ کے ماحول میں اس طرح کی باتیں عام ہیں۔ وہ ہر وقت اس بات کے لئے کوشاں رہتا ہے کہ کس طرح ایک لڑکی کی قربت حاصل کی جائے آ سکے لئے وہ لندن اور پیرس کے ریستورانوں میں شامیں گذارتا ہے۔ نعیم سب سے پہلے ’’میری پاؤل‘‘ کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے۔ میری پاول ’’گل سرخ‘‘ کے نام سے نوجوانوں میں بہت مشہور تھی۔ ہر نوجوان اس سے قربت کا خواہاں رہتا لیکن میری پاول نعیم کی محبت کو حد سے بڑھنے نہیں دیتی نعیم پریشان ہو جاتا ہے اور تنہائی کا احساس اسے پریشان کر دیتا ہے، نعیم کے خیالات ملاحظہ ہوں :
’’اس رات اس نے اپنی زندگی میں خلا محسوس کیا، خلا اور بڑی ہی سخت تنہائی ایسی تنہائی جو کبھی کبھی برسات کی راتوں میں حیدرآباد میں محسوس کرتا تھا‘‘۔ ۸۳؎
اور جب اس طرح تنہائی سے وہ بہت ہی پریشان ہو جاتا تو اپنی زندگی کی جنسی گھٹن دور کرنے کیلئے قحبہ خانہ چلا جاتا ہے۔
میری پاؤل کی علمی، سیاسی و سماجی سرگرمیوں کو دیکھ کر نعیم اس کی عظمت کا قائل ہو جاتا ہے، نعیم کی اس سے محبت جنسی جذبہ کے تحت نہیں بلکہ اس کی با وقار شخصیت کی عظمت سے مرعوب ہو کر دوستانہ نوعیت اختیار کر لیتی ہے۔
نعیم کی زندگی میں ہلچل مچانے والی لڑکی ایلس ہے۔ یہ ایک امریکی لڑکی ہے جو فرانسیسی زبان سیکھنے یورپ آتی ہے اور بہت جلد نعیم کے قریب ہو جاتی ہے۔ عزیز احمد نے نعیم اور ایلس کی محبت کو جذباتی انداز میں پیش کیا ہے۔ شروع میں نعیم، ایلس سے اس لئے محبت کرتا ہے کہ کس طرح اس کی جنسی ہوس کی تکمیل ہو لیکن ایلس ایک مشرقی لڑکی کی طرح آگے بڑھنے نہیں دیتی، چنانچہ نعیم بے چین سا ہو جاتا ہے :
’’اس جنسی تشنگی کی وجہہ سے نعیم بہت بے چین ہو جاتا ہے بعض وقت وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ ایلس کا پیچھا چھوڑدے اور کوئی ایسی لڑکی تلاش کرے جس سے اس کی مدعا برآری زیادہ آسانی سے ہو‘‘۔ ۸۴؎
لیکن بہت جلد نعیم کی ایلس سے محبت ہوس پرستی سے حقیقی پیار کی منزل تک پہنچ جاتی ہے اور دونوں زندگی کا ساتھ نبھانے کے وعدے کر لیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک موقع پر نعیم کے جذبات کی عکاسی عزیز احمد نے بڑے دلفریب انداز میں کی ہے۔
’’اور وہ خواہش جو ایلس کی دوستی کے ساتھ ظہور میں آئی تھی، ایلس کے جسم، ایلس کے کنوارے پن کو فتح کرنے کی کوشش اور اس کا کہیں نام و نشان بھی نہ تھا۔ ایلس اب بھی کنواری تھی لیکن وہ احترام جو ایک عرصہ سے آہستہ آہستہ نعیم کے دل میں پیدا ہو رہا تھا اس ایک لحظہ میں جذبہ پرستش بن گیا۔ اس کی محبوبہ اس کی ہونے والی بیوی کسی سے یہاں تک کہ اس سے بھی آلودہ نہیں ہوئی۔ مشرق کا تصور عصمت اسے ایلس کے اطراف اس وقت اس طرح چھایا نظر آیا جیسے ماہتاب کے گرد ہالہ‘‘۔ ۸۵؎
نعیم اور ایلس آپس میں نسبت قائم کر لیتے ہیں۔ لیکن ایلس کے والد دونوں کو شادی سے پہلے یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ کچھ دنوں الگ رہیں اس کے بعد بھی اگر دونوں میں محبت قائم رہے تو شادی کامیاب ہوسکتی ہے۔ ایلس امریکہ روانہ ہو جاتی ہے اور وقت کے گذرنے کے ساتھ امریکی زندگی کی رنگیوں میں وہ آہستہ آہستہ نعیم کو بھول جاتی ہے۔ جس کا اظہار ان خطوں سے ہوتا ہے جو ایلس نے نعیم کو لکھے تھے اور جن میں آہستہ آہستہ جذبہ محبت میں کمی آتی جاتی ہے۔ نعیم ایک مرتبہ پھر تنہائی سے دوچار ہو جاتا ہے اور اپنے ہوس پرست طبعیت کی بنا ایک دفعہ اپنے دوست جیمس کراکسلے کی بہن برتھا کے ساتھ بھی رات بسر کرتا ہے لیکن اس کے جذبات کو تسکین نہیں ہوتی چنانچہ وہ تفریح طبع کے خاطر یورپ کے مختلف شہروں میں دربدر پھرتا ہے۔ اور ہر جگہ اس بات کیلئے کوشاں رہتا ہے کہ لڑکیوں سے مراسم بڑھائے۔ نعیم کا جگہ جگہ سفر کرنا اس کے لا ابالی ہونے کا اظہار ہے اس سلسلے میں عزیز احمد کے خیالات ملاحظہ ہوں :
’’سفر میں ہی اپنی ذات آ سکی سمجھ میں اچھی طرح آتی، سفرہی میں زندگی کا لطف اور حسن اس کے آنکھوں میں چبھتا، سفر ہی میں وہ گویا اپنے آپ کو پا لیتا قید مقام سے اس کے حواس خوابیدہ سے ہو جاتے، زندگی اس کے پاس سے ہو کر گذر جاتی اور اسے خبر نہ ہوتی‘‘۔ ۸۶؎
یورپ کی زندگی میں دربدر بھٹک جب وہ ہندوستان آتا ہے تو اسے ملازمت کے سلسلہ میں بھی ایک مقام سے دوسرے مقام کا سفر کرنا پڑتا ہے، اس کی پہلی محبت کا انجام معلوم ہونے کے بعد لوگوں کے مشورے کے باوجود وہ کسی لڑکی سے شادی پر آمادہ نہیں ہوتا اور یہ سمجھتا رہتا ہے کہ شائد اس کی زندگی میں حقیقی سکون نہیں۔
’’ایک طرح کی اعصابی کمزوری نعیم پر حاوی ہونے لگی، وہ سوچنے لگا میں اس طرح کب تک گریز کرتا رہوں گا، کب تک یہ ذہنی اور جذباتی انتشار باقی رہے گا اور کوئی ترکیبی نتیجہ کوئی امتزاج میری روح اور جسم کی فضا میں ابھرے گا کب تک میں زندگی سے گریز کرتا رہوں گا، کب تک میں زندگی سے بچ بچ کر خوابوں کی دنیا میں عاشقی میں پناہ لیتا رہوں گا اور عاشقی بھی خالص جذباتی عاشق جس میں کوئی ذہنی اطمینان نہیں ‘‘۔ ۸۷؎
اس طرح عزیز احمد نے ’’گریز‘‘ میں نعیم کے روپ میں ایک ایسے کردار کو پیش کیا جس کا خمیر تو ہندوستانی ہے لیکن عادات و اطوار اور طرز زندگی مغربی نوعیت کا۔ مغربی ماحول میں وہ رچ بس جاتا ہے، سچی اور حقیقی محبت اس کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتی اس لئے محبت کی حقیقت اسے حاصل نہیں ہوتی، ایک جگہ وہ اعتراف کرتا ہے کہ اس کی زندگی میں کتنی لڑکیاں آئیں لیکن کسی سے اس کی محبت حقیقی نہیں :
’’شائد مجھ میں سچی محبت کی صلاحیت ہی نہیں، مگر اب تک زندگی میں تین لڑکیاں مجھے ایسی ملیں جن کی وجہہ سے میں کئی راتیں نہیں سویا، کئی دن پریشان رہا اور سمجھتا رہا کہ ان کا حاصل کر لینا میری زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہے، ایک ایلس، دوسری میری اور تیسری کون تیسری ایک ہندوستانی لڑکی تھی میری چچازاد بہن، اس کا نام بلقیس تھا‘‘۔ ۸۸؎
ناول ’’گریز‘‘ میں نعیم کے مرکزی کردار کے علاوہ ایلس کا کردار جاندار ہے، وہ ایک امریکی لڑکی ہے لیکن ایک ہندوستانی نوجوان سے محبت کرتی ہے، وہ اپنی محبت میں احتیاط کرنا چاہتی ہے، عزیز احمد نے بعض جگہ ایلس کے روپ میں مشرقی اقدار کی حامل لڑکی کا کردار بھی پیش کیا ہے، جو کہ محبت میں آگے نہیں بڑھتی، اپنے والد کے مشوروں پر عمل کرتی ہے لیکن عزیز احمد اپنے موضوع کے مطابق اس کردار کو وسعت نہیں دیتے، چنانچہ ایلس کا کردار امریکہ جانے کے بعد ناول سے دور ہو جاتا ہے۔
ایلس کے علاوہ ناول میں بیشتر کردار ایسے ہیں جو ناول کے ماحول اور موضوع سے مطابقت رکھتے ہیں اور واقعات کو بڑھنے میں مدد دیتے ہیں، اور واقعات کے گذرنے کے ساتھ ساتھ منظر پر آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، میری پاول کے روپ میں عزیز احمد نے ایک ایسی یورپی لڑکی کے کردار کو پیش کیا جو حسین و جمیل بھی ہے اور اپنے عملی صلاحیت کے بل بوتے پر یورپ کے نوجوان حلقہ میں مشہور بھی ہے، یہ مغرب کی ایک ایسی لڑکی کا کردار ہے جس کے سامنے محبت سے زیادہ اہم دوسری چیزیں ہیں۔ میری پاول کے علاوہ برتھا، مارگرٹ اور جیمس کراکسلے کے کردار یورپ کے ان تمام نوجوانوں کی عکاسی کرتے ہیں جو زندگی کو آزادانہ طور پر بسر کرنا چاہتے ہیں۔ زندگی کا کوئی مخصوص نقطہ نظر ان کے سامنے نہیں ہے، ایک کردار ہروشا کا بھی ہے جو نعیم کا قریبی دوست ہے یہ نوجوان چیکوسلواکیہ سے سیاست اور عمرانیات کی تعلیم حاصل کرنے انگلستان آتا ہے، وہ ایک مضبوط کردار کا حامل نوجوان ہے، نعیم کے مقابلہ میں وہ غیر ضروری تفریحات پر تعلیم کو اہمیت و فوقیت دیتا ہے۔ ناول میں جگہ جگہ اس کی ذہانت کے نمونے ملتے ہیں، بیشتر اوقات نعیم کو وہ زندگی کے معاملہ میں زرین مشورے دیتا دکھائی دیتا ہے، ایک کردار جو بہت کم پیش ہوا ہے لیکن بظاہر سارے ناول کے پس پردہ دکھائی دیتا ہے وہ بلقیس کا کردار ہے جو ہر وقت نعیم کے دل میں بسی رہتی ہے۔ بلقیس کا تعلق اس طبقہ سے ہے جو اپنے والدین کی دولت کی بناء انگریزی ماحول سے روشناس ہوتی ہے اور اپنی ماں کی طرف سے دی گئی آزادی میں بڑی ہوتی ہے، نعیم اس سے ایک طرفہ محبت کرتا ہے لیکن ہندوستانی معاشرہ کے تقاضوں کی بناء بلقیس، نعیم کے وطن آنے تک انتظار نہیں کرسکتی اور اس کی شادی کہیں اور کر دی جاتی ہے۔
نعیم کے ہندوستان میں قیام، دوران سفر جہاز میں، اور یورپ کی تین سالہ زندگی اور وطن واپسی پر اس کے بہت سے چھوٹے بڑے کرداروں سے ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ عزیز احمد نے بیشتر کردار اپنے اطراف کے سماج سے لئے ہیں اور ناول جو زندگی کی پیشکشی کا کامیاب ذریعہ ہے اس میں بھی اسی طرح کے کردار پیش کئے جاتے ہیں۔ چنانچہ عزیز احمد نے کردار نگاری کے سلسلہ میں اپنے مطالعہ اور مشاہدہ کا اچھا استعمال کیا ہے۔ چنانچہ ان کے کردار ناول کا ہی ایک حصہ معلوم ہوتے ہیں اور ناول کی زندگی کا جزو لگتے ہیں۔ ناول میں پیش کردہ نوجوان کرداروں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے بیشتر کردار آزاد منش انسان ہیں، دنیا کے بیشتر ممالک سے لندن اور پیرس میں اس لئے جمع ہوتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں لیکن یہاں کی رنگنیوں میں کھوجاتے ہیں، ہندوستان سے بھی بیشتر نوجوان کا یورپ میں جمع ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس وقت اعلیٰ تعلیم کیلئے لوگ اپنے نوجوانوں کو انگلستان بھیجا کرتے تھے، جہاں ان کی دوستی دوسرے ممالک کے نوجوانوں سے ہوتی ہے۔ اس طرح کی دوستی دکھاتے ہوئے عزیز احمد نے رنگ و نسل میں تفریق مٹانے کی کوشش کی ہے، ان نوجوانوں کی آپسی گفتگو، ان کی عادات و اطوار سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں آوارہ گردی، سیر و تفریح کے علاوہ اپنے عہد کا سیاسی و سماجی شعور بھی ہے، وہ دنیا میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں پر تبصرہ کرتے ہیں جن میں اشتراکیت و اشتمالیت دنیا کی بیشتر ممالک میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں، جنگ عظیم کے بعد کے اثرات، شعر و ادب، موسیقی، مصوری غرض اس طرح کے بیشتر مضامین پر بحثیں نوجوانوں کے موضوعات گفتگو ہیں، بعض مرتبہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عزیز احمد خود اپنے نقطہ نظر کا اظہار ان کرداروں کے ذریعہ کرا رہے ہوں۔ اس ناول میں پیش کردہ ہندوستانی کردار تمثیلی بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ اس وقت عزیز احمد کے علاوہ سجاد ظہیر، ملک راج آنند، رشید جہاں اور دوسرے ہندوستانی نوجوان تعلیم کی غرض سے یورپ میں جمع تھے، جہاں کے ہوٹلوں میں بیٹھ کر ہی انہوں نے ترقی پسند تحریک کی بنیاد ڈالی تھی، اور اسے ہندوستان میں پھیلایا تھا، اس طرح ناول ’’گریز‘‘ کے بیشتر کردار اپنے عہد کی تصویر کشی کرتے ہیں۔
عزیز احمد کے بیشتر نقادوں نے ناول ’’گریز‘‘ پر تنقید کرتے ہوئے ان کی جنسی نگاری کو ہی نشان ہدف بنایا ہے، ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ جنسی کیفیت کے اظہار میں خود بھی تلذذ کا شکار ہوتے ہیں اور قاری کواس بھی اس میں شریک کر لیتے ہیں اور اس طرح کی کیفیت میں نامناسب افراط سے کام لیتے ہیں وقار عظیم کے بموجب:
’’ناول کے سیاسی اور معاشی پس منظر میں جنسی حقائق کا غلبہ ہے جنہیں مصنف نے مزے لے لے کر بیان کیا ہے، اور اپنے قاری کو اس مزے میں پوری طرح شریک ہونے کی دعوت دی ہے ‘‘۔ ۸۹؎
عزیز احمد کے پیش نظر ایک مخصوص موضوع تھا، اور اس موضوع کی کیفیت اور اس میں خوبی اس وقت ہی پیدا ہوسکتی ہے جب کہ اسے مخصوص انداز میں اس طرح پیش کیا جائے کہ وہ دلفریب لگے نعیم اور برتھا کی ملاقات کا ایک منظر پیش ہے، جس سے عزیز احمد کے طرز کا اندازہ ہوسکتا ہے :
’’برتھا، نیم دراز حالت میں اس کی گود میں لیٹی ہوئی تھی اور اس کا سنہرے بالوں سے بھرا ہوا سر نعیم کے شانے کا سہارا لگائے ہوئے بڑا خوبصورت معلوم ہوتا تھا، نعیم نے اس کا بوسہ لینا چاہا تو اس نے اپنے لب اوپر اٹھائے، نعیم نے اسی حالت میں اسے اور اچھی طرح اپنی آغوش کی گرفت میں لے کے اور اس کے سینے پر پنجے گاڑ کر اس کا بوسہ لیا، نعیم کے دانت اس کے دانتوں سے ٹکرائے اور وہ نعیم کی زبان کو چوسنے لگی‘‘۔ ۹۰؎
عزیز احمد نے چونکہ یورپ کا ماحول اور مغربی کردار لے تھے اس لئے اس طرح کے مناظر کی تفصیلی پیش کشی میں انہیں آزادی ملی، لیکن نعیم جو کہ ہندوستانی نوجوان ہے اس کی بے باکی دراصل عزیز احمد کی بے باکی ہے اس طرح کے کردار کو پیش کرتے ہوئے عزیز احمد نے اردو ناول نگاری کے کرداروں میں نیا تجربہ کیا ہے، جنسی پیش کشی میں بعض مرتبہ عزیز احمد زیادتی کر دیتے ہیں جو کہ گراں لگتا ہے، مخصوص اعضاء کے بیان میں عزیز احمد تکرار کرتے دکھائی دیتے ہیں جو کہ مریضانہ ذہنیت کا اظہار کی ہے جیسے :
’’مارگرٹ کے پستان چھوٹی چھوٹی اور فولاد کی سخت ناشپاتیوں کے سے تھے ‘‘۔ ۹۱؎
’’برتھا کے پستان بڑے بڑے تھے اور نرم نہیں تھے ‘‘۔ ۹۲؎
اس طرح کی چند ایک خامیوں کے باوجود عزیز احمد کی جنس نگاری اپنے موضوع سے مطابقت رکھتی ہے اور ایک مخصوص فن کی ترجمانی کرتی ہے، عزیز احمد پر عریاں نگاری کے یہ الزامات اردو تنقید کے اس عہد میں کئے گئے تھے، جب کہ تنقید پوری طرح تشکیل نہیں ہوپائی تھی۔ آج اردو تنقید کی ترقی نے جانچ کے پیمانے بدل دئیے ہیں۔ چنانچہ جنس کو بھی ادب میں اہمیت دی گئی ہے، عزیز احمد نے بھی بدلتے وقت کے ساتھ جب کہ سماج میں پرانی قدروں کا خاتمہ اور نئی روایات کی تعمیر ہو رہی تھی جہاں سائنسی علوم نے مذہب اور اخلاقی قدروں کو ہلا کر رکھ دیا تھا علوم نفسیات اور فرائڈ کے نظریات نے انسانی زندگی کے نئے پہلوؤں کو اجاگر کیا تھا، اپنے عہد کے ادب کو بھی متاثر کیا تھا اور اپنے ناولوں میں پہلی مرتبہ ان موضوعات کو برتا۔ اس کیلئے مغرب کے بڑے بڑے ادیبوں سے تاثر بھی لیا، اس کے باوجود وہ اس طرح کے موضوعات کی پیش کشی میں مبتدی تھے، ان کی چند ایک خامیوں سے قطع نظر انہوں نے جنس کو بطور آرٹ اپنے ناولوں میں پیش کیا مغرب و مشرق کی محبت، جنسی جذبہ اور محبت اور محبت کے نئے رنگ اس طرح کے نئے تجربے عزیز احمد نے اپنے ناول میں کئے اور اردو ناول کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا، یوسف سرمست کے بموجب:
’’عزیز احمد راست اور کھلے طور پر جنسیت کو پیش کرتے ہیں وہ جنسی جذبہ کو نہ ذلیل سمجھتے ہیں نہ ذلیل دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، اس لئے آج تک ان کی عریاں نگاری فحش نہیں بنی ہے، بلکہ اس کے برخلاف جنس کا عنصر ان کی ناول نگاری میں بڑی فنی قدر و قیمت رکھتا ہے ‘‘۔ ۹۳؎
ناول ’’گریز‘‘ کو صرف عزیز احمد کی عریاں نگاری یا سستی جذباتیت کا مظہر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ عزیز احمد نے اس ناول میں اس عہد کی ہندوستانی اور یورپی زندگی کے حقیقی نقشے پیش کئے ہیں اس طرح یہ ناول اس عہد کی سیاسی و سماجی تاریخ بھی ہے۔ عزیز احمد کا گہرا مطالعہ اور مشاہدہ اس میں فنی پختگی پیدا کر دیتا ہے۔ عزیز احمد کا یہ ناول ایک طرح کا سفر نامہ بھی ہے کیونکہ ناول کا مرکزی کردار حیدرآباد سے ممبئی اور پھر براہ جہاز یورپ کا سفر کرتا ہے جہاں وہ لندن، پیرس، روم، برلن، نیپلز اور دوسرے شہروں کا سفر کرتا ہے، اس طرح قاری ان تمام مقامات کا اندازہ نعیم کے کردار سے کرتا رہتا ہے وہاں کے بازاروں، ہوٹلوں، درسگاہوں کے ماحول سے یورپ کی تہذیب و معاشرت کا اندازہ ہوتا ہے۔
ناول کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ زندگی کو پیش کرنے کا فن ہے، چنانچہ عزیز احمد نے بھی اس ناول میں زندگی کو بڑے احسن طریقے سے پیش کیا ہے، اس کے مختلف پہلوؤں، خارجی اور داخلی حالات، محبت کے گو ناگوں انداز، یورپ کی سیاسی، سماجی، تہذیبی زندگی کے حسین مرقعے اور سماجی زندگی میں اشتراکی و اشتمالی نظریات غرض زندگی کے مختلف رنگوں کو اپنے ناول میں پیش کیا ہے ’’گریز‘‘ میں صرف ایک کردار کی زندگی کی ہی نہیں بلکہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے درمیان ہندوستانی و یورپ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر عزیز احمد نے نظر ڈالی ہے، عزیز احمد کے بہت سے نقادوں نے ’’گریز‘‘ کے صرف مخصوص پہلو پر زور دیتے ہوئے اس ناول کو زندگی سے دور بتایا ہے، اس طرح جانبداری برتی گئی ہے۔ احتشام حسین ’’گریز‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ان کی سب سے بڑی بھول یہ ہے کہ وہ جنسی زندگی کا تجزیہ کرتے ہوئے زندگی کے دوسرے بڑے بڑے مسئلوں کی طرف سے آنکھ بند کر لیتے ہیں ‘‘۔ ۹۴؎
حالانکہ عزیز احمد نے اپنے مخصوص موضوع جنس کے ساتھ ساتھ اس ناول میں زندگی کے گوناگوں پہلوؤں پر جا بجا روشنی ڈالی ہے، لیکن کسی ناول میں ایک پہلو پر ہی تفصیلات ہوتی ہیں زندگی کے تمام مسائل کو پیش نہیں کیا جا سکتا۔
’’گریز‘‘ میں عزیز احمد کی ناول نگاری فنی حیثیت سے پختگی حاصل کر لیتی، عزیز احمد کے سخت نکتہ چین احسن فاروقی نے بھی ان کے فن کی تعریف کی ہے :
’’عزیز احمد کا ٹیکنک پر قابو داد کے قابل ہے، ان کے مطالعہ اور علم نے اس معاملہ میں ان کی پوری مدد کی، اور اردو ناول کا ٹیکنکی معیار انہوں نے بہت بلند کیا‘‘۔ ۹۵؎
عزیز احمد نے ناول کو پیش کرنے میں مختلف طریقوں سے کام لیا ہے، ابتدائی واقعات اور نعیم کے ہندوستان سے یورپ پہنچنے کے احوال، جہاز کے سفر کے حالات کو بیان کرنے میں عزیز احمد نے ڈائری کی ٹیکنک سے کام لیا ہے، جس میں بیانیہ انداز زیادہ ہے۔ جزئیات نگاری اور طویل بیانی کو ڈائری کے انداز میں سموکر عزیز احمد نے اپنے آپ کو طویل نگاری سے بچا لیا۔ ناول میں خطوط بھی ہیں اور شعر و شاعری بھی اس سے کرداروں کے آپسی جذبات اور اظہار خیال اور واقعات کو آسانی سے پیش کرنے میں عزیز احمد کو بڑی مدد ملی ہے، چنانچہ نعیم، ایلس، میری پاؤل، جیمس کراکسلے وغیرہ کے خطوط جہاں ناول کو آگے بڑھانے میں مدد دیتے ہیں وہیں ان سے ناول میں مخصوص کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
ناول میں واحد متکلم کے طریقہ کار کو اپنایا گیا ہے، نعیم کے ذریعہ بہت سی باتوں کا اظہار اور اس کے جذبات و خیالات کی پیشکشی سے ناول کے مواد کو پیش کیا گیا ہے، ناول میں تاثراتی رنگ بھی پایا گیا ہے، مختلف موقعوں پر نعیم کے تاثرات دراصل عزیز احمد کے تاثرات ہیں جوان کے مشاہدے اور مطالعے کا سبب ہیں، اس طرح عزیز احمد نے ناول کے وسیع مواد کو مختلف طریقوں سے پیش کیا ہے۔
فنی اعتبار سے بحیثیت مجموعی عزیز احمد کا ناول ’’گریز‘‘ ایک مکمل اور روایتی ناول ہے اس میں ناول کے اجزاء ترتیب میں ہیں اس میں واضح کہانی، پھیلا ہوا پلاٹ، ابتدائ، درمیان اور اختتام سب ہی واضح طور پر موجود ہے۔ کردار نگاری اعلیٰ پیمانے کی ہے، نعیم کا کردار جاندار ہے، منظر نگاری اور جذبات نگاری مخصوص رنگ لئے ہوئے ہے، جزئیات نگاری میں بہت سے پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے ناول کے زماں و مکاں میں عزیز احمد نے بیشتر مواقع پر حقیقی ناموں کا استعمال کیا ہے۔ عزیز احمد کے مشاہدے نے اس میں حقیقت کا رنگ گہرا کر دیا، کرداروں کے مکالموں سے ان کی حیثیت اور مقام کا اندازہ ہوتا ہے۔
’’گریز‘‘ میں عزیز احمد نے زیادہ تر بیانیہ انداز اختیار کیا ہے، اس لئے ان کا اسلوب نگارش بھی سیدھا سادہ ہے، محبت کے مناظر بیان کرنے میں عزیز احمد جذباتی ہو جاتے ہیں چنانچہ ان کا اسلوب، رنگین بیانی اختیار کر لیتا ہے، جس سے اسلوب میں دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے، کرداروں کے داخلی جذبات کوپیش کرنے میں عزیز احمد نے شاعرانہ اسلوب اختیار کیا ہے، اس کے لئے انہوں نے اشعار سے بھی کام لیا ہے، بیشتر اوقات عزیز احمد فلسفیانہ خیالات بھی کرداروں کے ذریعہ پیش کرتے ہیں جو دراصل انہی کے جذبات کی عکاسی ہوتی ہے جیسے :
’’ایک نوجوان مرد اور ایک نوجوان عورت اگر زیادہ ساتھ رہے تو انس ہوہی جاتا ہے ‘‘۔
اسی طرح سیاسی مباحث میں اشتراکیت اور اشتمالیت پر مبنی مباحث دراصل عزیز احمد کے اپنے نظریات ہیں جو انہوں نے کرداروں کی زبانی پیش کئے ہیں، اس طرح انہوں نے اپنے اسلوب میں جدت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، بحیثیت مجموعی عزیز احمد کا یہ ناول ایک مکمل اور کامیاب ناول ہے، جنسی خیالات کے اظہار میں اور احتیاط سے کام لیا جاتا تو اس ناول کے حسن میں چار چاند لگ جاتے اس کے باوجود اردو ناول نگاری میں یہ ایک نیا دور اور جری اقدام ہے جو عزیز احمد نے اٹھایا ہے، اردو ناول کی تاریخ میں یہ ناول اپنے مخصوص انداز کی بناء اہمیت رکھتا ہے۔
٭٭
’’آگ‘‘
’’گریز‘‘ کے بعد عزیز احمد کو جس ناول سے مقبولیت حاصل ہوئی وہ ’’آگ‘‘ ہے جو 1945ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوا۔ عزیز احمد کے ابتدائی تین ناولوں ’’ہوس‘‘ ’’مرمر اور خون‘‘ اور ’’گریز‘‘ میں بنیادی طور پر جنسی پہلو نمایاں تھا۔ لیکن ان کا چوتھا ناول ’’آگ‘‘ جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔ اس ناول میں عزیز احمد نے زندگی کے تہذیبی اور معاشرتی پہلوؤں کی نمایاں عکاسی کی ہے، ’’آگ‘‘ میں انہوں نے 1908ء سے 1945ء کے درمیان کشمیر کی زندگی کے تہذیبی، معاشرتی، سیاسی و سماجی پہلوؤں کو فنکاری سے پیش کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس عرصہ میں ہندوستان اور دنیا کے حالات کو نظر میں رکھا ہے اور ان حالات کے کشمیری زندگی پر اثر انداز ہونے والے اثرات کو بھی پیش کیا ہے، ان میں خاص طور پر ایشیا اور یورپ کے ممالک کے سیاسی حالات، انقلابات اور صنعتی ترقی کا تذکرہ اہم ہے اس طرح عزیز احمد کا یہ ناول ایک تاریخی دستاویز بن جاتا ہے۔
عزیز احمد نے کشمیری زندگی کو پیش کرنے میں ایک خاص طرز کو اپنایا ہے انہوں نے اس ناول کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا ’’شنیدہ‘‘ اور ’’دیدہ‘‘ اور پہلے حصہ ’’شنیدہ‘‘ میں انہوں نے اپنے وسیع مطالعہ اور تجربہ سے کام لیتے ہوئے حالات کا تذکرہ اور تجزیہ کیا ہے۔ دوسرے حصہ ’’دیدہ‘‘ میں عزیز احمد نے واحد متکلم بن کر کشمیری زندگی کا مشاہدہ کیا اور احوال پیش کئے۔ عزیز احمد نے اپنے ملازمت کے سلسلہ میں کچھ عرصہ کشمیر میں قیام کیا تھا، چنانچہ اپنے عمیق مشاہدہ اور کشمیری زندگی کو قریب سے دیکھنے کی بناء پر انہوں نے ’’آگ‘‘ میں کشمیر کی زندگی کا باریک بینی سے مطالعہ پیش کیا ہے اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کو قارئین کے سامنے کھول کر پیش کر دیا ہے۔ کشمیر کی زندگی کی اتنی حقیقی اور واضح تصویر شائد ہی اردو کی کسی اور ناول میں اس تفصیل سے پیش ہوئی ہو، یہاں کشمیری عوام، کشمیر کے قدرتی مناظر، جھیلیں، ہاؤس بوٹ، شکاری بھی ہیں، اور کشمیری مزدور غریب عوام کی محنت کش زندگی کی حقیقی تصویر بھی۔ عام طور پر کشمیر کے نام کے ساتھ ہی ایک فرحت بخش احساس ذہن میں جاگ اٹھتا ہے، کشمیر کی وادی کے قدرتی حسن کا احساس، اور جنت نشان کشمیر اور شعراء اور ادیبوں کے خوابوں کی جنت کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے، یہ احساس کشمیر کے باہر رہنے والوں اور سیاحوں کا ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں کشمیر کے اس دلفریب حسن کے ساتھ ساتھ کشمیری عوام کی وہ زندگی بھی ہے جو نامساعد حالات کے سبب پریشانیوں اور مصائب میں گھری ہوئی ہے نشیب و فراز میں گھری زندگی کو کشمیری عوام ہی زیادہ محسوس کرسکتے ہیں اور بقول یوسف سرمست کے :
’’کشمیر یہاں جنت نشان ہی نہیں جہنم زار بھی نظر آتا ہے ‘‘۔ ۹۶؎
چنانچہ ’’آگ‘‘ میں عزیز احمد نے بھی کشمیری زندگی کے حقائق سے پردہ اٹھایا ہے، اور بتایا کہ اس جنت نشان کشمیر میں بھی زندگی طرح طرح کے مسائل سے دوچار ہے۔ اس ناول میں کشمیر کے غریب عوام کے مسائل، بھوک، افلاس، گندگی، بیماریوں کا تذکرہ ہے، اسی کے ساتھ دولت مند سرمایہ داروں کی زندگی کی رونق، ان کی شایان شان زندگی اور دولت کے بل بوتے پر غریب بھولے بھالے عوام پر ان کی ظلم و زیادتی، اور ان کی اخلاق سوز حرکتیں ان سب کا ذکر ہے اور ساتھ ہی اس عہد کے ہندوستان کے سیاسی و سماجی حالات، جدوجہد آزادی کا ذکر بھی ہمیں ملتا ہے۔
عزیز احمد نے چونکہ اپنے ناول میں ایک مخصوص عرصہ کی تہذیبی و سماجی زندگی کو پیش کیا ہے اس لئے وقت کے بہاؤ اور زندگی کی روش کو برقرار رکھنے کیلئے اور اپنے ناول کے پلاٹ کو مضبوط بنانے کیلئے انہوں نے ضمنی طور پر اس ناول میں تین نسلوں کی کہانی کو بنیاد بنایا ہے، ان نسلوں کے افراد کی زندگی کو تاریخ کے پس منظر میں پیش کرتے ہوئے عزیز احمد نے اس وقت کی کشمیری زندگی کا جائزہ لیا ہے۔
تہذیبی ناولوں میں قصہ کہانی اہمیت کی حامل نہیں ہوتی بلکہ زندگی کا مطالعہ اہم ہوتا ہے اگر کسی فرد یا افراد کی کہانی بھی ہوتو وہ ضمنی اہمیت کی حامل ہوتی ہے، ’’آگ‘‘ میں کشمیر کے ’’جو‘‘ خاندان کے سلسلہ کو پیش کیا گیا ہے، ’’غضنفر جو‘‘ اس کے بیٹے ’’سکندر جو‘‘ اور اس کے بیٹے ’’انور جو‘‘ کی زندگی کے حالات کو پیش کرتے ہوئے عزیز احمد نے وقت کے بہاؤ کے ساتھ اس عہد کی زندگی کو پیش کیا ہے۔ ’’جو‘‘ خاندان کے یہ تینوں کردار سرمایہ دار طبقہ کی نمائندگی کرتے ہیں، عزیز احمد نے سرمایہ دار طبقہ کے کرداروں کا انتخاب اس لئے کیا کہ اس وقت کے ادب میں سرمایہ دار طبقہ کے افراد ہی بنیادی حیثیت رکھتے تھے۔ کیونکہ سرمایہ دار طبقہ کے افراد کی زندگی میں جتنا شور شرابہ گہما گہمی اور نشیب و فراز ہوتے ہیں وہ نچلے طبقہ میں ممکن نہ تھے۔
’’آگ‘‘ میں ’جو، خاندان کے افراد کی زندگی کا ہی ایک حصہ ہے، اس لئے عزیز احمد نے ان کرداروں میں سے کسی کو ہیرو یا ہیروئین کے طور پر نہیں پیش کیا اور خود ہی واحد متکلم بن کر احوال پیش کرتے جاتے ہیں، اس لئے ناول میں بیانیہ انداز واضح دکھائی دیتا ہے، ناول میں ہیروئین کا کردار نہ ہونے کے سلسلہ میں عزیز احمد کہتے ہیں :
’’اور میں واحد متکلم پھر سوچ میں ہوں، اس ناول میں ہیروئین کا ملنا تو مشکل ہی تھا، کیونکہ شریف گھرکی کشمیر ین کو کون دیکھ سکتا ہے، خصوصیت سے اجنبی سیاح اسے کیا جانے، اس کا جسم اس کی آواز سب پردہ کرتی ہے۔ ۔ ۔ وہ علم سے آزادی سے، سورج کی روشنی سے، تازہ ہوا سے، مرد کی نگاہوں سے، سچی محبت سے محروم ہے ‘‘۔ ۹۷؎
عزیز احمد کے ان خیالات سے پتہ چلتا ہے کہ اُس وقت کی کشمیری عورت صرف گھر کی چار دیواری میں قید تھی باہر کی زندگی میں اس کا عمل دخل نہیں تھا، اور عزیز احمد کے ناول میں کوئی ہیرو کا کردار بھی نہیں ہے، بقول اُن کے :
’’مجھے سب سے زیادہ فکر اس بات کی ہے کہ ہیرو بھی میرے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے اور سکندر جو کی جگہ کشمیر کے مناظر اور کشمیر کی زندگی اس ناول کے ہیرو بنے جا رہے ہیں ‘‘۔ ۹۸؎
اور حقیقت میں کشمیری زندگی کشمیر کے مناظر ہی اس ناول کے اصل ہیرو ہیں، زندگی کو پیش کرنے میں انسانی کردار کڑی کا کام دیتے ہیں۔
جو خاندان کے بڑے فرد ’’غضنفر جو‘‘ ہیں جو خواجہ صاحب کی حیثیت سے مشہور ہیں اور کشمیر میں قدیم نوادرات، قیمتی پتھروں اور قالینوں کی خرید و فروخت کا کام کرتے ہیں۔ سماج میں ان کا رتبہ بلند ہے، لیکن رنگین مزاج بھی ہیں، اور نان بائی ’’ رجبا‘‘ کی بیوی ’’زون‘‘ سے تعلقات رکھتے ہیں اور اپنی دولت کے بل بوتے پر اس طرح کی حرکات سے پردہ پوشی کرتے ہیں، نان بائی رجبا اپنی غربت سے بے بس ہو کر اپنی بیوی کی بد اخلاقی برداشت کر لیتا ہے، اس بات سے ایک طرف تو سرمایہ دار طبقہ کی اخلاقی گراوٹ کا پتہ چلتا ہے وہیں غریب عوام کی بے بسی کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ ’’غضنفر جو‘‘ بیسویں صدی کے غلام ہندوستان کے وہ فرد ہیں جن پر سرمایہ دارانہ زندگی کے اثرات غالب ہیں جس کے زیر اثر وہ اپنی اولاد کو بھی سرمایہ دار بنانا چاہتے ہیں اور اپنے بیٹے سکندر جو کو بے جا لاڈ و پیار سے بگاڑتے رہتے ہیں، لیکن اسی وقت کچھ مصلحین قوم بھی ہیں جو قوم کو خواب غفلت سے جگانے اور ظلمت کے اندھیروں سے نکالنے کیلئے تعلیم کی برکات سے آگاہ کرتے ہیں، چنانچہ غضنفر جو کے ایک ساتھی ہیں ظہری صاحب جوان میں بیداری کی لہر پیدا کرتے ہیں پہلے تو وہ کشمیر یوں کی پستی کا ذکر یوں کرتے ہیں :۔
’’جناب اس ملک کا واحد علاج جمہوری حکومت ہے ‘‘۔ ۔ ۔ ۔ با خدا خواجہ صاحب اپنے ملک کی حالت دیکھ کر میری آنکھوں میں خون اتر آیا ہے ہم لوگوں سے بھیڑ بکری، گھوڑے، خچر اچھے ہیں، وہ مار کھاتے ہیں تو کبھی کبھی سرکشی بھی کرتے ہوں گے ہم کو تو کسی چیز کا احساس ہی نہیں، یہ بھوک دیکھئے یہ غربت دیکھئے یہ افلاس دیکھ کر میرا خون کھولتا ہے ‘‘۔ ۹۹؎
ظہری صاحب کے یہ خیالات دراصل ان ہندوستانیوں کے خیالات ہیں جو بیداری کی مہم شروع کر چکے تھے۔ ظہری صاحب آزادی کے حصول کیلئے اور بڑی تبدیلی کیلئے تعلیم کی اہمیت پر زور دیتے ہیں :
’’ہماری نکبت، افلاس کی وجہہ ایک تیتری ہے، اس تیتری کا نام ہے جہالت تعلیم کی کمی اور۔ ۔ ۔ ۔ تعلیم، تعلیم ہی ترقی کی راز ہے ‘‘۔ ۱۰۰؎
غضنفر جو ظہری صاحب کے خیالات سے اتفاق کرتے ہیں آنے والے حالات اور زندگی کی تبدیلی کے پیش نظر اپنی خاندانی روایت کو توڑتے ہوئے اپنے بیٹے سکندر جو کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے علی گڑھ بھیج دیتے ہیں، غضنفر جو کا یہ اقدام اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہندوستانی قوم کو تعلیم کی نعمتوں اور برکتوں کا احساس ہوتا جارہا تھا اور زندگی ایک نئے ترقی یافتہ دور میں قدم رکھ رہی تھی۔ غضنفر جو وقت کے گذرنے کے ساتھ اپنے کاروبار کو وسعت دیتے جا رہے تھے۔ ناول وقت کے بہاؤ کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے دوسرے دور میں اس وقت داخل ہوتا ہے، جب غضنفر جو کا بیٹا سکندر جو علی گڑھ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ایک خوبرو تعلیم یافتہ نوجوان بن کر اپنے وطن کشمیر آتا ہے اور کشمیری زندگی میں اسے وقعت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے لیکن دولت اور جوانی کے نشہ میں وہ بھی اپنے باپ کا ہی بیٹا ثابت ہوتا ہے اپنے باپ کی داشتہ زون کی بیٹی فضلی سے عشق لڑاتا ہے جو کہ اب کشمیری حسینہ کے روپ میں سکندر جو کے سامنے آتی ہے اور اس کے دل کا چین چھین لیتی ہے۔ غضنفر جو ایک تجربہ کار باپ کی طرح حالات کو بھانپ لیتے ہیں اور سکندر جو کی شادی ایک اچھے گھر کی لڑکی سے کر دیتے ہیں لیکن اپنی شادی کے دوسرے روز ہی سکندر جو اپنے نوکر امرو کی مدد سے فضلی کے گھر نقب لگا کر اس سے ہم آغوش ہو جاتا ہے اپنے باپ کی داشتہ کی بیٹی سے تعلقات قائم کرنا کشمیری سرمایہ داروں کے اخلاقی دیوالیہ پن کی انتہا ہے۔ عزیز احمد نے کشمیری سماج میں اس طرح کے واقعات پیش کرتے ہوئے یہ بات بتانے کی کوشش کی ہے کہ دولت مند سرمایہ دار اپنی دولت کے نشہ میں چور کس طرح غریب عوام کی عصمت سے کھیلتے ہیں، ان سرمایہ داروں کے نزدیک غریبوں کی عصمت کی قیمت کا اندازہ امرو اور سکندر جو کے بیچ اس گفتگو سے ہوسکتا ہے :
’’چھوٹے خواجہ تم کو رجبا نانبائی کی بیٹی فضلی سے عشق ہے ؟ مجھے رجبان انبائی کی بیٹی فضلی سے عشق ہے۔ کتنا عشق ہے ؟ دنیا کی ہر چیز سے زیادہ عشق ہے، تم اسے کیا دو گے ؟
چار سو روپئے، سونے کے کنوج اور تالا زز‘‘۔ ۱۰۱؎
سکندر جو کی رنگین مزاجی اور جو خاندان کی کاروباری زندگی اور کشمیری معاشرت کے تذکرہ کے ساتھ ناول آگے بڑھتا رہتا ہے اور عزیز احمد وقت کے اس بہاؤ کے ساتھ ساتھ ہمیں دنیا کے حالات سے بھی باخبر کرتے جاتے ہیں، بیسویں صدی کے ابتدائی دورے دنیا میں سیاسی، سماجی تغیرات سے بھرے ہیں زندگی کی ڈگر مشکلات میں گھر گئی ہے، جنگ عظیم کے اثرات سے کئی ممالک کی زندگی پر برا اثر پڑا ہے، عزیز احمد دنیا کے ان حالات کو ’’آگ‘‘ سے تشبیہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اور شمال میں آگ لہک لہک کر پھیلتی گئی، بخارا اور سمر قندر اور اندجان سے قالین اور سمورآنا بند ہو گئے، تاشقند سے بھڑکتی ہوئی آگ بخارا پہنچی۔ ۔ ۔ ۔ لینن اور ایک شخص جس کا نام اسٹالن تھا، روس اور مشرق کے مسلمانوں کے نام ایک بیان شائع کیا۔ ۔ ۔ ۔ جس میں انہیں انقلاب میں مساوات اور برابری سے شرکت کی دعوت دی تھی‘‘۔ ۱۰۲؎
اس کے ساتھ ساتھ انور باشاہ کی سیاسی زندگی، دنیا میں صنعتی ترقی، ریل کا آغاز، کارخانوں کی وجہہ سے کام میں تیزی غرض دنیا کے حالات کے حقیقی نقشے عزیز احمد نے کھینچے ہیں، اس کے ساتھ عزیز احمد ہندوستان کے واقعات پر بھی نظر ڈالتے ہیں اور جدوجہد آزادی میں ہندوستانی عوام کی قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہیں :
’’جنوب میں دوسری قسم کی آگ پھیلتی جا رہی تھی، جلیان والا باغ میں انسان گھٹنوں اور کہنیوں پر رینگے اور ان پر آگ برسی اور پھر ہوتے ہوتے ملک بھر میں پھیل گئی‘‘۔ ۱۰۳؎
اور ہندوستان میں پھیلی اسی افراتفری کے تذکرہ کے ساتھ ساتھ عزیز احمد جو خاندان کی زندگی کے حالات بھی بیان کرتے تھے، جو اپنے نشیب و فراز سے رواں دوراں ہے، غضنفر جو تجارت کو آگے بڑھانے اور اُسے ترقی دینے میں سکندر جو اپنی قابلیت اور تعلیم کا بھرپور استعمال کرتا ہے، اپنے باپ کے کاروبار کو کشمیر سے باہر ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں وسعت دیتا ہے اور خود کشمیر میں کئی ہاؤس بوٹ تیار کرواتا ہے، ہر سال وہ اپنی بیرونی شاخوں کا حساب کتاب کے سلسلہ میں مختلف شہروں کا دورہ کرتا ہے، جہاں کاروبار کے ساتھ وہ اپنی مزاج کی رنگینی کا سامان بھی کرتا ہے، ایک دفعہ اپنے کاروبار کی ایک برانچ میں آگ لگنے کی خبر سنی تو پریشان ہو اٹھتا ہے، اس موقع پر اس کے خیالات عزیز احمد کی زبانی یوں ہوتے ہیں :
’’اور واقعتاً کشمیر میں آگ کے علاوہ ہے کیا، بھو کی آگ، جو خواجہ سکندر جو اور ان کی طرح کے بیچ کے پونچھ کھانے والوں نے پھیلائی ہے، لکڑی کے کھودنے والے، دیدے پھوڑ کے کپڑے پر رنگ برنگی پھول کاڑھنے والے، دیدہ ریزی کرکے قالین بننے والے ہرسال ابتدائے بہار میں زوجی لا کے گیارہ ہزار فٹ عبور کرنے والے مزدوروں کی محنت کا یہ ثمرہ، مگر کیا یہ آگ اس کو اور اس مہا جنی نظام اور جاگیرداری نظام کو نہ جلائے گی، ہر طرف آگ لگی ہے، بھوک کی آگ، چنار کی آگ، لالے کی آگ، بیماریوں کی آگ‘‘۔ ۱۰۴؎
یہ خیالات سکندر جو کے ہی نہیں ہر اس کشمیری کے ہیں جسے یہاں کی زندگی کی مشکلات کا احساس ہے، غریب مزدوروں کی عسرت بھری زندگی، مہاجنی نظام اور سرمایہ دارانہ نظام کا تذکرہ کرتے ہوئے عزیز احمد اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ عنقریب ایک بڑی تبدیلی زندگی میں آئے گی ایک انقلاب آئے گا جس کے بعد مزدور کو اس کا برابر حق ملے گا، اور معاشرہ میں پھیلی ہر طرح کی آگ ٹھنڈی ہوتی جائے گی۔
ناول کے اس حصہ میں عزیز احمد اس عہد کی زندگی کو پیش کرتے ہیں جب ہندوستان میں جہاں ایک طرف تو جدوجہد آزادی میں تیزی آ گئی تھی، وہیں بعض ہندوستانیوں کے انگریزوں کے ساتھ تعلقات اتنے بڑھے کہ ان کا کاروبار وسیع ہوتا گیا ان میں ایک سکندر جو بھی ہے جو اپنے فراست اور تدابیر کے سبب بہت سے انگریزوں سے تعلقات بڑھاتا ہے، اور اپنے کاروبار کو وسعت دیتا جاتا ہے، اس کے بنائے ہاؤس بوٹوں میں آئے دن پارٹیاں ہوتی رہتی ہیں جس میں کئی انگریزی میموں سے سکندر جو کے تعلقات بڑھتے جاتے ہیں، ان میموں کے پیچھے سکندر جو اتنا دیوانہ ہو جاتا ہے کہ ان کی قربت کیلئے کاروبار کو قربان کرتا جاتا ہے، سکندر جو کی زندگی کے اس پہلو کو پیش کرتے ہوئے عزیز احمد نے یہ بتایا کہ کس طرح کشمیری مسلمان دولت اور عورت کے چکر میں پھنس کر تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں۔
ناول کے تیسرے دور میں عزیز احمد ۱۹۴۲ء کے عہد کا تذکرہ کرتے ہوئے اور خود ہی واحد متکلم بن کر کشمیر کی زندگی میں داخل ہوتے ہیں، اور قارئین کو جو خاندان کی تیسری نسل کے کردار، سکندر جو کے بیٹے انور جو سے متعارف کرواتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی اس دور کی سیاسی جلسے ہندوستان چھوڑ دو تحریک، مسلمانوں کی سیاسی سرگرمیاں، قیام پاکستان کے بارے میں کشمیری مسلمانوں کے طرز فکر کو بھی پیش کرتے جاتے ہیں۔
انور جو اپنے باپ سکندر جو کے برخلاف ایک سنجیدہ قسم کا نوجوان ہے اور اپنے باپ کی حرکات سے نالاں ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس کا باپ انگریز عورتوں کے چنگل سے چھٹکارہ پالے تاکہ ان کے کاروبار کی گرتی ہوئی ساکھ قائم رہ، انور جو کی سیاسی بصیرت بھی اہمیت کی حامل ہے وہ کشمیری کانگریس، مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کی تدبیروں اور قیام پاکستان سے متعلق مباحث میں کشمیر کے بزرگوں کے ساتھ حصہ لیتا ہے، ناول ’’آگ‘‘ کے اختتام میں عزیز احمد نے ۱۹۴۵ء کے حالات پیش کئے ہیں، بیماری کے سبب سکندر جوکا انتقال ہو جاتا ہے اور جو خاندان کا سلسلہ انور جو کے ساتھ آگے جاری تھا، زندگی رواں دواں رہتی ہے جدوجہد آزادی شدت اختیار کر لیتی ہے کانگریس اور مسلم لیگ کے آپسی اختلافات، دوسری جنگ عظیم کے ہندوستانی سماج پر اثرات، مسلمانوں کے بیچ محمد علی جناح کی بڑھتی ہوئی مقبولیت، قیام پاکستان سے مسلمانوں کے اندیشے غرض، ہندوستانی زندگی کی ان کیفیتوں کو پیش کرتے ہوئے عزیز احمد اپنے ناول کے اختتام پر آتے ہیں، اور آخر میں یہ کہتے ہوئے کہ :
’’انور جو کا نام اخبار میں آتا ہے ‘‘ کے ساتھ ہی ناول ’’آگ ‘‘کا اختتام کرتے ہیں۔ ’’آگ‘‘ میں زندگی ایک وسیع کینوس پر پیش کی گئی، چنانچہ کئی چھوٹے بڑے کردار موقع کی مناسبت سے ابھرتے ہیں اور اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہوئے گذر جاتے ہیں۔ عزیز احمد کے مشاہدہ نے ان میں حقیقت کا رنگ بھر دیا ہے۔ ناول میں ظہری صاحب کی طرح کا ایک اور کردار میجر صاحب کا ہے جو زندگی کے مثبت پہلو پر ایقان رکھتے ہیں۔ سکندر جو کے بہی خواہ ہیں اور اسے غفلت سے بیدار ہونے کی تلقین کرتے رہتے ہیں، ان ہی میجر صاحب کے عورت کے بارے میں خیالات کو عزیز احمد نے فلسفیانہ انداز میں پیش کیا ہے :
’’جواہرات کی چمک اور ریشم کی سرسراہٹ ان دواحساسات پر عورتوں کی تقسیم کا دارومدار ہے ان کے مقابلہ میں مردانہ خد و خال چوڑے چکلے سینے دراز قد سب کی حیثیت ثانوی رہ جاتی ہے، اس چمک اس سرسراہٹ کا سلسلہ ایک مٹھی اناج کیلئے، بھیک اور رنڈی کے کوٹھے سے شروع ہو کر محل سراؤں پر ختم ہوتا ہے، اسی لئے بمبئی، کلکتہ، لکھنو، لاہور اور سرینگر میں اچھے اچھے گھروں کی بہو بیٹیاں جو جوہریوں اور بزازوں کے ہاتھوں رہن ہیں جو بھوکی ہوتی ہیں وہ پیٹ بھرنے کیلئے جسم بیچتی ہیں جو کھاتی پیتی ہیں وہ ہیروں کی چمک اور ریشم کی سرسراہٹ کیلئے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘۔ ۱۰۵؎
اس طرح عزیز احمد نے ناول ’’آگ‘‘ کے ذریعہ ہندوستانی معاشرہ میں عورت کی مظلومیت کا ذکر کیا ہے اور اس کے استحصال اور اس پر کئے جانے والی زیادتیوں کے خلاف ایک دردمند آواز اٹھائی ہے۔ وہیں کشمیری مزدوروں کی سخت گیر محنت کش زندگی کو پیش کیا ہے، اور اس پیشکشی میں عزیز احمد حقیقت نگار بن جاتے ہیں :
’’دھوپ میں اس کا سردی، گرمی کا ستایا ہوا چہرہ، پسینے اور جلدی بیماریوں کے عرق سے چمک اٹھتا اور کہیں جائے پناہ نہ ملتی تو بارش میں اس کے کپڑے شرابور ہوتے بہار اور جاڑوں میں اس کے کپڑوں سے پندرہ گز کے فاصلے تک تعفن کی بو آتی اس کی میلی کشمیری ٹوپی، اس کے سر پر منڈھی ہوئی اس کے میل سے داغ دار نظر آتی‘‘۔ ۱۰۶؎
اور عزیز احمد اس مزدور کی بھوک کا ذکر یوں کرتے ہیں :۔
’’یہ فرہاد جو عمر بھر پتھر پھوڑتے رہا ہے پھوڑتا رہے گا، اس کے پیش نظر شیریں کی تصویر بھی تو نہیں، بجائے شیریں کی تصویر کے بھوک کی تصویر ہے اور وہ کوئی حسین رومی، ایرانی شہزادی نہیں وہ ہزاروں منہ والا اژدھا ہے جو ہر آنت گھس گھس کر پھنکارتا رہتا ہے ‘‘۔ ۱۰۷؎
عزیز احمد نے کشمیر میں اپنے دوران قیام وہاں کی زندگی کا قریب سے مشاہدہ کیا تھا، چنانچہ وہاں کے قدرتی حسن اور دلفریب نظاروں کے ساتھ وہاں کے نچلے طبقے کی زندگی کی بے بسی کو محسوس کیا کشمیر میں لوگ زمین سے زیادہ پانی میں زندگی بسر کرتے ہیں غریب عوام کی ہاؤس بوٹوں کے کنارے زندگی اور کشمیری جھیلوں میں ان کی ضروریات زندگی کی گندگی کو عزیز احمد نے باریک نظر سے دیکھا ہے، دریائے جہلم کا مشاہدہ پیش ہے :
’’اور پھر اس (جہلم کی روانی، اس کے شفاف، پاکیزہ پانی کو، جو صرف پگھلی برف تھا بزدلی کی عفونت بھر دی، جہلم کو اپنے معاشرتی نظام کی طرح متعفن کر دیا، اور جہلم بھی بھول گئی کہ وہ ہمالیہ کی بیٹی ہے، اور آزاد ہے، اور جس طرح عورت طوائف بن جاتی ہے اُسی طرح ان جھوٹے نگوں سے، ان ہاؤس بوٹوں شکاروں، کچن بوٹوں، ڈونگوں کی جھوٹی چمک سے وہ کشمیر کی حسینہ تھی کشمیر کی قحبہ بن گئی‘‘۔ ۱۰۸؎
کشمیر کے قدرتی حسن میں وہاں کے لوگوں کی طرف سے پھیلائی گئی گندگی کو تلاش کرنا اور اسے پیش کرنا عزیز احمد کا ہی کام تھا۔ اس طرح ہمیں کشمیر کے قدرتی حسن کے تحفظ کا خیال پیدا ہوتا ہے۔ ناول ’’آگ‘‘ میں عزیز احمد نے جہاں کشمیر کی زندگی میں پھیلی ان گندگیوں کو پیش کیا ہے وہیں زندگی کے بیان کے ساتھ انہوں نے وہاں کی تہذیبی و معاشرتی پہلوؤں کو بھی خوب اجاگر کیا ہے وہاں کے لوگوں کا رہن سہن، بات چیت، لباس، طرز معاشرت، شادی بیاہ کی تقاریب، مہمان داری وغیرہ کی تفصیلات اس انداز میں ملتی ہیں کہ ہم ناول کے ذریعہ کشمیری تہذیب سے واقفیت حاصل کرتے جاتے ہیں۔ سکندر جو کی شادی کے موقع پر کشمیری دعوت کی تفصیل یوں ملتی ہے :
’’مہمانوں کے آگے بڑے بڑے سرخ دسترخوان بچھائے گئے، جن پر آداب طعام اور فارسی اشعار چھپے ہوئے تھے اور نوکروں نے مہمانوں کے ہاتھ دھلائے جو چاروں دیواروں کا سہارا لگائے چاروں طرف بیٹھے تھے پھر دسترخوان پر چاولوں کے بڑے بڑے طبق رکھے گئے کچھ مہمان دسترخوان کے دوسرے طرف بیٹھ گئے، ایک ایک طبق چار چار آدمیوں کیلئے تھا، چار جگہ کباب، شوربا اور بوٹیاں تھیں۔ ۔ ۔ مٹر کا شوربا، آلو کا قورما، گوشتا با، کوفتے، مرچوں کا سرخ قورما، ترکاری کی ساگ اور آب گوشت، ہر طبق میں چار چار ہاتھوں کی انگلیاں بے تکلفی سے چاولوں اور گوشت اور قورمے کو ایک کرتی جاتیں ‘‘۔ ۱۰۹؎
کشمیری معاشرت کے تذکرہ وہاں کے عوام کی مخصوص رسومات اور تہذیبی روایات کی پیشکشی کے ساتھ ساتھ عزیز احمد نے وطن عزیز کا تذکرہ بھی ناول میں جا بجا کیا ہے اور حب الوطنی کے جذبہ کو فروغ دیا تو یہاں کے موسم و آب و ہوا کو وہ دنیا کے اور ممالک کے موسم سے بہتر جانتے ہیں اور ہندوستان میں مختلف خوبیوں کا ذکر کرتے ہیں :
’’دنیا بھر میں جتنی چیزیں ہیں سب ہمارے وطن میں پائی جاتی ہیں، اب اسی منظر کو دیکھئے سوئزرلینڈ اس کے مقابلہ میں کیا ہو گا ریگستان دیکھنا ہو تو راجپوتانے جائیے، ہمالیہ کی ترائی میں آفریقہ کے جنگل کی بہار دیکھئے ہمارے دکن کی سطح مرتفع کی چٹانیں، نیلگری کے زمرد کے رنگ کے پہاڑ ہر طرح کا منظر ہمارے اس غلام ملک میں ہے ‘‘۔ ۱۱۰؎
’’آگ‘‘ میں چونکہ کشمیر کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اس لئے عزیز احمد نے کشمیر کے قدرتی مناظر چنار کے درختوں، جھیلوں، جھیلوں پر تیرتے شکاروں، زعفران کی خوشبو، سیب سے لدے درختوں کی منظر کشی ناول میں جا بجا دلفریب انداز میں کی ہے، یہ مناظر کشمیری زندگی کو سمجھنے اور اجنبیت کے احساسات کو دور کرتے ہیں، عزیز احمد کی جزئیات نگاری بھی اہم ہے مناظر کے بیان میں ہو کہ کسی مسئلہ کسی بحث میں وہ موضوع سے متعلق جزئیات کو باریکی سے پیش کرتے ہیں، جزئیات نگاری کی اس گہرائی میں عزیز احمد نے مشاہدے اور تخیل سے کام لیا ہے۔
عزیز احمد کے محبوب موضوع جنسیات کی جھلک بھی ناول میں مل جاتی ہے، حالانکہ تہذیبی و معاشرتی ناول میں اس کی اہمیت نہیں رہ جاتی لیکن کسی طرح عزیز احمد اس موضوع سے متعلق مواد فراہم کر ہی لیتے ہیں۔ ناول میں فضلی اور زون کے کرداروں کی پیشکشی میں عزیز احمد نے اس موضوع کو برتا ہے ایک مزدور عورت کا مشاہدہ عزیز احمد کی نظروں سے دیکھئے :
’’اور بارہ مولا میں ایک دیوانی عورت، جوان، بال تیل میں چپڑے ہوئے کپڑے تار تار اور بایاں سینہ کپڑوں کے شگاف سے جھانکتا ہوا، تیزی سے آنکھیں مٹکاتی گذر جاتی ہے ‘‘۔ ۱۱۱؎
فنی حیثیت سے عزیز احمد کا ناول ’’آگ‘‘ ایک کامیاب ناول ہے، تہذیبی و معاشرتی ناول ہونے کے سبب اس میں قصہ یا کہانی کو اہمیت حاصل نہیں ہے ناول کا پلاٹ پھیلا ہوا ہے عزیز احمد نے 1908ء سے 1945ء کا عہد مختص کرتے ہوئے ناول تحریر کیا ہے اور اس عرصے کی تاریخی واقعات کی مدد سے اپنے پلاٹ کو پھیلایا ہے، ناول میں پیش کئے گئے کردار حقیقی زندگی کے کردار ہیں۔ چنانچہ ان کے ارتقاء میں حقیقت کا عنصر شامل ہے، عزیز احمد نے ناول کے مواد کو پیش کرنے میں بیانیہ انداز اختیار کیا ہے۔ اس کے لئے انہوں نے اپنے آپ کو بطور واحد متکلم ناول میں پیش کیا ہے۔ عزیز احمد کی ناول نگاری کی تیکنک کے بڑے بڑے نقاد قائل ہیں، ناول آگ میں ایک اہم بات وقت کے بہاؤ کے ساتھ حالات کی پیشکشی ہے، ناول کے تینوں کردار غضنفر جو، سکندر جو، انور جو کی زندگی اپنے عہد سے مطابقت رکھتی ہے۔ زندگی کی تبدیلیوں کے ساتھ ان کرداروں کا ڈھلنا عزیز احمد کی تیکنک کی بڑائی ہے، یوسف سرمست کے بموجب:
’’آگ‘‘ میں وقت کا یہ خاموش فطری بہاؤ اپنے حقیقی ترین رنگوں میں نمایاں کیا گیا ہے، جو اس ناول کو غیر معمولی اہمیت بخشا ہے ‘‘۔ ۱۱۲؎
’’آگ‘‘ چونکہ ایک تہذیبی ناول ہے، اس لئے اس میں قصہ یا کہانی پن مفقود ہے اور قارئین کی دلچسپی و تجسس برقرار نہیں رہ پاتا جو کہ ناول کی خامی بن جاتا ہے۔ حالانکہ عزیز احمد نے ناول میں دلچسپی کا عنصر لانے اور ترتیب برقرار رکھنے کیلئے ایک خاندان کے تین افراد کے احوال بیان کئے ہیں لیکن ان میں بھی چند ایک باتوں کے علاوہ دلچسپی کا کوئی عنصر نہیں، لہذا یہ ناول دلچسپی سے عاری ہے، اور ایک تہذیبی و معاشرتی دستاویز بن کر رہ جاتا ہے ناول کی ایک اور خامی یہ بھی ہے کہ اس میں صرف ایک مخصوص عہد کے درمیان زندگی کے احوال ملتے ہیں، آغاز اور انجام تاریخی اعتبار سے مبہم ہے، عزیز احمد نے 1945ء میں ناول کے سلسلہ کو ختم کر دیا، حالانکہ ہندوستان کی تاریخ میں 1947ء ایک ایسا موڑ ہے جہاں ہر لحاظ سے زندگی میں تبدیلی آتی ہے اور ناول کو بھی ہندوستان کی آزادی پر اختتام دیا جا سکتا تھا، بہرحال عزیز احمد نے کشمیر کی زندگی پر سے پردہ اٹھانے کے جس مقصد سے ناول لکھا ہے، اس میں وہ کامیاب رہے ہیں، اور اس کے ساتھ ہمیں اس ناول سے اس وقت کی تاریخ کا بھی پتہ چلتا ہے، ناول میں جا بجا دنیا کے بیشتر ممالک کے بارے میں سیاسی نکتہ ہائے نظر عزیز احمد کی علمی قابلیت کے مظہر ہیں، اس طرح عزیز احمد نے ’’آگ‘‘ کو ایک وسیع کینوس پر پیش کیا اور ان کا یہ ناول ان کی پہچان بن گیا۔
٭٭
’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘
ناول ’’گریز‘‘ اور ’آگ‘‘ کی مقبولیت کے بعد عزیز احمد کا جو ناول مشہور ہوا وہ ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ ہے۔ جو پہلی بار 1947ء میں چھپ کر شائع ہوا، اس کا شمار عزیز احمد کے اہم ناولوں میں کیا جاتا ہے۔ ’’آگ‘‘ کشمیری زندگی سے متعلق تھا، ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ میں عزیز احمد نے اپنے ہی وطن حیدرآباد کی تہذیب و معاشرت کو اپنے عہد کے آئینہ سے پیش کیا ہے۔ ہندوستان کی آزادی سے قبل ریاست حیدرآباد کے امراء اور نوابین کی زندگی ان کی معاشرت، ان کے رہن سہن، ان کی شان و شوکت، ان کی خاندانی زندگی کی کشمکش اور آپسی رسہ کشی اور نوابی زندگی کے زوال کو اس ناول میں پیش کیا گیا ہے اور یہ پیشکشی بڑی فنکاری اور حقیقت پر مبنی ہے۔ قصہ یہ ہے کہ عزیز احمد جامعہ عثمانیہ کی پروفیسری کے دوران کچھ عرصہ شاہی دربار سے بھی بسلسلہ ملازمت منسلک رہے تھے، 1941ء سے 1945ء کے دوران عرصہ میں وہ آصف سابع نواب میر عثمان علی خان بہادر کی بہو شہزادی در شہوار کے سکریٹری رہے تھے۔ اس عرصہ میں انہیں شاہی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور ایک لحاظ سے وہ شاہی گھرانے کے فرد ہو گئے تھے۔ چنانچہ اس ناول میں شاہی زندگی و نوابی زندگی کی گہما گہمی اور زمانہ کے اتار چڑھاؤ کی جو حقیقی تصویر کشی عزیز احمد نے کی ہے وہ ان کے گہرے مشاہدے اور تجربات کا نچوڑ ہے۔
’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ میں عزیز احمد نے حیدرآباد کے شاہی خاندان کے افراد، نوابوں، امراء، روساء اور ان کی نوجوان اولاد کی مغرب زدہ زندگی اور ان کی عیش پرستی کی بھرپور عکاسی کی ہے، اس میں دولت کی فراوانی اور اس کا بے جا استعمال، آئے دن ہونے والی پارٹی نما محفلوں، مسوری کی سیر و سیاحت، شراب نوشی، تاش اور جوے بازی، سینما بینی، عورت بازی وغیرہ سب ہی سے متعلق تفصیلات بھی اس میں شامل ہیں۔
ناول کا بیشتر حصہ کلبوں، پارٹیوں کی گہما گہمی اور ان کی رونقوں کو پیش کرتا ہے، اس پر رونق عکاسی کے ذریعہ عزیز احمد نے اس دور کی معاشرتی چمک دمک اور زندگی کی بہاروں کو دکھایا ہے، اس کے ساتھ ساتھ عزیز احمد وقت کا شعور بھی رکھتے ہیں اور اپنے عہد کے قومی و بین الاقوامی حالات، دنیا کی ترقی اور اس میں ہونے والی سیاسی و سماجی تبدیلیوں، سرمایہ دارانہ نظام اور دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کا تذکرہ بھی مخصوص انداز میں اس طرح کرتے ہیں کہ وہ بھی ناول کا ایک حصہ معلوم ہوتے ہیں اور یہ ناول اپنے موضوع کے ساتھ اپنے عہد کی تاریخی دستاویز بن جاتا ہے، حیدرآبادریاست کے آخری نواب کے دور میں دولت کی ریل پیل اور مغربی تہذیب کی یورش سے پیدا شدہ مشرقی و مغربی تہذیبوں کا ٹکراؤ اوراس کے اثرات ناول میں بھرپور طریقہ سے پیش ہوئے ہیں عزیز احمد اس معاشرہ میں مختلف ادوار میں آئی تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’تین مرتبہ امیر گھرانوں پر مغربی تمدن کی لہریں امنڈ چکی ہیں، پہلے تو غدر کے بعد سرسید کے زمانے میں قابول جنگ اور شہوار الملک نے اسی زمانہ میں اپنی معاشرت بدلی، یہ اس قسم کی مغربیت تھی جیسے ترکی اور مصر کی مغربیت، آج یعنی انگریزی رہائش، انگریزی کپڑے، رائیڈنگ، لڑکیوں کیلئے فراکیں، اور گھر میں ہر ایک کیلئے ڈارلنگ کتے، انگریزی کھانا، شراب، بٹلر، کرسچین آیائیں، غرض صاحب لوگ بننے کی تحریک، دوسری مرتبہ مغربیت کی جو یورش ہوئی اس نے اندر ہی اندر سے بدلنا چاہا، اس کے ساتھ قوم پرستی، خود داری، وقار اور مغرب کے ادب، علوم و فنون، سائنس وغیرہ کی رغبت، اس دوسرسے دور کا ہمارے ناول کے اہم کرداروں پر کم اثر ہوا کیونکہ اس دوسرے دور کی داخلی مغربیت کے ساتھ ہی ساتھ وہی انگریزی کپڑوں، بول چال، کلب، ناچ، وہسکی اور سوڈا کا ایک ریلا بھی آیا اور ہمارے کردار کو بھگا لے گیا، اور تیسری اور آخری مغربیت۔ ۔ ۔ اسے مغربیت کہہ لیجئے یا مزدکیت یعنی اشتراکی آزادی خیالی، یہ تحریک پھیلی تو سہی مگر کشن پلی تک ایک ذہنی فیشن بن کر آئی‘‘۔ ۱۱۳؎
’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ میں ریاست حیدرآباد کے زوال پذیر معاشرہ کی تصویر کشی کی گئی ہے، اس معاشرہ کے افراد میں سے مہدی حسن کار جنگ، راجہ راجا یاں شجاعت، شمشیر سنگھ بہادر، قابل جنگ، شہود الملک، منفرد جنگ، سنجر بیگ وغیرہ نوابین، امراء اور رؤسا اپنے فرضی ناموں میں دراصل حقیقی کردار ہیں، جو اس معاشرہ کی آخری نشانی بن کر رہ گئے تھے۔ عزیز احمد نے ان کے قریب رہ کر ان کی زندگی کے نشیب و فراز کو محسوس کیا اس معاشرہ میں پھیلی جھوٹی شان شوکت، عارضی آن بان، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی حرکات، خاندانوں کی آپسی رنجشیں، نوجوانوں کے مغربی طرز کے معاشقے، عشق کی ناکامیوں میں، ہوس پرستانہ جذبات، رئیس زادیوں کے چونچلے، ان کی گفتگو و مجلس آداب عادات و اطوار، مشرقی و مغربی تہذیبوں کا ٹکراؤ ان سب باتوں کی عزیز احمد کے مشاہدے کے بعد اپنے ناول میں اس انداز میں برتا کہ اعلیٰ دولت و ثروت والے خاندانوں کی بلندیاں و پستیاں الگ الگ ہو گئیں اور اس معاشرہ کے نشیب و فراز واضح ہو گئے۔
ناول کے آغاز میں قارئین کو اچانک بہت سے کرداروں سے سابقہ پڑتا ہے اور قاری کرداروں کے میلے میں گھومتا جاتا ہے، لیکن آگے چل کر عزیز احمد کرداروں کو سمیٹنے لگتے ہیں اور ناول اپنی مخصوص روش پر آ جاتا ہے۔
عزیز احمد نے اپنے پچھلے ناول ’’آگ‘‘ میں کشمیری زندگی پیش کرنے کیلئے ایک خاندان کی تین نسلوں کی کہانی کو پس منظر کے طور پر استعمال کیا تھا کچھ اسی طرح کی ٹیکنک انہوں نے اس ناول میں بھی برتی ہے، چنانچہ انہوں نے مرکزی قصے کے طور پر اس معاشرہ کے دو کرداروں نور جہاں اور سلطان حسین کی ازدواجی زندگی کی کشمکش کو بڑی فنکاری سے پیش کرتے ہوئے پورے معاشرہ کی تصویر کشی کی ہے۔
نورجہاں ایک حیدرآبادی نواب سنجر بیگ کی چھوٹی بیٹی ہے، مشرقی ماحول میں پرورش پانے کے باوجود انگریزی کی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے، اپنی ماں خورشید زمانی بیگم کی آزاد خیالی کے باوجود معصومیت کی زندگی بسر کرتی ہے، کشن پلی میں وارد انجینئر سلطان حسین ایک تقریب میں اسے دیکھ کر فدا ہو جاتا ہے، سلطان حسین عیاش صنعت دولت مند رئیس ہے، انجینئر ہے، ہرسال چھٹیاں گذارنے مسوری جاتا ہے، وہاں کے کلبوں اور تفریح گاہوں میں داد عیش دیتا ہے، دس بارہ سال عیش و نشاط کی محفلوں میں گذارنے کے بعد اپنی ڈھلتی عمر کے احساس سے مجبور ہو کر شادی کیلئے آمادہ ہو جاتا ہے اور نور جہاں کے والدین اس رئیس زادہ انجینئر سے اس کی شادی کرا دیتے ہیں، نورجہاں اور سلطان حسین کے مزاجوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے، ازدواجی زندگی کے دو تین سال بے چینی، بے اعتباری، لڑائی، جھگڑے، مار پیٹ میں گذرتے ہیں ایک دو لڑائیوں کے بعد ایک بچی کی ماں نورجہاں تنگ آ کر سلطان حسین سے طلاق لے لیتی ہے اور اپنے ایک عزیز اطہر سے شادی کر کے خوشگوار زندگی بسر کرتی ہے، ادھر سلطان حسین بھی ایک خوبصورت بیوی سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے بعد زندگی کے حقائق سے سمجھوتہ کر لیتا ہے اور خدیجہ نامی ایک غریب لڑکی سے شادی کر لیتا ہے، دونوں کی زندگی پرسکون گذرتی ہے، دو بچوں کی ماں خدیجہ اس وقت بے یار و مددگار ہو جاتی ہے جب سلطان حسین دفتر میں اچانک حرکت قلب بند ہو جانے سے انتقال کر جاتا ہے اور خدیجہ بیوگی کا روگ لئے اپنی اولاد کی خاطر زندگی کی کٹھن راہوں پر اکیلی چل پڑتی ہے، یہ ہے ناول ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ میں پیش کردہ قصہ کا مختصر خلاصہ۔
نورجہاں اس ناول میں مرکزی کردار کی حیثیت رکھتی ہے، ناول میں پیش ہوئے کرداروں کے جھرمٹ میں عزیز احمد نے نورجہاں کے کردار کو بڑے مصورانہ اور جذباتی انداز میں پیش کیا ہے، حالانکہ ناول کے تقریباً سبھی کردار مغربی تہذیب کے ملمع چڑھائے دکھائی دیتے ہیں، لیکن نور جہاں مشرقی عورت کے حقیقی روپ میں وفا کی دیوی کے طور پر پیش ہوتی ہے۔ مشرقی اقدار کی حامل اس لڑکی کی بدقسمتی دیکھئے کہ ایک درندہ صفت انسان سے اس کی شادی ہو جاتی ہے، نور جہاں اور سلطان حسین کے آپسی رویہ، ان کے درمیان آپسی بات چیت، لڑائی جھگڑے کو عزیز احمد نے اس جذبات انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری نور جہاں سے ہمدردی سی محسوس کرنے لگتا ہے، ہنی مون کیلئے مسوری گئے اس نئے شادی شدہ جوڑے میں ابتدا ہی سے کشیدگی کی فضاء قائم ہو جاتی ہے، دونوں کا ایک دوسرے پر شک کرنا اور سلطان حسین کا دوسری عورتوں سے تعلقات بڑھانا نور جہاں کیلئے قاتل بن جاتا ہے اور بات لڑائی جھگڑے سے بڑھتی ہوئی اس وقت انتہا کو پہنچ جاتی ہے جب سلطان حسین غصہ سے بے قابو ہو کر نورجہاں کے گال پر تھپڑ رسید کر دیتا ہے، اس موقع پر نور جہاں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے اور وہ اپنے غصہ پر قابو نہ رکھتے ہوئے جذباتی انداز میں کہتی ہے۔
’’جب تم مجھے آوارہ، بدمعاش، رنڈی سمجھتے ہو تو پھر مجھے اپنے گھر لے جا کر کیا کرو گے اور جب تم سے کہہ چکی ہوں، تمہاری سزا یہی ہے کہ تم کو سچ مچ کوئی آوارہ بدمعاش بیوی ملتی میں کیا کروں مجبور ہوں، میں آوارگی اس لئے نہیں کرتی کہ مجھے تمہاری تو بالکل نہیں بلکہ اپنے ماں باپ کی عزت کا خیال ہے، لوگ یہ نہ کہیں کہ سنجر بیگ کی بیٹی ایسی ہے، نہیں تو میں تم کو مزا بتاتی‘‘۔ ۱۱۴؎
عزیز احمد نے ایک اونچی سوسائٹی کے گھرانے میں ہوئی اس اخلاق سوز حرکت کا گہرا تاثر لیا اور نور جہاں پر ہوئے اس ظلم کو بڑی سماجی برائی جانا۔
’’ہندوستان میں عورت کے جسم پر مرد کی حکومت تھی اب وہ مٹ رہی تھی یہ تھپڑ اُسی مٹتی حکومت کو پھر سے قائم کرنے کی کوشش تھی۔ ۔ ۔ ۔ انسان پرانسان کی حکومت اور اس حکومت کی خواہش سے زیادہ مہلک کوئی اور نشہ نہیں، نورجہاں میں سلطان حسین نے عورت کو معمولی سامان خانہ داری کے برابر سمجھا تھا، اس لئے نہ صرف نسوانیت بلکہ انسانیت کے وقار کو صدمہ پہنچایا تھا، یہ سلطان حسین کی زندگی کی ٹریجیڈی تھی یہ اس کی خطا تھی‘‘۔ ۱۱۵؎
عزیز احمد کے یہ فلسفیانہ خیالات نور جہاں پر ڈھائے جانے والے ظلم کے خلاف ایک آواز ہوسکتے ہیں نورجہاں جیسی مشرقی اقدار کی حامل اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی نے کبھی یہ امید بھی نہ کی تھی کہ اس کا شوہر اس حد تک گر سکتا ہے، اپنی بدقسمتی پر وہ اپنے اندر ہی اندر گھٹتی رہتی ہے۔
’’نور جہاں کے اندر کوئی چیز آگ کی طرح سلگ کر بجھ گئی، غصہ کے بجائے رنج ذلت اور بے بسی کا ایسا تلخ احساس جو اس نے پہلے کبھی محسوس کیا تھا اس نے سوچنا بند کر دیا، چند منٹ تک وہ بالکل خلا کے عالم میں تھی، ہر چیز مفقود تھی، وہ خود سلطان حسین، خورشید زمانی بیگم وہ بچہ جو ابھی اس کے پیٹ میں تھا ہر چیز مفقود تھی، ایسا خواب جو دیکھا جا چکا ہو اور جواب محو ہو چکا ہو ضرب لگاتا ہوا اس کی روح کو مفلوج کر چکا تھا، اب اس کی پوری روح سسکیوں، میں منتقل ہو چکی تھی، اس کی حالت ایسی تھی جیسے کسی کو ابھی موت آئی ہو‘‘۔ ۱۱۶؎
نورجہاں کی ازدواجی زندگی کے ان نازک لمحات کو پیش کرتے ہوئے عزیز احمد نے عورت کی نفسیات سے گہری واقفیت کا ثبوت دیا ہے، نور جہاں کی زندگی کا نازک اور تغیر پذیر پہلو وہ ہے جب وہ حالات کے آگے ہتھیار ڈال دیتی ہے اور سلطان حسین سے اپنی مرضی سے خلع لے کر اپنی بیٹی کے ساتھ الگ رہتی ہے اور اپنی ماں کے گھر آ جاتی ہے، نورجہاں کے واقعات اس معاشرہ کی حقیقی زندگی کی عکاسی کرتے ہیں۔ جہاں فیشن پرستی اور آوارگی اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ حقیقی ازدواجی زندگی مغرب کے غیر فطری طرز زندگی میں ایک کچے دھاگے کی ڈور کی طرح ہو کر رہ گئی ہے۔ نور جہاں نے اس شادی میں اپنے ماں باپ کی خواہش کا پاس رکھا تھا اور شادی کے بعد ہر حالت میں سلطان حسین کو اپنا مجازی خدا بنایا تھا، لیکن اس زندگی کے تیز رفتار تقاضوں کو وہ پورا نہیں کرسکی اور پیچھے رہ گئی۔
مسوری کی سیر و تفریح میں سلطان حسین کے قدم سے قدم ملا کر نہ چلنا ہی اس کی زندگی کی بربادی کا سامان کر دیتا ہے، چنانچہ وہ زمانے کے بدلتے رنگوں کا احساس خلع لینے کے بعد کرتی ہے اور معاشرت کی رنگینیوں میں پارٹی، کلب، سینما وغیرہ میں اپنے عزیز اطہر کے ساتھ حصہ لینا شروع کرتی ہے اور آخر کار اطہر سے شادی کر لیتی ہے تب نور جہاں کو حاصل ہوتا ہے چین و سکون۔
نورجہاں کے کردار میں عزیز احمد نے ایک ایسی ہندوستانی عورت کو پیش کیا ہے جو ایک خوشگوار ازدواجی زندگی کی خواہشمند ہے، اپنے شوہر اور بچوں سے مطلب رکھنا ہی اس کا ہم فریضہ ہے زمانے کے بدلتے رنگوں کے ساتھ بدلنے کے بجائے وہ چین وسکون کی گھریلو زندگی چاہتی ہے لیکن عزیز احمد کے بموجب :
’’ان کی طبیعتوں میں زمین و آسمان کا فرق تھا اس لئے مصلحتی ازدواجی زندگی میں ہر ہر قدم پر اختلاف کا امکان تھا‘‘۔ ۱۱۷؎
اور ہوا بھی یہی ان کی ازدواجی زندگی ایک ریت کے محل کی طرح بہہ گئی اور نورجہاں زندگی کی رنگین بہار میں لوٹنے کے بجائے طلاق کا تلخ جام پینے پر مجبور ہو گئی، اس عظیم سانحہ نے اُسے زندگی کے بہت سے حقائق سے روشناس کرایا اور جب اس کے ساتھی اطہر نے اس کے جانب التفات کیا تو اس نے سابقہ تجربات کی روشنی میں مجلسی زندگی اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو وقت کے دھارے میں شامل کر لیا اور اس کے ساتھ شادی کرتے ہوئے چین وسکون کی زندگی بسر کی۔
’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ کا دوسرا اہم کردار سلطان حسین ہے، وہ کشن پلی کا انجینئر ہے امریکہ سے واپسی کے دس بارہ سال انفرادی زندگی میں عیش و عشرت سیروتفریح میں بسر کر دیتا ہے، مسوری اس کی پسندیدہ جگہ تھی، جہاں ہرسال وہ اپنا اچھا وقت شراب نوشی، تاش کی بازیوں اور عورت بازی میں گذارتا اور بقول عزیز احمد کے :
’’وہ مسوری میں ہر سیزن میں کم سے کم ایک نئے معاشقہ کی کوشش کرتا رہا‘‘۔ ۱۱۸؎
مسوری میں رہ کر سلطان حسین کے طرز فکر میں جو تبدیلی آئی ہوئی تھی اس کا جائزہ عزیز احمد یوں لیتے ہیں :
’’ابھی سلطان حسین صاحب ناکتخدا تھے، مگر اس شخص میں ایک خاص بات تھی کہ وہ جن لڑکیوں سے عاشقی کرتا تھا ان میں سے کسی کو بیوی بنانے کیلئے تیار نہ تھا۔ اس کے نزدیک عورت کی محبت کے دو مدارج تھے، ایک تو پہلی نظر کے تیر سے لے کر ملاقات کی کوشش، ملاقات، رسم و رواہ، بات چیت خط و کتابت، چھیڑ چھاڑ اور اگر لڑکی حد سے زیادہ خوبصورت ہو تو شیو کرتے وقت داغ کا ایک آدھ پھڑکتا ہوا شعر پڑھ لینے، پھر باقاعدہ محاصرے، بوس و کنار، لمس، عریانی اور شاذ و نادر شب باشی تک تھا۔ دوسرا درجہ شب باشی سے شروع ہوتا تھا اور اس کو سلطان حسین برداشت نہیں کرستا تھا، اس کا تصور تک برداشت نہیں کرسکتا اس میں ذمہ داری ایام، زچگیاں، بچے اور روزمرہ زندگی کی بے رنگی شامل تھی‘‘۔ ۱۱۹؎
عیش و عشرت کی اس رنگینی میں ایک طویل عرصہ گذرنے کے باوجود اسے اپنی ڈھلتی جوانی کا احساس ہی نہ رہا اور ایک دفعہ وہ لڑکی پھانسنے کی فکر میں ہی تھا کہ لڑکی کے جواب ’’یہ سب ڈبلیو ٹی (Waste of time) ہے ‘‘ نے سلطان حسین کی آنکھیں کھول دیں اور اُسے محسوس ہوا کہ اب شادی کر کے گھر بساہی لینا چاہئے، چنانچہ ماں اور بہنوں کے اصرار پر اس کی نظر انتخاب نور جہاں پر پڑتی ہے اور شادی ہو جاتی ہے جو ہر لحاظ سے بے جوڑ تھی، سنجر بیگ اور خورشید زمانی بیگم کا اپنی بیٹی نورجہاں کیلئے سلطان حسین جیسے شخص کا انتخاب اس بات کا تاثر دیتا ہے کہ اس وقت کے معاشرہ میں مرد کو اتنی آزادی حاصل تھی کہ وہ کتنا بھی عمر رسیدہ، عیش و عشرت اور بدنام کیوں نہ ہو، تعلیم، دولت اور سماجی حیثیت کی بناء پر ایک معصوم لڑکی سے شادی کیلئے قابل قبول ہو جاتا ہے۔ عزیز احمد اس زوال پذیر معاشرہ کی داستان رقم کر رہے تھے، جہاں عورت کو مظلوم بنانے میں سلطان حسین جیسے مردوں کے ساتھ خود نورجہاں کے والدین بھی برابر کے شریک تھے جو سلطان حسین کی بربریت کو دیکھنے کے باوجود نورجہاں کو ہی صبر کی تلقین کرتے رہے مردوں کی اجارہ داری والے اس معاشرہ میں نور جہاں اپنا مقام کھو بیٹھی تھی، سلطان حسین کی شخصیت کا منفی پہلو اس وقت اور کھل کر سامنے آ جاتا ہے جب وہ اپنی حیثیت سے نیچے گر کر گالی گلوج کی حد تک اُتر آتا ہے۔
’’چپ حرام زادی۔ ۔ ۔ ۔ تو ہو گا حرامزادہ۔ ۔ ۔ ۔ ذرا زبان سنبھال کر بات کر‘‘۔ ۱۲۰؎
اس طرح کے ماحول کو پیش کرتے ہوئے عزیز احمد نے اس تہذیب کی بلندی و پستی کو پیش کیا ہے۔ نورجہاں سے طلاق ہونے کے بعد سلطان حسین خدیجہ نامی غریب لڑکی سے شادی کر لیتا ہے، چند سال زندگی کے خاموشی سے گذر جاتے ہیں، خدیجہ کو اپنے شوہر سے محبت وہ اپنے بچوں کے ہمراہ سلطان حسین کی کفالت میں زندگی بسر کرتی ہے، سلطان حسین میں پہلے جیسی گرم جوشی نہ باقی رہی تھی، وہ اپنی بیوی کے ساتھ صرف گذارا کرتا تھا، خدیجہ اپنے شوہر کے رویہ سے پریشان ہو اٹھتی ہے :
’’کبھی کبھی خدیجہ کو بڑی سخت جلن ہوتی، عورت کی جبلت، بجلی کی چمک کی طرح اس پر یہ منکشف کر دیتی ہے کہ باوجود اس کے کہ سلطان حسین اس کے ساتھ اس قدر خوش ہے، اس کے آرام کا اتنا خیال رکھتا ہے، سلطان حسین کو اس کے ساتھ محبت نہیں کبھی کبھی وہ رو کر کہہ دیتی ہے ’’آپ کو صرف میرا خیال ہے، آپ کو کبھی مجھ سے محبت نہیں ہوئی۔ ۔ ۔ ۔ باوجود اس کے نور جہاں، سلطان احمد کے منہ پر تھوک کر گئی تھی، اب بھی اس کے دل میں نورجہاں ہی بسی ہوئی تھی‘‘۔ ۱۲۱؎
کثرت شراب نوشی کے سبب سلطان حسین کی صحت جواب دینے لگتی ہے اور ایک دن دفتر میں بیٹھے بیٹھے سلطان حسین کا حرکت قلب بند ہو جاتی ہے اور انتقال ہو جاتا ہے۔ ناول میں سلطان حسین کا انتقال کرجانا فطری ہے، جس کیلئے وہ خود ذمہ دار ہے، عیش پرستی کی ترنگ زیادہ نہیں چل سکتی، اس کی موت کے بعد نورجہاں کا اسے دل سے معاف کر دینا اور خدیجہ کا اپنے بچوں کی خود پرورش کرنے کا عزم ہندوستانی عورت کے جذبات اور مضبوط کردار کی نشانی ہے۔
’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ میں پیش کردہ سلطان حسین کا کردار عزیز احمد کے بیشتر ناولوں کے مرد کرداروں سے مشابہت رکھتا ہے۔ ’’ہوس‘‘ ’’مرمر اور خون‘‘ اور ’’گریز‘‘ کے مرد کردار خاص مرکزی کردار سلطان حسین کی ہی طرح ’’ہوس‘‘ پرست اور عیش پرست گذرے ہیں جو زندگی میں رنگینی دیکھنے کے بعد آیا تو راہ راست پر آ جاتے ہیں، یا یاس و امید میں کیفر کردار کو پہنچ جاتے ہیں۔
سلطان حسین اور نور جہاں کے مرکزی کرداروں کے علاوہ ناول میں کئی اہم کردار اور بھی ہیں جو ناول کی پیش کردہ معاشرت کے جزو ہیں، جن میں خورشید زمانی بیگم، بیگم مشہدی اطہر، ابو الہاشم انجینئر، مشہور النسائ، سریندر وغیرہ۔ اس کے علاوہ امراء و رؤساء کے گھرانوں میں کرداروں کا جھرمٹ دکھائی دیتا ہے اور دوسری طرف مسوری کے کلبوں میں داد عیش دینے والوں کی طویل فہرست جو ناول کے نگار خانے میں اپنی اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔
خورشید زمانی بیگم نے اپنی زندگی کی بہار میں کافی شوخ طبعیت پائی تھی اور اپنے ساتھ اپنی دونوں بیٹیوں مشہود النساء اور نورجہاں کو بھی زندگی کی رنگا رنگی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا موقع دیتی رہی تھیں اور ان کی پریشانی میں بھی ایک ہمدرد دوست کی طرح ساتھ دیتیں تھیں حالانکہ تغیرات نے ایک موقع پر انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا، جب ان کی بڑی بیٹی بیوہ ہو جاتی ہے اور چھوٹی مطلقہ، اور وہ اپنے آپ کو تبدیل کر لیتی ہیں :۔
’’اپنی دونوں بیٹیوں کے گھر اجڑے دیکھ کر انہوں نے قضاء و قدر سے مفاہمت کا ارادہ ضرور کیا، بجائے تنگ اور شوخ بلاؤزوں کے انہوں نے لمبے لمبے کرتے پہننے شروع کئے اور اوراد و وظائف میں شدت سے منہمک ہو گئیں۔ ۱۲۲؎
کچھ اس طرح کی حالت بیگم مشہدی کی بھی ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مغربی تہذیب کی دلدادہ ہونے کے باوجود اپنی بیٹیوں کے مستقبل سے پریشان ہیں، مسوری میں نور جہاں سے ملاقات کے بعد اپنے بیمار ہونے پر ان خیالات کا اظہار کرتی ہیں :
’’یوں تو ہم لوگوں نے ولایت میں تعلیم پائی اور تم دیکھتی ہو کہ بڑی آزاد یورپی قسم کی زندگی بسر کرتے ہیں لیکن میری تمنا یہی ہے اور تمہاری انکل کی بھی آرزو یہی ہے کہ ہمارا لڑکا اور یہ دونوں لڑکیاں مسلمان سے شادی کریں ‘‘۔ ۱۲۳؎
بیگم خورشید زمانی اور بیگم مشہدی کا آخر کار اپنے مذہب کی طرف التفات اس بات کا ثبوت ہے کہ اس معاشرت میں مغربیت کی تخریب کاری کے باوجود مشرقی تہذیب اور مذہب سے لگاؤ فطری طور پر موجود تھا، جو اس معاشرہ کی اصل روح ہے۔
’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ میں عزیز احمد کی کردار نگاری وسیع کینوس پر پھیلی اور اجتماعی نقطہ نظر کی حامل دکھائی دیتی ہے۔ کے کے کھلر کے بموجب :
’’ایسی بلندی ایسی پستی، میں عزیز احمد کا فن بلندیوں کو چھوتا نظر آتا ہے غالباً یہ اردو کا پہلا ناول ہے جس میں کردار نگاری کے خصوص میں پامال راہوں سے گریز کر کے مصنف نے نیا راستہ بنانے کی سعی کی ہے۔ اسی لئے اس ناول کو اکثر ناقدین نے نہ صرف سراہا بلکہ اردو کے چند مشہور ناولوں میں شمار کیا ہے اس میں اجتماعی کردار نگاری کا کامیاب تجربہ ملتا ہے ‘‘۔ ۱۲۴؎
عزیز احمد نے اس طرح کی کردار نگاری میں حقیقت نگاری سے کام لیا ہے اور انہوں نے اپنے اطراف کی زندگی کے حقیقی کرداروں کو مخصوص انداز میں پیش کیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے ماحول کی عکاسی کر رہے ہوں اس بات کا اعتراف وہ خود کرتے ہیں :
’’میں نے حقیقت نگاری کو ہمیشہ فوٹو گرافی سمجھا ہے ممکن ہے کبھی شیشہ دھندلا ہو یا فلم خراب ہو یا فلم لیتے وقت روشنی ٹھیک نہ ہو تا میری اپنی بصارت یا بصیرت میں فرق ہو، لیکن میں نے زندگی کی تنقید ہمیشہ زندگی کی عکاسی کے انداز سے کی ہے، اور اس میں اصلی اور حقیقی کے فرق کا قائل نہیں ‘‘۔ ۱۲۵؎
چنانچہ یہ سبھی کردار جو کہ زوال آمادہ معاشرہ کے فرد ہیں اپنے حقیقی روپ میں دکھائی دیتے ہیں اور بقول سلیمان اطہر جاوید کے :
’’بظاہر سارے کردار آسودہ اور مطمئن محسوس ہوتے ہیں، آرام دہ اور پرسکون زندگی گذارتے ہیں لیکن ہر ایک کا اپنا غم ہے ہر ایک کا دل جلتا ہے ہر ایک کی روح بحران سے دوچار ہے سچ پوچھئے تو یہ معاشرہ ہی ایسا تھا‘‘۔ ۱۲۶؎
’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ میں کردار نگاری اور معاشرت نگاری کے اعلیٰ نمونوں کے ساتھ ہمیں اس عہد کے تاریخی شعور کا بھی احساس ہوتا ہے، اس کیلئے عزیز احمد نے ناول میں جگہ جگہ شعور کی رو کی تکنیک استعمال کی ہے ناول میں سلطان حسین کے ایک دوست سریندر کا کردار ہے جو کلب میں اس کا ساتھی ہے، سریندر کے روپ میں دراصل عزیز احمد خود ناول کی زندگی میں داخل ہو جاتے ہیں کیونکہ سریندر کی زبانی فلسفیانہ خیالات، سیاسی، سماجی و معاشرتی مسائل پر بحثیں دراصل عزیز احمد کی ذہنی فکر کا پتہ دیتی ہے سریندر کے کردار میں عزیز احمد کی چھاپ اسوقت صاف نظر آتی ہے جب وہ مزدوروں کی حمایت کرتا ہے اور متوسط طبقہ کی ترقی کا ذکر کرتے ہیں :
’’تمام سیاسی فلسفے تو متوسط طبقہ کے دماغ ہی سے نکلے ہیں نا، میکیاولی سے مارکس تک، افلاطون کی جمہوریت سے ہٹلر کی جدوجہد تک یہ سارے نقشے کس نے کھینچے ہیں ‘‘۔ ۱۲۷؎
اور جب سلطان حسین کی موت واقع ہو جاتی ہے تو اپنے جگری دوست کی بے وقت موت پر سریندر جذباتی ہو جاتا ہے اور شعور کی رو میں بہہ جاتا ہے اور طرح طرح کے خیالات اس کے دل میں آنے لگتے ہیں، ان خیالات میں دراصل عزیز احمد کی ذہنیت کام کرتی دکھائی دیتی ہے، سریندر تخیل کی دنیا میں کھو کر زندگی کی بے ثباتی اور حیات و ممات کے چکر پر غور کرتا ہے، وہ ٹی ایس ایلیٹ، اقبال، ٹیگور، آئن اسٹائن کو یاد کرتا ہے، ہندوستان چھوڑ دو تحریک گاندھی جی اور جناح کی سیاسی سرگرمیوں، تحریک آزادی اور قیام پاکستان کی جدوجہد کو یاد کرنے لگتا ہے، دوسری جنگ عظیم میں ایٹم بم کی تباہی اور وقت کے گذرنے کے احساس میں وہ کھوسا جاتا ہے۔
اس طرح کے خیالات سے اور شعور کی رو کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے عزیز احمد نے اپنے ناول کے مواد کو بڑی نئی مہارت سے پیش کرتے ہیں، ناول نگاری کی تکنیک پر انہیں عبور حاصل تھا۔ عزیز احمد نے ناول میں جہاں جہاں اشتراکیت کا خیال پیش کیا ہے، اور دولت مند معاشرہ کی تصویر کشی کی ہے وہیں وہ مزدور طبقہ کو نہیں بھولتے اور کسی طرح ان کی بڑائی کا اظہار کر ہی دیتے ہیں۔ مزدوروں کی اس طرح حمایت ان کی اشتراکی ذہنیت کا پتہ دیتی ہے، ایک جگہ کام کرتے مزدوروں کا عزیز احمد یوں منظر پیش کرتے ہیں :
’’اور وڈروں کے علاوہ اور کئی طرح کے مزدور تھے، دھیڑ، پاردہی، لمباڑے، لمباڑنیاں، تبتی اور کشمیری قسم کا لباس، بے شمار چوڑیاں، لمبے لمبے لہنگوں پر بیشمار کانچ کے ٹکڑے یا پتھرے ٹکنے، اپنے خدوخال میں بھی جا بجا منگول آثار دکھاتی ہوئی اپنے اپنے کام میں مصروف تھیں اور مستریوں اور داروغوں کے کام آ رہی تھیں ‘‘۔ ۱۲۸؎
’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ میں زندگی کے ان اتار چڑھاؤ اور معاشرت کی اس اونچ نیچ کو عزیز احمد نے فنکاری کے ساتھ پیش کیا ہے، اس میں اپنے عہد کی تاریخ اور معاشرت کے ساتھ زندگی بھرپور طریقہ سے پیش ہوئی ہے، فنی حیثیت سے یہ ایک کامیاب ناول ہے جس میں عزیز احمد نے ماحول کو ایک پھیلے ہوئے پلاٹ اور حقیقی زندگی کے واقعات کے ذریعہ پیش کیا ہے۔ جس میں پیش کئے گئے مناظر لوگوں کا رہن سہن، بات چیت اور طرز زندگی پیش کرنے میں عزیز احمد نے اپنے ذاتی مشاہدہ سے کام لیا ہے، ڈاکٹر یوسف سرمست عزیز احمد کے فن کی خوبی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’عزیز احمد اپنے ناولوں میں کسی مخصوص ہئیت یا فارم کی پیروی نہیں کرتے بلکہ اپنے مواد کے لئے خود اپنی انفرادی تکنیک استعمال کرتے ہیں، یہی وجہہ ہے کہ ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ میں شعور کی رو کی تکنیک سے لے کر ہمہ داں مصنف تک یا پرسی مہک نے کہا بیان کرنے کے جتنے طریقے بیان کئے ہیں وہ سب کے سب یہاں ملتے ہیں وہ زندگی کا ہر ممکن طریقہ سے بھرپور اظہار کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ عزیز احمد کی عظمت کا راز یہی ہے کہ ان کے ناول ایک روشن ہالہ کی طرح ہوتے ہیں وہ اسی بناء پر موجودہ ناول نگاروں میں سب سے بڑے ناول نگار نظر آتے ہیں ‘‘۔ ۱۲۹؎
عزیز احمد کے مخصوص بیانیہ اسلوب میں پیش کیا گیا یہ ناول چند ایک خامیوں کے باوجود اردو کے منتخبہ ناولوں کی فہرست میں شامل ہو جاتا ہے۔
٭٭
’’شبنم‘‘
عزیز احمد نے ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ میں حیدرآباد کے طبقہ امراء کی زوال آمادہ زندگی کی تصویر کشی کی تھی۔ اسی سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے ایک ناول ’’شبنم‘‘ لکھا۔ یہ ناول 1950ء میں شائع ہوا۔ 1943ء تا1950ء کے ایک قلیل عرصہ میں عزیز احمد نے چار اہم ناول ’’گریز‘‘ ’’آگ‘‘ ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ اور ’’شبنم‘‘ لکھ کر ناول نگاری کی دنیا میں اپنا مقام بنا لیا۔ یہ چاروں ناول اردو دنیا کی تاریخ میں عزیز احمد کے نام کو زندہ رکھنے کیلئے کافی ہیں، عزیز احمد کے پچھلے ناولوں میں عموماً مرد کرداروں کے معاشقے اور ان کی جنسی بے راہ روی کو پیش کیا گیا تھا، ’’شبنم‘‘ میں انہوں نے ایک نسوانی کردار کی عشقیہ داستان اور اس کی بیباک زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے اُسے مرکزی حیثیت دی ہے۔ ’’شبنم‘‘ نامی اس لڑکی کی داستان عشق کے پس منظر میں عزیز احمد نے متوسط طبقہ کی زندگی کی کشمکش اور زندگی کے نشیب و فراز کو فنکاری سے پیش کیا ہے اور اس متوسط طبقہ کا تعلق حیدرآبادی معاشرہ سے ہے اور اس معاشرہ کی پستیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے عزیز احمد نے بتایا کہ کس طرح اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان لڑکیاں اپنے گھر والوں کی غیر ذمہ داریوں کی بناء عشق و عاشقی کے چکروں میں پڑ کر اپنی زندگی کے چین و سکون کو کھو بیٹھی ہیں۔ اپنے سنہرے مستقبل کے خواب لئے وہ بازار حسن میں لٹ جاتی ہیں لیکن ان کے خوابوں کی تکمیل نہیں ہو پاتی۔
ناول ’’شبنم‘‘ کے تعلق سے عام طور پر یہ بات مشہور ہے کہ اس میں عزیز احمد نے یونیورسٹی کے پروفیسروں کی عشقیہ داستان رقم کی ہے، خلیل الرحمن اعظمی کے بموجب :
’’اس ناول میں یونیورسٹی کے پروفیسروں کی زندگی اور ان کی اخلاقی کمزوریوں کو موضوع بنایا گیا ہے ‘‘۔ ۱۳۰؎
اس بات کو تقویت اس لئے بھی پہنچتی ہے کہ عزیز احمد تقریباً دس بارہ برس تک یونیورسٹی سے وابستہ تھے اور درس و تدریس کے فرائض انجام دئیے تھے۔
’’شبنم‘‘ میں پیش کردہ پروفیسر اعجاز کے روپ میں خود ان کے حقیقی کردار کی مشابہت دکھائی دیتی ہے۔ جس میں وہ اپنے ناولوں اور اس کے موضوعات پر تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پروفیسراعجاز کی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’آدمی کچھ عجیب طرح کے تھے، ان کا ذہنی تکبر بہت مشہور تھا اور نوجوان اُن کی اس اکڑ کو کچھ زیادہ پسند نہیں کرتے تھے، ان کی قابلیت وغیرہ پر تو خیر اکثر لوگ غور ہی نہیں کرتے تھے، ہاں اس پر اختلاف رائے ضرور تھا کہ انگریزی کی پروفیسری کے ساتھ ہرسال بے تحاشہ ایک ناول لکھنا کیا ضروری ہے۔ ۔ ۔ ۔ اور کیا نام رکھے ہیں، ’’آتش کشمیر‘‘ ’’فرار‘‘ وغیرہ جن میں رسوائے جنس اور عریانی کے کچھ نہیں ‘‘۔ ۱۳۱؎
’’آتش کشمیر، ’’فرار‘‘ سے مراد عزیز احمد کے ناول ’’آگ‘‘ اور ’’گریز‘‘ ہیں۔ ’’شبنم‘‘ میں پروفیسر اعجاز کے روپ میں عزیز احمد کی شخصیت کی جھلک اور دوسرے کرداروں کی زندگی کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ عزیز احمد نے اپنے ماحول کے حقیقی واقعات اور حقیقی کرداروں کو اس ناول میں پیش کیا ہے۔
’’شبنم‘‘ ایک کرداری ناول ہے، اس طرح کے ناولوں میں کرداروں کی شخصیت اور ان کی زندگی کا مطالعہ ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، اور ناول کے دوسرے فنی اجزاء پر کردار نگاری حاوی ہو جاتی ہے، اس ناول میں عزیز احمد نے ’’شبنم‘‘ اور ارشد علی خان کی عشقیہ داستان کو نفسیاتی مطالعہ کے رنگ میں پیش کیا ہے، ارشد علی خان جو ایک اخبار کا ایڈیٹر ہے شبنم نامی کسی لڑکی کی جانب سے مضمون میں اپنی تعریف و توصیف پڑھ کر اُسے شکریہ کا خط لکھتا ہے اور خطوط کا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے۔ جو آگے چل کر دونوں کے درمیان محبت بھری ملاقاتوں اور شادی کے دعوؤں پر ختم ہوتا ہے۔ ارشد ابتداء میں شبنم سے جنون کی حد تک عشق کرتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ شبنم کے سابقہ معاشقوں کی خبروں سے متعلق چھان بین کرتے ہوئے اپنی محبت کو شادی میں بدلنے پر پس و پیش کرتا ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ جس شبنم کی اسے تلاش تھی وہ یہ نہیں، شبنم کو اپنی جانب سے لاکھ صفائی کے باوجود وہ شادی پر آمادہ نہیں ہوتا اور ناول کا انجام دونوں کی جدائی پر ہوتا ہے۔
ناول کا اس طرح انجام ایک طرح سے فطری ہے اگر کسی طرح عزیز احمد ناول کا انجام بخیر کرتے اور دونوں کی شادی پر ناول کا اختتام کرتے تو ارشد علی خان جیسے شکی مزاج انسان کے خوابوں کی تکمیل نہیں ہو پاتی اور دونوں کی ازدواجی زندگی ابتداء ہی سے شکوک و شبہات کی بناء ناکام رہتی، ناول کا یہ انجام عزیز احمد کے دوسرے ناولوں ’’ہوس‘‘ ’’مرمر اور خون‘‘ اور ’’گریز‘‘ کی طرح ہے جن میں مرد کردار اپنی زندگی میں محبت اور ہوس پرستی کے بعد انجام ناکام اور نامراد زندگی کے حقیقی چین و سکون سے محروم دکھائی دیتے ہیں۔
’’ناول کا مرکزی کردار ’’شبنم‘‘ ہے، عزیز احمد کے ناولوں میں ’’شبنم‘‘ وہ واحد نسوانی کردار ہے جسے مرکزی حیثیت حاصل ہے اور تمام ناول اسی کردار کے گرد گھومتا ہے، ’’شبنم‘‘ حیدرآباد کے ایک متوسط گھرانے کی تعلیم یافتہ لڑکی ہے کانونٹ میں معلمہ ہے، شبنم کا کردار ایک ایسے معاشرہ کی نمائندگی کرتا ہے جہاں لڑکیوں کو یونیورسٹی سطح تک اعلیٰ تعلیم کے حصول کے ساتھ ملازمت کرنے اور ادبی محفلوں، دعوتوں، پارٹیوں میں کھلے عام شریک ہونے اور ان کے عشق کے چرچے مشہور ہونے تک آزادی حاصل ہے۔ چنانچہ شبنم بھی کچھ اسی طرح کے شوق کی بناء ارشد علی خان نامی اخباری ایڈیٹر کی تعریف میں مضمون لکھ کر اور اس کی جانب اس التفات پر خود بھی آگے آتی ہے، ابتدائی خط و کتابت اور ملاقاتوں میں ارشد سے عقیدت کا اظہار کرتی ہے لیکن بار بار ارشد اُسے محبت پر اصرار کرتا رہتا ہے، شبنم کے عقیدت مندانہ رویہ کا تجزیہ کرتے ہوئے عزیز احمد لکھتے ہیں :
’’یہ کشش کو شرافت کا رنگ دینے کی کوشش تھی ایک طرح کا فرق مراتبت پیدا کر کے ایک طرح کا حفظ مراتب کا سلسلہ قائم کرنے کی کوشش جس سے ارشد کو سخت الجھن اور سخت کوفت ہوتی تھی‘‘۔ ۱۳۲؎
شبنم اپنے اس رویہ کے بارے میں جواب دیتی ہے :۔
’’دیکھئے نا عورت کی محبت میں ہمیشہ عقیدت کا پہلو غالب ہوتا ہے، وہ اگر پرستش نہیں کرسکتی تو محبت بھی نہیں کرسکتی‘‘۔ ۱۳۳؎
شبنم کا نام نوازش علی اور منظور حسین کے ساتھ جڑ چکا تھا اور بدنامیوں کا ایک ہالہ اس کے گرد گھرا ہوا تھا، ارشد کے اصرار محبت پر وہ اثبات میں جواب اس لئے دیتی ہے کہ آخر کار اُسے اپنا گھر بسانا تھا اور زندگی کے طویل سفر پر ایک ہم سفر کا ساتھ حاصل کرنا تھا چنانچہ ارشد کے اصرار پر وہ دنیا کی نظروں سے چھپتی چھپاتی بدنامی کا ڈر لئے سینما گھر کے باکس میں ملنے جاتی ہے اور ارشد سے محبت بھری ملاقات کرتی ہے، شبنم کی اس طرح کی بیباکی ایک طرف تو اس کے کردار کی آزاد روی کا اظہار کرتی ہے اور دوسری طرف اس کے گھر سے ملنے والی چھوٹ اور معاشرہ کی آزادی اور ایک زوال آمادہ معاشرہ کی زندگی پیش آتی ہے، جہاں اخلاقی قدروں کی کوئی اہمیت نہیں اور ماں باپ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھے بے خبر اپنی اولاد کی کرشمہ سازیوں پر دم سادھے دکھائی دیتے ہیں۔
ارشد پہلی ملاقات میں شبنم کی بیباکی دیکھتے ہوئے اس کی پاک دامنی پر شک کرتا ہے اور اس شک کی تحقیق میں بعض خطوط اور دوسرے لوگوں کے ذریعہ اسے پتہ چلتا ہے کہ شبنم کے نوازش اور منظور سے معاشقہ چل چکے ہیں۔ ارشد، شبنم کے کردار کے بارے میں استفسارکرتا ہے تو وہ جواب دیتی ہے :
’’دیکھئے ہم امیر نہیں، ابا جان منصف تھے، اب وظیفہ ہو گیا، عالمگیر نگر میں پچیس تیس ہزار کے مکانات ہیں، یہاں ایک چالیس ہزار کا مکان ہے، لیکن ہماری رگوں میں شریفانہ خون ہے، عالیشان حویلیاں نہیں لاکھوں روپیہ نہیں، لیکن ہم اپنی گڈری میں مست ہیں، دوسری چیز یہ کہ میری پرورش خالص مشرقی ماحول میں ہوئی ہے، میرے خاص عقیدے اور روایات ہیں میر ان عقیدوں کو کوئی شکست نہیں دے سکتا مذہب کا مجھے سب سے زیادہ خیال ہے ‘‘۔ ۱۳۴؎
لیکن ارشد علی خان شبنم کے بارے میں برابر تفتیش میں لگا رہتا ہے اور شبنم کو لکھے گئے خطوط میں دلآزاری کے انداز میں سوالات کرتا ہے اور شبنم سے ملاقات پر بھی یہی رویہ اختیار کرتا ہے۔ شبنم، ارشد کے اس رویہ کو محبت نہیں کھیل سمجھتی ہے، شبنم اس معاملہ میں بہت جذباتی ہو جاتی ہے اور ایک خط میں ارشد سے یوں مخاطب ہوتی ہے :
’’جس طرح کوئی آسمان سے تارے نہیں توڑ سکتا، جالی کی تھیلی میں پانی نہیں رہ سکتا، سانپ کے سر سے شہید نہیں نکالا جا سکتا، اُس کے ساتھ ہی میں جس راہ پر چل رہی ہوں، اب واپس نہیں لوٹ سکتی قسمت میں ہو گا تو منزل مل جائے گی ورنہ صحرا نوردی تو گئی نہیں کون جانے صحراؤں کی خاک چھانتے چھانتے ختم ہو جاؤں ‘‘۔ ۱۳۵؎
اس طرح کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے عزیز احمد ’’شبنم‘‘ سے ہمدردی کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں، شبنم کی زندگی کا یہ انجام شبنم کے ساتھ اس جیسی تمام لڑکیوں اور اس معاشرہ کا المیہ ہے جہاں مرد ذات کی برتری قائم ہے اور اس معاشرہ کے مرد بازار حسن میں شبنم جیسی بدنام لڑکیوں کے دام گرا دیتے ہیں، ناول میں شبنم کے کردار کی بیباکی اس طرح بھی ظاہر ہوتی ہے کہ وہ ارشد کے لکھے گے تقریباً ہر خط کا جواب دیتی ہے اور ان خطوں میں محبت بھری باتیں لکھ بھیجتی ہے اسے اپنی بدنامی کا ڈر نہیں رہتا، اپنے بہن بھائی کی نظروں میں آ جانے کے باوجود وہ کسی نہ کسی طرح ارشد سے ملاقات کا بہانہ نکال ہی لیتی ہے، اور اس کی تمام کوششیں اپنے شریک زندگی کو پانے کیلئے ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر سلیمان اطہر جاوید شبنم کے کردار کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں :۔
’’یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ کردار اپنے آپ کو جس طرح ظاہر کر رہا ہے وہ ہے نہیں، ہر کام پر ایک کشمکش، ہر لحظہ اس کا اپنے آپ سے الجھاؤ، لیکن اپنے پر قابو پائے ہوئے، اپنے وجود پر جو بھی گزر رہی ہو بظاہر لئے دئیے اور رکھ رکھاؤ سے کہ کوئی یہ بھی نہ جانے کے پرسکون سطح آب کے نیچے کتنے طوفان پوشیدہ ہیں ‘‘۔ ۱۳۶؎
بہرحال عزیز احمد نے شبنم کے کردار کو ناول میں بڑی عرق ریزی کے ساتھ سلیقہ سے پیش کیا ہے اور اس کی محبت، اس کی زندگی کے نشیب و فراز کو پیش کرتے ہوئے عزیز احمد جذباتی ہو جاتے ہیں۔
ناول کا دوسرا اہم کردار ارشد علی خان ہے۔ عزیز احمد کے ناولوں کے بیشتر کرداروں کی طرح یہ بھی طوفانی انداز کی محبت، معشوق سے وصل بوس و کنار اور پھر کسی وجہہ سے اس سے دوری یا علیحدگی کے مطمع نظر پر کار بند رہتا ہے۔ ارشد علی خان اپنے پیسہ سے ایک اخبار کا مدیر ہے لیکن ناول میں شروع سے آخر تک اس کا کردار ایک عام نوعیت کے عاشق جیسا ہے جو شبنم کو ایک کالج کے طالب علم کی طرح محبت بھرے خطوط لکھتا ہے۔ جس میں عاشقانہ جذبات کے ساتھ غزل، نظم کے اشعار اور شعراء کے منتخب شعر بھی ہوتے ہیں۔ ارشد علی خان کی شخصیت ایک ایسے عاشق مزاج کی سی ہے جس کا کام خوبصورت لڑکیوں کو اپنی شخصیت اور اپنے عہدہ سے مرعوب کرنا اور ان سے جھوٹی محبت کے دعوے کرتے ہوئے ان کی عفت و عصمت سے کھلواڑ کرنا ہے۔ شبنم سے اظہار محبت سے قبل اس کے نام کے ساتھ زیبا، امجدی، رعنا وغیرہ لڑکیوں کے نام جڑے ہوئے تھے اور جو ارشد کے فریب محبت میں گرفتار ہو کر تباہ ہو چکی تھیں، ارشد، شبنم کو بھی اپنے پر فریب جال میں پھانس لیتا ہے وہ کھلے عام اپنی محبت کا اظہار نہیں کرتا ہے، وہ شبنم سے ملاقات کیلئے سینما گھر کے باکس کا انتخاب کرتا ہے، اس سلسلہ میں اس کے خیالات ملاحظہ ہوں :
’’دیکھئے نا اس شہر میں ایک شریف مرد اور ایک شریف لڑکی کے ملنے اور باتیں کرنے کا کوئی اور مقام بھی تو نہیں کوئی ایسا مکسڈ کلب نہیں، کوئی اور جگہ نہیں اور اس طرح ملنے جلنے کو پسند نہیں کیا جاتا اب لے دے کے یہی صورت ہے کہ کسی سینما کے باکس میں بیٹھ کر باتیں کی جائیں ‘‘۔ ۱۳۷؎
ارشد، شبنم سے محبت تو کرتا ہے لیکن وہ اس کے ماضی سے پریشان ہے، وہ شبنم کی پاکدامنی پر شک کرتا ہے، نوازش کے نام اور خود اس کے نام شبنم کے لکھے گئے خطوط کا تجزیہ کرتا ہے، شبنم کے لکھے گئے افسانوں کے پس پردہ مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، اپنے حلقہ احباب میں پروفیسر اعجاز حسین، نوازش، رشید، زیبا، امیر، پرویز جیسے لوگوں سے کرید کرید کر شبنم کے متعلق تفتیش کرتا ہے۔ عزیز احمد نے ارشد کی اس حرکت کے پیچھے مردوں کی نفسیات کا جائزہ لیا ہے کہ مرد کتنے بھی معاشقے کرے اسے کوئی روک، ٹوک نہیں لیکن یہ وہ کبھی برداشت نہیں کرتا کہ اس کی محبت، اس کی ہونے والی شریک سفر کا تعلق اس کے علاوہ کسی اور سے ہو، شبنم کے لاکھ قسمیں کھانے اور دلائل پیش کرنے کے باوجود ارشد صرف شک و شبہ کی بناء شبنم کو اپنانے سے انکار کر دیتا ہے۔
’’شبنم اور ارشد کے علاوہ ناول میں نوازش اور منظور کے کردار ہیں، ان دونوں کے یکے بعد دیگرے شبنم سے معاشقہ کی خبریں سن کر ارشد پریشان رہتا ہے، نوازش کے خطوط پڑھنے کے بعد کسی حد تک وہ مطمئن ہو جاتا ہے کہ نوازش اور شبنم میں تعلقات عقیدت کی حد سے آگے نہیں بڑھے لیکن ایک دفعہ منظور کی کار میں شبنم کو دیکھ کر ارشد کے شبہات کو تقویت پہنچتی ہے۔ عزیز احمد نے شبنم کی زندگی کے کینوس کووسیع کرنے ان دونوں کرداروں کو ناول میں پیش کیا ہے، اس کے علاوہ شبنم کی سہیلی امیر ارشد کی سابقہ معشوقہ زیبا، دفتر میں کام کرنے والے رشیدی صاحب، پرویز اور پروفیسر اعجاز کے کردار اپنے معاشرہ کے جز اور ناول میں پیش کردہ زندگی کی کڑیاں ہیں جن کے بغیر ناول کی تکمیل ممکن نہیں۔
شبنم میں ارشد علی خان کے ذریعہ عزیز احمد نے محبت کے اس پہلو کو پیش کیا ہے جس میں ہوس پرستی اور خواہشات کی تکمیل کے ساتھ فطرت سے دوری اور سماج و معاشرہ کے قوانین سے بیزارگی دکھائی دیتی ہے، ارشد علی خان اس زوال آمادہ معاشرہ کا ایک ایسا فرد ہے جو اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کیلئے غیر فطری راستے تلاش کرنا چاہتا ہے، اس کے خیالات ملاحظہ ہوں :۔
’’اعجاز صاحب کیا اچھا ہوتا کہ جب کسی مرد اور عورت میں محبت ہو جائے تو چپ چپاتے دونوں چھپ کر اس طرح شادی کر لیا کریں کہ کسی کو اطلاع نہ ہونے پائے دونوں الگ الگ رہیں اسی طرح چوری چھپے ایک دوسرے سے ملیں جیسے ناجائز محبت میں ملتے ہیں، ایسی کوشش کریں کہ اولاد نہ ہونے پائے اور جب دونوں میں سے ایک محسوس کرے کہ محبت ختم ہو رہی ہے تو جس طرح چپکے سے شادی ہوئی تھی اسی طرح چپکے سے طلاق ہو جائے۔ اگر یہ صورت ممکن ہو تو محبوبہ بیوی بننے پر بھی مجبور ہی رہ سکتی ہے ‘‘۔ ۱۳۸؎
عزیز احمد کے یہ خیالات ان کی ذہنی اپج کی بناء ظاہر ہوئے ہیں، اس طرح کے کئی غیر فطری خیالات عزیز احمد نے اپنے ناولوں میں پیش کئے ہیں جن میں سطحیت زیادہ پائی گئی ہے۔ عزیز احمد کے اسی طرح کے نا پختہ خیالات دیکھتے ہوئے کے کے کھلر لکھتے ہیں۔
’’ناول (شبنم)، میں جو فلسفہ عشق پیش کیا گیا ہے وہ بھی اپنے خام پن کی وجہہ سے نوجوان طلبہ کیلئے تو قابل توجہ ہوسکتا ہے لیکن ادب کا بالغ قاری اسے سراہنے کے بجائے ناپسند ہی کرے گا‘‘۔ ۱۳۹؎
عزیز احمد کے اس طرح کے خیالات پیش کرنے کی ایک وجہہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انہوں نے اپنی ناول نگاری میں محبت، جنس اور معاشرت میں بعض نئے تجربے کرنے کی کوشش کی تھی جس کیلئے انہوں نے اس طرح کے خیالات وضع کئے تھے۔ عزیز احمد ایک ایسے دور کی نمائندگی کر رہے تھے جہاں جاگیرداری و نوابی نظام کا خاتمہ ہو رہا تھا نئے سیاسی حالات اور مادی ترقی کے ساتھ عیش و عشرت میں ڈوبے نوجوانوں کا ساتھ مشکل تھا اور اس طرح کے نوجوان اپنے ذہن میں زندگی اور اس کی حقیقتوں کے متعلق جو خیالات لآ سکتا تھا وہ اسی طرح کے ہوسکتے تھے۔ عزیز احمد کے بیشتر نقادوں نے ان کے کرداروں کی جنسی بے راہ روی پر سخت نکتہ چینی کی ہے احتشام حسین کے بموجب :۔
’’ان کے ناول جنس کے دیوتا سے آنکھ مچولی سے بھرے ہیں ان کے قریب تمام کردار خواہشات سے مسرت ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ ان کی سب سے بڑی بھول یہ ہے کہ وہ جنسی زندگی کا تجزیہ کرتے ہوئے زندگی کے دوسرے بڑے بڑے مسئلوں کی طرف سے آنکھ بند کر لیتے ہیں۔ ۱۴۰؎
عزیز احمد کی ناول نگاری پر تنقید کرتے ہوئے شبنم کے حوالہ سے وقار عظیم بھی کچھ اس طرح کی بات کرتے ہیں :۔
’’شبنم کا مطالعہ قاری کو دو متضاد نتیجے نکالنے پر مجبور کرتا ہے، ایک بات جو شبنم کے جستہ جستہ حصوں میں واضح طور پر نمایاں یہ ہے کہ ناول نگاری کے حسن سے پوری طرح واقفیت بھی ہے اور وہ اسے بڑے حسن کے ساتھ برتنے پر قادر بھی ہے لیکن ساتھ ہی یہ کہ اپنے علم اور قدرت سے اُس نے سوائے سستی قسم کی پسندیدگی حاصل کرنے کے اور کوئی کام نہیں لیا‘‘۔ ۱۴۱؎
عزیز احمد کے موضوعات پر نکتہ چینی کے باوجود کئی نقادوں نے ان کی ناول نگاری کی اعلیٰ ٹیکنک کی ستائش کی ہے۔ ’’شبنم‘‘ میں بھی عزیز احمد نے مواد کی پیشکشی کیلئے نئے طریقے اپنائے ہیں اس کیلئے انہوں نے خطوط نگاری، غزل و نظم کے اشعار اور کرداروں کے مکالمے استعمال کئے ہیں۔ ’’شبنم اور ارشد کے درمیان خطوط میں محبت بھرے الفاظ، اشعار بھی ہیں، دلوں کی دھڑکنیں بھی، ان میں شکوک و شبہات کا اظہار بھی ہے اور شبنم جیسی ادبی ذوق رکھنے والی کہنہ مشق ادیبہ کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے اور ارشد کو مختلف خطوط میں طرح طرح کے القاب سے نوازتی ہے۔ عزیز احمد نے ان خطوط کے لکھنے میں اپنی انشاء پردازی کو کمال تک پہنچا دیا اور قارئین کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ خطوط نہیں بلکہ ناول کے مواد کا ایک حصہ ہیں۔ لیکن ان دونوں کے خطوط کے علاوہ نوازش کے خطوط کی ایک طویل فہرست ناول کی طوالت کا سبب بن جاتی ہے اور قارئین پر گراں گزرتی ہے اور یہی خطوط کی ٹیکنک ان کی خامی بن جاتی ہے، محبت بھرے خطوط میں عزیز احمد کا اسلوب رومانی ہو جاتا ہے اور آخر میں شبنم کے جذباتی جوابات کے ساتھ عزیز احمد اپنے اسلوب میں تبدیلی لا لیتے ہیں، ناول میں مکالمے کم ہیں، ارشد اور پروفیسر اعجاز کے مابین، محبت، عشق، جنس اور وصال کے متعلق فلسفیانہ مباحث دراصل عزیز احمد کے اپنے خیالات ہیں، جن کی تشریح و ترویج وہ جگہ جگہ کرتے دکھائی دیتے ہیں ان تمام باتوں سے قطع نظر ناول ’’شبنم‘‘ کرداروں کے نفسیاتی تجزیہ کے سلسلہ میں اہمیت کا حامل ہے۔ عزیز احمد کا یہ ناول اردو ناول کے اس تشکیلی دور میں اپنی ٹیکنک اور موضوعات کی جدت اور کرداروں کی نفسیاتی تحلیل و تجزیہ کی راہوں میں سنگ میل بن جاتا ہے اور اردو ناول کی تاریخ میں اہم مقام پا لیتا ہے۔