ابتدائی دور کے ناول
ہوس
عزیز احمد کا پہلا ناول ’’ہوس‘‘ ہے۔ جو1932ء میں لکھا گیا۔ اپنے زمانہ طالب علمی میں جہاں عزیز احمد نے کالج کی تقاریب و ادبی محفلوں کیلئے ڈرامے، افسانے، نظمیں، غزلیں لکھی تھیں وہیں انہوں نے ناول نگاری کی طرف بھی توجہ شروع کی اور گرما کی چھٹیوں میں حیدرآباد سے اپنے آبائی وطن عثمان آباد گئے تو وہاں یہ ناول ضبط تحریر میں لایا۔
’’ہوس‘‘ایک مختصر ناول ہے اور اس کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس میں رومان اور ہوس پرستانہ جذبات کی عکاسی کی گئی ہے۔ عزیز احمد اس ناول کی اشاعت کے خلاف تھے لیکن جس بات نے انہیں حوصلہ بخشا وہ اپنے استاد مولوی عبدالحق کی سرپرستی و ہمت افزائی تھی جنہوں نے اس ناول کا دیباچہ لکھا اور عزیز احمد کے اس ناول کا تجزیہ کیا اس ناول کا جائزہ لیتے ہوئے مولوی عبدالحق نے دیباچہ میں لکھتے ہیں۔
’’اس ناول میں مصنف نے آرٹ کی آڑ میں عقل، جذبات، محبت و ہوس، مرد و عورت کے تعلقات کی کشاکش کو بڑی خوش اسلوبی سے دکھایا ہے ‘‘۔ ۳۹؎
اس ایک جملہ میں ہی مولوی عبدالحق نے ناول کا بخوبی جائزہ لے لیا ہے۔ اس ناول کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے مولوی عبدالحق لکھتے ہیں :
’’دراصل مصنف کا مقصود اس ناول کو لکھنے سے موجودہ رسم پردہ کا تاریک پہلو دکھانا ہے۔ نئی پود جس نے مغربی تعلیم اور مغربی خیالات اور جدید حالات میں پرورش پائی ہے وہ اس فرسودہ اور ناکارہ رسم سے بیزار ہے پردے کے حامی اسے اخلاق کا محافظ سمجھتے ہیں اور یہ مخرب الاخلاق اور مانع ترقی‘‘۔ ۴۰؎
مولوی عبدالحق نے یہ بات اس لئے کہی کہ اس ناول میں جگہ جگہ عزیز احمد نے پردے کو ایک فرسودہ رسم کے طور پر پیش کرتے ہوئے اسے سماجی برائی سمجھا ہے اور پردہ کو لڑکیوں کی ترقی کی راہ میں حائل کانٹا جانا ہے اس ناول میں پیش کئے گئے خیالات کے چند اقتباسات سے ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔ عزیز احمد لکھتے ہیں :
’’پردہ نے دوسروں تمام مسلمانوں کے گھروں کے دروازے بند کر دئیے تھے۔ پردہ نے مسلمان لڑکیوں کو قید کی وجہہ سے بہت زیادہ حساس بنا دیا تھا پردہ نے مسلمان لڑکوں کو نسوانی محبت سے محروم کر کے ان کے اخلاق کی شائستگی کو پامال کر دیا تھا‘‘۔ ٭ (عزیز احمد ’’ہوس‘‘ ص ۴۷)۔ ’’پردہ نے زلیخا کو مجبور کر کے میرے حوالے کر دیا تھا اور پردے کے ہی باعث دبے ہوئے شعلہ دم احساسات نے یکلخت بھڑک کر سلیمہ کو جلا دیا تھا‘‘۔ ۴۱؎
’’اس تمام مصیبت اور بدبختی کا باعث وہ لڑکیاں ہیں، پردہ نے ان کو مردوں کی صورت اور مردوں کیساتھ اس قدر بے خبر رکھا ہے کہ ہر دم دام فریب میں ان کا پھنس جانا یقینی ہے ‘‘۔ ۴۲؎
پردہ سے متعلق عزیز احمد کے ان خیالات کو پڑھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ پردے کے کتنے سخت مخالف تھے، مسلمان لڑکیوں کی بے راہ روی اور ان کی ترقی میں رکاوٹ کا سبب وہ پردہ کو ہی مانتے ہیں۔ اسی طرح اس ناول کے لکھنے کا مقصد پردہ کے تاریک اور فرسودہ پہلو کو دکھانا ہے۔ جس میں عزیز احمد حد سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ حالانکہ عزیز احمد نے پردہ کی آڑ میں جنسی آزادی اور ہوس پرستانہ خیالات کو پیش کرتے ہوئے جذباتیت کو ہوا دی ہے اس طرح کے موضوعات اردو ناول کے اس دور میں کم ہی دکھائی دیتے ہیں چنانچہ عزیز احمد نے اپنا دامن بچانے کیلئے پردہ کی آڑ لی ہے۔ اور بقول پروفیسر سلیمان اطہر جاوید:
’’کچھ ایسا لگتا ہے کہ اس طرح اظہار پر معاشرہ کے رد عمل کے اندیشے سے انہوں نے پردہ کو موضوع بنایا ہے، ورنہ ناول اچھا یا برا جیسا بھی ہو جنس اور رومانیت کے گرد ہی گھومتا ہے ‘‘۔ ۴۳؎
جس زمانہ میں عزیز احمد نے یہ ناول لکھا ہے اس وقت مغرب کے زیر اثر اردو ادب میں بھی جنس کا اظہار ہونے لگا تھا۔ جو آگے چل کر ترقی پسند افسانہ و ناول نگاروں میں پختگی حاصل کر لیتا ہے، لیکن اس طرح کے موضوعات کے سلسلے میں عزیز احمد نے جو بیباکی برتی ہے اور رومانی و جنسی موضوعات کو جس انداز میں اپنے ناول میں سمیٹا ہے وہ مغربی ادب کے مطالعہ کا اثر ہوسکتا ہے۔ عزیز احمد نے مغرب کے ’’ترقی یافتہ سماج‘‘ کو ہندوستانی معاشرہ میں برتنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ چونکہ ناول نگاری میں ان کی یہ پہلی کاوش ہے اس لئے جنس، رومان اور فلسفیانہ خیالات کے اظہار میں پختگی کم اور زمانہ شباب کی مستی جنسیت زیادہ ہے۔
ناول ’’ہوس‘‘ کا مرکزی کردار ہیرو نسیم ہے۔ یہ ایک نوجوان کا کردار ہے جو معاشرہ و سماج کے اخلاقی قیود کو توڑنا چاہتا ہے، عورت کی قربت ہی اس کا مطمع نظر ہے۔ اس ناول میں عزیز احمد کا موضوع چونکہ جنس اور رومان ہے اس لئے انہوں نے اپنے ہیرو نسیم کا تعلق آرٹ یعنی مصوری سے رکھا ہے، عام طور پر فکشن میں جنسی طور پر نا آسودہ کرداروں کا تعلق آرٹ سے ہوتا ہے۔ آرٹسٹ کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے نا آسودہ جذبات کو اپنے فن کے ذریعہ پیش کرتے ہوئے ان کی تکمیل کیلئے کوشاں رہتا ہے۔ چنانچہ ’’ہوس‘‘ کا ہیرو نسیم بھی کچھ اسی طرح کا ہی آرٹسٹ ہے جو کہ مغرب کی شاہکار تصاویر کی نقل اُتارتا ہے۔ جیسے :۔
’’میں نے استادان فن کے شاہکاروں کی نقل سے ابتداء کی اور اس سلسلہ میں میری سب سے زیادہ کامیاب نقل ’’تی تیانو‘‘ کے شاہکار ’’پاک اور ناپاک محبت‘‘ کی نقل تھی جس کے بعد میں نے چند قدیم یونانی شاہکاروں اور نشاۃ ثانیہ کے شاہکاروں میں سے لیونارڈونیسی ’’مونا لیسا‘‘ تی تیانو کی ’’فلورا‘‘ اور سائڈرولونے چلی کی ’’بہار‘‘ وغیرہ کو نقل کیا۔ ۴۴؎
عزیز احمد نے اپنے ہیرو نسیم سے متعلق مغرب کی ان شاہکار تصاویر کے نام گنوا کر جہاں مغربی آرٹ سے اپنی علمیت کا ثبوت دیا ہے وہیں اپنے کردار کو بحیثیت ایک بڑے آرٹسٹ کے پیش کرنے کی سعی کی ہے۔ نسیم اپنے فن کی تکمیل کیلئے حیدرآباد سے ممبئی منتقل ہوتا ہے جہاں وہ اپنے چچا کے گھر قیام پذیر ہوتا ہے اور دوران قیام آزاد ماحول میں رہتے ہوئے اپنے ہی چچا کی لڑکیوں سے عشق کے ہفت خواں طے کرتا ہے۔
ناول ’’ہوس‘‘ میں نسیم کا کردار ایک ایسے نوجوان کا کردار ہے جس کے پاس محبت کی اعلیٰ اقدار موجود نہیں ہیں۔ وہ ایک طرح کا نفسیاتی مریض ہے۔ وہ جنسی طور پر ایک ایسا نا آسودہ نوجوان ہے جس کے دل و دماغ پر ہر وقت عورت چھائی رہتی ہے وہ ہمیشہ اچھی یا بری عورت کی قربت کا خواہاں رہتا ہے اور فطرت اور معاشرت کے قیود اس کے آگے بے معنی ہیں۔ اپنی عمر سے بڑی چچازاد بہن زلیخا سے محبت کا گھناؤنا کھیل کھیلتا ہے، نسیم کے خیالات ملاحظہ ہوں :۔
’’میں محسوس کر رہا تھا کہ میں ایک عورت سے اس قدر قریب بیٹھا ہوں اور بالکل تنہائی میں اس وقت وہ مجھے عورت معلوم ہو رہی تھی۔ گوشت پوست کی ایک نوجوان عورت اس وقت فطرت اپنی پوری حکومت کے ساتھ میرے دل سے اس پیہم پیدا ہونے والے احساس کو زائل کر رہی تھی کہ وہ میری چچازاد بہن بھی ہے اور معاشرت اور مذہب کے تمام تر قیود مجھے بے بنیاد اور غیر فطری نظر آرہے تھے، فطرت نے سرشت انسانی کو آزاد بنایا ہے تو پھر یہ خود ساختہ پابندیاں کیوں ‘‘۔ ۴۵؎
اس طرح کے خیالات سے پتہ چلتا ہے کہ نسیم کا کردار اخلاقی طور پر پست نوجوان کا کردار ہے پردہ کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے وہ اپنے عزیز کی لڑکی سے محبت رچاتا ہے وہ ایک ایسا مشرقی نوجوان ہے جس کی ذہنیت مغرب زدہ ہو چکی ہے۔ وہ محبت میں اس قدر آگے جانا چاہتا ہے کہ سماج و معاشرہ کی اچھی صالح قدریں اس کے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتیں اور تھوڑی سی کوشش کے بعد جب صنف مخالف سے اُسے مثبت رویہ ملتا ہے تو اپنے چچا کی بڑی لڑکی زلیخا کا دامن عصمت چاک کر جاتا ہے اور اسے یاس و امید میں چھوڑ کر وطن سے دور چلا جاتا ہے۔ نسیم کی زبانی بعض مرتبہ فلسفیانہ خیالات کا اظہار کراتے ہوئے عزیز احمد نے اس کے کردار کو تقویت پہونچانے کی کوشش کی ہے لیکن اس سلسلہ میں مصنف کی شخصیت جھلک جاتی ہے۔ نسیم کے مقابلہ میں زلیخا کا کردار ناول کے ابتدائی حصہ میں کافی مضبوط ہے وہ ایک خودسر مضبوط ارادے کی مالک لڑکی کے طور پر قارئین کے سامنے آتی ہے۔
’’زلیخا کے کردار کا مطالعہ کر کے اور اپنے خیالی مفروضات سے کچھ دیر تک قطع نظر کر کے میں جس نتیجہ پر پہونچا وہ یہ تھا کہ زلیخا کی طبیعت کا ناگوار پہلو صرف دو چیزوں سے مرکب تھا، خود پسندی اور نخوت، ان کے سو ا اس کی طبعیت میں کوئی ناگوار بات نہ تھی‘‘۔ ۴۶؎
لیکن نسیم کی محبت کا جادو اس پر چل جاتا ہے۔ وہ اخلاقی طور پر ایک مضبوط کردار کی حامل لڑکی ہونے کے باوجود عمر کے فطری تقاضوں سے مجبور ہو جاتی ہے۔ ماں باپ کی لاپرواہی سے وہ عمر کی اسی منزل پر پہنچ جاتی ہے جہاں وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتی اور نسیم کی عفت و عصمت گنوا بیٹھتی ہے، یہاں عزیز احمد نے ہندوستانی معاشرہ کی اس برائی کی طرف نشاندہی کی ہے جہاں سماج میں بعض وجوہات کی بناء پر شادیاں وقت پر انجام نہیں ہو پاتیں جس کی بناء پر گناہ کے راستہ کھل جاتے ہیں۔ جب نسیم اپنی محبت کو بے یار و مددگار چھوڑ کر وطن سے دور چلا جاتا ہے تو زلیخا ایک مشرقی تہذیب کی پروردہ لڑکی کی طرح اسے اپنی بربادی کی داستان لکھتے ہوئے کہتی ہے کہ:
’’نسیم تم بے مروت ہو اور کس قدر بے وفا ہو، میں تمہارے لئے گھنٹوں روتی ہوں، تمہارے لئے میں نے وہ وہ تکلیفیں جھیلیں جن سے زیادہ کوئی عورت کوئی تکلیف نہیں جھیل سکتی، میں نے اب تک تمہارا نام نہیں بتایا‘‘۔ ۴۷؎
اس طرح زلیخا کا کردار اس معصوم ہندوستانی لڑکی کا کردار دکھائی دیتا ہے جو محبت کے دام فریب میں آسانی سے آ جاتی ہیں اور جب تباہ برباد ہو جاتی ہیں تو مظلومیت کا داغ اپنے سینے سے لگائے چپ چاپ گھلتی جھلتی رہتی ہیں اور اُف تک نہیں کرتیں۔
ناول کے دوسرے کردار میں زلیخا کے بھائی جمیل کا کردار ہے جو اپنی پڑھائی اور کھیل میں اس قدر مصروف ہے کہ اپنے گھر میں ہونے والے گھناؤنے کھیل سے بے خبر ہے اپنی بہن کے مجرم کو سزا دلانے سے قاصر ہے لیکن اپنی بہن کے دامن میں لگے داغ کو دور کرنے میں مدد کرتا ہے۔ زلیخا اور جمیل کی چھوٹی بہن سلیمہ ہے جو ناول کے پیش کردہ ماحول کے مطابق اپنی بڑی بہن کے نقش قدم پر چلتی ہوئی اپنی عصمت گنوا بیٹھتی ہے۔ سماج کے اصولوں میں قید اور وقت کی مار کھائے ہوئے ماں باپ ہیں جو کہ موزوں وقت پر اپنی بیٹیوں کی شادی نہیں کر پاتے اور گھر کے ماحول میں اتنی آزادی دیتے ہیں کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنی تباہی کا سامان کر بیٹھتی ہیں۔ اور سماج کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے صدمہ کی تاب نہ لا کر باپ خودکشی کر بیٹھتا ہے اور ماں مرگ کی بیماری میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ یہ تمام کردار انفعالیت کا اظہار کرتے ہیں۔ نسیم میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ اپنی محبت کو گلے لگا لے، زلیخا اور سلیمہ اپنی بربادی کو چھپائے رکھتی ہیں اور بھائی اور ماں باپ سماج سے ڈرتے ہیں۔
عزیز احمد نے ناول کا انجام ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت فطری انداز میں کیا ہے جیساکروگے ویسا بھرو گے کے مصداق ناول کے آخر میں زلیخا کی شادی بے خبری میں نسیم کے بڑے بھائی سے کر دی جاتی ہے اور نسیم کے وطن آنے کے بعد سلیمہ کی نسیم سے شادی کر دی جاتی ہے۔ سلیمہ سے شادی کے بعد نسیم کی زندگی کا چین و سکون چھین جاتا ہے کیونکہ دونوں کی محبت جدا جدا ہوتی ہے۔
’’سلیمہ بالکل میری سلیمہ نہیں، حالانکہ وہ اپنی وجود تک کو میری خدمت میری راحت کیلئے مٹا دینے میں کوشاں رہتی ہے مجھے اور کسی عورت سے محبت نہیں ہوئی، مجھے اپنی بیوی سلیمہ سے بھی محبت نہیں، محبت کو میں اب تصویروں میں ڈھونڈتا ہوں، اور تصویروں ہی میں محبت کے تخیل کو کمال تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں ‘‘۔ ۴۹؎
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کے مطابق ’’ہوس‘‘ کا انجام بڑا بناوٹی اور غیر فطری ہے زلیخا جو نسیم کے رویہ سے اس کی مخالف شدید مخالف بلکہ دشمن ہو جاتی ہے تعجب ہے اپنے اور نسیم کے تعلقات کی اس حد تک پردہ پوشی کر لیتی ہے۔
’’اسی نسیم سے وہ اپنی بہن سلیمہ کی شادی کیلئے کیسے آمادہ ہو جاتی ہے ‘‘۔ ۵۰؎
لیکن عموماً یہ دیکھا گیا کہ محبت کسی اور سے ہوتی ہے اور شادی کسی اور سے، نسیم زلیخا میں عمروں میں تفاوت کے باوجود زلیخا کی شادی نسیم کے بڑے بھائی سے ہوتی ہے اور سماج میں بدنامی سے بچنے کیلئے گناہگار سلیمہ کی شادی نسیم سے ہوتی ہے۔ عزیز احمد نے اس طرح ناول کا انجام حالات کے مجموعی تناظر میں کیا ہے عام قارئین کیلئے یہ ایک اچھا ناول ہے جس میں رومانی انداز میں جنسی جذبات کو کھلے انداز میں پیش کیا گیا اور اردو ناول میں ایک نیا تجربہ کیا گیا، ٹکنیکی لحاظ سے ناول تو مکمل ہے لیکن اسے ایک کامیاب ناول کے زمرہ میں شامل نہیں کیا جا سکتا، یہ ایک طرح کا نفسیاتی ناول ہے جس میں کرداروں کی نفسیاتی کشمکش کو رومان کے ذریعہ پیش کیا گیا ہے۔ اس لئے اس میں قصہ، ضمنی اہمیت کا حامل ہے، پھر بھی عزیز احمد نے نسیم، زلیخا، سلیمہ کے کرداروں سے جڑے واقعات کو بیان کرتے ہوئے ناول کے پلاٹ کو پھیلایا ہے، ناول میں مکالمہ نگاری کم ہے لیکن خیالات اور جذباتی کیفیات کو اچھے انداز میں پیش کیا گیا ہے، نفسیاتی ناولوں کا ایک اہم وصف جذبات نگاری ہوتا ہے۔ عزیز احمد نے اس ناول میں جا بجا جذبات نگاری کے اعلیٰ نمونے پیش کئے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عزیز احمد نے نسیم کے کردار کے ذریعہ اپنے داخلی جذبات کو پیش کیا ہے نسیم کے جذبات ملاحظہ ہوں :
’’کوئی جسم میرے ’’معیار جمال‘‘ تک نہ پہونچتا تھا، اس لئے جمالی معیار کو کسی عورت میں ڈھونڈنے کی ضرورت نہ تھی، میرا شباب صنف مقابل میں اپنا ہم آہنگ مشغلہ، شعلہ محبت تلاش کر رہا تھا فطری محبت جو ہر قسم کے باطل دعووں سے پاک ہو صرف ایک ہی محبت فطری محبت ہوسکتی ہے یعنی وہ محبت جو کسی مرد کو کسی عورت سے اس وجہہ سے ہو کہ وہ عورت ہے ‘‘۔ ۵۱؎
نسیم کے ہوس پرستانہ جنسی جذبات کی ایک اور مثال پیش ہے :
’’مجھے تو محبت کرنے سے محبت تھی مجھے شباب کے باعث عشق تھا، مجھے صنف مقابل سے ایک ہمدم تلاش کرنا تھا، جذبات نفسانی کا ہمدم نہیں، جذبات جنسی کا ہمدم، جذبات نفسانی اور جنسی جذبات کے زمین آسمان کے فرق کو صرف ایک محسوس کرنے والا محبت کرنے والا دل سمجھ سکتا ہے، میں کوئی عارضی معاشقہ نہیں کرنا چاہتا تھا، میں عورت کی پائیدار محبت کا جویا تھا‘‘۔ ۵۲؎
ناول میں رومانی خیالات کی منظر نگاری دلفریب انداز میں کی گئی ہے جس میں تلذذ سے کام لیا گیا ہے اس ناول کی ایک ہم خوبی اس کا انداز بیان اور اسلوب ہے، رومانی ناولوں میں اسلوب اہمیت کا حامل ہے، جس کے ذریعہ محبت کی فضاء قائم رکھی جاتی ہے چنانچہ عزیز احمد نے بھی اپنے ناول میں جہاں جہاں رومانی خیالات، جنسی جذبات اور وصل کے مناظر بیان کئے ہیں وہاں انہوں نے رنگین رومانی اسلوب اختیار کیا ہے اس کے برخلاف معاشرتی اور نفسیاتی خیالات کو پیش کرتے وقت عزیز احمد ایک بڑے مفکر اور فلسفی دکھائی دیتے ہیں چنانچہ نسیم کی زبانی ایک پیش کردہ یہ خیالات ان کے اپنے مطالعہ کی خبر دیتے ہیں چند مثالیں ملاحظہ ہوں :۔
’’پھر اس نے مجھے اپنی ہدایت کیلئے کیوں بلایا ہے، کیوں بلا رہی تھی، اگر وہ آگ سے بچنا چاہتی تھی تو آگ سے کھیل کیوں رہی تھی، آہ! انسانی جذبات کس قدر متضاد ہیں، انسانی سرشت اجتماع ضدین ہے ‘‘۔ ۵۳؎
’’ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہ کذب و افتراء دروغ و مصلحت کی تاریک نقابوں میں اس قدر چھپی ہوئی ہے کہ سچائی ہر ہر قدم پر تلاش میں ناکام ہو کر ٹھوکریں کھاتی اور گرتی جاتی ہے ‘‘۔ ۵۴؎
اور ناول کے انجام کے وقت نسیم کا یہ خیال کہ:
’’مگر اب مجھے یقین آیا ہے کہ خدا کی چکی آہستہ پیستی ہے مگر بہت باریک پیستی ہے ‘‘۔ ۵۵؎
اس طرح کے خیالات سے عزیز احمد نے ناول میں فلسفیانہ رنگ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ناول ’’ہوس‘‘ چونکہ عزیز احمد کی پہلی کاوش ہے، اس لئے اس میں موضوع و بیان کی خامیوں کو قطع نظر کرتے ہوئے دیکھا جائے تو عزیز احمد کی یہ ایک اچھی تخلیقی کاوش ہے اور آگے چل کر ترقی پسند ادیبوں نے اس طرح کے موضوعات کو پختگی کے ساتھ ادب میں برتا ہے۔
٭٭
مرمر اور خون
’’مرمر اور خون‘‘ عزیز احمد کا دوسرا ناول ہے۔ یہ ناول بھی 1932ء میں لکھا گیا، عزیز احمد نے تعلیمی تعطیلات کے درمیان اپنے وطن عثمان آباد میں اپنے دو ناول ’’ہوس‘‘ اور ’’مرمر اور خون‘‘ تصنیف کئے اور وہ ان ناولوں کو اس قابل نہیں سمجھتے تھے کہ انہیں زیور طبع سے آراستہ کیا جائے، کیونکہ یہ ان کے زمانہ طالب علمی کی وہ ابتدائی کاوش تھیں، جن میں فن کاری سے زیادہ تاثراتی جذبات غالب ہیں، ناول ’’ہوس‘‘ کی طرح ’’مرمر اور خون‘‘ کا دیباچہ بھی ان کے استاد مولوی عبدالحق نے لکھا اس ناول کے تعلق سے وہ یوں رقم طراز ہیں :
’’یہ عزیز احمد سلمہ، کا نقش ثانی ہے اور اکثر و بیشتر نقش ثانی اول سے بہتر ہوتا ہے ‘‘۔ ۵۶؎
موضوع کے اعتبار سے ناول ’’مرمر اور خون‘‘ بھی عزیز احمد کے پہلے ناول ’’ہوس‘‘ سے کچھ جدا نہیں، پہلے ناول میں نوجوان دلوں کی آزاد روی کو پیش کیا گیا ہے جس بات نے مولوی عبدالحق کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ ’’نقش ثانی نقش اول سے بہتر ہوتا ہے ‘‘۔ وہ اس ناول کا انداز بیان اور پیش کش ہے جس میں یقیناً عزیز احمد نے پہلے ناول سے بہت کچھ ترقی کی ہے، مولوی عبدالحق لکھتے ہیں :
’’ہونہار مصنف نے زبان کی صفائی اور قوت بیان میں پہلے کی نسبت بہت ترقی کی ہے اور نفسیاتی اور خاص کر جذباتی کیفیتوں کو بعض موقعوں پر بڑی خوبی اور دلکشی سے بیان کیا ہے جس میں کہیں استادانہ کمال نظر آتا ہے۔ ۵۷؎
ناول ’’مرمر اور خون‘‘ میں بھی ایسی فضاء پیش کی گئی ہے جس میں نوجوان، معاشرہ کے بنائے گئے قوانین سے بیزار ہیں اور انہیں توڑنا چاہتے ہیں اور جس کیلئے وہ آزاد ماحول چاہتے ہیں، ناول کا عنوان ’’مرمر اور خون‘‘ تخیلی انداز کا حامل ہے۔ عزیز احمد نے اس ناول میں پیش کردہ سنگتراشی کے آرٹ کے ذریعہ ایک مرمریں مجسمہ اور ایک گوشت پوست کے انسان کے فرق کو بڑے ہی شاعرانہ اور فلسفیانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ سہیل بخاری کے بموجب:
’’مرمر اور خون، کی اساس تضاد پر رکھی گئی ہے مشرق اور مغرب کا تضاد، غیر فطری روح (مجسمہ اور ذی روح (انسان) کا تضاد، فطرت و صنعت کا تضاد، تخیل و حقیقت کا تضاد، ضعیفی و جوانی کا تضاد، امارت و افلاس کا تضاد، غرض اس میں ہر قسم کا تضاد پایا جاتا ہے ‘‘۔ ۵۸؎
خود عزیز احمد نے اپنے ناول پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’اس ناول یعنی ’’مرمر اور خون‘‘ کا زندگی سے کوئی تعلق نہیں، یہ آرٹ اور نشاۃ ثانیہ پر بہت سی کتابوں اور ہیولاک ایلس کی نفسیاتی جنسی کا اُبال ہے ‘‘۔ ۵۹؎
اس اقتباس سے پتہ چلتا ہے کہ عزیز احمد کو اعتراف ہے کہ انہوں نے اپنے ابتدائی دو ناول مغرب کے اور خصوصاً بہت سے انگریزی ناولوں کے مطالعہ کے بعد تاثراتی طور پر مقامی فضاء اور مقامی کرداروں کو لے کر لکھے ہیں، اس لئے ان ناولوں کے جدید اور متنازعہ موضوعات قارئین کو کھٹکتے ہیں، عزیز احمد کی یہ ابتدائی کوششیں تھیں جو بعد میں آنے والے ترقی پسند افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں کو اس طرح کے موضوعات کے برتنے میں راہ ہموار کر رہی تھیں اور عریاں نگاری ایک فن کی صورت اختیار کرنے لگی تھی۔
ناول ’’مرمر اور خون‘‘ کے مرکزی کرداروں میں عذرا اور طلعت اور رفعت کے کردار اہم ہیں۔ نسرین، زینب اور پروفیسر وغیرہ کے کردار ضمنی ہونے کے باوجود ناول میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ اس ناول میں بھی عزیز احمد نے اپنے کرداروں کے ارتقاء کو پیش کرتے ہوئے ان کی نفسیاتی کیفیات کی عکاسی کی ہے۔ عذرا پروفیسر منصور احمد کی اکلوتی بیٹی ہے۔ جس کے باپ نے یورپ میں ایک طویل عرصہ قیام کیا تھا، اور ایک یورپین عورت سے شادی کی تھی جو کہ عذرا کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد انتقال کر جاتی ہے، یورپ میں دو تین سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد عذرا اپنے باپ پروفیسر منصور احمد کے ہمراہ وطن واپس ہوتی ہے۔ صرف باپ کے زیر تربیت رہنے کی وجہہ سے عذرا میں نسوانی حجاب کے بجائے مردانہ وجاہت سی آ گئی تھی، پروفیسر کو ہمیشہ یہ خیال کھٹکتا رہتا کہ اس نے ایک مغربی عورت سے شادی کر کے بہت بڑی غلطی کی تھی، کیونکہ اس کی بیٹی میں مغرب و مشرق کے متضاد رجحانات پرورش پانے لگے تھے۔ عزیز احمد لکھتے ہیں :
’’ایک مغربی عورت سے شادی اس کی ناقابل تلافی غلطی تھی، جس کا اثر اس کی اولاد پر اس طرح پڑ رہا تھا کہ اس کا طرز خیال نہ تو قطعاً مغربی تھا، اور نہ قطعاً مشرقی، ایک درمیانی خطرناک فضاء میں اس کے دماغ نے نشو و نما پائی تھی‘‘۔ ۶۰؎
اپنے اس خیال کو عزیز احمد ایک مرتبہ پھر یوں دہراتے ہیں :۔
’’اس کی تعمیر مشرق و مغرب کے متضاد عناصر سے ہوئی ہے۔ ۔ ۔ اس کی تربیت اس قدر آزادی کے باوجود کچھ اس طرح ہوئی تھی کہ وہ نہ خالص مغربی حلقوں اور نہ اعلیٰ مشرقی حلقوں میں اپنے آپ کو بے تکلف پاتی تھی، وہ محسوس کرنے لگی کہ مشرق و مغرب کی آمیزش کی وجہہ سے وہ اپنی افتاد طبعیت اور اپنے طرز خیال کی حد تک مشرق و مغرب دونوں سے علیحدہ ہے ‘‘۔ ۶۱؎
اس طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے عزیز احمد نے عذرا کے کردار کو ایک ایسی لڑکی کے کردار کے طور پر پیش کیا جس میں نہ مغرب کی طرح آزاد روی ہے نہ مشرقی نسوانیت، ماں کی عدم موجودگی میں اس طرح کی نسوانی تربیت میں کمی آ گئی تھی، وہ تنہائی پسند تھی، نوجوان ہونے کے باوجود اپنے اندر صنف مخالف کیلئے کوئی کشش نہیں رکھتی تھی، ادبی کتابوں سے دل بہلاتی تھی، لیکن بہت جلد وہ تنہائی سے گھبرا اٹھتی ہے عذرا کے خیالات ملاحظہ ہوں :
’’تنہائی، یہ تنہائی اس کا کام تمام کر دے گی اس کی روح کو، اس کی روح کی مسرتوں کو اس کی روح کی زندگی کو ختم کر کے رہے گی‘‘۔ ۶۲؎
اپنی تنہائی کو دور کرنے کیلئے وہ کسی ہمدرد کی تلاش میں رہتی ہے، اور اپنے والد کے دوست کے بیٹے رفعت میں اپنی تنہائی کا رفیق تلاش کر دیتی ہے، جو کہ اس کے بچپن کا ساتھی بھی رہ چکا ہے، ابتداء میں عذرا اور رفعت کی محبت کا گرم جوشی سے جواب نہیں دیتی ہے، لیکن بہت جلد وہ رفعت کے انتظار میں رہنے لگتی ہے، جب رفعت کو فوج میں ملازمت مل جاتی ہے تو عذرا اور رفعت کے والدین دونوں کو شادی طے کر دیتے ہیں لیکن اچانک رفعت کو جنگ کیلئے بلاوا آ جاتا ہے اور وہ سرحد پار جانے کی تیاریوں میں لگ جاتا ہے، جانے سے پہلے ایک حسین و دلفریب رات کو رفعت اور عذرا ایک دوسرے کے اس حد تک قریب آ جاتے ہیں کہ محبت کی آخری حدود کو چھو لیتے ہیں ’’گناہ رنگین‘‘ کے عنوان سے عزیز احمد نے اس ناول میں دونوں کے وصل کے مناظر کو بڑے ہی رومانی اور شاعرانہ انداز میں پیش کیا ہے اس طرح وہ اپنے ساتھ قاری کو بھی اپنے مخصوص اسلوب بیان سے لذت کوشی میں مبتلا کر لیتے ہیں عزیز احمد کے دونوں ناولوں ’’ہوس‘‘ اور ’’مرمر اور خون‘‘ میں نوجوان کردار محبت کے طوفان خیز تلاطم میں اس قدر بہہ جاتے ہیں کہ انہیں اپنی کوئی خبر نہیں رہتی اور پانی سر سے گذر جانے کے بعد اپنے اس جذباتی حادثہ کو ’’گناہ‘‘ سمجھنے لگتے ہیں یہاں پر عذرا بھی اپنی پیشمانی کا اظہار یوں کرتی ہے۔
’’اسے یہ احساس پیدا ہوا کہ وہ ایک ’’گناہ‘‘ سخت، شرم ناک گناہ کی مرتکب ہوئی ہے ہر نقطہ نظر سے یہ گناہ کس قدر سخت تھا، مذہبی نقطہ نظر، اخلاقی نقطہ نظر، معاشرتی نقطہ نظر سے ‘‘۔ ۶۳؎
اس طرح عزیز احمد نے اپنے ناولوں میں ایک ایسے معاشرہ کی تصویر کشی کی ہے جہاں کے افراد میں اخلاقی قدروں کا فقدان پایا جاتا ہے، جہاں گناہ کی ترغیب تو ہے، لیکن بعد از گناہ پریشانی، پیشمانی اور خجالت کا جو سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا کوئی اخلاقی مداوا نہیں، جہاں دولت کے زیر اثر اپنی محبت کی نشانی کا قتل کر دیا جاتا ہے۔ بقول عزیز احمد کے :
’’دولت نے عذرا کو بعد گناہ سے نجات دلوا دی، پروفیسر کو یا کسی کو کانوں کان بھی خبر نہیں ‘‘۔ ۶۴؎
حقیقت میں عزیز احمد نے مغربی تہذیب، مغربی معاشرہ کو، اپنے ناولوں میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو انہوں نے مغربی ادب کے مطالعہ سے حاصل کی تھیں، لیکن اس حیرت ناک حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آج کا معاشرہ ہو بہو عزیز احمد کے ان ناولوں میں پیش کی گئی تہذیب کا عکاس ہے لیکن آج سے پچاس ساٹھ سال قبل ہندوستانی معاشرہ میں اس طرح کی آزادی اور بے باکی شاید ہی ممکن ہے۔
میدان جنگ سے اطلاع آتی ہے کہ رفعت کا حرکت قلب بند ہو جانے سے انتقال ہو گیا ہے۔ عزیز احمد نے رفعت کے کردار کو سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت ناول سے الگ کیا، کیونکہ طلعت کا کردار بھی مرکزی اہمیت کا حامل ہے، طلعت، رفعت کا چھوٹا بھائی ہے جو ایک ماہر سنگتراش ہے، عزیز احمد نے طلعت کے کردار کو ابھارنے کیلئے مغرب کے شاہکار سنگتراشی کے نمونوں جیسے سافو، پگمیلین، گیلیٹیا کے نام اس کے ساتھ گنوائے ہیں، سنگتراشی سے متعلق شاعرانہ اور نفسیاتی خیالات کو پیش کرتے ہوے طلعت کے کردار کو موثر بنانے کی کوشش کی ہے۔ طلعت جب پہلی بار عذرا کو دیکھتا ہے تو وہ اندر ہی اندر اُسے چاہنے لگتا ہے، لیکن بھائی کے ساتھ عذرا کے میل جول سے اس میں رقابت کے جذبات بھڑکنے لگتے ہیں، سنگتراش ہونے کی بناء پر وہ عذرا کو ایک مرمریں مجسمہ کے روپ میں دیکھتا ہے اور عذرا کی قربت حاصل نہ ہونے کی بناء پر عذرا کی نوکرانی زینب سے اس کی ماں کی بیماری اور وفات کے بعد ہمدردی کے بہانے اس سے قریب ہوتا ہے اور اپنی محبت کے دام فریب میں گرفتار کر کے اس کی عصمت سے کھیلتا ہے، زینب، پندرہ، سولہ سال کی ایک ایسی غریب لڑکی ہے جس کی ماں ایک مہلک بیماری میں مبتلا ہو کر فوت ہو جاتی ہے اور وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اتفاقاً عذرا اور رفعت کے گناہ کی عینی شاہد بن جاتی ہے۔ اور جب طلعت کے روپ میں ایک بڑے گھر کے لڑکے کو اپنی جانب مائل پاتی ہے تو وہ بھی جذبات میں بہک جاتی ہے اور اپنی دل میں یہ تسلی بھرا خیال لاتی ہے کہ بڑے گھر کی لڑکی عذرا کیلئے یہ شرم کی بات نہیں ہے تو پھر اس کیلئے کیوں، وہ کہتی ہے
’’یہی گناہ عذرا بی بی نے کیا تھا میں کچھ اکیلی گنہگار نہیں ہوں ‘‘۔ ۶۵؎
اس طرح عزیز احمد نے ایک طرف تو یہ دکھانے کی کوشش کی کہ طلعت جیسے نوجوان اپنی ہوس مٹانے کیلئے غریب گھر کی لڑکی کو بھی نہیں چھوڑتے ہیں، زینب کے کردار میں انہوں نے نچلے طبقہ کی ایسی لڑکی کو پیش کیا ہے جو کہ اپنی غریبی، بے بسی کے آگے مجبور ہو کر اپنے جذبات پر قابو نہ پاکر امیر لڑکوں کی ہوس پرستی کا شکار ہو جاتی ہے۔
ناول ’’مرمر اور خون‘‘ میں نسرین کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جو عذرا کی سہیلی اس کی مشیر اور اس کی ہم راز ہے، اس کی تربیت آزاد ماحول میں ہوئی تھی، وہ زندگی کے رنگین پہلو سے اچھی طرح واقف تھی اور عورت کی نسوانیت اس میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی، وہ عیش پرستی کی رسیا تھی، اس طرح کی تربیت میں ان سستی قسم کی کتابوں کا بڑا دخل تھا جسے وہ بڑے ذوق و شوق سے پڑھتی تھی اور جن کے بارے میں تبصرے کرتی تھی، اس سلسلہ میں عزیز احمد لکھتے ہیں :
’’اس قول کی صحت میں کیا کلام ہوسکتا ہے اور محض ذہنی عیش پرستی ہے عیش پرستی یہ وہ لفظ تھا جس سے نسرین کے خمیر کا جوہر تیار کیا گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ دس برس کی عمرسے وہ اپنے آپ کو عورت سمجھتی تھی، اور اس کی عمر کے ساتھ ساتھ اس کے جنسی جذبات بہت تیز ہو گئے، اس کے ادبی مذاق نے اور اس معاشرہ نے جس میں وہ تھی آ سکا جنسی مذاق بہت بلند کر دیا‘‘۔ ۶۶؎
عزیز احمد نے اپنے دونوں ناولوں میں ایک ایک کردار ایسا پیش کیا ہے جس کے ذریعہ انہوں نے حقیقت میں اپنے جذبات کی عکاسی کی ہے۔ ناول ’’ہوس‘‘ میں نسیم کے کردار کے ذریعہ اور یہاں نسرین کے کردار کے ذریعہ عزیز احمد نے اپنے آزاد خیالات پیش کئے ہیں۔ نسرین کے خیالات کی آزادی ملاحظہ ہو:
’’کسی خواہشات کی ترغیب سے نجات پانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ خواہش پوری کر دی جائے ‘‘۔ ۶۷؎
یا پھر نسرین کا اعتراف کرنا کہ
’’گناہ کے لئے بھی ظرف کی ضرورت ہے، مجھ میں گناہ کا ظرف ہے، میرے خمیر کی تعمیر ان لطیف کیفیتوں سے ہوئی ہے جس کو دنیا گناہ کہتی ہے ‘‘۔ ۶۸؎
اس طرح کے خیالات کو پیش کرتے ہوئے عزیز احمد نے یہ نہیں سوچا کہ انسان معاشرہ اور سماج کا ایک رکن ہوتا ہے اور اس میں رہنے کے اصول و قوانین ہوتے ہیں، انسانی دماغ میں اٹھنے والی ہر جائز، ناجائز خواہش کو فوراً ہی رو بعمل نہیں لایا جا سکتا، اگر ایسا ممکن ہوتا تو جانور اور انسان میں تفریق مشکل ہو جاتی اس سے محسوس ہوتا ہے کہ اس طرح کے خیالات کی پیش کشی میں عزیز احمد بعض دفعہ تجاوز کر جاتے ہیں اور سماج و معاشرہ کے بعض اہم قوانین کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں، نسرین کے ذریعہ عزیز احمد کے خیالات ملاحظہ ہوں :
’’عذرا میں اس اصول کے سرے سے مخالف ہوں، تم ہی بتاؤ کسی قاضی یا پیر نے یا پادری نے چند فقرے کہہ دئیے، اس کے بعد اگر وہی بات ہو تو جائز تصور کی جائے اس صورت میں ہر چیز قانونی ہو جائے لیکن اگر فطرت جو سب سے بڑا قانون ہے، انسان کو مجبور کرے تو وہ گناہ ٹھہرایا جائے ‘‘۔ ۶۹؎
نسرین، عذرا کو گناہ چھپانے کیلئے شادی کی ترغیب دیتی ہے۔ اس کے بموجب :
’’کبھی کبھی انسانی زندگی کو نقاب کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی نقاب کی جو عمر بھر زندگی کے ایک حصہ پر پڑی رہے ‘‘۔ ۷۰؎
اور جب عذرا اور طلعت کی شادی ہو جاتی ہے تو عزیز احمد اس شادی کو صرف ایک معمولی رسم کی طرح سمجھتے ہیں :
’’وہ معمولی رسم پوری ہو گئی جس کو معاشرہ کی اصطلاح میں نکاح کہتے ہیں ‘‘۔ ۷۱؎
غرض اس طرح کے خیالات کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ عزیز احمد نے مغربی ادب سے بہت تاثر لیا ہے۔ جہاں ناول نگاری میں عریانیت اورجنس سے متعلق مضامین کے اظہار میں آزادی اور پختگی آ رہی تھی، جہاں مرد اور عورت کے مابین رشتہ کو معاشرتی قوانین کے بجائے فطرت کی نظروں سے دیکھا جا رہا تھا، جہاں شادی کا تصور قید کی مانند رہ گیا تھا اور ناول میں نسرین کی باتوں کے جواب میں عذرا کا یہ کہنا کہ ’’آخر معاشرت کے کسی نہ کسی اصول کی پابندی بھی تو ضروری ہے ‘‘۔ مشرق و مغرب کی ذہنیت کے تضاد کا اظہار کرتی ہے۔
ناول ’’مرمر اور خون‘‘ میں مرمر اور خون سے متعلق شاعرانہ انداز بیان ملتا ہے، سنگتراش طلعت کا ہاتھ مجسمہ سازی کے دوران زخمی ہو جاتا ہے اور خون کا قطرہ سافو مجسمہ پر دل کے مقام پر گر جاتا ہے سنگ مرمر اور خون کے قطرہ کو بطور استعارہ استعمال کرتے ہوئے عزیز احمد نے شاعرانہ انداز میں بحث کی ہے ان کے خیالات ملاحظہ ہو:
’’ خون کے اس دھبے نے سافو کے اس مجسمہ کو وہ کیفیت اور حقیقت عطا کر دی تھی جس تک مرمر کبھی پہنچ نہ سکتا تھا سافو کی وہ چھپی ہو ئی حرارت جو مرمر کے سفید اور سرد حجاب کی وجہہ سے مکمل ظاہر نہیں ہوسکتی تھی، اس خون کے چھوٹے سے دھبہ سے پوری طرح نمایاں تھی گویا خود سافو کا قلب دھڑک دھڑک کر اس کے قلب سے باہر نکل آیا۔ ۔ ۔ ۔ آج اُس نے محسوس کیا کہ خون ہی اصل حیات ہے۔ ۔ ۔ جو انسانی رگوں میں اس لئے دوڑتا پھرتا ہے کہ انہیں زندہ رکھے اس کے مقابلہ میں مرمر کیا ہے صرف ایک زاویہ نگاہ ہے ‘‘۔ ۷۲؎
ناول ’’ہوس‘‘ کی طرح ’’مرمر اور خون‘‘ کا انجام بھی عزیز احمد نے سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت کیا کہ طلعت نے زینت سے اپنی ہوس پوری کی اور اسے غریبی میں بے یار و مددگار چھوڑ دیا، امارت نے طلعت کے اس گناہ کو چھپا دیا تھا ادھر رفعت کے انتقال کے بعد معاشرتی رسم کے پورا کرنے کیلئے ایک گنہگار عذرا کی شادی گنہگار طلعت سے کر دی جاتی ہے اور طلعت کے بموجب :
’’باوجود جنسی قربت کے وہ اس سے کس قدر دور تھی۔ ۔ ۔ دو جسموں میں انتہائی قربت ہو سکتی ہے لیکن یہ کیوں کر ممکن ہے کہ دو روحیں بھی اسی طرح قریب ہوسکیں ‘‘۔ ۷۳؎
اور آخر میں طلعت، زینت اور عذرا کا موازنہ کرتے ہوئے خیال کرتا ہے کہ :
’’گو عذرا کی ہستی کے ساتھ مرمر وابستہ تھا اور زینت کی زندگی کے ساتھ خون، گویا امارت نے مرمر کو اپنے لئے مخصوص کر لیا تھا اور غربت خاک و خون میں تڑپ رہی تھی‘‘۔ ۷۴؎
ناول ’’مرمر اور خون‘‘ عزیز احمد کی ابتدائی کاوش ہونے کے باوجود چند ایک خامیوں سے قطع نظر فنی حیثیت سے ایک کامیاب کوشش ہے، ناول میں قصہ اہمیت کا حامل نہیں، یہ ایک رومانی اور نفسیاتی ناول ہے۔ ناول کے پلاٹ کو پھیلانے کیلئے عزیز احمد نے بعض واقعات شامل کئے ہیں۔ جس سے ناول میں جھول پڑتا ہے، جیسے درمیان میں ’’ناولٹ‘‘ ڈرامے کے ریہرسل کی تشکیل والا باب اضافی حیثیت رکھتا ہے۔ ڈرامے کی ریہرسل کے بہانے عزیز نے اپنے کرداروں کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور آپس میں ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع دیا ہے۔ ناول میں مکالمے کم ہیں، جہاں جہاں نسرین کا ذکر آیا ہے وہاں مکالمے جاندار دکھائی دیتے ہیں۔ ورنہ عموماً کرداروں کے ذریعہ عزیز احمد نے اپنے مخصوص طرز فکر کو ہی پیش کیا ہے، ناول کے تمام کردار یکساں طرز کے ہیں۔ یہ ناول نگار کی منشاء کے مطابق کام انجام دیتے ہیں مگر کرداروں میں فطری ارتقاء کی کمی پائی جاتی ہے۔
ناول ’’مرمر اور خون‘‘ کا سب سے اہم وصف اس کی منظر نگاری و جذبات نگاری اور انداز بیان ہے جس کی تعریف مولوی عبدالحق نے بھی کی، منظر نگاری میں عموماً عزیز احمد نے صبح کا سماں، بہار کی بہاریں موسم بہار کے مناظر کو بڑے دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے، اس کیلئے انہوں نے تشبیہوں کا بھی استعمال کیا ہے، جیسے :
’’ڈوبتے ہوئے آفتاب کی روشنی میں معلوم ہوتا تھا کہ تالاب کی سطح پر دن کی موجیں اٹھ اٹھ کر پانی کی موجوں میں تحلیل ہو رہی ہیں ‘‘۔ ۷۵؎
اور ایک باغ کا منظر ملاحظہ ہو:
’’کھجور کی قطار سڑک کے اس حصہ سے ایک جھنڈ معلوم ہوتی تھی، اور پھولوں کے درمیان عذرا اسی طرح کھڑی تھی کھجور کے درخت باغ اور عذرا سب اُسے ایک عظیم الشان تصویر معلوم ہوئے، مصور قدرت نے بہت بڑے پیمانے پر ایک تصویر بنا دی تھی، شفق کی ہلکی، روشنی نے رنگ آمیز کی انتہا کر دی تھی، درختوں کی پتیاں تک معلوم ہوتا تھا کہ موقلم کی باکمال جنبش سے بنائی گئی ہیں، اس پوری فضاء سے جسمیت گویا بالکل مفقود ہوچکی تھی‘‘۔ ۷۶؎
عزیز احمد نے اس طرح کی خوبصورت منظر نگاری کے ذریعہ ناول میں رومانی فضا لانے کی کوشش کی ہے۔ عزیز احمد کی منظر کشی و منظر نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر سہیل بخاری یوں رقمطراز ہیں :
’’پورا ناول ایک رومانی فضا میں ڈوبا ہوا ہے جو نور و ظلمت سے تیار کی گئی ہے۔ جا بجا چاندنی، ہجوم، اشجار، تنہائی، پانی، ابر کے ٹکڑوں، ہوا کے جھونکوں، پھولوں، سبزہ، لیمپ اور قمقموں کا تذکرہ موجود ہے اس طرح، ناول ابتداء سے انتہا تک دھوپ چھاؤں کا منظر پش کرتا ہے۔ منظر کشی نہایت دل کش ہے اور اس سے واقعات کو ابھارنے اور جھکانے کا جائز مصرف لیا گیا ہے ‘‘۔ ۷۷؎
منظر نگاری کے علاوہ، سراپا نگاری، جذبات نگاری کے خوبصورت مناظر بھی اس ناول میں ملتے ہیں اس طرح ناول ’’مرمر اور خون‘‘ عزیز احمد کی ابتدائی کاوش ہونے کے باوجود اچھی کاوش ہے۔