ادب کی تاریخ میں عزیز احمد کا نام ہمہ جہت شخصیت کی حیثیت سے مشہور ہے۔ عزیز احمد وہ فاضل ادیب ہیں جنہوں نے بحیثیت افسانہ نگار، ناول نگار، مترجم، شاعر، نقاد، محقق، اقبال شناس و ہفت زبان کی حیثیت سے شہرت پائی، اتنی ساری خوبیوں کا کسی ایک شخصیت میں جمع ہو جانا خود اس کی عظمت کی دلیل ہے۔
عزیز احمد 11؍نومبر1913ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ۳۵؎ ان کا تعلق حیدرآباد کے ایک علمی اور ادبی خاندان سے تھا۔ ان کے والد بشیر احمد کاکوروی حیدرآباد کے ناومور وکیل مانے جاتے تھے۔ لیکن عزیز احمد کو زیادہ دنوں تک اپنے والدین کی شفقت نصیب نہیں ہوسکی۔ والد کے انتقال کے بعد ان کا بچپن اپنے ماموں محمد احمد کی سرپرستی میں گذار جو کہ ایک اچھے وکیل تھے۔ عثمانیہ ہائی آ سکول عثمان آباد سے عزیز احمد نے میٹرک کا امتحان کامیاب کیا۔ میٹرک کے بعد انہوں نے (1928ء ) میں جامعہ عثمانیہ میں داخلہ لیا اور ایف اے کا امتحان وہیں سے کامیاب کیا۔ (1934ء) میں بی اے ( آنرز) اعزاز کے ساتھ کیا۔ بی اے میں ان کے مضامین اردو، انگریزی اور فارسی تھے۔ جامعہ عثمانیہ میں عزیز احمد کو مولوی عبدالحق، ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور، پروفیسر عبدالقادر سروری، وحید الدین سلیم اور مولانا مناظر احسن گیلانی جیسے اساتذہ میسر آئے۔ عزیز احمد کو گھر سے ادبی ماحول ملا تھا۔ ان کے اساتذہ نے ان کی صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کا موقع فراہم کیا۔ زمانہ طالب علمی میں عزیز احمد دیگر اساتذہ کی بہ نسبت مولوی عبدالحق اور پروفیسر عبدالقادر سروری سے بہت قریب تھے۔ انہوں نے پروفیسر عبدالقادر سروری کی مجلہ ’’مکتبہ‘‘ کے لئے اپنی خدمات وقف کیں۔
نظام حکومت نے انہیں مولوی عبدالحق کی سفارش پر اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن بھیجا۔ جہاں ای ایم فورسٹر سے ملاقاتیں عزیز احمد کی زندگی کا اہم واقعہ رہیں۔ انگریزی اور فارسی میں آنرز کر کے واپس آئے تو انہیں جامعہ عثمانیہ میں انگریزی کا پروفیسر مقرر کیا گیا۔ 1940ء میں ان کی شادی ہوئی۔ اس دور کی اہم بات یہ رہی کہ انہیں 1942ء میں نظام حیدرآباد کی بہو شہزادی در شہوار کا اتالیق مقرر کیا گیا۔ اس طرح چار سال تک انہیں حیدرآباد کے نظام گھرانے سے منسلک رہنے اور شاہی زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اس دوران انہیں کشمیر کی سیاحت کا موقع بھی ملا۔ اس شاہی خدمت کے بعد عزیز احمد نے 1946ء میں دوبارہ جامعہ عثمانیہ میں ملازمت اختیار کر لی اور1947ء میں تقسیم ہند اور پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد وہ 1949ء کو کراچی منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے محکمہ اطلاعات پاکستان میں 1957ء تک خدمات انجام دیں۔ اس دور میں اردو کی ممتاز ناول نقار و افسانہ نگار قرۃ العین حیدر بھی ان کی معاون تھیں۔
عزیز احمد 1957ء میں انگلستان چلے گئے اور وہاں آ سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز لندن میں شعبہ اردو کے بیرونی لیکچرر کے طور پر خدمت انجام دیتے رہے۔ اس کے بعد وہ مستقل طور پر کینڈا منتقل ہو گئے۔ 1962ء سے انتقال تک شعبہ اردو ٹورنٹو یونیورسٹی (کینڈا) میں بحیثیت ایسوسی ایٹ پروفیسر اپنی خدمات انجام دیں وہ1969ء کے بعد سے کیلی فورنیا یونیورسٹی، لاس اینجلز، امریکہ میں وزیٹنگ پروفیسر بھی رہے تھے۔ 1975ء میں ایک مرتبہ وہ قائد اعظم میموریل لیکچر کے سلسلہ میں پاکستان آئے یہ ان کا آخری دورہ پاکستان تھا۔ عزیز احمد نے 18نومبر1975ء کی شام کو اپنی زندگی کی آخری ادبی مجلس میں شرکت کی۔ جو فیض احمد فیض کے اعزاز میں منعقد کی گئی تھی۔ آخری عمر میں عزیز احمد آنتوں کے سرطان کے مہلک مرض میں مبتلا ہو گئے۔ اس سلسلہ میں ان کے تین آپریشن بھی ہوئے، آخر کار65 برس کی عمر پانے کے بعد 16؍دسمبر 1978ء کو انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ ان کی تدفین کینڈا ہی میں عمل میں آئی۔
عزیز احمد کو اردو، فارسی، انگریزی اور فرانسیسی زبان پر مکمل عبور حاصل تھا۔ عربی زبان بھی تھوڑی بہت جانتے تھے، جب کہ ترکی، اطالوی اور جرمن زبان پر ان کو دسترس گفتگو کی حد تک تھی۔ عزیز احمد کی شخصیت کے بارے میں بہت کم معلومات ملتی ہیں لیکن علم و ادب کیلئے ان کے بے پایاں خدمات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عزیز احمد اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ سینکڑوں قیمتی مقالات و تراجم اور کئی بلند پایہ تحقیقی و تنقیدی کتابیں لکھیں اس کے علاوہ ناول وافسانہ کی صورت میں ایک اہم تخلیقی ذخیرہ اپنی یادگار چھوڑا۔
٭ عزیز احمد کی علمی و ادبی خدمات:
عزیز احمد نے کم عمری ہی میں اپنی ادبی زندگی کا آغاز کر دیا تھا۔ جب انہوں نے روسی زبان کے افسانے اردو میں ترجمہ کرنا شروع کئے تھے اس سلسلہ کے دو افسانے ’’بچپن‘‘ اور ’’شریر لڑکا‘‘ 1928ء میں نیرنگ خیال میں شائع ہوئے۔ افسانہ ’’ شریر لڑکا‘‘ رابندر ناتھ ٹیگور کا لکھا ہوا تھا۔ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کی تحقیق کے مطابق:۔
’’عزیز احمد نے اپنا اولین افسانہ ’’کشاکش جذبات‘‘ کے عنوان سے لکھا جو پروفسیر عبدالقادر سروری کی ادارت میں شائع ہونے والے مجلہ ’’مکتبہ‘‘ حیدرآباد دکن مکتبہ ابراہیمیہ شمارہ نومبر 1929ء میں شائع ہوا‘‘۔ ۳۶؎ عزیز احمد کا ایک طبع زاد افسانہ عبدالقادر سروری کے رسالہ مکتبہ ( نومبر 1929ء) میں شائع ہوا۔ عزیز احمد کے ایک ناول ’’ مرمر اور خون‘‘ کا پیش لفظ مولوی عبدالحق کے نام سے شائع ہوا لیکن کہا جاتا ہے کہ اس پر مولوی عبدالحق نے صرف اپنے دستخط کئے تھے اور عزیز احمد کو یہ اجازت تھی کہ وہ متن خود لکھ کر لائیں۔ ادبی زندگی کے اولین دور میں انہوں نے ناول اور افسانہ نگاری کو زیادہ اہمیت دی اور ’’گریز، آگ، ایسی بلندی ایسی پستی، شبنم، ہوس، مثلث اور تری دلبری کا بھرم جیسے ناول لکھے۔
عزیز احمد نے کئی افسانے لکھے۔ ان کے افسانوں کے دو مجموعے ’’ رقص ناتمام‘‘ اور ’’بے کار دن بے کار راتیں ‘‘ چھپ کر شائع ہو چکے ہیں۔ ’’ آب حیات‘‘ کے نام سے ان کے تاریخی ناولوں کا مجموعہ بھی شائع ہوا۔ ان کے ناولٹ نما دو طویل افسانے ’’خدنگ جستہ‘‘ اور ’’جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں ‘‘ مشہور ہوئے۔ عزیز احمد کی افسانہ نگاری کے بارے میں انیس قیوم فیاض لکھتی ہیں :
’’عزیز احمد کے افسانوں کا مجموعہ ’’بے کار دن بے کار راتیں ‘‘ اپنے مخصوص اسلوب ہلکے ہلکے مزاح اور زہریلے نشتر کی وجہہ سے انفرادیت رکھتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ان کے افسانوں کی تعداد خاصی ہے جس میں انہوں نے جنسی حقیقت نگاری پر کامیابی کے ساتھ قلم اٹھایا ہے۔ ۳۷؎
یہ کتابیں ، ناول اور افسانے انہیں ناول کے افق پر تابندہ کرتی ہیں ۔ لیکن اردو فکشن کی تاریخ میں عزیز احمد کے ساتھ نا انصافی بھی ہوئی۔ کیوں کہ ان کی کتابیں ایس دور میں لکھی گئیں جب فکشن میں کرشن چندر، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی اور دیگر ترقی پسند ادیبوں نے اجارہ داری قائم کر رکھی تھی۔ چنانچہ ’’ٹیڑھی لکیر‘‘ (عصمت چغتائی) اور’’ شکست‘‘ ( کرشن چندر) کو اردو ناول کی تاریخ میں بلند مقام دیا گیا لیکن عزیز احمد کے ناولوں ’’گریز، آگ اور ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ کو نظر انداز کر دیا گیا۔
جامعہ عثمانیہ کے زمانہ طالب علمی میں عزیز احمد کے علمی و ادبی کارناموں میں تیزی آ گئی تھی جہاں انہوں نے افسانوں اور نظموں کے ساتھ کالج کی تقریبات کیلئے ڈرامے بھی لکھنے شروع کئے۔ انہوں نے ایک ’’مزاحیہ فیچر‘‘ لکھا تھا۔ جسے 1931ء میں جامعہ عثمانیہ میں اسٹیج کیا گیا تھا۔ 1932ء میں انہوں نے ایک ڈرامہ ’’کالج کے دن‘‘ تحریر کیا۔ ڈاکٹر محی الدین قادری زور کے زیر نگرانی اسٹیج کئے گئے اس ڈرامہ میں مخدوم محی الدین، شکور بیگ، جمیل احمد، رفعت، اشرف اور ظفرالحسن نے مختلف کردار ادا کئے۔ عزیز احمد کا ایک اور ڈرامہ ’’مستقبل‘‘ 1934ء میں اسٹیج ہوا۔ عزیز احمد نے اپنے زمانہ طالب علمی میں افسانہ نگاری اور ڈرامہ نگاری کے ساتھ ناول نگاری بھی شروع کر دی تھی۔ بقول عزیز احمد کے :
’’معلوم نہیں کونسی اندرونی طاقت تھی جو مجھ سے کہتی تھی تمہارا اصلی میدان ڈرامہ نہیں ناول ہے۔ تھرڈ ایر کے ختم پر جب گرما کی چھٹی گذارنے عثمان آباد گیا تو وہاں میں نے ’’ہوس‘‘ لکھا جو میرا پہلا ناول ہے ‘‘۔ ۳۸؎
عزیز احمد کے ناولوں کی تعداد کے بارے میں عموماً غلط فہمی رہی ہے۔ اردو کے بیشتر محققین اور ناقدین نے جہاں کہیں بھی اردو ناول کے ارتقاء یا تنقید میں دوسرے نگاروں کے ساتھ عزیز احمد کا ذکر کیا ہے وہیں عزیز احمد کے چند مشہور ناولوں کے نام بھی گنائے ہیں۔ عام طور پر عزیز احمد کی ناول نگاری پر جو کچھ بھی لکھا گیا تو ان کے صرف چھ ناولوں کا ذکر کیا گیا۔ بعد کے محققین نے تحقیق مزید کے بجائے قدما کے بیانات پر بھروسہ کر کے انہیں ناولوں کا ذکر کیا جن کے نام ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔
(۱) ہوس (1932ء)
(۲) مرمر اور خون (1932ء)
(۳) گریز (1945ء)
(۴) آگ (1945ء)
(۵) ایسی بلندی ایسی پستی (1947ء)
(۶) شبنم (1950ء)
اپنی تحقیق کے دوران راقم الحروف کو عزیز احمد کے مزید دو ناول ایسے دستیاب ہوئے جن کا جائزہ اردو ناول کی تاریخ و تنقیدی کتابوں میں نہیں ملتا۔ ان دون ناولوں کے نام یہ ہیں۔
(۷) برے لوگ (سنہ تصنیف نامعلوم)
(۸) تری دلبری کا بھرم (1964ء)
ناول ’’تری دلبری کا بھرم‘‘ کا ذکر ڈاکٹر مرزا حامد بیگ نے اپنی کتاب ’’اردو افسانہ کی روایت‘‘ میں کیا ہے لیکن ’’برے لوگ‘‘ کا تذکرہ کسی بھی ادبی تاریخ میں نہیں ملتا۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میں اسے پہلی بار اردو دنیا سے متعارف کروا رہا ہوں اور اس ناول پر پہلی مرتبہ جائزہ بھی پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ عزیز احمد کا آخری ناول ہے۔
عزیز احمد کی فکشن نگاری میں تاریخ اور تہذیب کی واضح جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان کے ناولوں اور ناولٹس میں ہند اسلامی کلچر کی بھر پور تصویر کشی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ یورپ کی اجتماعی معاشرت کے مرقعے بھی ان کے ناولوں میں بڑی عمدگی سے پیش کئے گئے ہیں۔ ان کے فکشن کی بڑی انفرادیت ان کا تاریخی اور جغرافیائی معلومات کو کہانی کا ایسا جز بنانا بھی ہے جو قاری کو ناگوار نہیں گذرتا بلکہ وہ خود اس خوابناک فضا میں سانس لینا شروع کر دیتا ہے۔ بہ طور ناول نگار عزیز احمد تاریخ اور تہذیب کی مختلف جہتوں کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک تاریخی تسلسل کا حصہ معلوم ہونے لگتی ہیں۔
عزیز احمد ایک اچھے تنقید نگار تھے۔ چنانچہ بحیثیت نقاد انہوں نے کافی شہرت و مقبولیت حاصل کی۔ ان کا تنقیدی شعور بہت گہرا اور متوازن تھا۔ اپنی مشہور تنقیدی تصنیف ’’ترقی پسند ادب‘‘ میں انہوں نے ترقی پسند ادب کا گہرائی و گیرائی سے جائزہ لیا۔ اس میں بے لاگ تبصرے بھی ہیں، حقائق بھی ہیں اور ادب کی پرکھ بھی ’’ترقی پسند ادب ‘‘ اردو تنقید کی کتابوں میں ایک اہم اضافہ ہے۔ عزیز احمد کے دوسرے تنقیدی کارناموں میں ’’اقبال نئی تشکیل‘‘ اقبال اور پاکستانی ادب اور ایک انتخاب ’’شعرائے عصر کے کلام کا انتخاب‘‘ شامل ہے۔ جو آل احمد سرور کے اشتراک سے ترتیب دیا گیا ہے۔
عزیز احمد نے بحیثیت مترجم بعض اہم کتابوں کا ترجمہ کیا ہے اور ان کے ترجمے بہت مقبول ہوئے ہیں۔ عزیز احمد اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ کسی زبان کے علمی اور ادبی سرمائے میں اضافے کے لئے دوسری زبانوں کی ممتاز کتابوں کا ترجمہ ضروری ہے۔ انہوں نے نظریاتی تنقید کی ارسطو کی مشہور زمانہ تنقیدی کتاب ’’بوطیقا‘‘ (Politics) کا اردو میں ترجمہ ’’فن شاعری‘‘ کے عنوان سے کیا۔ دانتے کی ڈیوائن کامیڈی اور شیکسپئر کے ڈرامہ رومیو جولیٹ کے علاوہ ایک ڈرامہ (The Master Builder) مصنفہ ہنرک ابسن کا ترجمہ ’’معمار اعظم‘‘ کے عنوان سے کیا۔ ان کے دوسرے تراجم میں ’’مقالات گارساں دتاسی‘‘ دو جلدوں میں اور ’’تیمور‘‘ ’’جہانگیر خان، تاتاریوں کی یلغار اور ’’دنیا کے شاہکار افسانے ‘‘ اہم تراجم ہیں۔
عزیز احمد اچھے شاعر بھی تھے۔ ان کی نظموں کا یک مجموعہ ’’ماہ لقا اور دوسری نظمیں ‘‘ کے عنوان سے 1943ء میں حیدرآباد دکن سے شائع ہوا اس مجموعہ میں ایک مثنوی ’’عمر خیام‘‘ اور دو نظمیں ’’ماہ لقا‘‘ اور ’’فردوس بر روئے زمین‘‘ شامل ہیں اپنی زندگی کے آخری ایام میں انہوں نے ’’بسلسلہ آغوش مرگ ‘‘ کے عنوان سے کچھ غزلیں کہی تھیں۔ عزیز احمد کی ایک غزل کے چند اشعار اس طرح ہیں۔
چھلکی جو مئے تو بن کے شرر گونجتی رہی
مینا سے تابہ ساغر گونجتی رہی
آئی خزاں ، طیور تو جتنے تھے اُڑ گئے
نغموں سے پھر بھی شاخ شجر گونجتی رہی
آغوش شب میں پھول تو مرجھا کہ گر گئے
صحن چمن میں باد صبا گونجتی رہی
عزیز احمد ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی ادبی شخصیت کا ایک زاویہ تنقید میں بھی سامنے آتا ہے۔ ان کی کتاب’’ ترقی پسند ادب‘‘ کو اس تحریک کی تنقیدی تاریخ کا درجہ حاصل ہے اور اس کتاب میں جو غیر جانبداری برتی گئی وہ بے حد قابل تحسین ہے۔ ان کی کتاب ’’اقبال نئی تشکیل‘‘ شائع ہوئی تو اسے اقبالیات کے باب میں ایک اہم موضوعی کتاب تسلیم کیا گیا۔ اقبالیات پر عزیز احمد کے بکھرے ہوئے مضامین کو جناب طاہر تونسوی نے ’’ اقبال اور پاکستانی ادب‘‘ کے عنوان سے شائع کیا ہے۔ ٹورنٹو یونیورسٹی میں عزیز احمد نے برصغیر میں مسلمانوں کی تہذیبی زندگی پر گراں قدر کام کیا۔ اس ضمن میں ان کی دو کتابوں ’’ اسلامی کلچر ہندوستانی ماحول میں ‘‘ اور’’ ہندوستان میں اسلام کی علمی تاریخ‘‘ کو بہت اہمیت اور شہرت حاصل ہوئی۔ ان انگریزی کتابوں کا ڈاکٹر جمیل جالبی نے اردو ترجمہ کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کتابوں کو پڑھ کر مشہور مورخ ڈاکٹر تارا چند بھنا اُٹھے اور نراد چودھری جیسے ہندوستان صحافی نے ان کی کتابوں سے استفادہ کیا۔
عزیز احمد کو ان کی علمی و ادبی خدمات کے عوض مختلف اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ انہیں فیلو آف دی رائل سوسائٹی آف کنیڈا کا اعزاز ملا۔ اس کے ساتھ ہی انہیں اکادمی ادبیات کنیڈا کی رکنیت بھی حاصل تھی۔ انہیں حکومت اٹلی کی جانب سے وہاں کی اعزازی شہریت بھی دی گئی تھی۔ عزیز احمد کو ان کی مختلف تصنیفات کی بنیاد پر ڈی لٹ اور ایف آر سی ایس کی ڈگری بھی دی گئی۔
عزیز احمد نے شاعری، افسانہ نگاری و ناول نگاری کے علاوہ تاریخ، اسلامیات، سماجیات اور سیاسیات وغیرہ مضامین پر بہت سی وقیع کتابیں اردو اور انگریزی زبان میں لکھی ہیں، انہوں نے بہت سی ادبی کتابوں پر تبصرے بھی کئے جس سے ان کی تنقیدی شعور سے آگہی ہوتی ہے۔ ان کے کئی افسانے، تبصرے، خطبات ابھی زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوئے ان کی تفصیلات ڈاکٹر مرزا حامد بیگ نے اپنی کتاب ’’اردو افسانے کی روایت‘‘ (شائع کردہ اکادمی ادبیات پاکستان 1991ء) میں دی ہیں۔ عزیز احمد نے اردو کے علاوہ انگریزی زبان میں بھی کئی علمی، سیاسی، سماجی، ادبی کتابیں تصنیف کیں۔
عزیز احمد کی ان علمی و ادبی خدمات کو دیکھ کر یہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ایک ہمہ گیر شخصیت کے حامل ادیب تھے، جو بلاشبہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور علم و ادب کے منارہ نور تھے ان کے علم و فکر کی کرنیں آج اردو ادب کو اپنی ضیاء پاش کرنوں سے منور کر رہی ہیں۔