عزیز احمد اردو فکشن کا ایک معتبر نام ہے۔ ترقی پسند تحریک کے عروج کے زمانے میں انہوں نے اردو میں کئی شاہکار ناول اور افسانے لکھے۔ اردو فکشن کے علاوہ تنقید، ترجمہ نگاری، تاریخ اور اسلامی ادب میں ان کی نگارشات قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ ایک ایسے دور میں جب کہ اردو فکشن میں منٹو، عصمت، بیدی اور دیگر کا چرچا تھا عزیز احمد نے بھی ناول نگاری کے سلسلے کو جاری رکھا۔ اور اردو ناول کی تاریخ میں وہ ایک ترقی پسند ناول نگار کی حیثیت سے جانے جاتے رہے۔ عزیز احمد کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا۔ لیکن تقسیم کے بعد وہ پاکستان منتقل ہو گئے اور اپنی عمر کے آخری ایام کناڈا میں بسر کئے۔ آئی سی ایس کی تعلیم کے دوران انہوں نے برطانیہ میں بھی قیام کیا۔ ان کے ناولوں میں علاقائی اور زمانی اثرات پائے جاتے ہیں۔ عزیز احمد ہندوستان اور پاکستان میں یکساں مقبول رہے اور ان کی ناول نگاری اور افسانہ نگاری پر تحقیقی و تنقیدی کام ہوتا رہا۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے جنوبی ہند کی ریاست تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے ایک ہونہار ادیب اور ابھرتے محقق و نقاد ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی صدر شعبہ اُردو گری راج گورنمنٹ کالج نظام آباداپنی تحقیقی و تنقیدی کتاب’’عزیز احمد کی ناول نگاری کا تنقیدی مطالعہ ‘‘ کے ساتھ پیش ہو رہے ہیں۔ سب سے پہلے میں یہ واضح کر دوں کہ صاحب کتاب کا مجھ سے تعارف سوشیل میڈیا فیس بک کے اردو گروپس سے ہوا۔ جہاں اردو افسانے اور افسانے کی تنقید سے متعلق مختلف مباحث میں انہوں نے اپنی ادبی اور تنقیدی بصیرت کا ثبوت دیا اور وہ مجھ سے رابطے میں رہنے لگے۔ یہ اردو زبان و ادب کی خوش نصیبی کہئے کہ ایک ایسے دور میں جہاں اردو رسم الخط اپنی بقا ئکے لئے کوشاں ہے اور اردو زبان بہ حیثیت مجموعی اپنی شناخت کی برقراری کے لئے جد و جہد کر رہی ہے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور خاص طور سے انٹرنیٹ کے فیس بک گروپس سے اردو کو نئی زندگی ملی ہے۔ اور اردو کی نئی نسل نہ صرف کمپیوٹر پر اردو میں لکھ رہی ہے بلکہ اپنی تحریروں سے اردو کا دامن وسیع کر رہی ہے۔ مجھے ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کی تحریروں میں اردو کا مستقبل دکھائی دیا اور ادبی مسائل پر ان کی مبسوط تبصروں سے اندازہ ہوا کہ وہ ایک سلجھا ہوا تنقیدی مزاج رکھتے ہیں۔ انہوں نے فیس بک رابطے کے ذریعے مجھ سے خواہش کی تھی کہ ان کی آنے والی کتاب پر تعارفی تبصرہ لکھوں تو فکشن سے وابستگی کی بنا میں نے ان کی کتاب پر اپنے خیالات کے اظہار کے لئے رضا مندی ظاہر کی۔
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے اپنی تحقیقی وتنقیدی کتاب’’ عزیز احمد کی ناول نگاری کا تنقیدی مطالعہ ‘‘ میں چھ ابواب میں اردو ناول کا پس منظر، عزیز احمد کے حالات زندگی اور ان کے ناولوں اور ناولٹ پر تبصرہ کیا ہے۔ جیسا کہ فاضل مصنف نے لکھا ہے کہ عزیز احمد کے ابتدائی دو ناولوں ہوس اور مرمر اور خون میں سستی جذباتیت اور نوجوانی کا جوش دکھائی دیتا ہے۔ اور جنس کے بیان میں فن کاری سے زیادہ جذباتیت غالب دکھائی دیتی ہے۔ یہ ترقی پسند فکشن کی شناخت رہی کہ ادب برائے زندگی کے اصلاحی ادب کے بعد اردو فکشن میں مغرب کے اثرات کے زیر اثر اس دور کے ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں نے جنس کو فن کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ اور فکشن نگار اس نظریے پر کار بند رہے کہ جنس اگر ہماری زندگی کا حصہ ہے تو اسے ادب میں بھی پیش ہونا چاہئے اور گھٹن زدہ ماحول سے قاری اور ادیب کو باہر نکلنا چاہئے۔ عزیز احمد کے ناول’’ گریز‘‘ میں جہاں مغربی دنیا کی جھلک ملتی ہے وہاں جنس کا بے محابہ تذکرہ بھی فنکاری سے ملتا ہے۔ ناول’’ آگ‘‘ میں کشمیر کی غربت کا فنکارانہ بیان ہے تو ناول’’ ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ میں حیدرآباد کے نوابی خاندانوں کی بے راہ روی کو بیان کیا گیا ہے۔ عزیز احمد حیدرآباد کے نوابوں کے قریب رہے تھے اور انہوں نے ان کی زندگی کے تہذیبی نشیب و فراز کو فن کاری سے پیش کیا۔ ناول’’ شبنم‘‘ ایک کرداری ناول ہے جس میں عزیز احمد نے شبنم کے کردار کی نفسیات کو اجاگر کیا۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے ان تمام ناولوں کا تجزیہ نفسیاتی، تاریخی اور تہذیبی پیرائے میں کیا۔ اس کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے توضیحی و تشریحی انداز اختیار کیا اور تاثراتی تنقید کے انداز میں ان ناولوں پر تبصرہ کیا۔ ناولوں کے تجزیے کے دوران مختلف اقتباسات کے ذریعے ناول کے قصے کو بیان کیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ عزیز احمد کے فن پر تبصرہ بھی کیا گیا۔
عزیز احمد کی ناول نگاری میں تاریخی شعور اور عہد کی نفسیات کی جھلک ملتی ہے۔ عزیز احمد نے جہاں بھی قیام کیا وہاں کے مطالعہ زندگی کو ناولوں میں برتا۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے اس پہلو کی نشاندہی کی کہ عزیز احمد نے برطانیہ میں قیام کے دوران’’ گریز‘‘ حیدرآباد میں قیام کے دوران ’’ایسی بلندی ایسی پستی ‘‘کشمیر میں قیام کے دوران’’ آگ‘‘ اور پاکستان میں قیام کے دوران ناولٹ ’’جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں ‘‘’’خدنگ جستہ‘‘ اور’’ مثلث‘‘ وغیرہ لکھے۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے تحقیق کے فرائض انجام دیتے ہوئے یہ اہم انکشاف کیا کہ دوران تحقیق انہیں عزیز احمد کا ناول’’ برے لوگ ‘‘دستیاب ہوا جس کا ذکر دیگر محققین نے نہیں کیا اور انہوں نے واقعاتی شہادتوں کی بناء یہ ثابت کیا کہ عزیز احمد نے یہ ناول تقسیم کے فوری بعد لکھا اور یہ کہ اس میں تقسیم کے بعد کے پاکستان کے حالات پائے گئے ہیں۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کی اس تحقیق پر آنے والے محققین روشنی ڈالیں گے۔ مجموعی طور یہ کتاب عزیز احمد کے ناولوں پر ایک اچھا تعارفی اور تنقیدی تبصرہ ہے۔ اور عزیز احمد پر تحقیق کرنے والوں کے لئے اس کتاب میں اہم دستاویزی معلومات موجود ہیں۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ اردو کی نئی نسل میں قابل محققین اور نقاد ابھر کر سامنے آرہے ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت پر میں فاضل مصنف اور میرے فیس بک دوست ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اردو ناول کی تنقید میں یہ کتاب اہم اضافہ ثابت ہو گی۔ اور بر صغیر کے ادبی حلقوں میں اس کی خوب پذیرائی ہو گی۔
پیغام آفاقی