معید نے کمرے کا دروازہ کھولا سامنے بی اماں جائے نماذ بچھائے ظہر کی نماز پڑھ رہی تھیں۔ معید اندر داخل ہوا اور بیڈ کے ایک کونے پر بیٹھ گیا۔ بی اماں کی نماز ختم ہوئی تو وہ معید کی طرف دیکھ کر مسکرائیں۔ بی اماں مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی۔ (معید بی اماں کی طرف دیکھتے ہوئے بولا)۔ ہاں بیٹا کہو؟ (بی اماں اس کے سامنے پڑی چئیر پر بیٹھتے ہوئے بولیں)۔ ً
ارم یار پتہ نہیں کیوں مجھے اس لڑکی میں کچھ مشقوق لگ رہا ہے میری چھٹی حس کہتی ہے ضرور کوئی گڑ بڑ ہے۔ (منتشا نے پریشانی ظاہر کرتے ہوئے ارم سے کہا جو کہ اکیلی جا کر اسی کنٹین والے سے سموسے لے آئی تھی اور منتشا کے ساتھ بیٹھ کر نوش فرما رہی تھی) ہونے دو کونسا ہم کالج کے بہانے لڑکوں سے ملنے جاتیں ہیں جو تم اتنا گبھرا رہی ہو۔(ارم نے لاپرواہی سے انگلیاں چاٹتے کو ہے کہا) حد ہے ان چیزوں کے علاوہ بھی بہت ساری باتیں ہیں جن کے لیے ہمیں پریشان ہونا چاہیے (منتشا نے پرزور لہجے میں کہا). جیسے کہ؟( ارم نے اسی طرح مزے سے سموسے کھاتے ہوئے کہا). جیسے کہ تمہارا بھینس جیسا منہ جس سے تم چوبیس گھنٹے جگالی کرتی رہتی ہو۔
لیکن اس سے وہ کیا فائدہ اٹھا سکتی ہے؟.
ارم تم سے تو اللہ ہی بچائے ۔۔اچھا اسکا نام کیا ہے؟ (منتشا نے بیزار ہو کر ٹاپک بدلنا چاہا). ارے یار ہم نے اسکا نام پوچھا ہی نہیں. (ارم کو جیسے دھچکا لگا)۔ لو کہہ رہی ہوں نہ میں کہ اس لڑکی میں ضرور کچھ پرسرار ہے۔ ( منتشا نے منہ ارم کی طرف کرتے ہوئے کہا).
لیکن یار نام تو ہم نے نہیں پوچھا اس سے غلطی ہماری ہے اسکی تھوڑی ہے۔(ارم نے منتشا کے خیالات کو رد کرتے ہوئے کہا). نہی. ارم اگر ہم نے نہیں پوچھا تو بتایا اس نے بھی نہیں اور پھر اس نے ہم سے ہمارے نام بھی نہی پوچھے۔(منتشا نے مزید تفتیش کرتے ہوئے کہا).
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
بولو معید بیٹا کیا بات ہے اتنے پریشان کیوں ہو؟ (بی اماں نے کرسی پہ براجمان ہوتے ہوئے پوچھا). بی اماں میں کل منتشا سے ملنے گیا میں چاہتا تھا اس سے اپنے دل کا سارا حال کہہ دوں لیکن وہاں اس کے بالکل برعکس ہوگیا مجھے منتشا کی آنکھوں میں اپنے لیے کچھ بھی نظر نہیں آیا اس کی آنکھیں بالکل خالی تھی بالکل سرد۔(معید نے بی اماں کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا). بی اماں جو کے چپ کر کے معیدکی بات سن رہی تھیں پھر بولیں۔معید بیٹا اگر آنکھوں سے جذبات کا اور احساسات کا پتہ چلتا ہو تو لوگ ایک دوسرے سے ملنا چھوڑ دیں اپنے احساسات اور جذبات کے پتہ چل جانے کے ڈر سے ۔معید بیٹا ہمارے رشتوں میں بہت سی پریشانیاں بہت سے مسائل شاعرانہ اور فلسفہ طور باتوں نے پیدا کردیں ہیں ہم لوگ اتنا اندھا یقین کرنے لگے ہیں ان باتوں پہ کہ شاید ہی ہم سوچیں کہ جو یہ باتیں لکھتے ہیں وہ بھی ہماری طرح عام انسان ہیں ۔ہاں ٹھیک ہے وہ تھوڑے پڑھے لکھے ہوتے ہیں لفظوں سے متاثر کرنے کا فن جانتے ہیں لیکن وہ ہیں تو عام انسان ہی اور ان کی بہت سی باتیں غلط بھی ہو سکتیں ہیں تم بتاؤ کیا نہیں ہو سکتیں؟ ( بی اماں نے معید سے سوال کردیا جو کہ پوری توجہ سے بی اماں کی باتیں سن رہا تھا). ہو سکتی ہیں(معید نے جواب دیا). تو میرے بچے پھر یہ آنکھیں پڑھ لینے والی بات بھی تو ایسے ہی کسی شاعر کی ہے نا اور بیٹا جذبات احساسات ان لوگوں کے بھی ہوتے ہیں جن کی آنکھیں ہی نہیں ہوتیں تو میرے بچے ان باتوں سے اپنا دل میلا نہ کرو۔ ( بی اماں نے پیار سے دیکھتے ہوئے کہا). اور معید نے گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے ہلکی سی مسکراہٹ دی۔ یقیناً وہ یہی سوچ رہا تھا کہ بی اماں نے کتنی سچی بات کی ہے۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
جاذب بیٹا کہاں تھے تم صبح سے اور تم اتنی جلدی اٹھے کیسے؟ (رکعیہ نے جاذب کو مین دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھا تو پوچھا).
کہیں نہیں موم وہ ایک دوست آسٹریلیا جا رہا تھا تو اسکو سی آف کرنے گیا تھا (جاذب نے بنا کسی تاثر کے جواب دیا).
اچھا پھر چلو جاؤ فریش ہو جاؤ میں لگانا لگوارتی ہوں (رکعیہ نے پیار سے کہا). نہیں موم میں باہر سے کھا آیا ہوں۔ ایسے کیسے کھا آئے بیٹا تمہاری مرضی کا آلو گوشت بنا ہوا بہت مزے کا جاؤ تم منہ ہاتھ دھو کے آؤ میں کھانا نکالتی ہوں۔(رکعیہ نے فرط جذبات سے کہا). میری پیاری مما میں کھانا کھا آیا ہوں آپ فکر نا کریں مجھے بھوک لگے گی تو دوبارہ کھا لوں گا۔ (جاذب نے آگے بڑھ کے دونوں ہاتھوں سے اپنی ماں کے چہرے تو تھامتے ہوئے کہا). اچھا ٹھیک ہے۔(رکعیہ مسکرادی). جاذب اپنے کمرے میں آیا لائٹس آن کیں بیڈ پے گر گیا اور چھت کی جانب دیکھنے لگا پھر کچھ سوچتے ہوئے فوراً پینٹ سے فون نکالا اور نمبر ڈائل کرنے لگا یقیناً یہ کسی خاص شخصیت کا نمبر تھا جو جاذب کو زبانی یاد تھا ایک دو سینٹ لکھنے کے بعد ہی پورا نمبر شو ہونے لگ پڑا۔ اسکرین پر طیبہ نام سے ایک نمبر جگمگا رہا تھا جاذب نے نمبر پر کلک کیا اور فون کان کو لگالیا۔ کچھ دیر بعد فون کی دوسری طرف سے آواز آئی۔
ہاں بولو جاذب۔
کیسی ہو۔اچھا بتاؤ کام ہوا کے نہیں؟
واہ بڑی جلدی ہے میرا حال تک ٹھیک سے نہیں پوچھا ۔۔فون کی دوسری طرف طیبہ نے طنز لہجے میں کہا۔
کیا یار بکواس نہیں کرو اور بتاؤ۔ جاذب نے الجھتے ہوئے لہجے میں کہا۔
تم پاگل تو نہیں جاذب؟ کیا تمہیں اتنا آسان لگتا ہے یہ کام؟ ابھی تو آج ان سے پہلی ملاقات کی ہے میں نے اور وہ تو اتنی نکمی لڑکیاں ہیں فوراً ہی دوستی کے لیے راضی ہو گئیں ۔میری باتوں پے یقین بھی کرلیا اور مجھ سے میرا نام تک نہیں پوچھا۔اتنا کہہ کے طیبہ نے ایک قہقہ لگایا۔
جاذب کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ تھوڑی گہری ہوئی۔ااور وہ مسکراہٹ طیبہ کی بات سن کے کم اور اس کی ہنسی سن کے زیادہ آئی تھی۔ اچھا چلو اب تم دھیان سے رہو ان کو شک نا ہونے دینا اسپیشلی منتشا کو۔( جاذب نے اسے سمجھانے والے لہجے میں کہا)۔
پھر تھوڑی دیر ادھر اُدھر کی باتیں کرکے جاذب نے فون بند کردیا اور مسکراتا ہوا نہانے کے لیے واش روم میں چلا گیا۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
بی اماں کچن ۔یں کام کررہی تھیں جب ان کے کانوں میں منتشا کی آواز آئی۔بی اماں منتشا نے بی اماں کے گلے لگاتے ہوئے کہا۔اللہ میری بچی کتنے دن بعد آئی ہو۔(بی اماں نے فرط جذبات سے منشتا کا ماتھا چومتے ہوئے کہا). ہاں بس وہ ذرا میں مصروف تھی پڑھائی میں اسی وجہ سے۔ منتشا نے جواب دیا۔۔
اچھا چلو چھوڑو آؤ باہر بیٹھتے ہیں ۔بی اماں نے پلٹ کر نل بند کیا اور منتشا کے ساتھ ٹی وی ہال میں آ کر بیٹھ گئیں ۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
اور بتاؤ بیٹا تمہاری وہ دوست کیسی ہے ۔بی اماں نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا۔کون ارم ؟ وہ بھی ٹھیک ہے۔منتشا نے مسکرا کر کہا۔
بی اماں آپ سب کام خود ہی کیوں کرتی ہیں؟ کام والی کو بھی فارغ کردیا آپ نے یہ تو غلط بات ہے۔ آپ خود بھی بیمار ہیں اتنا کام آپکی صحت کے لیے ٹھیک نہیں۔ منشا کو بی اماں کو کام کرتے دیکھ کر کافی تکلیف ہوئی تھی۔ ارے بیٹا کام کرنے سے کون بیمار ہوتا ہے؟ یہ تو صرف باتیں بنی ہوئیں ہیں بلکہ کام کرنے سے بندہ چست رہتا ہے اور وقت بھی گزر جاتا ہے ۔ بی اماں عقل مند عورت تھی اور زندگی کا ایک خاص تجربہ بھی حاصل کر چکی تھیں ۔
وہ تو ٹھیک ہے پر اب اتنا بھی کام نہیں کرنا چاہیے اور پھر آپ بیمار بھی ہیں ۔ منتشا نے مزید کہا۔
بیٹا دیکھو میں لاکھ اس گھر کو اور بچوں کو اپنا کہوں اور یہ لوگ بھی مجھے کہیں لیکن اس طرح حقیقت نہیں بدل جائے گی اور پھر اگر میں سارا دن آرام کروں گی تو لوگ باتیں کرے گے کہ گھر سنبھالنے کے بہانے بڑھیا کی موجیں لگی ہوئیں ہیں ۔(بی اماں نے ہونٹوں پہ ہلکی مسکراہٹ سناتے ہوئے کہا جو کہ ان کے چہرے کو مزید پرکشش بنا رہی تھی ). لیکن بی اماں ہمیں لوگوں کی باتوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ لوگوں کا تو کام ہی ہے باتیں کرنا۔منتشا نے بی اماں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوتے پر اعتماد لہجے میں کہا). نہیں بیٹا لوگوں کی باتوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔اور ان کی پرواہ بھی کرنی پڑتی ہے کیونکہ جہاں ہم رہتے ہیں وہاں ہمارا پالا انہی لوگوں سے پڑتا ہوتا ہے اور انہی لوگوں سے ہی سہارا بھی ملتا ہوتا ہے ہاں یہ بات کسی حد ٹھیک ہے کہ لوگوں کی باتوں کو دل پہ نہیں لینا چاہیے لیکن اب یہ نہیں ہے کہ ان لوگوں کی باتوں کی پرواہ ہی نہیں کی جائے۔(بی اماں نے منتشا کو سمجھاتے ہوئے معاشرت کا ایک پہلو اس کے سامنے رکھا). شاید آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں اب میں آپ سے زیادہ عقلمند تو نہیں ہو سکتی ۔(منتشا نے الجھے ہوئے ذہن میں کہا کیونکہ وہ ابھی تک بی اماں کی باتوں پر اپنے ذہن کو مطمئن نہیں. کر پائی تھی). بی اماں سے زیادہ نا سہی پر تم عقلمند ہو؟؟ اچانک ایک آواز پر دونوں چونکی اور یہ آواز تھی سلمان صاحب کے منچلے بیٹے قاسم کی جو کہ ابھی گھر میں داخل ہوا تھا اور اس کی عادت تھی ہر کسی سے مذاق کرنا خاص طور پر منتشا سے۔
چلو آگیا عذاب۔(منتشا نے منہ بسورتے ہوئے کہا). ہاں تم جیسے نالائق آدمی سے تو عقلمند ہی ہوں۔ (منتشا نے جوابی حملہ کیا). استغفراللہ بی اماں دیکھیں اس محترمہ کی باتیں یہ مجھ سے عقلمند ہے؟ بی اماں جلدی سے باہر نکلیں زلزلہ آنے لگا ہے( قاسم نے ایک زوردار قہقہہ مارتے ہوئے کہا) ۔ بی اماں میں اسکا سر پھاڑدوں گی۔(منتشا نے صوفے سے کشن پکڑ کر قاسم کی طرف اچھالتے ہوئے کہا) ارے بیٹا نا تنگ کرو بچی کو آج اتنے دن بعد آئی ہے۔ (بی اماں نے مسکراتے ہوئے بی اماں کو کہا)۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
دسمبر کی یہ اداس شام ہر طرف اپنی ظالمانہ اداسی لیے جلوہ افروز تھی۔ ہلکی ہلکی بارش بھی ہو رہی تھی جو کہ ماحول کو مزید افسردہ کر رہی تھی۔ جاذب اپنے کمرے کی کھڑکی کے سامنے کھڑا اس اداس منظر کو دیکھ رہا تھا وہ کسی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ کیا واقعیمجھے منتشا سے محبت ہے؟ لیکن یہ محبت ہوئی کب؟ کیا اس دن وہ سارے کام منتشا کے حکم سے کرنے سے مجھے محبت ہوئی؟ لیکن آخر یہ کیسی محبت ہے کہ میں اس کو محبت تو کرتا ہوں لیکن اس کو چاہتا نہیں ہوں ۔
میں اس سے شادی نہیں کرنا چاہتا لیکن میں اس سے شادی کرتا نہیں دیکھ پا رہا؟ اس کو لگا شاید دسمبر کی ساری اداسی اسکے دل میں سمو گئی ہے۔ وہ ٹوٹے دل کے ساتھ سب کے درمیان بیٹھی ان کی باتیں سن کے مسکرا دیتی تو ایک مصنوعی مسکراہٹ؟؟
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
معید میٹنگ اٹینڈ کرنے کے بعد مسکراتا ہوا باہر پارکنگ میں کھڑی اپنی گاڑی کی طرف جانے لگا جانے کیوں اسے سکون مل رہا تھا وہ خوش تھا بنا وجہ کے اسے آج اپنی کی بہت یاد آرہی تھی سارا دن وہ اداس رہا اسے اپنی ماں کے پیار بھرے بوسے یاد آرہے تھے جو وہ معید کو دیا کرتی تھی معید کی زندگی بھی عام بچوں کی طرح خوشگوار تھی لیکن پھر وقت نے بڑی بےرحمی سے اس سے اسکی ساری خوشیاں چھین لی اور اسکی ساری خوشیاں اسکی ماں ہی تھی اور صرف معید ہی نہیںہر بچے کی ساری خوشیاں اسکی ماں ہی ہوتی ہے۔ لیکن معید نے اپنے بھائیوں کے لیے خود کو سنبھال لیا تھا اور پھر بی اماں کے بے تحاشہ پیار نے بھی اسے سنمبھلنے میں مدد کی تھی ۔ رات کو بی اماں سے ہونے والی باتیں ابھی تک اس کے ذہن میں گردش کررہی تھیں۔ اور وہ سوچ چکا تھا کہ وہ اب منتشا کو بول دے گا کہ میں تمہیں پسند کرتا ہوں ۔ انہی. خیالات میں مگن اسنے گاڑی کا دروازہ کھولا اور اندر بیٹھ کے گاڑی اسٹارٹ کی۔
چمکدار نے گیٹ کھولا تو تو معید نے گزرتے ہوئے چوکیدار کو مسکراتے ہوئے دیکھا ۔ جانے کیا تھا اسکی مسکراہٹ میں کہ چوکیدار گاڑی کے گزر جانے کے کتنی دیر تک گاڑی کو دیکھتا رہا۔ معید جی ٹی روڈ پر چڑھا تو تو اسکا فون بجا معید تو دیکھا تو اوپر عید کالنگ لکھا آرہا تھا معید نے گاڑی سائڈ پہ روکی اور کال پہ کی۔ ہیلو اسلام وعلیکم۔(معید نے فون کان سے لگاتے ہوئے کہا). وعلیکم السلام۔ معید بیٹا کدھر رہ گئے جلدی گھر آؤ سب تمہارا انتظار کر رہے ہیں منتشا بھی آئی ہوئی ہے۔ (بی اماں کی آواز کانوں پر پڑی جس پر معید مسکرایا ). آرہا ہوں اماں راستے میں ہوں دس منٹ تک پہنچ جاؤں گا اور منتشا کو بھی روک کر رکھیں ۔آج میں آپ کے سامنے اس سے ساری بات کلیئر کونگا۔(معید نے ہلکی مسکراہٹ دیتے ہوئے کہا). ہاں ٹھیک ہے بس تم دھیان سے گھر آؤ موسم بھی خراب ہورہا ہے۔ (بی اماں کی بات سن کر معید مسکرایا).اور اللہ حافظ کہہ کہ فون بند کردیا پھر اچانک اسکا دل بجھ گیا اسے اپنے گھر کی اپنے باپ کی اپنے بھائیوں کی یاد آنے لگی اسکا دل کررہا تھا کہ وہ اڑ کے گھر پہنچ جائے یا وہ آنکھیں بند کرے تو گھر ہو۔
ابھی تو فون پہ اسکی بات ہورہی تھی اور پھر ان کی اچانک یاد پہ معید ہلکا س مسکرایا اور گاڑی اسٹارٹ کر کے دوبارہ روڈ پہ ہوگیا۔اسکی اس پھیکی مسکراہٹ میں دنیا بھر کی اداسی آگئیتھی۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
چاچو مجھے اب چلنا چاہیے امی ابا ویٹ کررہے ہونگے۔ (منتشا نے سلمان سے کہا). ارے منتشا بیٹا نہیں ذرا رک جاؤ میری معید سے بات ہوئی ہے وہ لانچ دس منٹ میں پہنچنے والا ہے اور بول رہا تھا کہ تمہیں روک کے رکھوں ۔(بی اماں نے کچن سے باہر آکر کہا). منتشا مسکرائی ایک دم اسے لگا سب اچھا ہونے والا ہے آج سب ٹھیک ہو جائے گا۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
معید گاڑی ڈرائیو کرتا گھر کی طرف گامزن تھا ۔ بالکل تھوڑا سا فاصلہ رہ چکا تھا گھر سے مگر معید کو یہ فاصلہ صدیوں کا لگ رہا تھا ۔ اچانک معید کی آنکھوں میں دہشت ابھری سامنے سے ایک ٹرک ادھر سے ادھر ہچکولے کھاتا معید کی گاڑی کے سامنے آرہا تھا۔ معید کو لگا اسکا دل بند ہونے لگا ہے معید نے گاڑی سائڈ پہ روکنی چاہی پر اسے مہلت نا ملی ٹرک دیکھتے ہی دیکھتے معید کی گاڑی سے اتنی شدت سے ٹکرایاکہ گاڑی ہوا میں اڑتی ہوئی روڈ کے درمیان میں الٹی ہو کر گرگئی پھر ایک زوردار دھماکا ہوا اور گاڑی کو آگ لگ گئی ۔ٹرک بھی ایک سائڈ پہ رک چکا تھا ۔سارے روڈ کی ٹریفک بلاک ہوگئی۔۔۔