ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﺟﺎﺫﺏ؟ ﻭﮨﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﺭﮎ ﮔﺌﮯ؟ ( ﻣﻨﺘﺸﺎ ﻧﮯ ﭘﮩﭽﮭﮯ ﭘﻠﭩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ۔
کچھ نہیں ایسے ہی۔ (جاذب نے پھیکی سی مسکراہٹ لبوں پر سجائے کہا)۔ اچھا تو چلو آو پھر میرے ساتھ یہ کپڑے پریس کروا دو۔ (منتشا نے ہنستے ہوئے کہا)۔ اچھا لیکن تم ہنس کیوں رہی ہو؟ (جاذب نے پوچھا)۔ کچھ نہیں چھوڑو ویسے ہی ہنسی میں اور ہاں میں صرف تمہیں تنگ کر رہی تھی مجھے کوئی کام نہیں ہے۔ (منتشا کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی)۔ جاذب بھی مسکرایا اور دل میں شکر ادا کیا کے چلو جان بچی۔
☆☆☆
شام کو سب لوگ سلمان صاحب کی طرف کھانے پر چلے گئے۔
بی اماں آپ نے تو پورے گھر کو جنت نظیر بنا دیا ہے۔ (رکعیہ نے کھانے کی ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے کہا جس پر بی اماں مسکرا دی)۔ کھانے سے فارغ ہو کر سب لاونج میں بیٹھ گئے اور خوش گپیوں میں مشغول ہو گئے۔
☆☆☆
اور اب جب کے اتنے برس گزر چکے تھے جاذب بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کر چکا تھا۔ آج نومی کے منہ سے منتشا سے محبت کی بات سن کر اسے اچانک پرانے دن یاد آگئے تھے اور وہ سوچ رہا تھا کہ کیا واقعی اسے منتشا سے محبت ہے؟ لیکن یہ کب ہوئی اور کیا میری محبت میں اتنی شدت ہے کہ میں اس کو حاصل کر سکوں؟ اور وہ بھی معید سلمان جیسے ویل پرسنیلٹی رکھنے والے لڑکے سے؟ اور پھر وہ زیر لب بربرایا منتشا اورنگزیب تم اتنی بھی خاص نہیں ہو کہ جاذب سکندر جیسا لڑکا تمہارے لئے مجنوں بن جائے۔ اور پھر اس نے سر کو جھٹکا اور اوپر اپنے روم میں چلا گیا۔ نومی ویسے ہی جا چکا تھا اور وہ بھی ابھی مزید ریسٹ کرنا چاہتا تھا لیکن جاذب سکندر اپنی مغروری اور انا میں یہ تک بھول گیا تھا کہ منتشا کو تو اس محبت کا علم تک نہیں۔ شائد وہ اپنے آپ کو کسی وہم میں رکھ کر اذیت کے کسی انوکھے رنگ سے بچنا چاہتا تھا۔
☆☆☆
ارم جا چکی تھی اور منتشا بھی نیچے آگئی ہوئی تھی شام کے سائے ابھی اتنے گہرے نہیں ہوئے تھے اور وہ لان میں بیٹھی ہوئی تھی چائے کے ایک بڑے مگ کو ہاتھ میں پکڑے ہوئے جس سے بیچ بیچ میں وہ ایک گھونٹ بھرتی اور پھر وسیع و عریض آسمان پر نظر ڈالتی جہاں پرندے اپنے گھروں کو جانے کے لیے ادھر سے ادھر کو آڑ رہے تھے۔ اور وہ کسی کے بارے میں سوچ رہی تھی اسی شخص کے بارے میں جو کبھی اس کو کھونے سے ڈر جاتا تھا کبھی اسکا ہونے سے اور کبھی اسے شک ہوتا کہ اسکی آنکھیں بلکل حالی ہیں جن میں کوئی اپنائیت نہیں جن میں کوئی محبت نہیں۔ رات اس شخص کی انہیں باتوں نے اس پھول جیسی لڑکی کو مرجھا دیا تھا وہ کہنا چاہتی تھی وہ چیخ چیخ کے کہنا چاہتی تھی کے معید سلمان میں تم سے محبت کرتی ہو۔ ہاں میں تم سے محبت کرتی ہوں ایک پاکیزہ محبت تمہاری بیوی بننے والی محبت ایک ایسی محبت کے جس کی طاقت پوری دنیا کے مردوں کے لیے میرے وجود کو ختم کر دے اور میں صرف تمہاری ہو جاوں ہر نا محرم کی آنکھوں سے اوجھل ہو کر صرف تمہاری آنکھوں میں بس جاوں لیکن تم مجھے کبھی نہیں سمجھو گے تم میرے احساسات کو نہیں جان پاو گے تم نہیں جان پاو گے کے جس لڑکی خو تم اتنا چاہتے ہو وہ بھی تمہیں تم سے بڑھ کر چاہتی ہے لیکن تم مجھے سمجھو تو سہی میرے اندر کی محبت کو محسوس تو کرو۔
آج تک وہ جس محبت کو چھپاتی آئی تھی اپنے رویے سے آج اسی محبت کا اعتراف وہ خود سے کر رہی تھی کیونکہ وہ کسی کے آگے خود کو چھوٹا محسوس نہیں کرانا چاہتی تھی وہ نہیں چاہتی تھی کے کوئی اسے اپنی محبت میں گرفتار ایک کمزور لڑکی تصور کرے اور یہی وجہ تھی کے آج تک اس نے کبھی بھی معید سے سیدھے منہ بات نہیں کی تھی اور وہ چاہتی تھی کے معید اس کی اسی بے رخی میں اس کی محبت کو پہچانے رات بی اماں کی باتوں کے بعد معید جب منتشا سے ملنے آیا تو وہ اپنے کمرے کی بالکونی میں کھڑی تھی اور معید آسیہ سے پوچھ کے یہی آگیا تھا۔
منتشا میں تم سے کچھ ضروری باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ (معید نے منتشا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو کہ بالکونی سے باہر سنسان روڈ پہ نہ جانے کیا تلاش کر رہی تھی معید کی آواز سن کے بلکل بھی نہیں چونکی کیونکہ وہ معید کو آتے دیکھ چکی تھی جب وہ بیچ کے گیٹ سے داخل ہوا تھا وہ اسی انداز میں کھڑی رہی)۔ بولو میں سن رہی ہوں۔ (اندر ہی اندر اسے لگا تھا کہ شائید آج وہ بہت سے اعتراف کرنے آیا تھا اذیت کے ان رنگوں کی معافی مانگنے آیا تھا جن کو وہ کئی سالوں سے جھیل رہی تھی)۔
تم مجھ سے اتنی اکھڑی اکھڑی کیوں رہتی ہو؟ (معید نے سپاٹ لہجے میں پوچھا)۔ میں اس کے لیے تمہیں جواب دہ نہیں ہوں معید سلمان۔ (منتشا نے بنا پلٹے ہی کہا شائد وہ نہیں چاہتی تھی کے معید اس کا پریشانی میں ڈوبا چہرہ دیکھے اور پھر شائید اسے ایک انجانا خوف بھی تھا کہ اگر معید نے اس کی آنکھوں کو نہ پڑھا اس کے احساسات کو محسوس نہ کیا تو وہ ٹوٹ جائے گی)۔ منتشا خدارا مجھے بتاو تم کیا چاہتی ہو؟ (معید نے کہنا کچھ اور تھا لیکن شائید لفظوں کا چناو سہی سے نہ کر پایا)۔ منتشا کے اندر ایک پہر دوڑ گئی اسے لگا وہ ہہی گر جائے گی کیونکہ اس کی توقع ایک بار پھر ٹوٹ گئی تھی وہ سمجھی تھی کے شائید وہ مجھ سے میرے اوپر گزرنے والے اذیت کے رنگوں کی معافی مانگنے آیا ہے لیکن وہ اس سے پوچھ رہا تھا کہ تم چاہتی کیا ہو؟ اکثر ہم حالات کی مناسبت سے لفظوں کا چناو نہیں کر پاتے اور یہی ہوا تھا معید سلمان سے بھی وہ خود سے وعدہ کر کے آیا تھا کہ وہ اپنے ساتھ جڑی کسی بھی عورت کو اذیت کے ان رنگوں میں سے نہیں گزرنے دے گا اس نے بی اماں کی باتوں کو اپنے دل پر نقش کر لیا تھا۔ لیکن قسمت نے اس کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ لفظوں نے اسے بیچ راستے میں چھوڑ دیا تھا۔ معید کی بات سن کے منتشا کی آنکھیں سارے جذبوں سے خالی ہو گئیں اور وہ معید کی طرف پلٹی۔ میں تم سے کیا چاہوں گی؟ تم مجھے دے ہی کیا سکتے ہو معید سلمان؟ (منتشا کے لہجے میں وہی رکھائی در آئی تھی خو پہلے بھی ہوا کرتی تھی یا شائید آج وہ کچھ شدت اختیار کر گئی تھی)۔ منتشا کیا تم اس رشتے سے راضی ہو؟ (معید نے منتشا کی آنکھوں میں جھانکتے دیکھا)۔ ہاں بلکل مجھے کوئی اعتراظ نہیں جدھر میرے ماں باپ چاہے میری شادی کر دیں۔ (منتشا نے دو ٹوک لہجے میں جواب دیا)۔ جھوٹ بول رہی ہو تم۔ مجھے تمہاری آنکھیں بتارہی ہیں کہ تم جھوٹ بول رہی ہو۔ (معید نے اتنا کہا اور کچھ لمحے کے لیے رکا لیکن پھر کسی چیز سے ناامید ہو کر وہ واپسی کے لیے پلٹ گیا اور دروازہ کھول کے کمرے سے باہر نکل گیا)۔ منتشا وہی کھڑی اسے جاتی دیکھتی رہی وہ ٹوٹ چکی تھی اذیت کے کسی ظالم رنگ نے اسے جکڑ لیا تھا وہ کہ رہی تھی کہ کاش معید سلمان تم آنکھیں پڑھنے کا فن جانتے کاش تم دیکھ سکتے کے ان آنکھوں میں ہے کیا؟ کاش تم میری آنکھوں میں سموئے اذیت کے ان رنگوں کو دیکھ سکتے جو میں کب سے برداش کر رہی ہوں وہ گھٹنوں کے بل زمین پر گری اور ٹوٹ کے رونے لگی اس نے اس لمحے میں وہ اذیت برداش کی تھی جو خزاں میں ایک پتہ اپنے درخت سے جدا ہوتے ہوئے برداش کرتا تھا۔ پھر جانے وہ کیا سوچ کر اٹھی اپنی ہتھلیوں سے آنسوں کو صاف کیا اور وضو کر کے جائے نماز بچھا کر ہاتھ اٹھا کر اپنے اللہ سے اپنے دکھ اپنی اذیت کے رنگوں کا شکوہ کرنے لگی۔ اے اللہ آپ تو ہم سے ستر ماوں جتنا پیار کرتے ہیں نہ تو پھر میری مدد کیجیے مجھے اذیت کے ان رنگوں سے نکال دیجیے مجھے اس اندھیرے سے باہر کھینچ لیجیے وہ ایک لمحے کے لیے رکی اور پھر گڑگرا پڑی شائید اس کا دل کچھ اور مانگ رہا تھا شائید وہ اللہ سے کچھ اور مانگنا چاہ رہی تھی لیکن اس کا دماغ اور اس کے لب اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ بعض دفعہ ہم اللہ سے بھی کھل کر کہ نہیں پاتے اور شائید یہی ہماری ہار ہوتی ہے شائید یہی ہماری بد قسمتی ہوتی ہے۔
☆☆☆
وہ شائید کسی سے ملنے آیا تھا گاڑی کے پاس کھڑا وہ ادھر ادھر کسی کو تلاش کر رہا تھا۔ بلیک شرٹ اور بلیک پینٹ میں ملبوس وہ کسی باغی شہزادے کی مانند لگ رہا تھا ایک جاذب نظر باغی شہزادہ اور شائید وہ تھا۔ پھر اچانک سے ایک ٹیوٹا کرولا اس کے پاس رکی اور اندر سے ایک دبلی پتلی معمولی شکل و صورت کی لڑکی نکلی اور جاذب کے عین سامنے آکر رک گئی۔
منتشا اور ارم کینٹین پہ کھڑی سموسے لے رہی تھیں۔ بھائی کیچپ تو تھوڑی زیادہ ڈال دو۔ (منتشا نے منہ بسوڑتے ہوئے کینٹین والے سے کہا)۔ بی بی چار سموسوں کے ساتھ اتنا ہی ملے گا اب میں پوری بوتل ان چار سموسوں کے ساتھ تو نہیں انڈیل سکتا۔ (کینٹین والے نے روکھے لہجے میں جواب دیا)۔ تو کیا پوری دوکان خرید لیں؟ دو لڑکیاں ہیں چار ہی لیں گی نہ اور تم ہمیں نکھرے دکھا رہے ہو جیسے ہم تو کوئی بڑی خوشی سے تمہارے یہ پھیکے سموسے کھانے لگے ہیں۔ بھائی مجبوری نہ ہو تو ہم ان کی طرف دیکھے بھی نہ آیا بڑا۔ (منتشا اس کی بات سے سیخ پا ہو گئی)۔ ارے تو بی بی نہ لو جیسے میری تو دوکان ہی تمہارے سر پہ چل رہی ہے۔ (دوکان والا بھی غصے میں آنے لگا)۔ تو یہ لو پھر رکھو سنبھال کے منتشا نے پلیٹ اس کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا۔ ارم چپ چاپ انجائے کر رہی تھی اس لڑائی کو۔ منتشا اتنا کہ کر آگے بڑھ گئی۔ کیا تھا یار لے لیتی اتنے مزے کے تو ہوتے ہیں اور کیچپ بھی ٹھیک ہی تھی تم تھوڑی کم لگا لیتی اتنی بھوک لگ رہی ہے اور میڈم کے نکھرے۔ (ارم نے ساتھ چلتے چلتے کہا)۔ منتشا نے کوئی خاص دھیان نہیں دیا شائید وہ کسی اور کا غصہ کینٹین والے پہ نکال آئی تھی۔ وہاں سے چلتے ہوئے وہ دونوں کالج کے لان میں آگئیں اور وہی بیٹھ گئیں جہاں اس دن بیٹھی تھیں۔ منتشا کے دل میں اچانک خیال آیا کہ کیا آج بھی وہی خوبصورت سانحہ ہو گا؟ کیا آج بھی وہ پیاری میٹھی اور بھاری مردانہ آواز اس کے کانوں میں پڑے گی؟ کیا آج بھی معید سلمان دور سے ان کو دیکھ کے انکے پاس چلا آئے گا؟ انہیں خیالات میں گم تھی کے اس نے سامنے سے ایک دبلی پتلی معمولی شکل صورت والی لڑکی کو اپنی طرف آتے دیکھا منتشا اس کو پہلے بھی اکثر دیکھ چکی تھی کیونکہ وہ اسی کالج میں پڑھتی تھی۔ وہ لڑکی ان کے سامنے آکر رک گئی۔ ہیلو گرلز۔ (وہ مسکرائی اور دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے ہیلو کہا)۔ ہائے۔ (ارم نے جوابا کہا جبکہ منتشا بھی اس کی طرف دیکھ کے دھیرے سے مسکرائی)۔ وہ ایکچولی میری اس کالج میں ایک ہی دوست تھیں اور اس نے اچانک ہی کالج آنا چھوڑ دیا ہے تو میں اکیلی گھوم رہی تھی آپ دونوں کو دیکھا تو ادھر چلی آئی۔ (وہ لڑکی مسکراتے ہوئے چھپے ہوئے لفظوں میں ان دونوں سے دوستی کرنے کا بول رہی تھی)۔ ارے ہاں ہاں آئیے ادھر بیٹھے۔ (ارم فورا بخنچ پر جگہ بناتے ہوئے بولی)۔ وہ لڑکی مسکرائی اور دونوں کے درمیان میں بیٹھ گئی۔ آپ نے بتایا نہیں آپ کسی سٹینڈرڈ میں پڑھ رہی ہیں؟ (منتشا نے لڑکی سے پوچھا)۔ جی میں ایم - ایس - ای کی فائنل ائیر میں ہوں۔ (لڑکی نے جواب دیا)۔ اوہ دیٹس گریٹ۔ (ارم نے کہا)۔ پھر تینوں میں کچھ رسمی باتیں ہوئی اور کچھ دیر بعد وہ خاصی حد تک بے تکلف بھی ہو چکیں تھیں۔
☆☆☆