روح اللہ کے ایک ارادہ کا نام ہے، جو کائنات پر قدرت رکھتا ہے وہ اللہ ہے جس کا کوئی وجود نہیں اور وہی مسجود ہے جو ہر شئے میں ہے مگر نظر نہیں آتا، جس کو ہر شئے کا علم ہے اور اپنے قدرت والے جوہر کا ایک خفیف سا علم انسان میں رکھ دیا ہے، انسان جسے عقل کے نام سے منسوب کرتا ہے۔ انسان اپنی عقل کو علم کہتا ہے اور باہر سے جو تعلیم حاصل کرتا ہے اُسے علم کا نام دیتا ہے حالانکہ وہ اکتسابی ہے۔ علم تو فطری ہے جو انسان کے باطن سے ظاہر ہوتا ہے اور فطرت سے حاصل کیا جاتا ہے۔ علوم فطریہ انسان کے اندر نور کی ایک روشنی پیدا کرتا ہے، اُن کے اندر جو معرفت الٰہیہ کو پانے کی تمنا کرتے ہیں، جو کائنات کے کھلے رازوں پر غور کرتے ہیں خدا اُن کے دلوں کو اطمینان سے بھر دیتا ہے۔
علم روح کی غذائے لذیذہ اور تعلیم انسان کی جسمانی ضرورت ہے جس سے وہ کسب میں مہارت حاصل کرتا ہے وہ محض علم ہے کامل علم آخرت کے لئے ہے اور تعلیم دنیا کے لئے … عالم زندہ رہے گا اور کسبی کو موت آئے گی۔ خدا کا کلام نفس ایجاد ہے اُس کے ارادہ میں اور "لفظ کُن" میں کوئی آواز نہیں ہوتی۔
روح خالق کی مخلوق عظیم ہے، ہر جاندار میں موجود ہے مگر خالق نے علم روح الٰہیہ سے کسی کو آگاہ نہیں کیا ہے مگر اِس راز کو پوشیدہ نہیں رکھا ہر جاندار کو زندگی دی ہے اور پھر موت دی ہے پھر اُس کو جان بچانے کا شعور دیا ہے۔
جن کو علم الٰہیہ کی تھوڑی سی بھی معرفت نصیب ہوتی ہے وہ انسان بنتا ہے اور وہ اہل ایمان ہے جو ہر جاندار شئے میں زندگی سے پہلے اُس کے فنا کو دیکھتا ہے۔ جن کو خدا اپنے علم سے نوازتا ہے اُن کے درجات بلند کرتا ہے اُس کے اندر یقین کی دولت ودیعت کر دیتا ہے اور یہی یقین در اصل علم الٰہیہ ہے۔ روح کی قوت انسانی جسم کی حرارت کا باعث ہے اور اِس جسمانی حرارت کو انسان زندگی کہتا ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ جسم ٹھنڈا ہو گیا ہے تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ روح کی قوت جسم انسانی سے اخراج کر گئی ہے۔ روح تو قوت حراری ہے روح قوت ملکوتی ہے اور روحانی علم ہی در اصل علم ملکوتیہ ہے اور وہ ہی عالم ہے جسے روح علم عطا کرتی ہے یا جس کی روح عالم ہے اُس کا علم خدائی علم ہو گا لہذا ہر ذی علم کے اوپر علیم کا سایہ ہوتا ہے … اکتسابی عالم نہیں ہوتا اُس کے پاس مہارت ہوتی ہے اور نسل در نسل پیشہ کی وجہ سے وہ اُس ماحول میں پرورش پاتا ہے تو وہ ماہر اور نیم ماہر ہوتا ہے۔
روح اول حجت خدا ہے اور وہ محمد مصطفیﷺ ہے جو آدم کا بھی پیشوا اور امام ہے آدم یوم حشر اُس کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ علم حقیقی نور ہے اور جن قلوب میں جتنی صفائی، پاکیزگی اور طہارت خیالات ہوتی ہے اُسی قدر نور اُس میں چمکتا ہے۔ علم حقیقی اور روحانی رزق کا تعلق تزکیہ نفس، ریاضات نفس اور صفائی نفس سے ہے۔ علم حقیقی کتاب حقیقت سے حاصل ہوتا ہے اور وہ ہر انسان کے اندر موجود ہے مگر یہ کتاب اُس وقت کھلتی ہے جب روح میں پاکیزگی اور طہارت حد کمال پر ہوتی ہے۔
حقانیت، صداقت اور دیانت جب روح کا رزق ہوں گی تو علوم باطنیہ آپ کی ذات پر ظاہر ہوں گے پھر انسان مسرور کن ماحول میں چلا جائے گا۔
روحانی علم کی خوبی یہ ہے کہ انسان پھولوں کی طرح رہتا ہے زاہد خشک کی طرح نہیں … علم روح انسانی کو شاہ مزاج اور شاہ دماغ بنا دیتا ہے۔
جس کی روح پر اہل علم، ذی علم اور علیم کا سایہ ہوتا ہے وہ مومن ہوتا ہے۔ علم حقیقی کا وارث متکلم لاثانی ہوتا ہے اور اُس کی گفتگو میں روح کی چاشنی ہوتی ہے۔ روح کی زندگی علم حقیقی ہے۔
آتش حسد انسان کو روحانی علم سے دور رکھتی ہے بلکہ تمام منفی قوتوں کی حکمرانی کا نام آتش بغض و حسد ہے، کینہ پرور ماحول بھی انسان کو علم حقیقی اور روح کی لذتوں سے دور رکھتا ہے۔ توفیق شکر روحانی علم کی جان ہے۔
علم الفاظ کا محتاج نہیں مگر الفاظ ضرور علم کے محتاج ہیں لہذا جس لفظ کو روح پسند فرمائے وہی لفظ علم ہے۔ انسان کے لئے تسکین روح ضروری ہے ورنہ کوئی علم، علم نہیں محض زبان گوئی ہے۔
عالم وہ ہوتے ہیں جو شکم مادر سے مخزن اسرار الٰہی لے کر پیدا ہوتے ہیں اور صرف معصومین ہیں وہی سلونی سلونی کا دعویٰ کر سکتے ہیں جو روح المقدس کے امین ہیں۔
٭٭٭