اے خلق کائنات یہ تو بتا تخلیق کائنات سے پہلے انسان بنایا تھا یا انسانیت …! پہلے اصول بنائے تھے یا انسان، پہلے انصاف خلق کیا تھا یا انسان … پہلے اپنے حقوق بتائے تھے یا اپنے بندوں کے …!
اے خالق کائنات! یہ تو بتا پہلے انسان کو سزا و جزا تیرے حقوق کی روشنی میں ہو گی یا حقوق العباد کی سزا پہلے انسان کو دی جائے گی یا دونوں کا اجرا بیک وقت ہو گا … اچھا! انسانیت کا یہ سوال ہے کہ اپنے حقوق کی معافی دینے کے بعد آپ کو اختیار ہو گا کہ آپ حقوق العباد کی بھی معافی دے دے گا اگر تیرے عدل میں یہ شک ہے تو تیرے پیدا کردہ انسان کے اختیار میں سب کچھ کیوں دیا ہے کہ وہ دنیا میں جو جی چاہے وہ کرے۔
اے خالق کائنات! عدل کے تقاضوں کے تو مسلمہ اصول ہیں کیا دنیا میں انسان کو انسان پر فوقیت دے کر انصاف کے لئے بھی یہی اصول ہیں تو پھر انسان، انسان پر ظلم کیوں کرتا ہے انسانیت اِس کی اجازت دیتی ہے۔ ہاں! بے شک تو رب العالمین ہے اور تو نے ایک رحمت العالمین بھی انسانوں کی راہنمائی کے لئے بھیجا مگر لوگ اِس کا کلمہ تو پڑھتے ہیں مگر اُس کی بات پر پورا عمل نہیں کرتے ہیں وہ کلمہ کو کافی سمجھتے ہیں اُن کا عمل پر عدم یقین نہیں مگر اُس میں شک کی ملاوٹ اُن کے ذہنوں میں ہے۔
اے خالق کائنات! انسان اپنی خواہشات کے ہاتھوں گروی ہے دنیا کی کشش نے اُسے اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے اِس وجہ سے انسانیت کی آواز نہیں سن رہا ہے وہ اچھائی اور بُرائی کی تمیز کھو چکا ہے اور اپنے منصب سے گر چکا ہے اور اللہ کے احکام کی پامالی کو شیوہ بنا لیا ہے حقوق العباد پر شب خون مار رہا ہے قدرت کے جوش سے آگاہ نہیں جو انسانیت کی محافظ ہے۔ خدا کے فیصلوں اور اپنے انجام سے بے خبر ہے اُس انجام کا نام "عبرت" ہے۔
اے خالق کائنات! انسانیت کے منصب سے گرا ہوا انسان ہی شیطان کا پیروکار بنتا ہے جب اُس کے دل کے گوشہ گوشہ سے خدا کا خوف نکل جاتا ہے تو پھر وہ اپنے حق میں جواز تلاش کرتا ہے کہ اُس کی زندگی میں انسانیت کا شائبہ تو باقی رہے مگر قدرت دنیا میں اُس کی سزا کا بندوبست کر دیتی ہے اُس کے دل و دماغ سے سکون اور اطمینان چھین لیتی ہے یہ دنیا میں سب سے بڑی سزا ہے اور اِس کا انتخاب بھی انسان خود کرتا ہے جب خدا کے فیصلے کو نہیں مانتا اور سینہ زوری سے شیطان کے ساتھ اتحاد کرتا ہے۔
اے خالق کائنات! جب انسان کے پاس صحت اور طاقت ہوتی ہے تو پھر وہ انسانیت کی پرواہ نہیں کرتا اور جب جسمانی اور روحانی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو وقت نکال کر انسانیت سے سمجھوتہ کرنے کے لئے اُسے آواز دیتا ہے اُس وقت انسانیت اُسے بھول چکی ہوتی ہے کیونکہ قدرت کے انصاف کے تقاضے اور ہیں۔ جب خدا ناراض ہوتا ہے تو انسانیت کے وارث اُس سے راضی نہیں رہتے یہ نہیں ہو گا کہ انسان اپنے کئے کی سزا سے بچ جائے گا خدا کی عدالت مقدمہ کو التوا میں رکھتی ہے بلکہ اگر داخل دفتر بھی کر دے تو جب وقت کا وکیل فارغ ہوتا ہے تو اُس کا فیصلہ سنا دیتی ہے۔ انسانیت کی آواز بے صدا ضرور ہے مگر اُس میں خدائی قوت ہے۔
اے خالق کائنات! میں بطور انسان یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جب انسان کے اندر انسانیت بیدار ہوتی ہے تو وہ پکار پکار کر اور چیخ چیخ کر کہتا ہے اُسے سزا دو اور سزا اُسے اذیت سے نکالتی ہے جب انسان اپنے خلاف فیصلہ کرتا ہے تو اُسے اطمینان ملتا ہے کہ اب وہ منزل سرخرو پر گامزن ہے جب وہ اپنے کئے ہوئے جرم سے آگاہ ہوتا ہے جو اُس کے دل کے کسی گوشہ میں پناہ لئے ہوئے ہوتا ہے۔
اے خالق کائنات! جب تک انسانیت کو حبس بیجا سے رہائی نہیں ملتی اُس وقت تک انسان ذہنی مریض رہے گا اور اِس کی رغبت گناہوں کی طرف رہے گی اور جسمانی طور پر بھی اپنے آپ کو بیمار تصور کرے گا۔
اے خالق کائنات! دنیاوی طور پر انسان کسی بھی اعلیٰ منصب پر ہو تو کیا یہ تصور کر لیا جائے کہ وہ انسانیت کی کسی منزل پر فائز ہے۔ انسان بھی عجیب ہے منصب انسانیت سے گر کر انسانیت کو پانے کی تمنا رکھتا ہے ایک دوسرے کو قتل کر کے، ایک دوسرے کے حقوق غصب کر کے سکون اور اطمینان کی خواہش رکھتا ہے۔ جو انسانیت سے محبت نہیں کرتا وہ دنیا والی سزا دنیا میں پا کر مرتا ہے اور آخرت والی سزا کا انتظار کرے۔ ظالم جب تک زندہ ہے وہ ذہنی سزا کے عمل سے گزرتا ہے۔
اے خالق کائنات! کیا وہ شخص ہوش مند ہے جو قاتل اور مقتول دونوں کی بخشش کی دعا کرتا ہے دونوں کے جنازوں میں شامل ہو کر دونوں ہاتھوں سے ثواب دارین سمیٹتا ہے کیا یہ انسانیت کی توہین نہیں کرتا جو دانستہ ظالم کا ساتھ دیتا ہے اور مظلوم کا نام لینے والے کے خلاف سازش کرتا ہے اور اُسے ذہنی، جسمانی اور مالی نقصان پہنچاتا ہے۔
انسان کتنا عجیب ہے اپنے نفس امارہ کی تسکین کے لئے خدا کے اصولوں کو پامال کرتا ہے اور انسانیت کا قتل سرعام کرتا ہے اور وہ لوگ اِس سے زیادہ عجیب تر ہیں جو ایسے لوگوں کی پشت پر اپنا ظالم اور بے حیاء ہاتھ رکھتے ہیں در اصل وہ بھی انسانیت کے دشمن ہوتے ہیں۔
اے خالق اکبر! قادر مطلق! انسانیت آواز دے رہی ہے اور انسان اُسے کہہ رہا ہے انسانیت آواز دے کہاں ہے اور ایک دوسرے سے دور ہو رہے ہیں بے شک عبادت کے نام پر بڑی بڑی محفلیں سجا رہے ہیں بڑے بڑے اجتماع کروا رہے ہیں یہی فریب نفسی ہے جس کی وجہ سے انسانیت شرمندہ ہے اور آواز نہیں سن رہی۔
٭٭٭