زندگی سیدھے راستے کا اصل ترجمہ ہے جب ہم زندگی کا ترجمہ غلط کرتے ہیں تو زندگی ہمیں راہ راست سے بے راہ کر دیتی ہے۔ زندگی کے مقصد کو تلاش کرنا اصل زندگی ہے۔ اکثریت زندگی ایسے بسر کرتی ہے جیسے اُن کی اپنی نہیں …! زندگی انصاف کی طلب گار ہے۔
زندگی محض وقت گزارنے اور سانس لینے کا نام نہیں فطری حسن کو انجوائے کرنے کا نام ہے۔ زندگی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کا نام ہے اپنی ذات کے ساتھ انصاف کرنے کا نام ہے، زندگی ایک سانس کا نام ہے۔
زندگی محبت کا نام ہے نفرت اور حسد کا نہیں … زندگی عقل اور فکر کا نام ہے … بے شعوری اور بے حِسی کا نام نہیں … زندگی مقدس جذبہ کا نام ہے بے جا جذبات کا نام نہیں … زندگی اپنی گزارو مگر کسی نا کسی کے ہو کر رہو … زندگی کے ساتھ اتنا انصاف کرو جتنا زندگی دینے والا آپ سے انصاف کرتا ہے۔
زندگی میت کی صورت نہ ہو خدایا میری … میت زندگی کی صورت ہو خدایا میری!
جیسے میری زندگی ہو گی ویسی میری موت ہو گی، زندگی خوبصورت اور احسن طریقے سے گزارو گے تو موت بھی آسان اور خوبصورت ہو گی۔ جو زندگی سے انصاف نہیں کرے گا موت اُس سے انصاف نہیں کرے گی۔ زندگی کا حسن انسان کو اندر اور باہر سے صاف اور اجلا بنا دیتا ہے، اچھی اور اعلیٰ زندگی معاشرہ کا نور ہے اِس یقین سے گزاری جائے اِس پر موت غالب آئے گی اور عدل کرنے والا دیکھ رہا ہے۔
معاشرہ انسانی زندگی کا عکس ہے۔ زندگی معاشرہ کی روح ہے۔ معاشرہ اِس لئے بصورت ہے زندگی کی روح مردہ ہے۔ جو لوگ ظلم اور زیادتی کرتے ہیں وہ اپنی زندگی سے فاؤل کھیل کھیلتے ہیں۔
زندگی ایک بار ہے مگر انصاف کرتے وقت سو بار بھی اِس سے انصاف کرو تو کم ہے۔ زندگی اور موت کے درمیان ایک نیم ساعت کا فرق ہے لہذا ایک لمحہ بھی اِس سے زیادتی مت کرو اِسے عقل اور شعور کے ٹھنڈے سایہ میں گزارو اِسے کے حبس زدہ ماحول میں بسر مت کرو، اِسے تلخ لہجوں کی نظر مت کرو اِس کو بے رحم رویوں کے حوالے مت کرو یہ آپ کی اپنی ہے دوسرے کی زندگی پر اِسے قربان مت کرو، مگر دوسرے کی زندگی میں وہ حصہ ضرور ڈالو جو اصولی طور پر اُس کا بنتا ہے۔ اپنی زندگی عذاب میں ڈال کر دوسروں کی زندگی کو آسائشیں مہیا کرنا اخلاقی اور فطری نا انصافی ہے پہلے اپنی زندگی کا خیال رکھو اور پھر دوسروں کی زندگیوں کو اپنے خیال میں رکھو …!
زندگی کو خلش زدہ گرہوں سے محفوظ رکھو۔ گرہ زدہ زندگی کم ہوتی ہے مسائل کی گرہ کھولتے رہو زندگی آسان اور کشادہ ہوتی جائے گی۔ جب خدا کے حضور سجدہ ریز ہو تو زندگی میں آسانیوں کے لئے دُعا کرو دولت مت مانگو صحت مانگو، پیار مانگو، دوسرے کے کام آنے کی دُعا مانگو۔ زندگی تو دُعاؤں کے لئے کم ہے نہ جانے لوگ بد دعائیں مانگ کر اپنی زندگی کو عذاب میں مبتلا کیوں کرتے ہیں۔ زندگی محبت اور لطافتوں کا ایک حسین نام ہے۔
لوگ رو رہے ہیں … نہ جانے کیوں … میری زندگی پر یا میری موت پر … زندگی جو موت سے بدتر ہو وہ رونے کے لئے ہوتی ہے۔ کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جن کی زندگی پر لوگ روتے ہیں اور کچھ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی موت پرانسان روتے ہیں دونوں ایک جیسے نہیں ہوتے کچھ زندہ مرے ہوئے ہوتے ہیں اور کچھ مرے ہوئے زندہ ہوتے ہیں بہرحال دنیا کی ڈرامہ گاہ میں زندگی کا یہ کھیل ہے۔
انسان کی زندگی اُس کا اصل تعارف ہے اور تعارف انسان خود کرواتا ہے۔ جو زندگی کے ساتھ انصاف کرتے ہیں موت اُن کے ساتھ انصاف کرتی ہے۔ موت کا تعارف ہی اصل اور حقیقی خوبصورت زندگی کا تعارف ہے۔
جو زندگی انسان کو غنی بنا دے وہ انتہائی خوبصورت ہے۔ قناعت زندگی میں ٹھہراؤ پیدا کرتی ہے، حادثات سے بچاتی ہے، سکون قلب کا باعث ہے، اطمینان روح ہے۔ عجلت باز کی زندگی عذاب ہے شرارت باز کی زندگی مذاق ہے محبت ساز کی زندگی جنت ہے محبت نواز کی زندگی نجات ہے خدا سے محبت اور خدا کے بندوں سے بے پناہ محبت …!
"زندگی سانس کے زندان میں ایک لمحہ"ہے
انسانیت کے دائرے میں ہی انسان کی عزت نفس کی حفاظت کی ضمانت ہے۔
کمال انسانیت یہ ہے کہ انسان سب سے پہلے اپنے بارے میں سوچے وہ کیا ہے اُسے کیا کرنا چاہئے اور وہ کیا کر رہا ہے اور وہ جو کر رہا ہے انسانیت کو اِس کی کتنی ضرورت ہے۔
جو انسان اپنے عیب تو چھپا نہ سکے اور دوسروں کے عیب ظاہر کرنے میں خوشی محسوس کرے کیا اُس کا یہ فعل انسانیت کے دائرہ میں آتا ہے دوسروں کو وہ کرنے کا کہے اور خود وہ نہ کرے جو انسانیت کی حفاظت کے لئے نہایت ضروری ہے۔
انسانیت زندہ باطن والے انسان کی پاکیزہ زندگی کا نام ہے۔ مصائب عالم کے نزول کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ دور کا انسان انسانیت کو شکست دے کر ظاہری کامیابیوں سے ہم کنار ہونا چاہتا ہے جبکہ دنیا کے تمام مذاہب انسانیت کی حفاظت کا درس دیتے ہیں۔ انسانیت کا سرعام معاشرہ کے ہر چورا ہے پر قتل عام ہو رہا ہے۔ معاشرہ کے ہر شعبے میں انسان کے انسانیت کے ساتھ توہین آمیز رویے ہیں یہاں تک کہ انسانیت کو نام نہاد عبادت کا فریب دیا جا رہا ہے۔ انسان چلتا پھرتا اپنی زندہ لاش کو اپنے کاندھے پر اٹھائے اُسے دفنانے کی جگہ تلاش کر رہا ہے۔ پوری دنیا بے حِسی کا ایک قبرستان ہے اور لوگ ایک دوسرے کو زندہ کھانے کی جد و جہد میں ہیں۔ دولت اور عزت نفس کی مساوی تقسیم پر ایمان ختم ہو گیا ہے۔ عدم یقین نے انسان اور انسانیت دونوں کو ختم کر دیا ہے۔ جب انسان نہیں ملے گا تو انسانیت کہاں نظر آئے گی۔ ہر نظر آنے والا شخص انسان نہیں اور ہر انسان نظر آنے والے میں ضروری نہیں انسانیت ہو۔
زندگی ایک حقیقت ہے مگر خواب کی طرح لگتی ہے بچپن، لڑکپن، نوجوانی، جوانی، نیم بڑھاپا، بڑھاپا، بزرگی، معذوری، لاچاری زندگی اور موت کی کشمکش اور بالآخر موت … کیا کھویا کیا پایا ماضی کی نیم یادیں لوح یادداشت پر پھیلا ہوا ماضی اور پھر بے بسی …!
انسان سوچتا ہے کل کی بات ہے مگر جب حساب کرتا ہے تو نصف صدی سے کچھ اوپر زندگی کو وقت ملا اور جب زندگی کی سمجھ آئی تو وہ ختم ہونے پہ آ گئی … زندگی حقیقت کا ایک ڈھلتا ہوا سایہ ہے گزری ہوئی کو یاد کریں تو ذہن میں نہیں آتی اور جو باقی ہے وہ منصوبوں کی نظر ہو جاتی ہے۔
٭٭٭