جب انسان روحانی طور پر بد دیانت ہو جائے تو اُس کی گفتگو میں تاثیر ختم ہو جاتی ہے بلکہ اُس کے چہرہ کا نور زائل ہو جاتا ہے اور اندر سیاہ بے شک اُس کی ظاہری شان و شوکت لوگوں کو نظر آئے مگر اُس کا نفس اندھا اور ضمیر مردہ ہو جاتا ہے دل دھڑکتا ضرور ہے مگر اُس میں زندگی کا اصل وجود نہیں ہوتا جو دل صداقت پرست اور صداقت شناس نہیں ہوتا۔ دل تو حیوان کے اندر بھی ہوتا ہے مگر وہ بے نور ہوتا ہے اُس کا دل عقل کو پیغام رسانی سے محروم ہوتا ہے۔ جب تک دائیں اور بائیں ہاتھ کا تال میل نہ ہو انسان ادھورا ہے اور جب تک دل اور دماغ میں ہم آہنگی نہ ہو تو عقل کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی … عقل در اصل وہی ہے جو سلیم ہوتی ہے اور اُس میں سلامتی ہر وقت رہتی ہے اور دل صرف وہ ہوتا ہے جو صادق ہو جس میں صداقت پرستی اور صداقت شناسی کوٹ کوٹ کر بھری ہو جس کی ہر دھڑکن میں خدا کے خوف کا عملی وجود ہو تو زندگی کا مزہ آتا ہے تو زندگی کے قدم قدم پر رعنائیاں نصیب ہوتی ہیں تو دل اطمینان سے بھر جاتا ہے تو دُکھ دلوں سے دور رہتے ہیں جب دل میں دیانت اور صداقت کا پہرہ ہو جب انسان سوچے زندگی کچھ نہیں یہ انصاف مانگتی ہے۔ اپنی زندگی سے انصاف کرو گے تو خدا آپ سے ضرور عدل کرے گا … خدا اُن پر رحم کرتا ہے جو اپنے پر خود رحم کی کوشش کرتے ہیں۔
پُر تاثیر گفتگو پاکیزہ عمل کی طلبگار ہے نفس طہارت ضروری ہے اُس کے اندر وجودی طاقت کی بجائے روحانی طاقت کا ہونا ضروری ہے جتنی روح طاقتور ہو گی انسان اندر اور باہر سے اتنا مضبوط ہوتا ہے۔ انسان کے اندر اور باہر کی طاقت کا انحصار اُس کی پُر سوز اور پُر ساز گفتگو پر ہے … اُس کی گفتگو میں کسی طاقتور پاکیزہ ہستی کے وجود کا ہونا ضروری ہے … الفاظ زبان سے بعد میں نکلتے ہیں پہلے خیالوں میں جنم لیتے ہیں پھر دل پر اثر انداز ہوتے ہیں پھر دماغ سے ہوتے ہوئے عقل کے ذریعہ زبان سے ظاہر ہوتے ہیں اور عرف عام میں اُسے گفتگو کہتے ہیں گفتگو اور بکواس دو انداز نظر ہیں انسان جو کچھ کہنا چاہتا ہے پہلے اُس کے بارے میں یہ جاننا اشد ضروری ہے کہ وہ کہنا کیا چاہتا ہے اور جو کہنا چاہ رہا ہے اُس سے اُس کا واسطہ کتنا اور کیسا ہے یہی وہ عمل ہے جس سے انسان ایک دوسرے کے قریب اور دور ہوتے ہیں جو انسان اپنے اندر نہیں دیکھ سکتا اُسے باہر جو نظر آئے گا وہ فریب نظر ہو گا … جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ گفتگو سے متاثر کر لیں گے وہ غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں گفتگو لہجوں اور رویوں کو متاثر کرتی ہے اور یہی ہر دو زندگی کا عظیم سرمایہ ہیں لہجے رویوں کو متاثر کرتے ہیں اور رویے گفتگو سے ظاہر ہوتے ہیں لہذا گفتگو نہایت احتیاط سے کرو منہ سے نکلا ہوا لفظ بیگانہ ہو جاتا ہے اور بیگانے کبھی دوست نہیں ہوتے میرا یہی پیغام گفتگو ہے۔
٭٭٭