فضول اور بے معنی باتیں، کج بحثی اور فالتو بحث، ذہنی قلابازیاں، کتابی باتیں اور ذاتی رائے، بے فہم اور بد فہم لوگوں کی بے تکی باتیں، دل کے، نفس اور نفسی دُکھ نے اسلام میں اعتماد کو پارہ پارہ کر دیا ہے، روایت پرستی اور مخول بازی، عجب سازی اور مذاق بازی، کہانی قصہ اور داستان گوئی نے مسلمانوں کو حقیقت سے دور کر دیا ہے جب ان سب کا حل لا الہ الا اللہ اور محمد الرسول، حساب آخرت اور کتاب مبین میں ہے تو پگڈنڈی پر چلنے کا کیا فائدہ جب صراط مستقیم اور پکا راستہ ہے۔ خدا ہر کسی کو سیدھا راستہ بتا رہا ہے تو غلط اور بے راہ ہونے والے کو کون سمجھائے جو خالق کی بات نہیں سمجھتا۔ جو ہدایت لینا نہیں چاہتا اُسے ہدایت دینے کی ضرورت فضول اور بے فائدہ ہے۔ ہدایت دینے والا تو ہر وقت انسان کے ساتھ ہے، ہدایت کا دروازہ اور رحمت والا در سب پر کھلا ہے کسی کی فکر اور سوچ پر کوئی پہرہ نہیں مگر نہ جانے لوگ کس جلدی میں ہیں ہر کوئی گناہوں کی پَنڈ (گٹھڑی) اٹھانے کے لئے پہل کر رہا ہے … صرف کھانے کے لئے زندہ رہنا زندگی کا مقصد نہیں زندگی کا مفہوم تو یہ ہے کہ انسان سوچے اُس نے اپنی خلقت سے حقیقت کی تصدیق کتنی کی ہے اور قدرت کے مہیا کردہ نظاروں سے لطافت کتنی کشید کی ہے، حسن ظن کو حسن یقین سے کیسے پایا ہے۔ زندگی خدا کی عطا بھی ہے اور قرض بھی اِسے واپس کرنا ہے لہذا اِس سے انصاف کرو دیانتداری سے اِسے واپس کرنا ہے اِس میں بددیانتی اور خیانت نہیں کرنی خدائی اصولوں کے مطابق بسر کرنی ہے … خواہشات کو جب بے لگام کر دیا جائے تو یہ ساری بحثیں اور ذہنی قلابازیاں ہوتی ہیں۔ شیطانی کمائی سے پیٹ بھر لینے سے بہتر ہے خدائی اصولوں کی پاسداری سے بھوکا رہا جائے کیا یہی سچی بات ہے۔
٭٭٭