جب تک انسان کے حواس سچے عبادت گزار نہیں ہو جاتے اُس وقت تک وہ خدا کی حقیقی معرفت کو پوری طرح نہیں پا سکتا۔ انسان کے حواس میں خالق کا نور ہوتا ہے اور اِس کی سوچ میں خواہشات ناجائز، ناجائز ضروریات، جنس پرستی، دولت پرستی، حیوانیت کا شیطانی فتور ہوتا ہے جب اِس کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے دل، زندہ تو ہوتا ہے مگر اُس میں زندگی نہیں ہوتی … خدا کا خوف دل کی زندگی ہے … جس وقت انسان آواز نفس سے گھبراتا ہے اور اُس کی بے صدا آواز نہیں سنتا … اُس وقت حواس عقیدہ اور عقیدت سے بغاوت کرتے ہیں … یہ رشتہ جب ٹوٹتا ہے تو انسان، انسان نہیں رہتا اور انسان جو کچھ کرتا ہے خود کو انسان بننے اور انسان بنانے کے لئے کرتا ہے۔ جب برائی کرتے وقت انسان یہ نہیں سوچتا کہ ایک دن عدل کا ہو گا اور اُس دن فیصلہ کرنے والا عادل میری اِس برائی پر خود گواہ ہو گا۔ وہ میری اِس برائی کو دیکھ رہا ہے جس سے چھپ کر کر رہا ہوں وہ اُس دن اپنے اعمال کا حساب دہ ہو گا … یہ حواس کی مردہ زنی ہے کہ انسان ہے مگر حواس کی زندگی مشکوک ہے … سانس چل رہا ہے مگر انسان بے زندگی ہے۔ خدا کی عظیم نعمت حواس ہیں۔ حواس ہی نظام زندگی کو چلا رہے ہیں یہی گناہ اور ثواب کا تصور پیش کرتے ہیں یہی جائز اور ناجائز کو محسوس کرتے ہیں یہی ظالم اور مظلوم کو دیکھتے ہیں یہی سچ اور جھوٹ کے فرق کو پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں یہی انسان اور حیوان میں خط امتیاز ہیں۔ حواس ہی عقل، ضمیر، دل اور نفس میں زندگی پیدا کرتے ہیں …! انسان کے اندر چلتا ہوا سانس زندگی کی علامت ہے اصل زندگی تو حواس کی زندگی ہے۔
حواس خمسہ میں سے ایک حواس بھی چھن جائے تو زندگی بے لطف ہو جاتی ہے حواس کا انصاف خدا کا انصاف ہے یہ وہ نعمت ہے جو زندگی کو لطافتوں سے بھر دیتی ہے مگر جو ان سے ناجائز، حرام کام لیتے ہیں وہ لوگ پریشان اور مصیبتوں میں ہمیشہ مبتلا رہتے ہیں۔
عبادت گزار حواس انسانی زندگی کے لئے بڑے راحت بخش ہوتے ہیں گندگی پسند، نجاست پرور انسان کو ذہنی قلبی اور جسمانی طور پر رسوا کر دیتے ہیں، بیمار رکھتے ہیں۔
اے انسان! کبھی تو نے سوچا ہے تیری آنکھ میں نور کی طرح جو رہتا ہے وہ کون ہے جو تجھے تیری ماں کے سینے سے سفید لباب تجھے مہیا کرتا ہے تیرے لئے دودھ دینے والے جانور پیدا کئے ہیں اُن میں تیری خوراک رکھ دی ہے، تیری ساری ضروریات زمین میں سے پیدا کی ہیں جس پر تو اکڑ کر چلتا ہے مرنے کے بعد جس میں تیرے بدبو دار جسم کو ایک معمولی سے کپڑے میں لپیٹ کر دفنا دیا جائے گا تو جسے کفن کہتا ہے کبھی اُس کی کیفیت کو جاننے کی کوشش کی ہے کبھی تو نے گلاب کے پھول پر غور کیا ہے اُس کی پتیوں کو مسل کر زمین پر پھینک دیتا ہے جس زمین سے وہ نکلی ہیں۔ کبھی اپنے حواس سے اِس پھول کے بارے میں پوچھا ہے جس کو آنکھ سے دیکھ کر خوش ہوتا ہے ہاتھوں سے توڑ کر اپنے پیاروں کی بستر عروسی کی زینت بناتا ہے۔ ان کی قبروں پر ڈال کر اپنے نفس کو اطمینان کا فریب دیتا ہے کہ تو اُن سے محبت کرتا ہے کبھی ناک کے قریب کر کے اپنی قوت شامہ کو زندگی کا احساس دلاتا ہے زبان کی زندگی کو ذائقوں سے مزین کرتا ہے خراماں خراماں ٹہل ٹہل کر اپنی جوانی کو نخوت اور غرور کے ہنر سے آگاہ کرتا ہے۔
اے انسان! کبھی تو نے سوچا ہے جب تم سے یہ چھین لئے جائیں گے بیشتر اِس کے اِن پر قابو رکھ … ایک وقت بے بسی کا ضرور انسان پر آئے گا یہ ہوں گے مگر بے فائدہ وقت انہیں اپنے وقت میں سے نکال چکا ہو گا، بے نور آنکھیں بے سوز سماعتیں، بے آواز زبان، مفلوج ہاتھ اور پاؤں، بستر مرگ اور عالم نزع، آخری سانس اور آخری ہچکی سارے وارث موجود اور عالم بے بسی بتا پھر یہ حواس کس کام کے … زندگی میں اِن سے انصاف کرو بوقت موت یہ آپ سے انصاف کریں گے در اصل اِن کی زندگی ہی انسان کی زندگی ہے ورنہ … ورنہ کچھ نہیں دھرتی پر چلتی پھرتی کفن پوش لاشوں کی طرح بھی کوئی زندگی ہے اِس سے بہتر تو حیوان زندگی بسر کرتا ہے جو صرف اور صرف انسان کو فائدہ دیتا ہے اُس کی خدمت کرتا ہے۔
اے انسان! تو انسانیت کی خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اگر انسانیت کو اطمینان نہیں تو تو انسان نہیں پس یہی حواس کا پیغام ہے۔ لذات حواس جب ختم ہو جاتی ہیں تو زندگی کی ساری لطافتیں ختم ہو جاتی ہیں مگر انسان عجیب ہے جینے کی تمنا اپنے من میں زندہ رکھتا ہے اِس طرح پھر بھی اِس کے ذہن میں احترام انسانیت کا خیال بہت کم آتا ہے حالانکہ وہ یقین (موت) کو دیکھ رہا ہوتا ہے مگر ختم شدہ حواس بھی اِس آرزو کو زندہ رکھے ہوئے ہیں کہ شاید وہ پھر صحت مند ہو کر اِن حواس سے لطف اندوز ہو گا۔
اے انسان! تیرے ذہن میں تیرے انجام کا منظرنامہ جب تک نہیں آئے گا اور تو اُسے یقین کا جام نہیں پلائے گا تیری زندگی میں اطمینان اور سکون نہیں آئے گا جب تک تو زندگی کی آخری حد نہیں دیکھ لے گا … تیرے سامنے انجام پذیر لوگوں کے نمونہ جات موجود ہیں کچھ چلتے پھرتے زندہ مردے اور کچھ زندہ مردے قبروں میں دفن جن کی آرام گاہوں پر چراغ جلتے ہیں اور لوگ اُن سے ملنے جاتے ہیں۔ خدا پرستوں کے مرقد پر ہجوم ہوتا ہے اور دولت پرستوں اور دنیا پرستوں کی قبروں پر نباتات اور حشرات کی حکمرانی ہوتی ہے۔
اے انسان! جب تک حواس زندہ ہیں ان سے انصاف کرو اور خدا کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہ کر اِن سے لطف اندوز ہو یہی قابل احترام زندگی ہے … انسانیت کا سارا حسن اِس میں ہے اور دنیا سے محبت کا لطف اِس میں ہے۔
٭٭٭