جو خود سے محبت نہیں کرتا وہ کسی سے محبت نہیں کرتا اُس کی خدا سے محبت بھی مشکوک ہے۔ محبت حرف مشترک ہے اور خدا بھی حرف مشترک ہے اِس لئے محبت خدا کا دوسرا نام ہے یا خدا کا دوسرا نام محبت ہے۔
یقین حرف مشترک ہے … موت حرف مشترک ہے اور اِسی کا دوسرا نام یقین ہے … ساری کائنات کا حرف مشترک اللہ ہے اور سلطان العظیم ہے اُس کا دوسرا کوئی نام نہیں اللہ صرف اللہ ہے اور یہ وہ حرف ہے جو کائنات کے ہر ذی نفس کے درمیان مشترک ہے اِس کا اقرار سب پر واجب ہے … لہذا لا الہ الا اللہ حرف مشترک ہے یہ دنیا کا مرکزی عقیدہ ہے۔
پورے سماج کی روح کا نام "نظام ٹریفک"ہے … یہ بنیادی حق کو تسلیم کرنے والا اصول ہے پیدل چلنے والے کو بھی راستہ دو … دوسرے کو بھی باری دو … دوسرے کا بھی خیال رکھو ون وے صرف اپنی مطلب برآوری، صرف اپنا خیال نظام قدرت میں خلل ڈالتا ہے۔ جو معاشرہ کمزور کو طاقتور بناتا ہے وہ زندہ رہتا ہے۔ نظام ٹریفک کا طرز عمل سارے معاشرہ کی عکاسی کرتا ہے کمزور کو طاقتور نہیں ہونا چاہئے بلکہ صرف اُسے طاقتور مقام چاہئے … یہ ایک دوسرے کے مفادات کا اصولی خیال رکھنے کا نام ہے۔ جو معاشرہ اخلاقی زوال کے خلاف جہاد نہیں کرتا وہ ہمیشہ زوال پذیر رہے گا۔
آتش فشاں کے دہانہ پر بیٹھی ہے ساری دنیا
نہ جانے کس وقت اعلان قیامت ہو جائے
قلبؔ
دہشت گردی مذہبی جنونیت کی ایک صنف ہے اور جاہل لوگ اِسے "جہاد"کہتے ہیں۔ اسلام جنگ و جدل والا مذہب نہیں یہ تو سلامتی کی پناہ گاہ ہے یہ تو مظلوم عوام کی آرام گاہ ہے۔ مذہب پرستوں کی شرارت بازی نے اِس کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ اِس کو خون سے نہلا دیا ہے۔ اِس کی حرمت کو پامال کر دیا ہے اِس کے آفاقی تصور کو داغدار بنا دیا ہے تلخ ورثے سے مسلمان نجات نہیں پا رہا اچھی زندگی کے لوازمات سے محروم ہو رہا ہے۔ احمقانہ خواہشات اور بے جا تعصبات اِسے کھائے جا رہے ہیں … غور و فکر کی نوید کوئی نہیں سن رہا، امن کے پیغام پر کوئی کان نہیں دھر رہا … ناخوشگوار ورثوں کو ترک کرنے سے باہمی ہم آہنگی پیدا ہو گی۔ مجنونانہ خواہشات نے انسانی سوچ کو کھا لیا ہے۔
صداقت، دیانت، امانت اور نیکی سب انسانوں کا مشترکہ ورثہ ہے آؤ اِس پر اکٹھے ہو جائیں توہین آمیز لہجوں سے اجتناب کیا جائے۔ مذہب کے نام پر تشدد کی اجازت کوئی مذہب نہیں دیتا اور ہر مذہب انسانیت کی فلاح کے لئے ہے۔ مذہب کے نام پر دنگا فساد اور تشدد کی اجازت کوئی مذہب نہیں دیتا تلخ یادوں کی اسیری سے نکلو۔ اے مذہب پرستو!دنیا چاند پر چلی گئی ہے فاصلے سمٹ گئے ہیں آوازوں پر قابو پا لیا گیا ہے … تدریسی اور درسی نظاموں سے خود کو واگزار کراؤ پر امن مستقبل کی طرف قدم بڑھاؤ، شائستہ اور مثبت کردار کی اشد ضرورت ہے۔
پھر میں نقطہ آغاز پر آتا ہوں نظام ٹریفک اور نظام صفائی معاشرہ کا حسن اور انسان میں پائی جانے والی انسانیت کا دوسرا نام ہے۔
آؤ مل کر سوچیں ہم نے اِس میں اپنا کون سا اور کتنا حصہ ڈالا ہے ہمارا کردار کیسا ہے کیا ہم بھی اِس بُرائی کا حصہ ہیں جو جواب موصول ہو وہی نتیجہ ہے۔
٭٭٭