کائنات اتنی وسیع ہے کہ جہاں جہاں اِس کا خالق ہے وہاں وہاں تک اِس کا وجود ہے یہ موجود کی حد کا نام ہے۔ اِس میں ایک کُرہ کا نام ارض ہے اور اِس ارض کا نام دنیا ہے۔
دنیا اتنی وسیع ہے جس کے بارے میں انسان صرف اتنا جانتا ہے کہ یہ ذی انفاس کے رہنے کی ایک محدود جگہ ہے جہاں کروڑ ہا اقسام کے ذی انفاس موجود ہیں جو دنیا میں بسنے والے ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔
دنیا میں بسنے والے کو عرف عام میں آدمی کا نام دیا گیا ہے اور اِس قبیلہ کا نام بنی آدم ہے کیونکہ عام طور پر اِسے آدم کی اولاد کہتے ہیں۔ ایک فرد کے حوالہ سے اِس کا تعارف کرایا جائے تو اِسے شخص کہتے ہیں لا تعداد اشخاص کو جمع کیا جائے تو انہیں لوگ کہتے ہیں۔ لوگ وہ ہوتے ہیں جو رہنے سہنے کے بارے میں پوری طرح نہیں جانتے کبھی حیوانوں کی طرح کبھی جانوروں کی طرح کبھی حشرات کی طرح رہتے ہیں۔ مگر کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ اُن کی پیدائش کا سبب ایک خالق ہے اور وہ خالق واحدہ، لا شریک ہے اُس کے سوا کوئی اور نہ پیدا کرنے والا ہے اور نہ ہی فنا کرنے والا ہے۔ وہ ہر شئے پر قدرت رکھتا ہے اور ایک شئے کو فنا کر کے اُس کی جگہ ویسی ہی دوسری شئے پیدا کرتا ہے۔ ایک بیج میں سے کئی بیج پیدا کرتا ہے اور ہر بیج میں سے ایک درخت پیدا کر کے اپنی قدرت کا مظاہرہ کرتا ہے ایسے سوچنے والے لوگوں کو اُس کی لغت میں انسان کہتے ہیں۔
انسان وہ ہوتا ہے جو قدرت کے ہر نظارہ میں سے اپنی قوت بصارت سے علم حاصل کرتا ہے اُس علم کا نام انسانیت ہے، انسانیت یہ ہے کہ انسان اپنے علم کے ذریعہ سے خدا کی پہچان کرے کیونکہ علم کا دوسرا نام خدا ہے۔ انسان کو عقل سلیم دی اور قلب صادق دیا ہے جس سے وہ اپنے اندر پائے جانے والے علم کو باہر نکالتا ہے اور اپنے تمام اعمال کو انسانیت کے دائرہ میں رہ کر سر انجام دیتا ہے۔
انسان وہ ہوتا ہے جس میں انسانیت ہے یہ جاننا ضروری ہے کہ انسان پہلے انسان بنتا ہے تو انسانیت آتی ہے یا پہلے انسانیت آتی ہے تو انسان بنتا ہے یہ اُس وقت معلوم ہو گا جب انسان کو اندر والے علم سے آگاہی ہو گی۔
علم الٰہیہ کو پانے کے لئے انسان کی اپنی ذات سے آگاہی ضروری ہے، انسان کو یہ معلوم ہو کہ کون سے کام ہیں جو انسان کے کرنے والے ہیں اور کون سے وہ کام ہیں جو اِس کے کرنے والے نہیں ہیں یہ اُس وقت معلوم ہو گا جب انسان کے اندر والا انسان زندہ ہو گا اُس کی زندگی کے لئے اُسے ذات کی معرفت اور اُس ذات کی معرفت ہونی چاہئے جس نے دنیا جہاں اور اُس کی ضروریات کو زمین سے کیسے پیدا کیا اور انسان کے لئے کون کون سی نعمت اُسے مہیا کیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ اِس کی پیدائش ایک ناپاک جرثومے سے کی جس جرثومے کے ملاپ کے وقت انسان کے اندر بے بدل لذت کو رکھ دیا اور اِس ودیعت کو پیدائش کے لئے ضروری قرار دیا۔ ہر ذی نفس کو یہ شعور دیا کہ اُسے اپنی نوع کی افزائش کے لئے کیا اور کیسے کرنا ہے اِس سے بڑی اور کون سی قدرت ہے کہ بغیر کسی کے بتانے کے ہر ذی نفس اپنی جنس سے محبت کا اِس طرح اظہار کرتا ہے کہ اُس کی نوع کی افزائش ہوتی ہے۔ ہر نفس میں اُس کی حیثیت کے مطابق یہ ودیعت ہے کہ اُسے اپنے دائرہ حیات سے باہر نہیں نکلنا۔
جب انسان، انسان بنتا ہے تو اُس کے اندر انسانیت بیدار ہوتی ہے۔ انسانیت کی انسان جتنی جتنی حفاظت کرتا جائے گا وہ فکری بلندیوں کی طرف چلتا جائے گا۔ فطرت کے ہر نظارہ سے وہ ایک نیا علم حاصل کرے گا جیسا جیسا وہ فطرت کے مطالعہ میں اترتا جائے گا وہ اپنے خالق سے قریب ہوتا جائے گا اور جیسا ہی وہ خالق کی معرفت سے آگاہ ہو گا وہ خدا کا بندہ بنتا جائے گا اور پھر ایسا بندہ بننے کے بعد اُس پر بے نیازی کا غلبہ ہو جائے گا یہ غلبہ اُس کے شعور اور احساس کو ہمیشہ زندہ رکھے گا اور اِس کی زندگی یہ ہے کہ وہ انسانی نفس کو قابو میں رکھے گا نفس کو قابو رکھنے کے لئے اُس کے دل میں خوف خدا اور ضمیر میں زندگی رہے گی یہی وہ اجزائے ترکیبی ہیں جو انسانیت کی زندگی کی بقاء ہیں۔ جب تک انسانیت زندہ ہے انسان کو کوئی ڈر اور خوف نہیں نہ ہی باطن سے اور نہ ہی ظاہر میں۔ انسان اُس وقت خوف میں مبتلا ہوتا ہے جب وہ انسانیت کے خلاف محاذ آرائی اختیار کرتا ہے۔
انسان جب بندہ بنتا ہے تو پھر اُس کی ذمہ داری میں یہ شامل ہے کہ وہ انسانیت کی حفاظت کرے۔ انسانیت در اصل فطرت کی کامیابی کا ایک معیار ہے جہاں فطرت یہ چاہتی ہے کہ انسان کو خدا کو ایسے ماننا چاہئے جیسے خدا ہے اور جیسے خدا چاہتا ہے۔ جب انسان اِس منزل پر پہنچ جاتا ہے تو یہ بندگی انسان کو بندہ بنا دیتی ہے۔ خدا اُس بندہ کو اپنا بندہ بنا لیتا ہے خدا کے اپنے بندہ میں خدا خود نظر آتا ہے جو انسانیت کی بقاء کے لئے اپنی جان و مال ناموس ہر شئے قربان کر دیتا ہے تو پھر اُس سے پوچھتا ہے بتا اب تیری رضا کیا ہے تو خدا کا بندہ پھر کہتا ہے جو تیری رضا ہے وہی میری رضا ہے یہ ہے انسانیت کی معراج … اِسی کو اقبالؒ نے خودی کہا ہے۔
اُن لوگوں کو انسانیت کی کیسے سمجھ آئے گی جو لوگ پیدا ہوئے ہیں اور لوگ ہی مر گئے ہیں، کھایا پیا گوبر اور پیشاب سے فراغت پائی زبان سے فضولیات اور سماعتوں میں واہیات صداؤں کو جمع کیا کبھی نہ اپنی تخلیق پر غور کیا نہ ہی کبھی موت پر غور کیا انہیں کیا معلوم ہو گا زندگی کا مقصد کیا ہے۔ جن کو اپنی زندگی کا مقصد معلوم نہیں انہیں کیسے معلوم ہو گا انسانیت کیا ہے اور جن کو یہ معلوم نہ ہو انسانیت کیا ہے وہ انسان کیسے بنیں گے اور جو انسان نہیں بنتا وہ بندہ کیسے بنے گا اور جو بندہ نہیں بنے گا وہ اللہ کا بندہ کیسے ہو گا اور جو اللہ کا بندہ نہیں وہ اللہ کے روبرو لوگوں کی شفاعت کی التجا کیسے کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کی جنت تو اُن کے لئے ہے جو اللہ کا حکم مانتے ہیں، عمل کرتے ہیں، انسانیت کی حفاظت کرتے ہیں، انسانوں میں محبت بانٹتے ہیں اُن کا خیال رکھتے ہیں اُن کی خدمت کرتے ہیں در اصل یہی وہ مخلوق ہے جن سے خدا محبت کرتا ہے۔
وہ انسان عظیم ہے جو انسانیت کے لئے ہر وقت، ہر جگہ قربانی کے لئے تیار ہے۔ انسان کی زندگی کا بہترین مقصد انسانیت کی حفاظت ہے۔ جس معاشرہ میں انسانیت بے آبرو ہے اُس معاشرہ پر خدا کا عذاب نازل ہوتا ہے وہ زلزلہ ہو، سیلاب ہو، طوفان باد و باراں ہو دہشت گردی ہو، فرقہ واریت ہو وہ انسانوں کا معاشرہ نہیں ہوتا اور اُس میں انسانیت پرورش نہیں پاتی وہاں شیطان کی حکمرانی ہوتی ہے۔
ہر انسان یہ جانتا ہے کہ انسانیت کیا ہے مگر وہ انسانیت کا احترام اور حفاظت کرنا نہیں جانتا اتنا خود غرض ہے کہ وہ اپنے مفاد اور لالچ سے باہر نہیں نکلتا وہ اپنے فائدہ کے اندر موت قبول کر لیتا ہے مگر یہ ہر گز نہیں سوچتا کہ اُس کے اندر والی انسانیت مر جائے گی، اُس کا باطن بکھر جائے گا ٹوٹ جائے گا، اُس کے اندر والی قوتوں میں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ چھڑ جائے گی مگر وہ اپنے بے قابو نفس پر قابو نہیں پا سکتا اُس وقت انسانیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ جو انسان انسانیت سے محروم ہو جائے اُس کی دولت، عبادت، سخاوت سب فضول ہیں۔ اُس کی بے نما عاجزی، فریب زدہ انکساری، بے ریا سجدہ، بے مقصد محفلیں اُسے کوئی فائدہ نہیں دیں گی۔
انسان کی بہترین ذمہ داری اُس کے اندر اور باہر پائی جانے والی انسانیت کی حفاظت ہے اُس کے لئے دولت اور عبادت اتنی ضروری نہیں جتنا اُس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پائے اور خود کو یوم حساب کے لئے پورے کورس کو یاد کرے کہ امتحان تو کورس میں سے ہو گا۔ جس نے انسانیت والا سبق یاد نہ کیا نہ وہ انسان ہے اور نہ ہی اُسے امتحان میں کوئی رعایت دی جائے گی۔
امتحان صرف انسان کا ہوتا ہے اور اُس انسان کا سخت امتحان ہوتا ہے جو انسانیت کی حفاظت پر مامور ہے۔ ہر سانس میں انسانیت کی زندگی ہے انسان صرف یہ سمجھتا ہے کہ دنیا میں بڑا نام بڑا انسان ہونے کا ثبوت ہے یہ ہر گز نہیں سوچتا کہ جس میں انسانیت ہے وہ بڑا انسان ہے۔
لوگ اپنے نفس کو فریب دیتے ہیں مگر انسان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ فریب نفسی میں مبتلا ہو کیونکہ اُس کے ذمہ انسانیت کی حفاظت ہے لہذا انسان وہ ہے جس میں انسانیت ہے اور انسانیت یہ کہ خدا کے حکم کی با عمل پابندی کی جائے خواہ حالات اور وقت کیسا ہو خدا سے ہر گز شکوہ نہ کیا جائے جس حالت میں وہ رکھے خوش رہو مگر تمہارے ذمہ جو کام ہے وہ دیانت داری سے کرو یہ نہ ہو کہ آپ دانستہ ملاوٹ شدہ مال فروخت کر کے بھاگ کر اُس کے روبرو صراط مستقیم پر رہنے کی دعا کریں اور کہیں کہ میں نمازی ہوں، میں حج کر کے آیا ہوں، میں با وضو رہتا ہوں، میں تہجد گزار ہوں اِس کا انسانیت سے کوئی تعلق نہیں یہ انسان ہونے کا ثبوت نہیں انسانیت کا ثبوت یہ ہے کہ آپ کا نفس اور ضمیر دیانت دار ہو آپ تنہائی اور میلہ میں ایک جیسی انسانیت والی زندگی بسر کریں آپ جب خدا کو یاد کریں تو آپ کو اِس کا نہ صرف جواب ملے بلکہ صلہ نظر آئے۔
انسانیت تو اعلیٰ فکر کی معراج ہے، انسانیت تو آخرت والی کامیاب زندگی کی ضمانت ہے، جس معاشرہ سے انسانیت ختم ہو جائے وہاں برائی اور بدی کی حکمرانی ہو جاتی ہے، وہاں اقتدار اُن لوگوں کے ہاتھوں میں آ جاتا ہے جنہیں انسان کہنا فطری گناہ ہے، وہاں جھوٹ کی حکمرانی ہو جاتی ہے، وہاں لوگ موت کو بھول جاتے ہیں، وہاں انصاف سرنگوں ہو جاتا ہے پھر ایسے لوگ جہنم جیسی زندگی بسر کرتے ہیں اور سمجھتے ایسے ہیں جیسے وہ جنت میں رہ رہے ہیں۔ جنت جیسی زندگی وہ ہے جس میں اطمینان ہے اور اطمینان صرف اور صرف دیانتدارانہ زندگی میں ہے یہ انسانیت کا نسخہ حیات ہے۔
بتاؤ! کیا یہ درست ہے کہ انسان وہ ہے جس میں انسانیت ہے باقی سارے لوگ جہنم کا ایندھن ہیں۔
٭٭٭