خوف اور جھوٹ انسان کے باطن کو کھا جاتے ہیں ضمیر کو مار دیتے ہیں دل کو بیمار کر دیتے ہیں۔ خوف اور جھوٹ انسان کو اندر سے کمزور کر دیتے ہیں اُس کی فکر میں غلاظت بھر دیتے ہیں، مفاد، خود غرضی، شہرت اور اقتدار کے لئے کسی اصول اور قاعدہ کا احترام انسان لازمی نہیں سمجھتا، جب خدا کو ناراض کرنے کا کوئی موقعہ ضائع نہیں کرتا اور دوسرے کا نقصان کرتے وقت چونکتا نہیں، جب اپنی اخلاقی کمزوری کو محسوس نہیں کرتا بلکہ اندر سے اپنے اِس فعل کو داد دیتا ہے کہ جو کچھ تم کر رہے ہو یہی درست ہے اور صرف تم ٹھیک ہو باقی تمہارے ارد گرد سب لوگ غلط ہیں اپنے خوف اور ڈر کو دلیری اور بہادری کا درجہ دیتا ہے اور اپنے جھوٹ کو سچ سمجھ کر بولتا ہے ایسا شخص در اصل اندر سے صحت مند نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنے روزمرہ کے رویوں اور فضول کار کردگی کی وجہ سے اپنے ذہن پر زیادہ بوجھ ڈالتا ہے اور اپنے مطلوبہ ہدف کے لئے اپنی نیند اور اپنے آرام کا خیال نہیں رکھتا۔ اپنی نیند میں اپنی کار کردگی میں تیزی رکھتا ہے اپنے نہایت اہم اعضاء کا ضرورت سے زیادہ استعمال کرتا ہے اپنے دل اور دماغ پر خواہشات اور تکمیل آرزو کا انتہائی بوجھ رکھتا ہے ایسے لوگ صرف عروج پر یقین رکھتے ہیں اور جب زوال آتا ہے تو جذبات اور جذبوں سے ہوا نکل جاتی ہے پھر شوگر سازی اور فشارِ خون جیسی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں جو ساری بیماریوں کی ماں ہے یہ زیادہ تر فطرت کے خلاف جنگ لڑنے والے پر حملہ کرتی ہیں خدا سے مضبوط رابطہ بناؤ خوف اور جھوٹ سے نجات پاؤ۔
موت کو سانسوں میں جو زندہ رکھتا ہے وہ جھوٹ اور خوف والے پیشہ سے دور رہتا ہے۔ دانستہ جھوٹ روح کی مہلک بیماری ہے خدا کا خوف روح کے لئے اکسیر اور دل کی صحت کے لئے نسخہ کیمیا ہے کم گوئی، خوش گوئی، نفیس گوئی اور نرم گوئی انسانی نفس میں لطافت پیدا کرتی ہے غرور نفس کو کمزور کرتی ہے اعتدال اور میانہ روی میں رکھتی ہے اور یہ اُس وقت ہوتا ہے جب انسان کو یہ یقین ہوتا ہے کہ میں نے ایک دن اپنی کار کردگی کا جواب دہ ہونا ہے اور مجھے وہی صلہ ملے گا جو میں نے کیا ہے مگر جھوٹے اور خوف زدہ شخص سے انصاف کی توقع نہیں رکھنی چاہئے وہ وقت کو دھکا دے کر اپنا مطلب نکالتا ہے۔
جو اپنے خوف کو طاقت سے دباتا ہے اور جھوٹ کو طاقت سے منواتا ہے وہ تھوڑی دیر بام عروج پر ٹھہرتا ہے اُس کو بہت جلد زوال آ جاتا ہے مگر اُس کے ذہن میں سدا بادشاہی کا زعم ہوتا ہے۔ جب ایک قدم آگے بڑھاؤ تو ایک نظر اٹھے ہوئے قدم کے نشان پر ضرور ڈالو وہی آپ کی کار کردگی کی گواہی دے گا۔ اگر غلط راہ پر مسلسل چلتے جاؤ گے تو ایک دن ضرور زوال اور ناکامی کے گڑھے میں دفن ہو جاؤ گے۔ اپنے اچھے عمل کو سنبھال کر رکھو اور ہر عمل سے پہلے رد عمل کو نظر میں رکھو تو غیب سے تمہاری روح کی مدد آئے گی اور اُس نظر نہ آنے والی مدد کا نام نظر کرم اور رحمت خداوندی ہے۔
اے انسان! جھوٹ اور خوف سے جتنی پرہیز کرو گے اتنے صحت مند رہو گے میرا تو یہی ایمان ہے نہ جانے آپ کا ایمان کیا کہتا ہے۔ فقط تمہاری ذات سے پوچھا جائے گا تمہارے اعمال کی، مال کی نہ کوئی پڑتال ہو گی نہ تم سے کوئی سوال پوچھا جائے گا نہ تم سے کوئی جواب مانگا جائے گا نہ کوئی رعایت ہو گی نہ سفارش چلے گی نہ رشوت کا امکان ہو گا وہ ایسا امتحان ہو گا۔
اے لوگو! یہ دنیا کا میلہ بڑا سرسری ہے جہاں ہم خالق کو بھولے ہوئے ہیں جہاں ہم دانستہ اُسے ناراض کر کے ناخداؤں کو خوش کرتے ہیں اُس کے اصولوں کو پامال کرتے ہیں اُن کا مذاق اڑاتے ہیں آؤ مل کر سوچیں ہماری حیثیت کیا ہے کون نہیں جانتا انسان فقط پانی کا ایک بلبلا ہے فقط اک سانس کی مار ہے فقط اِس کی زندگی سانس کے زندان میں اک لمحہ ہے فقط موت کی اِسے انتظار ہے فقط ایک قطرہ کی یہ پیداوار ہے۔ نہ جانے زمین پر اکڑ کر چلتا کیوں ہے نہ جانے نفس میں غرور کو کیوں پالتا ہے جبکہ اِس کی میت کو زمین میں دبایا جائے گا اِس کے بدن کی بو نہیں آئے گی اِسے منوں مٹی کے نیچے ٹھہرایا جائے گا۔
جب اٹھاؤ میرا جنازہ جب لے جاؤ مجھے منزل انجام پر پھر میری اِس وصیت کو پڑھنا ضرور پھر اِس عمل کو اپنے اندر دہرانا ضرور کیا آپ کا بھی اِس وصیت پہ ایمان ہے کیا آپ کا بھی یہی مقام ہے انجام ہے۔
یہ سارا سچ اور حقیقت ہے لوگو! کتاب حقیقت کا برہان ہے کتاب مبین کا یہ فرمان ہے، کتاب فطرت کا یہ ایقان ہے یہ بھگوان کا سارا نظام ہے کوئی اِس سے انحراف کرے کیوں یہ مقام یقین ہے یہ موت کا در اصل نام ہے یہ میری وصیت کا پیغام ہے۔
٭٭٭