انسان اپنی ذات کے بارے میں سب سے زیادہ جانتا ہے، اِس سے زیادہ خدا جانتا ہے مگر ہر شخص اپنی ذات کا قیدی ہے اور ذات کے زندان میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ ہوش مندی سے دور اغراض و مطالب کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے، اپنی روح کو حبس بیجا میں رکھے ہوئے ہے، اپنی ذات پر خود ظلم ڈھا رہا ہے خود کو اذیت والی زندگی سے نجات دلانے کے لئے جد و جہد نہیں کرتا وہ فطرت کے نظاروں اور کھلی ہوا سے ڈرتا ہے ،حقیقت اور یقین سے محبت نہیں کرتا نظر میں موجود خدا کے نور سے خدا کی مخلوق کو نہیں دیکھتا سب سے زیادہ کلیات مطالب سے آگاہ ہے۔
ذات کی زندان میں قید شخص اپنی روح کو اذیت دیتا ہے بڑی سی دنیا میں اپنی فائدہ والی چھوٹی سی دنیا بسا لیتا ہے اور روزمرہ ایسے بسر کرتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے وہ زندگی کے مقصد سے بے خبر ہے روز و شب اپنے نفس کی پرستش کرتا ہے لوگوں کو باور کرانا چاہتا ہے کہ وہ بہت کچھ ہے مگر ظاہر کرنے سے قاصر ہے کیونکہ وہ اپنی ذات سے باہر سوچ نہیں سکتا وہ لا علمی کو جاننے کا نام دیتا ہے۔
ذات کے زندان میں عیش و عشرت والی زندگی پر اطمینان کا اظہار کرتا ہے اور خود فریبی والے رویوں کو وطیرہ بنا لیتا ہے یہ جان کر کہ دوسرے اِس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اِس حد تک چلا جاتا ہے کہ عدم کو جاننے والا بھی بے خبر ہے انسان کیا کر رہا ہے بس یہی ذات کا فریب ہے۔
جس انسان کی ذات معاشرہ کو کچھ نہیں دے گی تو جو کچھ وہ معاشرہ سے حاصل کرے گا وہ ناقص ہو گا وہ انسان کے اطمینان کے لئے ناکافی ہو گا جو ذات سے باہر سوچے گا، کرے گا اُس کا خدا اجر دے گا۔ ذات کا زندان کتنا بھی خوبصورت ہو پُر راحت اور پُر مسرت نہیں ہو سکتا جب تک اُس میں سے خدا کے حکم کی تکمیل کی خوشبو نہ آئے، جب تک حقوق اللہ اور حقوق العباد کے فرائض کی ادائیگی کی تصدیق نہ ہو انسان اُس زندان میں عذاب زدہ اور اذیت ناک لمحے گزارے گا اپنے نفس کو قید سے کبھی آزاد نہیں کروا سکتا اپنے ضمیر سے بوجھ نہیں اتار سکتا اپنے دل کو خوش نہیں کر سکتا جب تک اُس کے اعمال اُس کی بہترین کار کردگی کی تصدیق نہیں کرتے۔ انسان اپنی زندگی کی داستان خود لکھتا ہے حالانکہ جو وہ سوچتا ہے اور خواہش رکھتا ہے وہ پورا نہیں ہوتا سب کچھ ہونے کے باوجود ادھورا رہتا ہے۔
ذات کے زندان سے جب تک انسان رہائی نہیں پاتا کھلی فضا میں پرواز نہیں کرتا، فطرت کے نغمات سے لطف اندوز نہیں ہوتا، معرفت کی گیرائیوں سے آگاہ نہیں ہوتا جہنم جیسی زندگی دنیا میں بسر کرتا رہے گا۔
انسان کی ذات سے ہر ذی نفس کو امن کا پیغام ملنا چاہئے انہیں امان کا یقین ہو۔ انسان وہی بہترین ہے جس کی ذات سے معاشرہ میں امن و امان ہو اور اُس کے چہرے پر مسکراہٹیں۔ سارے لوگ اپنی زندگی خوشگوار گزارنے کی تمنا رکھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں مگر دوسرے کی ذات میں اپنا حصہ ڈالنا گوارا نہیں کرتے۔ جب اپنی ذات کے زندان سے باہر نکلیں گے اور کسی دوسرے کی ذات میں داخل ہوں گے تو زندگی کی مشکلات اور مصیبتوں کا احساس ہو گا، اپنا پیٹ بھرا ہوا ہو تو دوسرے کا خالی نظر نہیں آتا، اپنی آنکھ کی بھوک نہ مٹے تو دوسرے کی آنکھیں نکالنے کو جی چاہتا ہے، دوسرے کا پیٹ چاک کر کے اپنا پیٹ بھرو گے تو آپ کو ذات کے زندان سے رہائی نہیں ملے گی۔
٭٭٭