جن کے اندر فوتیدگی ہو اُن کے باہر زندگی نہیں ہوتی۔ انسان اپنی زندگی کا خود قاتل ہے جو گدائی والا ہاتھ ہر وقت اور ہر کسی کے سامنے پھیلائے رکھتا ہے، بے غیرتی جس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیتی ہے اُس کے بے جا سوال میں شرم ختم ہو جاتی ہے وہ ہاتھ پھیلاتے وقت یہ ہر گز نہیں سوچتا کہ سامنے کون ہے ،اِس کے سامنے ہاتھ پھیلانا بنتا بھی ہے کہ نہیں، یہ کمزور اور بجھے ہوئے حوصلوں کو تسلی بھی نہیں دے سکتے۔ جن کے اندر میت زدہ ہیں وہ ہاتھ اور پاؤں کی موجودگی میں معذور ہیں … شرم اور ندامت اپنے ضمیر پر بے اثر ہے ،وہ سانس کو زندگی سمجھتے ہیں کام کو زندگی سمجھنا اُن کے ایمان میں نہیں ،جو مانگ کر کھاتے ہیں وہی کھا کر مانگتے ہیں اور اِس کو زندگی سمجھتے ہیں۔
جو محنت کو عیب اور کام کو اپنے نفس کی توہین سمجھتے ہیں اُن کے پاس خدا کے رُو برُو حساب دینے کے لئے کچھ نہیں ہو گا وہ دنیا میں انا پرستی اور غرور نفس کی پوجا پرستی کو اپنی ٹھاٹ باٹھ کا نام دیتے ہیں وہ ہر وقت بُرائی کی تلاش میں رہتے اور بُرائی ہر وقت انہیں ڈھونڈتی ہے ایسے لوگ جب آنکھ اُوپر اٹھا کر بات کرتے ہیں تو شیطان انہیں داد دیتا ہے رحمت والے فرشتے درگزر کر کے منہ پھیر لیتے ہیں کہ یہ خدا کی درگاہ کا راندہ ہوا بے نفس آدمی ہے ایسے شخص کو زمانہ کی پرواہ نہیں ہوتی وہ زمانہ کا منہ چڑاتا ہے مگر اُسے اِس بات کا یقین ہوتا ہے کہ زمانہ کسی کو معاف نہیں کرتا پھر ایک وقت آتا ہے وہ اندر اور باہر سے مر جاتا ہے بے نفس آدمی آواز نفس نہیں سنتا۔
٭٭٭