حقیقت رزق کیا ہے انسان صرف یہ سمجھتا ہے کہ جو اِس کی جسمانی ضروریات پوری کرتا ہے وہی رزق ہے نہیں وہ بھی رزق ہے جو ہماری فکر کی نشو و نما کرتا ہے جو ہمارے یقین پر حاوی ہے ہمارا یہ یقین ہو کہ جو رزق انسان کو میسر ہے اُس میں اُس کی محنت شامل ہے اُس پر انسان کا حق ہے وہ انسان کی جد و جہد کا ثمر ہے۔
انسان یہ سوچتا ہے کہ صرف ضروریات کا پورا ہونا رزق کی حیثیت ہے رزق وہ بھی ہے جو ہمارے رویوں پر اثر انداز ہو ہماری اخلاقیات کو پروان چڑھائے ہماری سوچوں پر اثر انداز ہو ہمیں اپنے خالق کی طرف راغب کرے انسان سوچے کہ اُس کی زندگی پر اِس کے اثرات کیا ہوں گے معاشرہ میں رزق کی وجہ سے اِس کا مقام کیا ہو گا اِس کی شخصیت پر کیا اثرات ہوں گے صرف کھانا اور پہناوا رزق نہیں یہ تو ضروریات ہیں انسان بننے کے لئے جن لوازمات کا ہونا ضروری ہے وہ اصل رزق ہے جس سے انسانیت پروان چڑھے معاشرہ میں امن و امان ہو۔
جھوٹ روح کا رزق نہیں سچ روح کا رزق ہے۔ حلال کمائی والا رزق حلال رزق ہے جب وہ جسم میں داخل ہوتا ہے تو انسان کو اطمینان اور سکون ہو جاتا ہے جو شئے آپ کی روح اور ضمیر پر بوجھ ہو وہ حقیقی رزق نہیں وہ آپ کی مرضی اور خواہش ہے۔ مرضی اور خواہش کی وجہ سے انسان پریشان ہے جب انسان خدا کو ناراض کر کے اپنی روح کو اذیت دیتا ہے اپنے جسم کو مصیبت میں مبتلا کرتا ہے پھر اُسے کوئی رزق فائدہ نہیں دے گا۔
رزق کا معیار ہی در اصل زمانہ کی زینت ہے یہ ہماری سوچوں پر اثر انداز ہوتا ہے خدا کا ذکر وہ رزق ہے جو ہماری روح اور ہمارے جسم میں انقلاب پیدا کرتا ہے اگر بے اثر ہے تو انسان کے ذکر اور فکر میں کمی ہے یہ وہ حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
رزق اِسی طرح حقیقت ہے جیسے زندگی حقیقت ہے بلکہ حقیقی موت ہے۔ رزق دو طرح کے ہیں حلال اور حرام اور اِس طرح دو ہیں۔ ایک روحانی اور ایک جسمانی …! دو اِس طرح ایک ہماری خواہش میں ہے ایک ہماری انتظار میں …!
روحانی رزق کا نام علم ہے اور جسمانی رزق کا نام ضروریات زندگی …! ایک کی تلاش میں ہم نکلتے ہیں ایک ہماری انتظار کرتا ہے۔
روحانی رزق علم کے لئے شعور، عقل، فہم و ادراک، غور و فکر اخلاقیات انسانیت، روحانیت، سچ، انصاف اور دیانت کا ہونا ضروری ہے۔
جسمانی رزق کے لئے وہ تمام اشیاء خورد و نوش ہیں جو انسانی وجود کی نشو و نما اور ضروریات کو پورا کریں انسان کی صحت اور کام کرنے کی صلاحیت کو قائم رکھیں۔ رزق انسان کی جسمانی توانائی کے لئے لازم ہیں اور انسان کی جسمانی طاقت کو قائم رکھیں یہ دونوں رازق کی نعمتیں ہیں۔
روحانی اور جسمانی رزق کے لئے یہ بات نہایت اہم ہے کہ حلال اور حرام کے معیار کا خیال رکھا جائے۔
روحانی رزق کے لئے سب سے پہلے سچ اور دیانت کا ہونا ضروری ہے اور جسمانی رزق کے لئے حلال رزق ہو اور حلال کمائی سے حاصل کیا گیا ہو صرف پیٹ بھرنا مقصود نہیں اِس بات کا باور کرنا ضروری ہے کہ اُس کی حقیقت اور حیثیت کیسی ہے انسان نے کمایا کیسے ہے اُس کا خرچ کیسے کر رہا ہے اور اُس کے تقاضے کیا ہیں کیا وہ اُس کے عقیدہ کو تو مسخ نہیں کر رہا کیا اُس کی روح اور ضمیر پر بوجھ تو نہیں۔
روحانی رزق کی حقیقت یہ ہے کہ جو وہ سوچ رہا ہے کیا اُس کے خیال میں اُس کے ضمیر اور نفس اجازت دیتے ہیں کیا جو وہ سن رہا ہے اُس کی روح آسودگی میں ہے۔ کیا جو وہ دیکھ رہا ہے وہ اُسے کوئی ایسا پیغام دے رہی ہے کہ وہ اپنے خالق کی طرف متوجہ ہو اور اُس کا شکر بجا لائے کہ اُس نے اُسے زندہ حواس عطا کئے ہیں اور پھر عقل سلیم اور قلب صادق دیئے ہیں۔
جسمانی رزق کے لئے خالق نے اُسے کام کرنے کے لئے ہاتھ اور چلنے پھرنے کے لئے پاؤں اور صحت دی ہے، کھانے کے لئے ضروریات اور ذائقہ دیا ہے، بھوک اور پیاس کا احساس دیا ہے۔
حقیقت رزق کی معرفت کو جاننے کے لئے انسان کے پاس زندہ شعور کا ہونا اشد ضروری ہے ورنہ جو بھی وہ کام کرے گا خواہ روحانی ہو یا جسمانی وہ اُسے اطمینان والی دولت سے محروم رکھے گا۔ انسان اپنے روزمرہ کے معمولات پر نظر رکھے گا تو وہ اِس دولت سے مستفید ہو گا۔
حقیقت رزق کی معرفت کو پانے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اِن تین طبقات میں سے کون دیانتدار ہے جو یہ دعویٰ کرے کہ جو رزق روحانی اور جسمانی اُسے میسر ہے وہ حقیقی ہے یہ تین طبقات پیدا کنندہ، فروخت کنندہ، خرید کنندہ کی کیا حیثیت ہے۔ پیدا کرنے والا اُسے خالص اور حقیقی شکل میں ایک فروخت کنندہ کو مال دے دیتا ہے جسے عرف عام میں دکاندار کہتے ہیں اور وہ اُس میں ملاوٹ کر کے مہنگے داموں ضرورت مند کو فروخت کر دیتا ہے اور خرید کنندہ منشیات فروش ہے وہ اُسے خرید لیتا ہے پھر تینوں ایک ہی مسجد میں با جماعت نماز ادا کرتے ہیں۔ ایک ہی نبیؐ کا کلمہ پڑھتے ہیں کلام اللہ کی تلاوت کرتے ہیں تینوں کا رزق حلال پر ایمان ہے روز قیامت پر یقین رکھتے ہیں موت کو آنکھوں سے دیکھتے ہیں اپنے پیاروں کی میتوں کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارتے ہیں تو بتایا جائے کس کی عبادت قبول ہو گی، پیدا کرنے والے کی فروخت کرنے والے کی یا خرید کرنے والے کی …!
تینوں نے روحانی اور جسمانی رزق کے حصول کے لئے اپنے طور پر اور معیار پر جد و جہد کی ہے کس کو اطمینان ہو گا جس کو اطمینان ہو گا در اصل اُس نے اپنے جسم اور روح سے انصاف کیا ہے۔ محنت تینوں نے کی ہے مگر جس کی نیت ٹھیک ہو گی اُسے اطمینان ہو گا اُس کی روح تازہ اور جسم صحت مند رہے گا اُس کی زندگی خوشگوار اور موت سکون بخش ہو گی وہ دنیا میں اور آخرت دونوں جہانوں میں آرام سے رہے گا یہ صرف رزق حلال سے ممکن ہے اور حلال سوچ سے …! یہ کوئی مافوق البشر عمل نہیں۔ جو شخص آواز نفس سنتا ہے اور اپنے ضمیر کی بات دھیان سے سے سنتا ہے اپنے دل میں خدا کا خوف رکھتا ہے اپنی عقل کو مثبت پہلوؤں سے آگاہ کرتا ہے اور علم حقیقی کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے وہی حلال اور حرام رزق سے آگاہی پا سکتا ہے جو اپنے نفس کی مکمل حفاظت کر سکتا ہو خواہ وہ روحانی معاملہ ہو یا جسمانی اُس عمل اور فعل کا حلال ہونا ضروری ہے۔
جو نفسانی خواہشات کی ناجائز ذرائع سے تکمیل چاہتے ہیں وہ جسمانی اور روحانی بیمار ہیں۔ انسانی جسم کے لئے جن ضروریات کی طلب ہے اِس سے زیادہ روح کا تندرست ہونا ہے۔ روح بیمار ہو اور جسم تندرست ہو تو یہ حیوانوں کی طرح زندگی بسر کرے گا اور اگر روح پاکیزہ اور اُس کی ضروریات حلال ہوں تو انسان سکون اور راحت محسوس کرے گا خواہ وہ جسمانی طور پر صحت مند نہ بھی ہو بلکہ معذور بھی ہو تو وہ مطمئن ہو گا۔ یہ سب رزق کی وجہ سے ہے۔ جو انسان رزق پر نظر نہیں رکھتا اُس کی عبادات فضول اُس کے کارہائے زندگی فضول وہ صرف اپنی زندگی کے ایام پورے کرتا ہے۔ بے شعوری زندگی حیوانات کی ہے اور جیسا حیوان ہو گا ویسا رزق اُس کے لئے مقرر ہے بھیڑئیے کے لئے بکری، کوئے کے لئے گندگی، شیر کے لئے گوشت، سانپ کے لئے چوہے، بلی کے لئے چھیچھڑے مگر انسان کے لئے نفاست بھرے کھانے اور روح کے لئے صداقت اور دیانت دار رویے۔
غیر فطری رزق ہو یا رویہ وہ انسان کے باطن کو روشن نہیں کر سکتا اور جب تک انسان کا باطن روشن نہ ہو اُس وقت تک اُسے معرفت الٰہیہ نصیب نہیں ہوتی اور جب تک معرفت الٰہیہ نصیب نہ ہو اُس وقت تک انسان کو اطمینان نصیب نہیں ہوتا اور اطمینان ہی وہ سرمایہ حیات ہے جس کی انسان کو دونوں جہانوں میں ضرورت ہے اور وہ رزق حقیقی سے نصیب ہوتا ہے وہ روحانی ہو یا جسمانی …! دیانت والا رزق اور صداقت والا رزق جسم اور روح کے لئے حقیقی اور لازمی ہے در اصل یہی توشہ حیات ہے۔
حرام سوچ کر اور حرام کھا کر وہ انسان نہیں بن سکتا جو انسانیت کی حفاظت کے لئے ضروری ہے جس کی وجہ سے ناموس انسانیت محفوظ رہے جو لوگ اِس شعور سے عاری ہیں وہ زندہ رہیں یا مر جائیں کوئی فرق نہیں وہ چل پھر رہے ہیں یا سوئے ہوئے ہیں وہ لوگوں کی طرح لگتے ہیں یا حیوانوں کی طرح ہیں یہ فیصلہ رزق کے معیار سے کیا جا سکتا ہے سوچ کے زاویہ سے ہوتا ہے انسانی رویوں پر اِس کا انحصار ہے یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ انسان غلط سوچتا ہو اور حرام کھاتا ہو تو اُس کی عبادت قبول ہو اُس کی روح کو سکون نصیب ہو اُس کے دل میں اطمینان ہو وہ اپنی نیند سوئے وہ بے نیازی کی منزل کا مسافر ہے۔
دولت رزق نہیں سوچ رزق ہے طاقت رزق نہیں علم رزق ہے زیادتی رزق نہیں انصاف رزق ہے اپنے آپ سے انصاف وہ رزق ہے جو انسان کے اپنے بس میں ہے۔ خالق کائنات کے ابدی نظام رزق پر جن کا ایمان نہیں وہ مسلمان تو درکنار وہ انسان ہی نہیں انسان اور حیوان کے لئے اُن کی ضروریات کے تحت یکساں پیدا کرنے کا بندوبست خدا نے کیا ہے بلکہ بارش کا ظہور فرما کر پیاسی زمین کو سیراب کر کے اُس میں سے انسان اور حیوان دونوں کے لئے یکساں رزق پیدا کرتا ہے۔
رزق حرام انسانیت اور مقدس روح کا دشمن ہے۔ کائنات کی رزاقی کا نظام منصوبہ خداوندی ہے انسان کو اِس نظام کے اندر رہ کر زندگی بسر کرنی ہے جو روح کا رزق ہے اُسے مہیا کرو اور جسم کا رزق ہے اُس پر حقانی نظر رکھو اصولوں کو پامال کر کے اور اخلاقیات کو روند کر جو رزق آپ حاصل کریں گے وہ آپ کو سکون اور اطمینان سے محروم کر دے گا۔ صرف کھانا پینا اور حوائج ضروریہ زندگی نہیں زندگی مقصد کی طلب گار ہے اور وہ مقصد خالق کے حکم کی تعمیل اور عمل اُس کے بتائے ہوئے راستوں پر چل کر مقام مقصود پر پہچانا … جب انسانیت والی پاکیزگی اور طہارت کی موت واقع ہو جائے تو وہ رزق اور دولت انتہائی خطرناک ہے۔ انسانیت کی خود کشی انسان کی خود کشی زیادہ خطرناک ہے انسان کی جگہ لینے کے لئے انسان پیدا ہو جائے گا مگر انسانیت کی جگہ لینے کے لئے انسانیت کہاں سے آئے گی لہذا حقیقی رزق اور حقیقت رزق یہ ہے کہ جس سے انسانیت زندہ رہے۔
پہلے خالق نے روح خلق کی اور پھر اُس روح کو زمین پر اتارا، اتارنے سے پہلے اُس میں روح اور جسم کا رزق رکھا اور پھر بساط کے مطابق ہر ذی نفس کو عقل دی مگر انسان کو علم اور دل دیا اور اُس میں رزق کی حقیقت اور معیار ہے۔ بس یہی غور طلب بات ہے جس پر انسان کی توجہ نہیں اور یہ سارے فساد حقیقت رزق سے دوری کی وجہ سے ہیں۔
٭٭٭