جہاں فانی کے یہ تین کردار ہیں۔ اِن پر قدرت رکھنے والی ایک طاقت ہے اُس کا نام امر ربی ہے جسے عرف عام میں "روح"کہتے ہیں … انسان اور اُس کی زندگی فنا کی امانت ہے۔ دنیا اُس وقت تک آباد رہے گی جب تک رب کا امر ہے۔
انسان پیدا ہوتا ہے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے دنیا زندگی کی ضرورت ہے۔ دنیا ایک کرہ ارض ہے جہاں انسانوں کا ایک ہجوم ہے یہ کائنات کا ایک کرہ ہے اور اِس کرہ ارض پر انسان کی زندگی کی تمام ضروریات خالق نے رکھ دی ہیں اور انسان کو اُن کا مختار بنا دیا ہے۔ زندگی گزارنے کے لئے اِس کو عقل دی ہے اور حواس عطا کئے ہیں کہ وہ اِن سے زندگی گزارنے والا علم حاصل کرے اور اُس علم سے دنیا میں بہترین زندگی بسر کرے۔
انسان کے اندر پائی جانے والی انسانیت کے لئے بہترین کلیات وضع کئے ہیں اور اِن کلیات کے استعمال کے لئے بہترین انسان ہدایت یافتہ پیدا کئے اور اِن کے درمیان بہترین نمونہ والی زندگی بسر کر کے لوگوں کو بتایا کہ تمہارا ایک خالق ہے جو واحد ہے اور لاشریک ہے اُس کا نام اللہ ہے اُس کی نظر میں ہر پیدا شدہ شئے کا ایک مقصد ہے اور انسان کی ضرورت کے لئے پیدا کی ہیں اور انسان کو یہ شرف بخشا ہے کہ وہ سب سے افضل ترین مخلوق ہے اُسے بہترین عقل اور شعور والے علم سے نوازا ہے اُسے ہدایت دی ہے کہ خالق کی پہچان کرے اور اُسے سجدہ کرے۔ زندگی کو میزان کی صورت عطا کی ہے اور دنیا میں بہترین انسان بن کر رہنے کی تلقین کی ہے اور صاف صاف احکام دیئے ہیں کہ انسان کو کن کن راستوں پر چل کر واپس اپنے خالق کے پاس دوبارہ آنا ہے۔
دنیا انسان کی امتحان گاہ ہے اور انسان کو زندگی گزارنے کا ایک کورس دیا ہے اِس کے اندر سے اُس کا امتحان لیا جائے گا۔
انسان کا ہر وہ عمل معاف کر دیا جائے گا جس کے بارے میں خالق نے اُسے کوئی ہدایت نہ دی ہو گی۔ انسان کے اندر بہترین علوم کے خزانے ودیعت کر دیئے گئے ہیں اور اُس کو روشن اور تاریک راستوں کے بارے میں بتا دیا گیا ہے۔ اُس کے اندر متعدد قوتوں کا جوہر رکھ دیا ہے اور شعور، احساس، سوچ اور فکر کے پیمانے محفوظ کر دیئے ہیں انسان نے خود فیصلہ کرنا ہے کہ اُسے دنیا میں زندگی کیسے بسر کرنی ہے۔
انسان کو جس شئے کی اشد ضرورت ہے وہ اُس کے اندر محفوظ ہے اُس کا نام "اطمینان"ہے اور انسان ساری زندگی ایک اطمینان کی خاطر گزار دیتا ہے مگر اطمینان کی اصل اور خالص شکل و مفہوم سے آگاہ نہیں وہ اپنے نفس کے تابع زندگی بسر کرتا ہے اور اپنے ضمیر کو خود دھوکا دیتا ہے۔ اُس کے دل کو ہر وہ شئے پسند ہے جو اُس کے جسم کی ضرورت ہے وہ پیٹ بھر کر کھاتا ہے مگر آنکھوں میں بھوک رکھتا ہے ضروریات کے علاوہ بھی اُس کی ضروریات ہیں مگر اُس کی زندگی ایک خاص مدت کے لئے ہے، اُس کے یقین میں یہ بات ہر گز نہیں ہوتی کہ جو وہ کر رہا ہے کوئی اُسے دیکھ رہا ہے مگر اپنے جیسے انسان سے ایسی چیزیں چھپا رہا ہے جبکہ اُس کے سامنے سرزد ہو رہی ہیں جس نے ایک دن حساب لینا ہے جب انسان، زندگی اور دنیا بین رہے گی اِس وجہ سے اُس کو اُس دولت سے محروم رکھا جاتا ہے جس کے لئے وہ زندگی میں عبادت بجا لاتا ہے رزق کماتا ہے گھر بناتا ہے اور بچوں کی جائز نا جائز خواہشات پوری کرتا ہے مگر خود اُس دولت سے محروم رہتا ہے جسے وہ اطمینان کہتا ہے اور اُس کے سایہ کو سکون۔ جس جس بات سے خالق منع کرتا ہے وہ اپنے جیسے انسانوں سے چھپا کر کرتا ہے اور ظاہر ہونے پر ندامت میں ڈوب ڈوب جاتا ہے پھر خدا سے رابطہ کرتا ہے خدا اُسے توبہ کی توفیق دیتا ہے اور اُس کے دیدہ اور نادیدہ عیوب کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ انسان اپنی زندگی سے خود زیادتی کرتا ہے اور اِس کا الزام اپنے جیسے دوسرے انسانوں پر لگاتا ہے مگر جس نے حساب لینا ہے وہ ہر شئے کو جانتا ہے خواہ وہ عدم میں ہیں۔ جب خدا کے پاس معافی اور توبہ کی گنجائش ہے تو پھر انسانوں کو بھی ایک دوسرے کو معاف کر دینا چاہئے اور اپنے سارے معاملات کے مقدمات اُس کی عدالت میں دائر کر کے وقت کے وکیل کا انتظار کرنا چاہئے وہ اتنی سزا دے گا جتنا جرم ہو گا مگر انسان اتنی سزا دیتا ہے جتنی اُس کی مرضی ہوتی ہے خواہ وہ بھی اتنا ہی بڑا چور کیوں نہ ہو بس یہ دنیا کے فیصلے ہیں اور ایسے فیصلے ہر انسان کی زندگی میں کبھی نا کبھی اور کہیں نا کہیں ہو جاتے ہیں اور زندگی میں انسان کو دنیا میں سزا مل جاتی ہے۔ بس انسان کو سب سے پہلے خود پر نظر رکھنی چاہئے دوسرے کا فیصلہ کرتے وقت یہ ضرور سوچ لے اُس نے خود تو ایسا کوئی جرم نہیں کیا پھر اُس کو فیصلہ کرتے وقت اطمینان ہو گا اور یہی اطمینان ہے جس کی انسان کو دنیا اور آخرت میں ضرورت ہے۔
دنیا میں جو اطمینان کے ساتھ رہیں گے وہ آخرت میں اطمینان کے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اُس کی زندگی میں دنیا اُس کی ہو جائے اور زندگی کے بعد دنیا اُس کو یاد کرے مگر جب تک وہ خود مطمئن نہیں کوئی اُسے یاد کیوں کرے گا جب وہ دوسرے اپنے جیسے انسانوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے گا اُن کا قتل عام کرے گا تو خدا اُس پر کیسے راضی ہو گا اور اگر خدا راضی نہ ہو تو اُس کا پیدا کردہ انسان کو اطمینان کیسے ہو گا وہ فریب زدہ عبادت سے حاصل نہیں ہوتا وہ عبادت گاہوں سے نہیں ملتا انسان کے اپنے کردار میں پنہاں ہے اپنے احتساب میں اپنے نفس کے ساتھ انصاف میں ہے باہر اور اندر والا انسان جب تک خدائی احکام کی پابندی نہیں کرتا اطمینان کبھی نصیب نہیں ہو گا اور دنیا میں انسان کی زندگی کا یہی اولین مقصد ہے میرا اِس پر یقین ہے کہ انسان کے علم حقیقی میں وہ دولت ہے جس سے وہ اللہ تعالیٰ کی پہچان کر سکتا ہے اور دنیا میں بہترین زندگی گزار سکتا ہے جس میں اطمینان جیسی دولت ہو گی۔ علم گناہ اور ثواب، نیکی اور بدی میں فرق کرتا ہے اور انسانی شعور کی روح ہے انسان کو یہ علم ہونا چاہئے کہ جو وہ کر رہا ہے کیا اُسے وہ کرنا چاہئے۔
انسان زندگی میں اِس سے تو ڈرتا ہے دنیا کیا کہے گی مگر اِس سے نہیں ڈرتا دنیا بنانے والا کیا کہے گا بس یہی وہ نقطہ حیات ہے جس کا انسانی ذہن میں جب آ جائے گا تو وہ بہترین انسان بن جائے گا پھر وہ زندگی اور بعد از زندگی بھی دنیا والوں کے سامنے سرخرو ہو گا پھر سب پر اُس کا احترام واجب ہو جائے گا۔
دنیا میں انسانیت کا احترام ختم ہوتا جا رہا ہے اِس وجہ سے اطمینان سے خالی ہوتی جا رہی ہے جو انسان اپنی زندگی کے ساتھ انصاف کرتا ہے دنیا اُسے سلام کرتی ہے دنیا کا یہ دستور ہے۔ دنیا مقام وقوف ہے مقام قیام نہیں یہ کھیل نہیں کھیل کا میدان ہے کھلاڑی آتے ہیں اور کھیل کر چلے جاتے ہیں پھر اُن کی جگہ دوسرے آ جاتے ہیں دنیا میں یہ ہمارے گھر ہمارے نہیں ہم دوسروں کے لئے بناتے ہیں اور دوسرے ہمیں کہیں دوسرے مقام پر چھوڑ آتے ہیں جب زندگی ختم ہوتی ہے اور جانے والے کی پھر یادیں بھی باقی نہیں رہتیں مگر انسان عجیب ہے زندگی میں دنیا سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہے بے شک دنیا بہت پیاری ہے مگر انسان اپنی مرضی سے یہاں نہیں آیا اور نہ ہی رہے گا جس کے لئے یہ اپنی ذات پر ظلم کرتا ہے اور دوسرے کی ذات کو بھی اذیت دیتا ہے۔
انسان کے باطن کی زندگی اُسے اصل سے آگاہ کرتی ہے لہذا ہمیشہ اُس پر نظر رکھے گا تو اِسے اطمینان ہو گا جو اصل اور حقیقی دولت ہے۔ واہ رے دنیا تو بھی عجیب ہے اور تجھ میں بسنے والا انسان تجھ سے بھی زیادہ عجیب ہے، دنیا کے میلہ میں ہر شخص اکیلا ہے اور اپنی بداعمالیوں سے اپنے لئے گناہ اور دوسروں کی زندگیوں کے لئے آسائشیں اکٹھی کر رہا ہے اِس لئے پریشان ہے اور تھکا ہوا ہے وہ اِسے ہی حقیقی زندگی سمجھ رہا ہے ایک لمحہ بھی اُس کے پاس نہیں کہ وہ فطرت سے معرفت کے انمول موتی چن لے۔ وہ کیا کر رہا ہے اور اُس کی پیدائش کا صرف یہی مقصد ہے کہ صبح سے شام اور شام سے صبح تک یہی سوچتا رہے کہ اُس کا فائدہ کس میں ہے اور ہر گز نہ سوچے کہ اُس کی زندگی خواہشات کے نیچے دبی سسکیاں لے رہی ہے اور اِسے اطمینان چاہئے۔
بتا انسان! تجھے زندگی اور دنیا کے رشتہ کی سمجھ آئی یہ بنا ہی ٹوٹنے کے لئے ہے اور جب ٹوٹ جاتا ہے تو دنیا کسی دوسرے سے یہ رشتہ جوڑ لیتی ہے دنیا ایک تماشہ گاہ ہے اور سارے لوگ تماشبین اور سارے لوگ آپس میں تماش بینی کرتے یں جس کا دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑتا …!
٭٭٭