انسان خواہ کتنا ہی کیوں نہ ہو اُس کا انجام محض قبر کی تنہائی اور تاریکی ہو گا … جس دماغ میں تکبر اور غرور ہوتا ہے ایک وقت آتا ہے اُس میں یادداشت بھی نہیں رہتی طاقتور ہاتھ کمزور ہو جاتا ہے جوانی کو بڑھاپا کھا جاتا ہے زندگی کا آخری اصول یہی ہے خواہ کیسی ہی کیوں نہ گزرے انجام ایک جیسا ہے۔
قدرت کا سارا نظام اصولوں کے تابع ہے یہ گردش لیل و نہار، یہ نظام روز و شب، یہ لمحہ لمحہ کا سفر بڑا عجیب ہے یہ سانس سانس زندگی ہے یہ ایک سانس ہے رکا تو انسان قبر کی تنہائی اور تاریکی میں اتر گیا۔ دنیا سے رابط کٹا اور آخرت سے جڑ گیا نہ جانے انسان یقین سے اتنا دور کیوں ہوتا جا رہا ہے اپنے ہی ایمان سے دھوکا دیہی کا مرتکب ہو رہا ہے اپنے ہی عقیدہ اور عقیدت کو فریب دے رہا ہے اپنے رب کے روبرو جھوٹ بول رہا ہے، کسی ایسی کوشش میں مبتلا ہے کہ وہ اپنے رب سے چھپا کر کوئی وہ فائدہ حاصل کرے جس کی خبر اِس کے رب کو نہ ہو خواہ سارے لوگ اِس کی اِس ناپاک حرکت پر گواہی دیں مگر خدا کے حضور خدا کی قسمیں اٹھا اٹھا کر لوگوں پر ظاہر کرے وہ خدا کا بندہ ہے اِس سے آگے مردہ نفسی کیا ہے فرشتہ اجل آہستہ آہستہ قدم اٹھا کر اُس کی طرف آ رہا ہے اور انسانی نفس اِس بے صدا آواز کو محسوس تک نہیں کر رہا حالانکہ وہ اپنے رب کے اِس وعدہ کا اقرار دل سے کرتا ہے اور آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ جو لوگ زمین پر اکڑ کر چلتے تھے اور خدائی دعویٰ کرتے تھے اُس کی مخلوق پر ظلم کرتے تھے اُن کے روبرو اُن کے جسموں کو قبروں میں اتار کر منوں مٹی ڈال دی گئی اور اُن کے گلے پڑنے والے پھول اُس کی قبر پر ڈال دیئے گئے نفس کی یہ آواز اُسے سنائی نہیں دیتی۔ جسے منظر قبر یاد نہیں، جسے اپنی بے بسی کا یقین نہیں اُس کے سامنے حقیقت رکھ دو اُسے نظر نہیں آئے گی۔
٭٭٭