سنو میری بات میں آواز نفس ہوں، میں صدا لگا رہا ہوں، میں آپ کو حق کی طرف بلا رہا ہوں میری بات پہ توجہ دو میں گناہ سے تمہیں دور رکھنا چا رہا ہوں۔
میرے نفس کی یہ آواز ہے مسلمان کا حسب و نسب کلمہ توحید ہے نا کہ وطن، سارے وطن ہمارے ہیں جہاں جہاں لا الہ ٰ الا اللہ ہے جہاں جہاں محمد رلرسول اللہﷺ ہے۔ وہ مسلمان نہیں جو کلمہ توحید کے وارث کو کافر کہتا ہے جو اُس سے نفرت کرتا اور نفرت کا درس دیتا ہے۔
میرے نفس کی یہ آواز ہے علم قوموں کی زندگی ہے جس نے باب العلم نہیں دیکھا اُس میں شعور نہیں آ سکتا اور جس ذہن میں کوئی مقصد نہ ہو وہ یہ آواز کیسے سنے گا۔ بے گھر اور بے سر کو کیا معلوم زندگی کیسے بسر کرنی ہے۔
آواز نفس آواز قضا ہے بلکہ قضا الٰہی ہے اِس میں ایک نصب العین کا ہونا ضروری ہے اِس کا پیغام ہے دنیا خدا نے بنائی ہے مگر تاریخ اور جغرافیہ دنیا میں بسنے والوں نے بنایا اور خون بھی انہوں نے بہایا ہے۔
میرے نفس کی یہ آواز ہے جو لوگ عدم تشدد کی بات تو کرتے ہیں مگر بے گناہ لوگوں کی لاشوں پر نوحہ کیوں نہیں پڑھتے ماتم کیوں نہیں کرتے تعزیت کیوں بجا نہیں لاتے شاید اُن کے نفس میں نخوت کی بغاوت ہے یا بغض کی کوئی خار دار جھاڑی یا زہر آلود نظریہ …!
میرے نفس نے آواز دی غفلت انسان کی اپنی ہوتی ہے مگر جواز دوسروں میں تلاش کرتا ہے اِس کی اپنی غفلت اِس کی دشمن ہے میں اُس کا دشمن نہیں …!
جو حقیقت نفس جان لیتے ہیں وہ آواز نفس پہچان لیتے ہیں۔ جو رمز زندگی سے آشنا نہیں اُسے کسی کی پرواہ نہیں جو دنیا کو فنا کی نظر سے دیکھے گا اُس کو آوازِ نفس سیدھے راستے پر رکھے گی۔
جو زندگی کے ساتھ انصاف کرے گا وہی نفس کے سریلے نغمات سنے گا وہی نفس کی پہچان کرے گا اُسی کو اپنے نفس سے محبت ہو گی جو شیطان کے ساتھ معرکہ آرا ہو گا۔
جب تم اپنے نفس کو مخاطب کرو گے اُس کی آواز ضرور آئے گی وہ محبت سے تمہیں سیدھے راستے پر گامزن کرے گا وہ تمہیں خیر کی طرف بلائے گا … زندگی ہی ہمارے نفس کی باز گشت ہے۔
انسان کی توجہ کا مرکز تکمیل خواہشات، مطلب پرستی، مفاد پرستی، لالچ اور نفس پرستی ہے نہ کہ فرض شناسی، نفس شناسی، خدا شناسی اور حقیقت شناسی ہے اِس وجہ سے وہ ہمہ جہت بہرہ ہے وہ اپنے ضمیر اور نفس کی آواز کی پہچان کھو چکا ہے دنیا کے ہنگامہ میں گم ہو چکا ہے اُس کے ہر کام میں فریب نفسی ہے اِس وجہ سے دوسرے میں اُسے نقائص نظر آتے ہیں حالانکہ وہ بھی وہی کچھ کر رہا ہے جو دوسرا کر رہا ہے اِس کی وجہ عدم یقین کہ جو وہ کر رہا ہے دوسرا اِس کے بارے میں معلومات نہیں رکھتا۔
نفس صدا لگا رہا ہے اے انسان تو کدھر جا رہا ہے مگر وہ بے شعور اور لاشعور میلہ میں خود سے بچھڑ چکا ہے اُس کو خود کی تلاش مقصود ہے تا کہ وہ معرفت خداوندی سے آشنا ہو سکے۔ آواز نفس در اصل خالق کی آواز ہے۔
آواز نفس در اصل خدائی آواز ہے اور اِسے خدا کا بندہ سن سکتا ہے۔
٭٭٭