دنیا کے میدان میں ہر شخص ایک کھلاڑی ہے جو اپنی زندگی سے کھیلتا ہے اور خود ہی تماشائی ہے۔ ہر شخص کے پاس وقت کم ہے مگر اُس کی خواہشات کا سفر طویل اور کٹھن ہے تھک جاتا ہے مگر جینے کا حوصلہ نہیں ہارتا ہے۔ دریافت پر بتاتا ہے وہ ٹھیک اور ٹھاک ہے پتہ چلتا ہے وہ زندگی کی بازی ہار گیا ہے …! مڑ کر دیکھو تو آپ کی نظروں کے سامنے بیشتر ہارے ہوئے کھلاڑی شہر خموشاں میں آرام و سکون سے سوئے ہوئے ہیں اور ہر ایک کی کار کردگی کا سرنامہ اُن کے سرہانے اطلاعاً لکھا ہوا ہے … فلاں ابن فلاں عرصہ حیات دنیا پیدائش سے وفات تک … کھلاڑی سے پوچھو تو خاموش … میدان دیکھو تو خالی وہاں کوئی دوسرا کھلاڑی کھڑا ہے۔
زندگی کے کھیل کا مزہ لینا ہے تو صحیح وقت پر صحیح جگہ اور صحیح کھیل کا انتخاب نہایت لازم ہے ورنہ میدان تو کھلا ہے ہی مگر مزہ نہیں آئے گا وقت اور قوت دونوں ضائع نتیجہ صفر حساب مشکل … دنیا کا دروازہ بند اور آخرت والا دروازہ کھلا … وہاں نہ کھیل نہ کھلاڑی نہ میدان اک ہُو کا عالم اک خوفناک منظر … سارے زندگی کی ہاری ہوئی بازی کے کھلاڑی یک جاہ … بتاؤ! یہ کھیل کوئی مذاق ہے یا حقیقت …!
دنیا کے میدان میں زندگی کی دوڑ کا لطف لینا ہو تو انسان کی نشست کہاں ہونی چاہئے شروعات پر یا وہاں جہاں دوڑ ختم ہونی ہے یا اعتدال میں یا وہاں بیٹھنا چاہئے جہاں سارے میدان سے لطف اندوز ہوا جائے … میرا خیال ہے مقام یقین پر بیٹھا جائے وہاں اطمینان ہو گا … جذبات میں ٹھہراؤ اور برداشت میں عدم ہو وہاں انسان آرام سے کھیل اور میدان دونوں سے لطف اندوز ہو گا …!
زندگی کی دوڑ گوشہ چشم سے شروع ہوتی ہے اور گوشہ چشم میں ہی ختم ہو جاتی ہے آنکھ جھپکتے ہی دنیا میں اندھیرا ہو جاتا ہے زندگی ختم … کھیل ختم … دنیا کا میدان خالی … آخری بورڈ ظاہر ہوتا ہے جس پر لکھا ہے …!
الوداع … اے زندگی …! کھیل ختم … نام و نشان ختم … نئے کھلاڑی نئے میدان … نئے تماشائی، نئی تماش گاہ … جو انسان چھوڑ جاتا ہے دوسرے کی مرضی اُس پر حاوی ہو جاتی ہے اِدھر کھلاڑی زمین کی تہہ میں اترا اُدھر کھیل کے ختم ہونے کا اعلان کل دس بجے قل شروع گیارہ بجے دعا …!
٭٭٭