انسان خواب اور خیال کا مسافر ہے، عالم خواب سے نکلتا ہے تو عالم خیال میں چلا جاتا ہے اِس کے ذہن کے دو خانے ہیں ایک روشن اور ایک تاریک … روشن شعور اور تاریک کو لاشعور کہتے ہیں، اِس کا دل بڑا وسیع ہوتا ہے مگر ماحول کا زخم خوردہ ہے اگر زندہ ہے تو کئی بار مرتا ہے اور اِس کی ہر موت میں ایک خواہش ہے جس پر اِس کا دم نکلتا ہے اور اپنے اندر لا انتہا خواہشات کی تصویریں بنائے رکھتا ہے در اصل انسان کا دل بت خانہ ہے ایک بت اگر نکلتا ہے تو اُس کی جگہ دوسرا بت رکھ دیتا ہے اور انسان کا باہر والا خوف اِن بتوں کی حفاظت کرتا ہے یقین کے کسی بت کو اندر داخل نہیں ہونے دیتا …!
دل میں جب تک معرفت کے آب مصفا کا کوئی چشمہ نہیں پھوٹے گا یہ سارے بُت بے غسلے اسی طرح دل پر قبضہ جمائے رکھیں گے جب تک شعور کا تازیانہ انہیں توڑ نہیں دیتا، جب تک انسان خود اپنی زندگی کی لوح پر غلط عبارت مٹا نہیں دیتا۔ سنگین بیرونی حالات دل پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں … گریبان میں منہ ڈال کر اور گردن جھکا کر جو دل میں جھانک لیتے ہیں دل اِن کو راز کی ساری راز داری سے آگاہ کر دیتا ہے جن کے سینے میں دل ہے یہ ساری باتیں میں اُن سے کہہ رہا ہوں اور شرط یہ ہے کہ دل بھی زندہ ہو۔
زندہ دل انسان کو خدا رازوں سے آگاہ کرتا ہے۔ زندہ دل ہی در اصل عبادت گزار ہوتا ہے باقی رسم ادا کرنے والے ہوتے ہیں وہ جسم سے نکل کر کہیں اور ہوتے ہیں بس پھر روح انسانی نہ دل کی اور نہ جسم کی حفاظت کرتی ہے دل جب غلاظت کی طرف مائل ہوتا ہے تو جسم اُس پر عمل پر تیار ہو جاتا ہے دل اور جسم کی کہانی الگ الگ ہے گو وہ اکٹھے ہیں مگر زندہ دل جسم کی غلیظ حرکات کو روکتا ہے غلط اور فضول خواب اور خیال پر نظر رکھتا ہے جس دل میں خوف خدا ہوتا ہے۔
جس کے سینے میں زندہ دل ہے اُس کے اندر ایمان زندہ ہے اُس کا عرفان اور وجدان زندہ ہے … اُسی کا شعور اور ادراک زندہ ہے۔ اُس کا یقین زندہ ہے۔
٭٭٭