سچ انسان کے اندر سے مرتا نہیں خواہ وہ درندگی کی آخری حد تک چلا جائے وہ اُسے زندہ دیکھنا چاہتا ہے آخر ایک سطح پر انسان اقبال جرم کر کے اپنے ضمیر سے بوجھ اتار دیتا ہے۔ جھوٹ انسان کو اندر اور باہر سے یکساں اندھا کر دیتا ہے وہ اپنے ضمیر اور نفس سے ہر وقت بغاوت پر آمادہ کرتا ہے۔
سچ انسان کو توبہ کی طرف راغب کرتا ہے جھوٹ دوبارہ جھوٹ بولنے پر مجبور کرتا ہے جرم کے بعد اُس جرم کو چھپانے کے لئے اُس سے بڑا جرم کرتا ہے پھر انسان کی زندگی میں وہ مقام آ جاتا ہے بلاوجہ تکرار… سچ اور جھوٹ آمنے سامنے آ جاتے ہیں جھوٹ جبر کے باوجود سچ پر کبھی حاوی نہیں ہوتا آخری فتح یقیناً سچ کی ہوتی ہے۔
سچ اور جھوٹ انسانی ضمیر کی موت و حیات ہے باہر سے انسان اگر زندہ نظر آتا ہے مگر جھوٹا شخص اندر سے مردہ ہے بلکہ انسان نہیں حیوان اور درندہ سے بدتر ہے اُس کے اندر ایمان نہیں ٹھہر سکتا عقل اُس کا ساتھ نہیں دیتی وہ کبھی دیانتدار نہیں ہو گا اُسے کبھی سکون نصیب نہیں ہو گا جو احساس جرم میں مبتلا ہے، جو احساس ندامت سے محروم ہے وہ کبھی سچ نہیں بولے گا ایسے شخص کی گفتگو ہر سطح پر ملاوٹ شدہ ہو گی وہ صرف اُس وقت سچ بولے گا جب جسمانی تشدد کا شکار ہو گا اُس کی روح اُسے کبھی ہدایت کی طرف مائل نہیں کرے گی۔
انسان جھوٹ اُس وقت بولتا ہے جب وہ اپنی اہلیت اور صلاحیت سے انصاف نہیں کرتا جب وہ زمانہ کے خوف سے خود اپنی آنکھ بند کر لیتا ہے کہ اُس کے کردار اور عمل کو کوئی دیکھ نہیں رہا جب اُس کا ایمان اپنے خالق کے بصیر ہونے پر اٹھ جاتا ہے، جب اُس کے خون میں صرف رزق حرام سرایت کرتا ہے، جب محنت سے خوف کھاتا ہے پھر وہ چور، ڈاکو اور نشہ فروش بن جاتا ہے جب روز حشر کے حساب کا خوف اُس کے اندر سے نکل جاتا ہے۔ ذہنی اور روحانی افلاس انسان کو اندھا کر دیتی ہے انسان مختصر زندگی کو نظر میں رکھتا ہے ابدی حیات کی اُسے پرواہ نہیں ہوتی اِس وجہ سے دانستہ جھوٹ بول کر دانستہ خدا کو ناراض کرتا ہے۔
جب جھوٹا، قاتل، ڈاکو، ملاوٹ باز کتاب مبین کھول کر پڑھتا ہے اور مسجد میں باقاعدہ حاضری لگواتا ہے تو دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے ایک کا شیطانیت اور دوسرے کا نام انسانیت ہے، انسانیت کو چھوڑ کر شیطانیت کے ساتھ بستر کاندھے پر اٹھا کر چل پڑتا ہے سچ اور حقیقت اُسے آوازیں دے کر بلاتے ہیں مگر وہ دنیا کے ہجوم میں گم ہو جاتا ہے۔ فریب زدہ لوگوں کے میلہ میں وہ بھی دوسروں کی طرح خود کو محسوس کرتا ہے "سب ایسا ہی کرتے ہیں""کون ہے جو جھوٹ نہیں بولتا""کون ہے جو حلال کھاتا ہے""کس کے پاس نیک کمائی ہے""کس کے پاس حلال رزق کی تصدیق کا سرٹیفیکیٹ ہے""سارے اپنے اپنے حساب سے جھوٹ بولتے ہیں"بتاؤ کیا اپنے جھوٹ اور بددیانتی کی صفائی کے لئے ایسے جواز ضروری ہیں۔
جو انسان سچ کی راہ پر چلے گا اُسے سچے ملیں گے اُسے ہی اپنا مقصود ملے گا اُسے ہی اطمینان نصیب ہو گا اگر وہ جھوٹ نہیں چھوڑے گا تو یہ بے روح تلاوت و عبادت اُس کے لئے قطعاً مفید نہیں ہوں گی صرف اپنے جیسے لوگوں کو بیوقوف بنانے میں ضرور کامیاب ہو گا۔ انسان جب اپنا مقدمہ اپنے نفس امارہ کی عدالت میں دائر کرتا ہے تو اپنے سارے دلائل اپنی منفی قوتوں کے حق میں دیتا ہے اور جب ضمیر کی عدالت میں خود کو پیش کرتا ہے تو پھر مثبت قوتوں کے سامنے خاموش ہو جاتا ہے پھر سارا دوش زمانہ پہ ڈال دیتا ہے حالانکہ زمانہ جھوٹے اور سچے انسان کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ وقتی طور پر اگر جھوٹے شخص کو عزت ملی ہے تو وہ ہر گز دائمی نہیں ہو گی سچ کا ہمیشہ بول بالا رہے گا خواہ انسان کو ظاہری شکست ہو جائے۔
انسان جب اپنے نفس کی پرورش حرام اور ناجائز تکمیل خواہشات سے کرتا ہے تو ظاہری طور پر مضبوط نظر آئے گا مگر اندر سے کمزور ہو گا مگر جب اپنے دل اور ضمیر کو پاکیزہ رکھے گا تو اندر اور باہر سے یکساں مضبوط اور پاک رہے گا خواہ وہ جسمانی اور معاشی طور پر کمزور ہو مگر روحانی اور معاشرتی طور پر مضبوط ہو گا اِس کا تعلق نام نہاد اور فریب زدہ عبادت اور عمامہ و عباؤں سے نہیں نہ ہی اِس سے کہ وہ ممبر پر کھڑا ہو کے کتنی بہترین بیان بازی کرتا ہے کتنا خوش الحان ہے کتنا آواز میں سوز و ساز ہے۔
انسان کے اندر سچ سب سے بڑی طاقت ہے، یہ جذبات اور جذبہ کا حسن ہے، یہ روح کی طاقت اور چہرے کی خوبصورتی ہے، یہ اطمینان اور سکون کا حسن ہے، یہ رات کی نیند کا جوش اور صبح کی عبادت کا نور ہے نہ جانے وہ لوگ کیسے زندہ ہیں جو اپنے خالق کے روبرو جھوٹ بولتے ہیں اور وہ بھی خدا کے گھر میں خدا کی موجودگی میں لوگوں کو فرقہ در فرقہ تقسیم کرتے ہیں لوگوں کو نفرت پر ابھارتے ہیں حالانکہ یہ اُن کے ایمان کے بھی برعکس ہے مگر وہ اپنے نفس کے ہاتھوں گروی ہیں اُن کے نفس کی مجبوری ہے سچ کی موجودگی میں جھوٹ بولیں اور جھوٹ کا ساتھ دیں، یہ حواری ہونے کی دلیل ہے۔ جرائم کی دنیا میں سب جائز ہے مگر اخلاقیات کی دنیا انسانیت کی دنیا ہے وہ سرہتھیلی پر رکھ کر ڈاکہ نہیں ڈالتے جو انسان ہیں وہ دانستہ جھوٹ نہیں بولتے وہ ہاتھ کی صفائی والے پیشہ کو بھی حرام سمجھتے ہیں وہ کرسی اقتدار پر براجمان ہو کر خزانہ نہیں لوٹتے وہ قانون کی گرفت سے خود کو آزاد نہیں سمجھتا اور نہ ہی قانون قدرت کو ہاتھ میں لے کر فخر سے ہاتھ بلند کرتا ہے جو سچ کو جھوٹ سے فتح کر لیتے ہیں۔ جب قدرت کی عدالت لگتی ہے تو قانون قدرت کو ہاتھ میں لینے والے کا ید قطہ ہو جاتا ہے کوئی خان ہو ،سردار ہو، چوہدری ہو، علامہ ہو یا انتشار پسند اور انتہا پسند ملّا … خدا وہ ہے جو کسی جرائم پیشہ جھوٹے کو معاف نہیں کرتا دنیا میں سزا دے کر عبرت کا نشان بنا دیتا ہے۔
جب کوئی لمبی مونچھیں کٹوا کر سینما پر ٹکٹ بلیک کرنے والا مالک بن جائے یا کوئی ایسا بیرہ ہوٹل کا مالک بن جائے تو اِس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ وہ انسان بھی بن گیا ہے اور سچا بھی ہے جب منڈی کا آڑھتی اپنا بہترین چناؤ کو ترجیح دے کر مال غنیمت ڈھیر سے اٹھا لیتا ہے تو مالک اور خریدار کا دل ایک ساتھ ڈوبنے لگتے ہیں، سنجیدہ اور فہمیدہ شخص کبھی ایسی حرکت نہیں کرتا کہ اُس کی شخصیت اُس کے بدکردار کے نیچے دفن ہو جائے۔
سچے اور جھوٹے میں اتنا ہی فرق ہے جتنا خاک نشین اور خاک شناس میں ہے جو اپنے سر میں خاک ڈالتا ہے اور جو خاک کے سر پر بیٹھ جاتا ہے بتاؤ اِن میں سے کون سچا اور کون فریب زدہ جھوٹا ہے۔ زندگی کی مضطرب سانسیں صرف سچ میں ہیں۔
٭٭٭