زندگی کا منظر نامہ بڑا عجیب ہوتا ہے مناظر میں تسلسل مگر ہر منظر دوسرے سے مختلف … ہر منظر جدید اور جدا ہوتا ہے۔ جہاں خوشیاں ہی خوشیاں ہوتی ہیں وہاں غم ڈیرہ ڈال لیتے ہیں … جہاں خوشحالی ہوتی ہے وہاں بدحالی آ جاتی ہے جہاں امارت ہوتی ہے وہاں غربت جگہ بنا لیتی ہے جہاں شب عروسی ہوتی ہے وہاں ایک دن شب وحشت ہوتی ہے جہاں ایک دن ڈھولک بجتی ہے وہاں ایک دن آہ و بکا ہوتی ہے، زندگی کی آنکھوں میں کبھی خوشی کی چمک کبھی غم کے آنسو …!
لوگو! زندگی کی معرفت سے آگاہی حاصل کرو یہ بھی عبادت کا ایک رخ ہے … یہ محض اک حجاب ہے اِس کا فاصلہ قدموں کی بجائے اگر ذہن سے ماپو تو سفر آسان رہے گا۔ مسلسل قدم درازی اِسے بوجھ بنا دیتی ہے زندگی شہرت کی طلب گار ہے مگر زوال کو نظر میں نہیں رکھتی …!
انسان زندگی کا سفر اکیلے شروع کرتا ہے پھر کوئی دوسرا شریک سفر بن جاتا ہے اور پھر انسان ایک دن اکیلا ہو جاتا ہے یہ منظر نامہ یادوں میں باقی رہ جاتا ہے اور ڈھلتا رہتا ہے۔
فطرت مگن رہنا چاہتی ہے مگر انسان اِس میں تبدیلی کا تمنائی ہے یہی گمراہی انسان کو منظر سے بے منظر کر دیتی ہے جب تقاضہ ہار جاتا ہے اور مطلب جیت جاتا ہے … حرص اور ہوس انسان کو اندر سے کھا جاتی ہے یہی زندگی کے منظر نامہ کو فطرت سے دور لے جاتا ہے۔
زندگی کا مزہ دھوپ اور چھاؤں میں ہے طبیعت اور مزاج کا یہی تقاضہ ہے منظر نامہ تبدیل ہوتا رہے اور انسان زندگی کا مزہ لیتے لیتے ایک دن قبر میں اتر جاتا ہے کسی کی یادوں میں وہ رہتا اور کچھ یادیں چھوڑ کر وہ چلا جاتا ہے صدا زندگی کی بہار انسان کو زیب نہیں دیتی۔ ٭٭٭