پچیس نومبر 2016کی شام مجھے پروفیسر محمد شفیع ہمدم کے سانحہ ٔ ارتحال کی اطلاع ملی۔میری پُرنم آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیااور گرد و نواح کی ہر چیز جامد و ساکت محسوس ہونے لگی۔گُل چین ازل نے گلشن علم و ادب سے وہ پھول توڑ لیا جس کی عطر بیزی نے گزشتہ سات عشروں سے فضائے دِل کو معطر کر رکھا تھا۔ یہ سوچ کر میرا دِل بیٹھ گیا کہ ہماری بزم ِ وفا سے وہ عظیم انسان اُٹھ گیا ہے جس نے تخلیقِ ادب کو معیار اور وقار کی رفعت سے آ شنا کیا ۔ تاریخ ،ادب، فلسفہ ،نفسیات، ادیانِ عالم ،علم ِ بشریات ،سوشیالوجی اور لسانیات میں پروفیسر محمد شفیع ہمدم نے اپنی علمی فضیلت اور وسیع مطالعہ کے اعجاز سے اس قدر جامع اور وقیع تحریریں پیش کیں جو انھیں شعبہ ٔ علم و ادب میں ممتاز اور منفرد مقام عطا کرتی ہیں۔اپنی تخلیقی فعالیت سے اُرد وادب کی ثروت میںبے پناہ اضافہ کرنے والے اس یگانۂ روزگار فاضل نے پُوری دنیا میں اپنی فقید المثال کامرانیوں کی دھاک بٹھا دی۔پروفیسر محمد شفیع ہمدم ہمہ صفت موصوف تھے ،ان کو ہر صنفِ ادب میں تخلیقی کام کرنے کا قرینہ آتا تھا۔پاکستان کی تمام زبانوں کے ساتھ ساتھ وہ عربی ،فارسی ،ہندی ،انگریزی اور ترکی زبان پر بھی دسترس رکھتے تھے۔انھوں نے تخلیق ادب کے لیے پنجابی اور اُردو زبان کا انتخاب کیا۔اصنافِ ادب میں انھوں نے تنقید ،تحقیق،انشائیہ نگاری ،مضمون نگاری ،خاکہ نگاری ،افسانہ نگاری ،یاد نگاری،سوانح نگاری،ترجمہ نگاری اور سفر نامہ نگاری میں اپنی خداداد صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔اردو اور پنجابی زبان میں ان کی بیس کے قریب تصانیف شائع ہو چُکی ہیں۔حیف صد حیف فیصل آباد کی زمین نے اُردو زبان و ادب کے اس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چُھپا لیا۔اُردو زبان کا ہنستا بولتا چمن جان لیوا سکوت اور مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اسلامی تاریخ، مشرقی تہذیب وثقافت ،تمدن و معاشرت او ر مذہبی ا قدار و روایات کا عظیم علم بردارچپکے سے ہماری محفل سے اُٹھ کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا۔ پروفیسر محمد شفیع ہمدم کی وفات پر شہر کا شہر سوگوار تھا اورہر آ نکھ اشک بار تھی۔ان کی نمازِ جنازہ میں ان کے ہزاروں شاگرد اور معززین شہر شامل ہوئے جو اس بہت بڑے قومی سانحہ پر دل گرفتہ تھے۔سب لوگ اس عظیم دانش ور کی خدمت میں آنسوؤں اور آ ہوں کا نذرانہ پیش کر رہے تھے ۔لوگ یہ بات بر ملا کہہ رہے تھے کہ سفاک ظلمتوں کو کافور کرکے روشنی کا سفر جاری رکھنے پر مائل کرنے والے اس مصلح کے رخصت ہونے کے بعد صعوبتوں کا سفر کیسے کٹے گا؟ الم نصیبوں اور جگر فگاروں کے اس مُونس کی دائمی مفارقت کے بعد دِل کی ویرانی ایک دردِ بے درماں کی صورت اختیار کر گئی ہے ۔
پروفیسر محمد شفیع ہمدم کا تعلق پانی پت کے ایک ممتاز علمی و ادبی خاندان سے تھا۔ اُن کے آبا و اجداد ہریانہ کے شہرپانی پت کے اُسی محلے میں رہتے تھے جس میں ممتازادیب خواجہ الطا ف حسین حالیؔ رہتے تھے۔ خواجہ الطاف حسین حالی کے خاندان کے ساتھ ان کے آبا و اجداد کے گہرے مراسم اور قریبی تعلقات تھے ۔ پروفیسر محمد شفیع ہمدم کے داد ا نماز و روزے کے پابند ایک با عمل عالم اور صاحب ِ باطن درویش تھے۔ دریائے جمنا کے کنارے کے ساتھ مسلمان باشندوں کی زرخیز زرعی زمین ہے ان علاقوں میں ان کے مرید وں کی بڑی تعداد رہتی ہے ۔اس کے علاوہ اُتر پردیش اور ہریانہ کے طول و عرض میں اُن کے ہزاروں عقیدت مند موجود ہیں۔ اس روحانی بزرگ نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا تو ان کے جسدِ خاکی کو ان کی وصیت کے مطابق پانی پت کے معروف صوفی بزرگ بو علی قلندر کے مزار کے قریب واقع قدیم شہر خموشاں سپردِ خاک کیا گیا جہاں ان کی آخری آرام گاہ آج بھی مرجع خلائق ہے ۔محمد شفیع ہمدم کے والد کا پیشہ زرعی اجناس کی تجارت تھا ۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ پاکستان ہجرت سے قبل وہ تحصیل آفس پانی پت سے کچھ فاصلے پر واقع ایک نسبتاً کم ترقی یافتہ علاقے میں رہتے تھے ۔اس جگہ سے کچھ دُور خرابات میںایک کھنڈر نمابوسید ہ سی قبر ہے جس پر ہر وقت خاک اُڑتی رہتی تھی ۔ آزادی سے پہلے بر طانوی استعمار کے دور میں مقامی بلدیہ کا عملہ صفائی اور ڈرائیور جس میں زیادہ تر غیر مسلم شامل تھے روزانہ اسی مرقد کے پاس کُوڑے سے بھرے ہوئے بڑے ٹرک،ٹرالیاں اور ریڑھے اُنڈیل کر اپنی راہ لیتے۔ یہ ابراہیم لودھی کی قبر تھی جسے21۔اپریل1526کو پانی پت کی پہلی لڑائی میں مغل بادشاہ بابر سے شکست کے بعدگردشِ ایام نے عبرت سرائے دہر بنا دیا۔ بر طانوی سامراج کے دور میں میر تقی میرؔ کی قبر پر لکھنو کا ریلوے سٹیشں تعمیر کیا گیا۔نو آبادیاتی دور کے مظالم کو یاد کرتے تو ان کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح بر سنے لگتیں۔ جب آزادی کی صبح درخشاں طلوع ہوئی تو محمد شفیع ہمدم کا خاندان پانی پت سے ہجرت کر کے واہگہ کے راستے لاہور پہنچا۔ اس کے بعد اس خاندان نے جھنگ میں مستقل ڈیرے ڈال دئیے۔محمد شفیع ہمدم نے ستمبر 1947میں آزاد وطن میں جنم لیا وہ نہایت پُر جوش اندازمیں کہاکرتے تھے کہ ہمارا جسم و جاں صبحِ آزادی کے خورشیدِ جہاں تاب کی ضیا پاشیوں کا مقروض ہے ۔ خاکِ وطن کا ذرہ ذرہ ہمیں اپنی جان سے کہیں بڑھ کر عزیز ہے ۔ محمد شفیع ہمدم نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی سکول جھنگ سے حاصل کی اس کے بعد تاریخی مادر علمی گورنمنٹ کالج جھنگ پہنچے اور یہیں سے امتیازی نمبر حاصل کر کے گریجویشن کی۔جامعہ پنجاب ،لاہور سے اردو ادب میں ایم۔اے کیا اور محکمہ تعلیم پنجاب سے وابستہ ہو گئے۔وہ گور نمنٹ کالج جھنگ میں مسلسل چار عشروں تک تدریس اردو پر مامور رہے اور جب وہ سال 2007 میں یہاں سے ریٹائر ہوئے تو ایسوسی ایٹ پروفیسر کے منصب پر فائز تھے۔وہ ایک با کمال اُستاد تھے جن کی تدریس ذرے کو آفتاب بنا دیتی اور خذف ریزوں کی اس طرح تقدیر بدلتی کے وہ لعل و جواہر بن کر والدین اور ملک و قوم کا بیش بہا اثاثہ ثابت ہوتے۔ایسے شفیق ،محنتی ،زیرک، فعال ،مستعد اور محب وطن اساتذہ کسی بھی قوم اور ملک کا بیش بہا اثاثہ ہوتے ہیں ۔
ادب اور فنون لطیفہ کے فروغ میں انھوں نے گہری دلچسپی لی، تنقید و تحقیق پروفیسر محمد شفیع ہمدم کا پسندیدہ شعبہ تھا۔ان کا ایم فل اردو کے لیے لکھا گیا تحقیقی مقالہ ’ محمدشیر افضل جعفری : حیات اور علمی و ادبی خدمات‘‘ ان کی تحقیقی ثقاہت اورعلمی فضیلت کا منھ بولتا ثبوت ہے ۔پروفیسر ڈاکٹر بشیر سیفی ،پروفیسر ڈاکٹر رحیم بخش شاہین،پروفیسر ڈاکٹر محمد ریاض ،پروفیسر نظیر صدیقی اور پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی متفقہ رائے تھی کہ یہ تحقیقی مقالہ اس قدر جامع اور بلند پایہ تحقیقی کام ہے کہ اس پر جامعہ علامہ اقبال کے شعبہ اردوکو فخر ہے ۔ مطالعہ ٔ احوال کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے میں جس محنت ،لگن،دیانت ،فرض شناسی ،خلوص اور تجسس کو ملحوظ رکھا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ امیر اختر بھٹی کا کہنا تھا کہ مطالعہ ٔ احوال پر مبنی تحقیق میں پروفیسر محمد شفیع ہمدم نے ستاروں پر کمند ڈالی اور جو نیک نامی حاصل کی ہے اس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں۔ افادیت سے لبریزاس تحقیقی مقالے میں تمام اولین مآخذ تک رسائی حاصل کی گئی ہے اور محمد شیر افضل جعفری کی زندگی اور اسلوب کا کوئی پہلو تشنہ نہیں رہا ۔ یہ بلند پایہ تحقیقی کام مستقبل میں محمد شیر افضل جعفری کی شخصیت اور فن پر تحقیقی کا م کو آگے بڑھانے اورتحقیق و تنقید کا فکر پرور سفر جاری رکھنے کے سلسلے میں مشعل راہ ثابت ہو گا۔محمدشیر افضل جعفری کے بیٹے پروفیسر عباس ہادی اکثر کہاکرتے تھے کہ یہ مقالہ محمدشیر افضل جعفری کے اسلوب اور شخصیت کو سمجھنے میں کلید ی اہمیت کا حامل ہے ۔پروفیسر محمد شفیع ہمدم نے لسانیا ت کے شعبے میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔ان کے مخطوطے ’’الفاظ اور آوازیں‘‘کو پڑھنے کے بعد قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس میں سوئٹزر لینڈ سے تعلق رکھنے والے رجحان ساز ماہر لسانیات سوسئیر (Ferdinand de Saussure) کی خیالات کی باز گشت سنائی دیتی ہے ۔ اپنی تحریروں میں پروفیسر محمد شفیع ہمدم نے لسانیات میں سوسئیر (1857-1913)کے صوتیات کے بارے میں تصورات کو افادیت سے لبریز قرار دیاہے۔
لسانیات کے ساتھ ساتھ پروفیسر محمد شفیع ہمدم نے عالمی کلاسیک میں گہری دلچسپی لی اور معاصرعالمی ادبیات کا بھی انھوں نے وسیع مطالعہ کیا تھا ۔جدیدیت ،مابعد جدیدیت ،ساختیات،پس ساختیات اور رد تشکیل پر ان کی عالمانہ رائے کو ہمیشہ مستند سمجھا جاتا تھا۔انھوں نے میتھیو آ رنلڈ،ٹی ایس ایلیٹ ، رومن جیکب سن ، ژاک دریدا ،سوسئیر،رولاں بارتھ،ایڈورڈ سعید، کیتھرین بیلسی ،میلکم کاولی،نوم چومسکی،کلاڈ لیوی سٹراس،میخائل باختن،آئی اے رچرڈز،ژاک لاکاں اور گائتری چکراورتی سپی واک کے خیالات کی جس عالمانہ انداز میں تشریح کی وہ ایم۔اے اور ایم ۔فل کے طالب علموں کے لیے بہت مفید ثابت ہوئی۔ نو آبادیاتی دور کے ادب اور پس نو آبادیاتی دور کے ادبیات پر ان کے تحقیقی و تنقیدی لیکچرز افادیت سے لبریز ہیں۔ان کا خیال تھا کہ سامراجی طاقتیں اپنی سابقہ نو آبادیات کو اپنا تابع اور مطیع بنانے کے لیے سازشوں کے جال بچھا دیتی ہیں۔ روسی ہئیت پسندی کے موضوع پر انھوں نے خوب دادِ تحقیق دی اور اپنے تجزیاتی مطالعات سے متعدد حقائق کی گرہ کشائی کی۔ان کے تدریسی اشاروں او ر تحقیقی و تنقیدی یاداشتوں پر مبنی مسودات اورمخطوطا ت ان کے شاگردوں کے پاس محفوظ ہیںجن کی عکسی نقول سے تحقیق و تنقید سے دلچسپی رکھنے والے اور اعلا سطح کے مقابلے کے امتحانات میں شرکت کرنے والے طلبا و طالبات بھر پور استفادہ کرتے ہیں۔ اگر ان تمام مسودات اور لیکچرز کو کتابی صورت میں شائع کر دیا جائے تو یہ فیض کا ایک بہت بڑا وسیلہ ہو گا۔پاکستان کے عظیم تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج جھنگ نے 1926میںروشنی کے سفر کا آغاز کیا۔اس وقت اس تاریخی درس گاہ میںایم۔اے اردو سمیت بارہ مضامین میں ماسٹر کی سطح پر تدیس کا سلسلہ جاری ہے۔پروفیسر محمد شفیع ہمدم کوتحقیق ،تنقید اور جدید ادب کی تدریس میںاستناد کا درجہ حاصل تھا۔ گورنمنٹ کالج جھنگ کے عظیم اور قدیم کتب خانے میں ایک لاکھ سے زائد کتب موجود ہیں جن میں کئی نادر و نایاب،مسودات، کتب اور مخطوطے بھی شامل ہیں ۔ اس قدیم اور تاریخی کتب خانے کے مہتمم محمد شریف خان کا کہنا تھا کہ محمد شفیع ہمدم جیسا ذوقِ سلیم سے متمتع وسیع المطالعہ نقاد ملنا مشکل ہے جس نے اس کتب خانے کی تقریباًتمام کتب کا مطالعہ کیا ہے ۔
کتابوں اور کتب خانوں سے محبت پروفیسر محمد شفیع ہمدم کی گُھٹی میں پڑی تھی۔ان کے گھر میں ان کا آبائی کتب خانہ تھا جس میں پروفیسر محمد شفیع ہمدم نے اپنی پسند اورضرورت کے مطابق اضافہ کیا اور اس کتب خانے میں کتابوں کی تعداد دس ہزار سے بڑھ گئی۔ان میں زیادہ تر وہ کتابیں اور مجلات تھے جو انھیں اعزازی طور پر موصول ہوتے تھے۔وہ کتابوں کی بہت حفاظت کرتے اور ان کو شیشے کی الماریوں میں ترتیب سے رکھتے تھے۔ان کے ذاتی کتب خانے کے دروازے تشنگانِ علم کے لیے ہمہ وقت کُھلے رہتے ۔ ان کے ذاتی کتب خانے کی کتابیں مطالعہ کے لیے حاصل کرنے کے لیے آنے والے اجنبی شائقینِ مطالعہ کے لیے لازم تھا کہ وہ پروفیسر محمد شفیع ہمدم کے کسی شناسا کی ضمانت دے کر کتاب حاصل کر سکتے ہیں۔ مطالعہ کی غرض سے آنے والے اجنبی طالب علموں کو کتابوںکے اجرا کے لیے ایک رجسٹر موجود تھا جس میں کتاب مستعار لینے والے اور اس کتاب کی واپسی کی ضمانت دینے والے شناسا کا نام درج کیا جاتا تھا۔ اس کتب خانے سے کتب مستعار لینے والے طالب علم آسانی سے دستیاب ہونے والے جن ادب پرور اساتذہ کو ساتھ لے جاتے تھے ان میںپروفیسرغلام قاسم خان، پروفیسر محمد نوازخان سیال ،پروفیسر گدا حسین افضل ،پروفیسر حاجی حافظ محمد حیات،پر وفیسر مہر بشارت خان،پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب،پروفیسر نور احمد ثاقب،پروفیسر عاشق حسین فائق،پروفیسر محمد بخش گھمنانہ،پروفیسر حاجی محمد بخش کوکب،پر وفیسر عمر حیات بالی اورپروفیسر عباس ہادی شامل تھے۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میںاخلاقی اقدار کی زبوںحالی نے گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے ۔چربہ ساز ،سارق ،جعل ساز اور کفن دُزد عناصر نے ہرطر ف اندھیر مچا رکھا ہے ۔کئی عیار، ٹھگ اور اُچکے اپنے مکر کی چالیں چلتے اور اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے اور ان ممتاز دانش وروں کے جعلی مکتوب تیار کر کے لے جاتے اور پروفیسر محمد شفیع ہمدم سے قیمتی کتابیں مستعار لے جاتے اور پھر کبھی اس طرف کا رخ نہ کرتے ۔جب ان مکاتیب کاذکر متعلقہ پروفیسر صاحبان سے کیا جاتا تو وہ اس جعل سازی پر ششدر رہ جاتے۔نوبت یہاں تک پہنچی کہ مطالعہ کے شائقین کی تعداد تو بڑھنے لگی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کتابوں کی تعداد کم ہونے لگی۔کتابوں کی طلب اور رسد کے اس بڑھتے ہوئے اعصاب شکن فرق کو ختم کرنے کے لیے پروفیسر محمد شفیع ہمدم نے اپنے دیرینہ دوست اور ممتاز ماہر معاشیات پروفیسر اسحاق مظہرکے مشورے سے دِل پہ جبر کرکے ایک سخت مگر فیض رساں فیصلہ کیا۔پروفیسر محمد شفیع ہمدم نے اپنے ذاتی کتب خانے کی بچ جانے والی تمام قیمتی کتابیں اورادبی مجلات شہر کے تعلیمی اداروں کو عطیہ میں دے کر فیض اورصدقہ ٔ جاریہ کا ایک وسیلہ تلا ش کر لیا۔اس سے قبل جھنگ کے ممتاز شاعر صاحب زادہ رفعت سلطان بھی اپنا ذاتی کتب خانہ گورنمنٹ کالج جھنگ کے مرکزی کتب خانے کوعطیہ میں دے چکے تھے۔گورنمنٹ کالج جھنگ کے مرکزی کتب خانے میں موجود ’’گوشہ صاحب زادہ رفعت سلطان‘‘کے ساتھ ہی سفید شیشوں والی ایک صاف اور نفیس الماری میں پروفیسر محمد شفیع ہمدم کی کتابیں محفوظ ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کتابیں اپنی بے زبانی اور خاموشی میں بھی متکلم ہیں اور ’’حال احوال ‘‘ پُو چھنے کے بعد ’’ دِلِ دو ستاں ‘‘ سلامت کی دعا کر رہی ہیں۔کتابوں کے اس سر چشمہ سے ہزاروں تشنگانِ علم سیراب ہوتے ہیں مگر اب کتابوں کے گُم ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں۔ اس تاریخی کتب خانے کے مہتمم ملک ظہور حسین اور ان کے معاون فقیر محمد کتب خانے کے معمولات پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔مہتمم کتب خانہ نے انتظامیہ کے تعاون سے پُورے کتب خانے کو کمپیوٹرائز کر نے اور اوپن شیلف لائبریری کی دیواروں اور چھت میں خفیہ کیمرے نصب کرنے کاقصد کیا ہے ۔جن سے مستقبل قریب میں شائقین مطالعہ اور کتابوں کے رسیا مہمانوں کے سب طور، اطوار ،گفتار اور کتب کے حصول کے جذبہ ٔ بے اختیار کو مانیٹرکیا جاسکے گا۔
پاکستان کے جن بڑے کتب خانوں سے پروفیسر محمد شفیع ہمدم نے استفادہ کیا ان میں قائد اعظمؒ لائبریری (باغ جناح لاہور)، جامعہ پنجاب،لاہور کا کتب خانہ،جامعہ علامہ اقبال اسلام آباد کا مرکزی کتب خانہ،پنجاب پبلک لائبریری لاہور ،اقبال اکادمی کتب خانہ لاہور ،کتب خانہ مجلس ترقی ٔ ادب ،لاہور،اوردیال سنگھ کالج لائبریر ی لاہور شامل ہیں۔ گورنمنٹ کالج جھنگ میںسا ل1990میں کمپیوٹر کی باقاعدہ تدریس کا آغازہوا۔ پروفیسر محمد شفیع ہمدم نے یہیں سے کمپیوٹر کی تربیت حاصل کی ۔ جدید دور میں انٹر نیٹ کے متعار ف ہونے کے بعد برقی کتب اور ڈیجیٹل کتب خانوں نے بہت مقبولیت حاصل کر لی ہے۔پروفیسر محمد شفیع ہمدم نے دنیا بھر کے ڈیجیٹل کتب خانوں سے استفادہ کیا۔وائرلیس اور براڈ بینڈ کی آمد کے بعد تو مواصلا ت کی کایا پلٹ گئی ۔پر وفیسر محمد شفیع ہمدم انٹر نیٹ میںگہری دلچسپی لیتے تھے۔قرآن پاک کی تفسیر،حدیث نبویﷺ ،تاریخ ِاسلام، فلسفہ ،نفسیات ، عالمی ادبیات اور اخبارات کا وہ انٹر نیٹ پر باقاعدگی سے مطالعہ کر تے تھے۔ دنیا بھر کے جن ڈیجیٹل کتب خانوں سے وہ باقاعدگی سے استفادہ کرتے تھے ان میں علامہ اقبال سائبر لا ئبریر ی لاہور،خدا بخش اورئینٹل لا ئبری پٹنہ، جاپان ،امریکہ ،فرانس ، جرمنی ،بر طانیہ ،ترکی اور مصر کے ڈیجیٹل کتب خانے شامل ہیں۔ مختلف علمی و ادبی ویب سائٹس پر جو نادر و نایاب کتب موجود ہیں وہ انھیں اپنے ذاتی یو ایس بی میں ڈاؤن لوڈ کر کے محفوظ کر لیتے ۔اگر ضروری سمجھتے توان کتب کے پرنٹ سلطان باہوؒ پرنٹرز پر جا کر تیار کر الیتے ۔ برقی کتب کے یہ پرنٹ حاصل کرنے کے بعد یارانِ نکتہ داں کے لیے استفادے کی صلائے عام تھی۔مطالعہ کے بعد وہ ان اہم اور نادر و نایاب کتب کے پرنٹ جنھیں وہ زرِ کثیر خرچ کرکے تیار کراتے تھے مطالعہ کے شائقین کو تحفے میں دے کر خوشی محسوس کرتے تھے۔ اپنے احباب سے معتبر ربط انھوںنے زندگی بھر برقرار رکھا۔ اپنے قریبی ساتھیوں ،عزیزوں اور شاگردوں کو برقی ڈاک ارسال کرتے یا SMS کر دیتے اگر یہ بھی ممکن نہ ہوتا تو ٹیلی فون پر رابطہ کرتے ۔اگر احباب سے رابطے کی کوئی امید بر نہ آتی اور ان کی خیریت معلوم کرنے کی کوئی صورت نظر نہ آتی تو کاغذ پر اپنا حالِ دِ ل لکھ کر ڈاک کے پتا پر روانہ کر دیتے۔اگر پھر بھی جواب موصول نہ ہوتا تو وہ تشویش میں مبتلا ہو جاتے اور اپنے دوسرے مکتوب میں ڈاک ٹکٹ لگا کر ایک جوابی لفافہ ا رسال کرتے ۔ اس خط کے ملتے ہی چند روز بعد جواب آجاتا تو مکتوب الیہ کی صحت اور سلامتی کے بارے میں جان کراللہ کریم کا شکر ادا کرتے او ر سب انسانوں اوراپنے تمام ا حباب کی صحت اور سلامتی کی دعا کرتے تھے۔
یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ شادی و غم اس جہان میں تو ام ہیں ۔پروفیسر محمد شفیع ہمدم نے اپنے مخلص و معتمد احباب کے ساتھ جو عہدِ وفا استوار کیا ، اسے علاج گردش ِ لیل و نہار سمجھتے ہوئے زندگی بھراس پر عمل پیرا رہے۔کوئی دوست اپنے کسی عزیز کی شادی میںدعوت دیتا تو ہر حال میں اس تقریب میں شرکت کرتے اور نئی زندگی کا آغاز کرنے والے نوجوان جوڑے کو تحفے تحائف اوردعائیں دیتے۔جب کسی عزیز کی علالت کے بارے میں انھیں معلو م ہوتاتواس کی بیمار پُرسی کے لیے جانا اپنا فرض اولین سمجھتے تھے۔ وہ انسانی ہمدردی کے بلند منصب پر فائز تھے اور عیادت کے اپنے سفر کو عبادت اور سیاحت کی ایک صورت قرار دیتے ۔جھنگ کے مقامی ادیبوں کے علاوہ وہ طویل مسافت طے کر کے اپنے بیمار احباب کی عیادت کے لیے وہاں پہنچتے اوران کی صحت یابی کی دعا کرتے۔واقفانِ حال حیران تھے کہ اس قدرطویل مسافت اور آمد و رفت پر اُٹھنے والے اخراجات کے متحمل وہ کیسے ہوتے ہیں۔وہ اس بات کا ہمیشہ یہی جواب دیتے کہ خون کے رشتوں سے درد کا رشتہ کہیں بڑھ کر مضبوط ہوتا ہے اور پروردگارِ عالم کی طر ف سے رزق کے کثیر وسائل فراہم ہو جاتے ہیں ۔جن لوگوں کے مابین درد کا رشتہ ہوتا ہے وہ ایک دوسرے کے مخلص اور غم گسار ہوتے ہیں اور ایک کی تکلیف کے بارے میں سُن کر دوسرا تڑپ اُٹھتا ہے ۔ وہ اکثر کہاکرتے تھے کہ دردِ دِ ل کو صر ف در دآ شنا ہی سمجھ سکتا ہے۔بے حس اور بے درد کو دردِ دِ ل کے بارے میں کچھ بتانا کور چشم کے سامنے آنسو بہانے اور بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے ۔جامد و ساکت پتھروں اور سنگلاخ چٹانوں کو آلام روزگار کے ستم سہنے والے الم نصیب انسانو ں کے کرب پریشانی اور اضمحلال کا مطلق ملال نہیں ہوتا۔ پروفیسر محمد شفیع ہمدم نے اپنے جن احباب کی عیادت کے لیے طویل مسافت کی اس میں سے چندکا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ قارئین چشم ِ بینارکھنے والے اس صاحبِ بصیرت درویش کی زندگی کے اس منفرد انداز کو سمجھ سکیں کہ وہ بے لوث محبت ،بے باک صداقت اور خلوص و دردمندی کو متاعِ بے بہا سمجھتے تھے اور دنیاوی مال و دولت اور جاہ و حشمت ان کے نزدیک بتان ِ وہم و گُماں کی حیثیت رکھتے تھے۔ اپنی تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے ہوئے وہ بتایا کرتے تھے کہ وہ مختلف اوقات میں اپنے جن احباب سے ملنے اور ان کی عیادت کے لیے ان کے ہاں پہنچے ان میں سے جو نام انھیں یاد رہ گئے ہیں ان میں خضر حیات ٹو نیا ۔۔کوٹ شاکر،حاجی حافظ محمد حیات۔۔سرگودھا،اطہر ناسک ۔۔راجن پور ،ظفر احمد پوری۔۔احمد پور سیال،محمد شفیع بلوچ۔۔درگاہی شاہ،صابر کلوروی ۔۔پشاور،حسرت کاس گنجوی۔۔حیدر آباد،ڈاکٹر محمد علی صدیقی ۔۔کراچی،ڈاکٹر نثاراحمد قریشی ۔۔اسلام آباد،ڈاکٹر بشیر سیفی ۔۔راول پنڈی، رب نواز مائل ۔۔لورا لائی،منشا یاد ۔۔راول پنڈی،ڈاکٹر صابر آفاقی ۔۔میر پور ،ڈاکٹر رحیم بخش شاہین۔۔اسلام آباد ،ڈاکٹر محمد ریاض ۔۔اسلام آباد،انتظار حسین ۔۔لاہور،عبداللہ حسین ۔۔لاہور ،محمدآصف خان۔۔ لاہور، محمد اسحاق ساقی ۔۔کمالیہ ،میاں اقبال زخمی ۔۔لاہور، انعام الحق کوثر ۔۔کوئٹہ ، ارشاد گرامی ۔۔ٹوبہ ٹیک سنگھ ،اسماعیل صدیقی۔۔راول پنڈی، راجارسالو۔۔لاہور،سبط الحسن ضیغم ۔۔لاہور،رانا ارشد علی خان۔۔شورکوٹ، محمد فیروز شاہ۔۔میاں والی ، عبیر ابوذری ۔۔فیصل ٓاباد اورغفار بابر ۔۔ڈیرہ اسماعیل خان شامل ہیں۔یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ پروفیسر محمد شفیع ہمدم کے احباب بھی ان کی خوشیوں اور غموں میں شرکت کے لیے کچے دھاگے سے کھنچے چلے آتے۔محمدشفیع ہمدم کے خیال میں بے لوث محبت ایثار اور دردمندی کی متقاضی ہوتی ہے اسے محض لین دین کی ایک صور ت سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے ۔وہ احباب کے ساتھ خلوص اور دردمندی کی اساس پر استوار ہونے والے قلبی اور روحانی وابستگی اوربے لوث محبت کو دَین ہی دَین سمجھتے تھے اوراِسے یک طرفہ عمل سے تعبیر کرتے تھے ۔وہ سب کے ساتھ پیہم وفا کیے چلے جاتے مگر اس کے جواب میں کسی قسم کی خواہش کوئی تقاضا یا تمنا ہرگز نہ کرتے۔
پروفیسر محمد شفیع ہمدم اردو ادبیات کی تدریس پر مامور تھے مگر ان کو عالمی ادبیات پراس قدر عبور حاصل تھا کہ ان سے ملنے والے ان کے تبحر علمی کو دیکھ کر دنگ رہ جاتے معاصر انگریزی اور فرانسیسی ادیبوں کی تمام تخلیقات کا انھوں نے مطالعہ کر رکھا تھا ۔عالمی کلاسیک کا بہت بڑا عالم ہونے کے با وجود ان کے عجز و انکسا ر کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے اپنی علمی فضیلت کا کبھی دعویٰ نہ کیا بل کہ ہمیشہ خاموشی سے تصنیف وتالیف میں مصروف ر ہے ۔گبریل گارسیا مار کیز (Gabriel García Márquez)کی کتاب (Chronicle of a Death Foretold) کا پنجابی ترجمہ افضل احسن رندھاوا نے’’ پہلوں توں دسی گئی موت دا روز نامچہ ‘‘ کے عنوان سے کیاہے۔ پروفیسر محمد شفیع ہمدم کی بیٹھک میں ایک ادبی نشست میں سجاد بخاری ایڈوکیٹ نے گبریل گار سیا مارکیز کی اس مشہورتصنیف کا پنجابی تر جمہ دکھاتے ہوئے کہا۔’’ یہ معرکہ آرا کتاب ما بعدالطبیعات اور طلسمی حقیقت نگاری کے انوکھے پہلو سامنے لاتی ہے ۔ ‘‘پر وفیسر محمد شفیع ہمدم نے گبریل گارسیا مارکیز کی انگریزی تصنیف(بنیادی ماخذ) الماری سے نکال کر میز پر رکھ دی اور کہا ’’ مجھ یہ کتاب پروفیسر گدا حسین افضل نے عاریتاً دی ،میں اور پروفیسر گدا حسین اس کتاب کا چھے ماہ پہلے مطالعہ کر چکے ہیں۔ میں اس کتاب کے بارے میں اپنے تاثرات مجلہ اقدار کو روانہ کر چکا ہوں جب کہ پروفیسر گدا حسین نے کتاب کے تجزیاتی مطالعہ پر مبنی اپنی پنجابی تحریر مجلہ لکھاری کو ارسال کر دی ہے ۔‘‘ پر و فیسر محمد شفیع ہمدم نے سجاد بخاری ایڈوکیٹ کے ذوقِ مطالعہ کی تعریف کی اور ان کو وسیع المطالعہ ادیب قرار دیا ۔ یہ سن کر سب لوگ تحسین ،رشک اور حیرت و استعجاب سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے ۔
نفسیات اور فلسفہ کے مضامین میں پروفیسر محمد شفیع ہمدم کی خداداد صلاحیتوں کا ہر سطح پر اعتراف کیا گیا۔ اپنے وسیع مطالعہ کی وجہ سے وہ ان مضامین کے پیچیدہ موضوعات پر نہایت مدلل گفتگو کرتے اور سامعین ان کی عالمانہ گفتگو سن کر گہرے اثرات قبول کرتے تھے ۔ اپنی موثر تدریس کے اعجاز سے وہ پاکستان کی نئی نسل میں ایسی ترغیب اور ولولہ پیدا کرتے کہ نو عمر طالب علم جہد و عمل کو شعاربناکرعملی زندگی میں پورے اعتماد کے ساتھ قدم رکھنے پر کمر بستہ ہو جاتے۔ان کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی ان کے شاگردو ں کے فکر و نظر کواس طرح مہمیز کرتی کہ جہد للبقا کے تقاضوں کے مطابق طلبا مستقبل کے چیلنج سے عہدہ برآ ہونے کا عزم کر لیتے۔ان کے متعدد شاگرد عملی زندگی میں بلند مناصب پر فائز ہوئے ۔وہ سب شاگرد اپنی کا مرانیوں کو اس عظیم استاد کی موثر تعلیم و تربیت کا ثمر قرار دیتے ۔اپنے شاگردوں اور قریبی عزیزوں کو وہ ہمیشہ یہی نصیحت کرتے کہ اپنی قوم اور آبا و اجداد کے عظیم الشان ماضی اور عہدِ گزشتہ کے مشاہیر کی حسین یادوں میں ہر وقت کھوئے رہنا اور مستقبل کے بارے میں بلاوجہ تشویش میں مبتلا ہونا یا مستقبل کے سہانے سپنے دیکھناغیر دانش مندانہ فعل ہے ۔پر وفیسر محمد شفیع ہمدم کا خیال تھا کہ وہی شخص عملی زندگی میں کامیاب و کامران ہوتا ہے جو اپنے موجودہ حالات کی بہتری پر نظر رکھتا ہے اوراپنے روز و شب کا کڑا احتساب کرتا ہے۔پروفیسر محمدشفیع ہمدم نے سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا رواقیت کے داعی ان جہلا سے کبھی کوئی تعلق نہ رکھا جو وقت کے سانحہ کے نتیجے میں اپنی جہالت کا انعام پانے میں کامیاب ہو گئے۔اپنے منھ میاں مٹھو بننے کے خبط میں مبتلا متشاعر اس رجحان ساز ادیب کو دیکھتے ہی اپنی بے سروپا باتوں اور جعل سازی سے تائب ہو جاتے اور ایسے غائب ہوتے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اپنے شاگردوں کی دیکھ بھال اورتعلیم و تربیت میں وہ اسی قسم کی توجہ کو شعار بناتے جو گلستان میں گل ہائے رنگ رنگ اور ثمر نورس کی نگہداشت کے سلسلے میں جفاکش باغبان کا شیوہ ہے ۔محمد شفیع ہمدم کا حافظہ اور یاداشت بہت مضبوط تھی ،انھیں اردو ،فارسی ،عربی اور انگریزی کے سیکڑوں اشعار اور ضر ب الامثال زبانی یا د تھیں ۔اپنی تقاریر میں وہ کلاسیکی شعرا یا جدید شعرا کا منتخب کلام شامل کرکے اپنی تقریر کی اثر آفرینی کو چار چاند لگا دیتے تھے ۔ ارسطو کے تصور ِ المیہ اورسگمنڈ فرائڈ کے نظریہ تحلیل نفسی کے موضوع پرمحمد شفیع ہمدم کی عالمانہ تقاریر فکر وخیال کے متعد نئے دریچے وا کرتی تھیں۔شعبہ نفسیات سے وابستہ مایہ ناز ماہر نفسیات پروفیسر حاجی حافظ محمد حیات نے ایک علمی ،ادبی و تحقیقی کانفرنس میں محمد شفیع ہمدم کو خوابوں کی نفسیاتی اہمیت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی دعوت دی تو محمد شفیع ہمدم نے اپنی فی البدیہہ تقریر کے اختتام پر اپنے دلائل سمیٹتے ہوئے حاضرین سے مخاطب ہو کر یہ کہا :
’’یہ اندازِ فکر غیر حقیقی اور ناقابل ِ تسلیم ہے کہ لوگ خوابوں کی خیاباں سازیوں کے اس وقت گرویدہ نہیں رہتے جب وہ آئینۂ ایام میں اپنی ادا دیکھنے کے بعداس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اب آفتابِ عمر لبِ بام آ چکا ہے ۔ اب خوابوں کا کیا فائد ہ اب تو مسافت کٹ چُکی ہے اورسفر کی دُھول ان کا پیرہن بن گئی ہے ۔ وہ خود کوئی دم کے مہماں ہیں اس کے بعدانھیں زینۂ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب عازم سفر ہو نا ہی پڑے گا۔ چشمِ بینا پر یہ بات واضح ہے کہ اصل معاملہ اس کے بر عکس ہے ہر شخص پر ضعیفی ،نا توانی ،اضمحلال ،درماندگی اور بے چارگی کا غلبہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ خوابوں کی مسحور کُن اثر آفرینی کا قائل نہیں رہتا اور خوابوں کے بجائے سایوں اور سرابوں کی جستجو میں خجل ہو کر حقائق کی موہوم تلخی اور سمے کے سم کا ثمر کھانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔اس کے بعد انھوں نے احمد فراز کی نظم ’’خواب مرتے نہیں‘‘ پڑھی تو ہال میں سناٹا چھا گیا اور حاضرین کی آ نکھیں نم ہو گئیں۔
خواب مرتے نہیں
خواب دل ہے ، نہ آنکھیں ، نہ سانسیں کہ جو
ریزہ ریزہ ہو ئے تو بکھر جا ئیں گے
جسم کی موت سے یہ بھی مر جا ئیں گے
خواب مر تے نہیں
خواب تو روشنی ہیں، نوا ہیں ، ہوا ہیں
جو کالے پہاڑوں سے رکتے نہیں
ظلم کی دوزخو ں سے بھی پُھکتے نہیں
روشنی اور نوا اور ہوا کے علم
مقتلوں میں پہنچ کر بھی جُھکتے نہیں
خواب تو حرف ہیں
خواب تو نور ہیں
خواب منصور ہیں
خواب مرتے نہیں
یہ نظم پڑھ کر محمد شفیع ہمدم جب سٹیج سے نیچے اُترے تو حاجی حافظ محمد حیات زار و قطار رونے لگے اور انھوں نے اُٹھ کر محمد شفیع ہمدم کو گلے لگا لیا اور کہا کہ سگمنڈ فرائڈ نے خوابوں کے بارے میں جو کچھ کہا تھا اس سے کہیں بڑھ کر آپ نے خوابوں سے وابستہ اسرار و رموز اور حقائق کی گرہ کشائی کی ہے ۔آہ! وہ عظیم دانش ور جو زندگی کو حسین خوابوں کی بیاض سمجھتا تھا وہ زندگی کو غم کا فسانہ اور اپنے وجو دکے حقائق کو خیال و خواب بنا کر اپنے لاکھوںمداحوں کو سکتے کے عالم میں چھوڑ کر یہاں سے بہت دُور اپنی بستی بسانے چلا گیا ہے ۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پروفیسر محمد شفیع ہمدم کے پاس کوئی گیدڑ سنگھی تھی ، ہم زاد یا کوئی مافوق الفطرت طاقت ان کے تابع تھی جس کی وجہ سے ان کی شخصیت نے کرشماتی رنگ اپنا لیا تھا۔ان کے پاس ہر وقت احباب کا جمگھٹا لگا رہتا اور ادبی محفلوںکا سماںبندھ جاتا۔دوست بنانے میں وہ ایک خاص وضع احتیاط کو پیشِ نظر رکھتے مگر جب کسی کو دوست بنا لیتے تو پھر دوستی نبھانے میں کسی مصلحت کی پروا ہرگز نہ کرتے ۔ان کی سوچ ہمیشہ تعمیری ہی رہتی کسی شخص کی غیبت ، کردار کُشی ،تخریب ، عصبیت ،عیب جوئی اور تنقیص ِ بے جا سے وہ کوئی تعلق نہ رکھتے۔ معاشرتی زندگی میں ہر مکتبۂ فکر کے لوگوں کے ساتھ ان کے نہایت گہرے مراسم تھے ۔قلم و قرطاس کے حوالے سے ان کے قریبی احباب میں جھنگ کے سب ادیبوں کے علاوہ ڈاکٹرنثار احمد قریشی ، ڈاکٹربشیر سیفی ، احمد ندیم قاسمی ، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر انور سدید ،غلام جیلانی اصغر، ڈاکٹر فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر انعام الحق کوثر ، ڈاکٹر صابر کلوروی، ڈاکٹر صابر آفاقی ، ڈاکٹر محمد علی صدیقی ، نسرین انجم بھٹی،اطہر ناسک، ڈاکٹرحسرت کا سگنجوی ، اقتدار واجد،عبداللہ حسین ، انتظار حسین ، صہبا اختر ، ڈاکٹر سیداختر حسین اختر،صہبالکھنوی ، ڈاکٹر الیا س عشقی ، غفار بابر ، ڈاکٹررحیم بخش شاہین ، پروفیسر نظیر صدیقی ، ڈاکٹر محمد ریاض، ڈاکٹر شبیہ الحسن ، شبنم رومانی ،سیف زلفی ، محسن احسان ، خاطر غزنوی ، منشا یاد، سبط الحسن ضیغم،محمدآصف خان، میاں اقبال زخمی ،رب نواز مائل ، عطا شاد ، کر نل محمد خان ، صدیق سالک ، شفیق الرحمن ، دانیال طریر اور سید ضمیر جعفری شامل تھے۔
سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد پروفیسر محمد شفیع ہمدم کا زیادہ تر وقت عبادت ،مطالعہ ،تخلیق ادب اور احباب سے ملاقاتوں میں گزرتا۔گوجرہ روڈ جھنگ پر واقع نیا شہر میں کھوکھا چوک کے قریب
ایک چھوٹے سے مکان میں اردو زبان و ادب کا یہ بہت بڑا تخلیق کار مقیم تھا۔ہم سب دوست ان سے ملنے کے لیے مہینے میں ایک بار ضرور ان کے ہاں چلے جاتے اور وہ ایام گزشتہ کی کتاب کے صفحات کی ورق گردانی کر کے یادوں کا ایسادبستان کھول دیتے جس کی عطر بیزی قریۂ جاں کو معطر کر دیتی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعدان کے بچے با روزگار ہو چکے تھے اور اپنا اپنا گھربسا چکے تھے اور ملازمت کے سلسلے میںوہ پاکستان کے دُوردراز شہروں میں مقیم تھے۔پروفیسر محمد شفیع ہمدم کا سب سے چھوٹا بیٹا فیصل آباد کے کسی ادارے میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھا جہاں اسے رہائش کی سہولت بھی فراہم کی گئی تھی۔وہ اپنے والد محترم کی اجازت سے اپنے اہلِ خانہ سمیت وہاں منتقل ہو گیا ۔اب جھنگ کے مکان میں پروفیسر محمد شفیع ہمدم اپنی وفا شعار اہلیہ کے ساتھ اقامت پذیر تھے۔ان کے بیٹوں نے اپنے ضعیف والدین کو ساتھ لے جانے پر بہت اصرار کیا لیکن پروفیسر محمد شفیع ہمدم نے وہ مکان اورنیاشہر کادیہی زندگی کا عکاس ماحول چھوڑنے سے انکار کر دیا جس میں ان کے بچپن اور جوانی کا حسین زمانہ گزرا۔ وہ اس بات پر زور دیتے کہ اس شہر میں موجود میرے مُونس اور غم خوار اور محرم راز رفیق موجود ہیں میں ان کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤ ں گا۔ بڑے شہروں کے مکینوں کا دِل اتنا بڑا نہیں جب کہ چھوٹے قصبات اور دیہات کے لوگ بہت بڑا دِل رکھتے ہیں۔میں یہاں سے چلا جاؤں تو کسی دوسرے شہر میںمجھے امیر اختر بھٹی، خواجہ شائق حسن ،مظفر علی ظفر، بلال زبیری ،رام ریاض ،خیر الدین انصاری،احمد تنویر،بیدل پانی پتی،حکمت ادیب،مظہر اختر،خادم مگھیانوی،ظفر احمد پوری،گدا حسین افضل ،سجاد بخاری،سمیع اللہ قریشی ،مہر بشارت خان،عمر حیات بالی ،حاجی حافظ محمد حیات،ظفر سعید، نور احمد ثاقب ، محمد شریف خان ، محمد نواز خان سیال،شفیع بلوچ،معین تابش،عباس ہادی،محمد بخش گھمنانہ ،عبد ا لحلیم انصاری،فیض محمد خان ارسلان اور عاشق حسین فائق جیسے معتمد ساتھی کہاں سے ملیں گے ۔یہ وہ نابغہ ٔ روزگار لوگ ہیں جو مُلکوں مُلکو ں ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں گے ۔ وقت اور تقدیر کے فیصلے بھی عجیب ہوتے ہیںجنھیں دیکھ کر انسان محو حیرت ہو کر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اختیارِ بشر پر کس قدر سخت پہرے بٹھا دئیے گئے ہیں۔تقدیر کی تو پہچان ہی یہ ہے کہ وہ ہر لمحہ ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں اُڑا کر انسان کی بے بسی کو سامنے لاتی ہے ۔سال 2010اپنے اختتام کی طر ف بڑھ رہا تھا اور نئے سال کی آ مد آمد تھی ۔تقدیر نے پروفیسر محمد شفیع ہمدم کی کتاب زیست میں ایک الم ناک باب رقم کیا ۔سردیوں کی ایک شام ان کی اہلیہ محترمہ حرکت قلب بند ہونے کے باعث انھیں دائمی مفارقت دے گئیں۔ اس شامِ الم کے بعد درد کی ایسی اعصاب شکن ہو اچلی جس نے پروفیسر محمد شفیع ہمدم کی روح کو زخم زخم اور دِل کو کِرچی کِرچی کرکے ان کی مضبوط اورمستحکم شخصیت کومکمل انہدام کے قریب پہنچا دیا ۔ پروفیسر محمد شفیع پر گزرنے والے اس صدمے اور سانحہ کے بعد جھنگ میں مقیم ان کے قریبی احباب اور ادیبوں نے ان سے معتبر ربط بر قرار رکھا۔پروفیسرگدا حسین افضل ان کے پڑوس میں رہتے تھے وہ ہر روز صبح شام بلا ناغہ ان کی خیریت معلوم کرنے ان کے گھر پہنچتے۔ اپنی اہلیہ کے چہلم تک پروفیسر محمدشفیع ہمدم جھنگ میں تنہارہے اس کے بعد انھوں نے اپنے بیٹوں کے اصرار پر جھنگ کا مکان فروخت کر دیا اور فیصل آباد اپنے بیٹے کے پاس چلے گئے۔امیر اختر بھٹی نے پروفیسر محمد شفیع ہمدم کو فیصل آباد روانہ ہوتے وقت نیا شہر سے الوداع کہا۔انھوں نے اس لمحے کی روداد بیان کرتے ہوئے بتایا کہ نئے مالک مکان کو اپنے گھر کی چابی دینے کے بعد پروفیسر محمد شفیع ہمدم اپنے گھر کے سامنے گلی میں اپنے بیٹے کے انتظار میں فرش ِ زمین پر بیٹھ گئے۔تھوڑی دیر کے بعدان کا بیٹا سواری کا انتظام کر کے وہاں آ پہنچا اوراس نے باپ کو چلنے کے لیے کہا ۔پروفیسر محمد شفیع ہمدم نے گھر کے درو بام ،گلی ،محلے اور نیا شہر کو نم ناک آ نکھوں سے آخری بار دیکھا ۔ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے وہ اپنے گُھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر یوں اُٹھے جیسے کوئی جہاں سے اُٹھتا ہے۔اس کے بعد وہ پھر کبھی اس شہر میں پلٹ کر نہ آ ئے۔
پاکستان کے تیسرے بڑے شہر میں چلے جانے کے بعد وہ وہاں خاموشی سے زندگی گزارنے لگے۔وہاں تو ہر شخص اپنی فضا میں مست پھرتا تھا کسی کو اس قدر فرصت کہاں کہ وہ ایک حساس تخلیق کار کی چشمِ تر کی جانب توجہ دے۔ جھنگ سے کُوچ کرنے کے بعد معاشرتی زندگی کی تنہائیوں کا زہر ان کے رگ و پے میں سرایت کر گیا ۔ چند ماہ بعدان پرفالج کا شدید حملہ ہوا ،پروفیسرمحمد شفیع ہمدم کی اولاد نے اُن کی خاک کو اکسیر بنانے والے اس محسن اور عظیم انسان کے علاج اور خدمت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی ۔شدید علالت کے باعث پروفیسر محمد شفیع ہمدم بستر تک محدود ہو کر ایسے بیٹھے کہ پھر ان کا جنازہ اُٹھااور تقدیر نے پنجابی اور اردو زبان کی صہبائے تخلیق کو عدیم النظیر سخن ور سے محروم کر دیا۔ حریتِ فکر کے اس مجاہد کی دائمی مفارقت کے بعد علمی و تدریسی نشستیں بے کیف ہیں اوربزمِ ادب سوگوار ہے ۔ اپنے اس دیرینہ رفیق اور غم گسار کی رحلت کی خبر سُن کر میں فرطِ غم سے نڈھال تھا۔میری پُر نم آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ۔ اسی حال میں اچانک میری آ نکھ لگ گئی کیا دیکھتا ہوں کہ ہمیشہ کی طرح صاف ستھرے سفید شلوار قمیص کے لباس میں ملبوس پروفیسر محمدشفیع ہمدم نہایت وقار اور اعتماد کے ساتھ راہِ رفتگاں پر روا ںدواںہیں۔مجھے ہجومِ ِغم میں دِل گرفتہ اور ملول دیکھ کر بولے کہ اگر یاد رکھو گے تو مجھے سدا اپنے دِل کے انتہائی قریب پاؤ گے لیکن اگر چڑھتے سورج کے پجاریوں کے مانند فراموش کر دو گے تو تقدیر کے دئیے یہ فاصلے کبھی سمٹ نہیں سکتے ۔ میںشبِ تاریک کے بے آب و گیاہ صحرا کی وہ فغاں ہوں جسے فردا کا خورشید جہاں تاب یقینا سنے گا اورہر عہد کا قاری میرے علمی و ادبی کام پر سر دُھنے گا۔ اس اثنأ میں اچانک مجھے محمد شفیع ہمدم کی مانوس آواز سنائی دی جو اپنے پسندیدہ شاعر ندا فاضلی کے یہ شعر دہرا رہے تھے۔
اب خوشی ہے نہ کوئی درد رُلانے والا
ہم نے اپنا لیا ہر رنگ زمانے والا
اُس کو رُخصت تو کیا تھا مجھے معلوم نہ تھا
سارا گھر لے گیا گھر چھوڑ کے جانے والا
اِک مسافر کے سفر جیسی ہے سب کی دنیا
کوئی جلدی میں کوئی دیر سے جانے والا