جھنگ شہر کے ایک دُور اُفتادہ قدیم قصبے درگاہی شاہ میں مقیم جدید اُردو ادب کے ممتاز تخلیق کار،ماہر تعلیم ،نقا د،محقق، مورخ،ماہر لسانیات اور فلسفی محمد شفیع بلوچ نے بیس جنوری 2010 کو داعیء اجل کو لبیک کہا۔وہ ہماری بزمِ وفا سے یوں اٹھا کہ پھر ستاروںکی روشنی ماند پڑنے لگی اور درو دیوار حسرت و یاس کی تصویر پیش کرنے لگے۔اس کی وفات پر شہر کا شہر سوگوار دکھائی دیتا تھا۔ فرشتہء اجل نے وہ زیرک ،فعال اور مستعد ادیب ہم سے چھین لیا جو گزشتہ تین عشروں سے پرورش ِ لوح و قلم میں مصروف تھا۔ ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز ،اپنی فن کارانہ انا اور خود داری کا بھرم بر قرار رکھتے ہوئے محمد شفیع بلوچ نے تخلیقِ فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اترنے کی جو سعی کی ہے ،اس کے اعجاز سے اس کا ا سلوب پتھروں سے بھی ا پنی تاثیر کا لوہا منوا لیتا ہے۔وہ منفرد اسلوب کا حامل ایسا ہر دل عزیز ادیب تھا جس کی خیال افروز اور فکر پرور تحریریں قلب اور روح کی اتھا ہ گہرائیوں میں اُتر کرقاری کو مسحور کر دیتی تھیں۔اس کے دلکش اسلوب کا کرشمہ قاری کو حیرت و استعجاب کی ایسی فضا سے آشنا کرتا جو اُس کے لیے تازہ ہوا کے جھونکے کی حیثیت رکھتا تھا ۔وہ ایک حال مست درویش تھاجو تعمیری سوچ رکھتا تھا اور کسی کی تخریب سے اس نے زندگی بھر کوئی تعلق نہ رکھا۔اپنے تمام احباب اور ملاقاتیوں کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے لبریز سلوک کرنا اس کے مزاج کا امتیازی وصف تھا۔انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو اس نے ہمیشہ اپنا مطمحِ نظر بنایا ۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں حوصلے،اعتماد اور یقین کا علم بلند کر کے مشرقی تہذیب وتمدن اور معاشرت و ثقافت کی شیرازہ بندی کے سلسلے میں محمد شفیع بلوچ کی خدمات تاریخ ادب کے اوراق میں آب ِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ اس نے غیر یقینی حالات اور ہوائے جور و ستم میں بھی شمعِ وفا کو فروزاں رکھا ، حریتِ ضمیر سے جینے کی راہ اپنائی اور جبر کا ہر انداز مسترد کر کے حق گوئی و بے باکی کو شعار بنایا ۔ وہ اپنے عہد کا ایک ہر دل عزیز ادیب تھا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی مقبولیت میںاضافہ ہوتا چلا گیا ۔اسے ایک ایسے رانجھے کی حیثیت حاصل تھی، جو سب کا سانجھا تھا۔ اس کی گل افشانی ء گفتار کا ایک عالم معترف تھا۔اس کی رحلت کے بعد تو وفا کے سب ہنگامے ہی دم توڑگئے۔ممتاز شاعر ساغر صدیقی نے سچ کہا تھا :
محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا
ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا
ہر مُسرت غمِ دیرو ز کا عنوان بنی
وقت کی گود میں لمحات نے دم توڑ دیا
محمدشفیع بلوچ نے ایک محنتی کسان علی خان کے گھر 1957میں جنم لیا۔ پُورے علاقے میں اس خاندان کی علمی فضیلت اورخاندانی شرافت مسلمہ تھی اور لوگ اس خاندان کا بے حد احترام کرتے تھے ۔ اس کے والد کو گائوں کا نمبر دار اور مقامی پنچایت کا سر براہ مقرر کیا گیا ۔محمدشفیع بلوچ کی آنول نال بھمبے والا موضع درگاہی شاہ میں گڑی ہے۔اسی کنویں کے دیہی ماحول سے محمد شفیع بلوچ نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز کیااور اس کے بعد پاکستان کی ممتاز جامعات سے اردو زبان و ادب اورایجوکیشن میں ایم۔اے اورایم ۔فل کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اپنی محنت ،لگن اور فرض شناسی سے اس زیرک تخلیق کار نے بڑے بڑے شہروں میں مقیم دانش وروں کو متاثر کیا ۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ محکمہ تعلیم حکومت پنجاب میں ثانوی سکول معلم کی حیثیت سے تدریسی خدمات پر مامورہوا۔اس کا شمار پاکستان کے نامور ماہرین تعلیم میں ہوتا تھا ۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ اپنے گائوں کے نزدیک واقع موضع لشاری کے سرکاری ثانوی مدرسے میںانگریزی اور اردو ادبیا ت کی تدریس پر مامور تھا۔ پرانے زمانے میں مطلق العنان بادشاہ اپنی آمرانہ مہم جوئی سے علاقے فتح کر کے انھیں اپنی طاقت کے بل بوتے پر اپنی اقلیم میںشامل کر لیتے تھے لیکن محمدشفیع بلوچ علم وادب کی اقلیم کا ایسا منکسرالمزاج فرماں روا تھاجو اپنی علمی فضیلت اور شگفتہ بیانی کے مسحورکن انداز سے قلب و نظر کو مسخرکر لیتا تھا۔ محمد شفیع بلوچ کی مندرجہ ذیل تصانیف سے اردو ادب کی ثروت میں اضافہ ہوا:
حسنِ کلامِ محمد ﷺ،شیخ اکبر محی الدین ابن عربی ،جاوید نامہ (ایں کتاب از آسمانِ دیگر است)، مشرق کا فراموش کردہ نابغہ(مولانا احمد رضا بریلوی کے بارے میں انگریزی سے ترجمہ)،سیرِ آفاق
محمد شفیع بلوچ کی مندرجہ ذیل تصانیف تکمیل کے مراحل طے کر نے والی تھیںکہ اجل کے بے رحم ہاتھوں نے اس جری تخلیق کار سے قلم چھین لیا:
مغرب اور اسلام،مذاہبِ عالم،فلسفہ اورفلاسفہ،تصوف کی دنیا ،ٹھہرو(افسانے)،مضامین علمی و ادبی،انشائیے،تحریکِ پاکستان اورعلما و مشائخ ،بلوچ تاریخ کے آئینے میں،جیون اک عذاب(شاعری)
کتب بینی کی عادت محمد شفیع بلوچ کی فطرت ثانیہ بن گئی تھی۔قابلِ مطالعہ کتب کی جستجو میں وہ دیوانہ وار تمام مآخذ تک پہنچتااور ہر چشمہء فیض سے اپنا ساغر بھر کر واپس آتا ۔نادر و نایاب کتب اور قدیم مخطوطات سے اسے زندگی بھر گہری دلچسپی رہی۔ ساٹھ کے عشرے میں زینہء ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رخت ِ سفر باندھ لینے والے ممتاز ادیبوں کے سر خیل غلام علی خان چین ،سردار باقر علی خان،خادم مگھیانوی اور حاجی محمد یوسف ایام ِگزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے اس شہرِ نا پُرساں کی قدیم تاریخ کے بارے میں جو احوال بیان کرتے تھے اس کی سرگزشت کا عینی شاہد محمد شفیع بلوچ تھا ،اس کے جاتے ہی درو دیوار کی صورت ہی بدل گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہونے والی اکثر مُلاقاتیں ادھوری رہ جاتیں اور متعدد ضروری باتیں دل میں نا گفتہ رہ جاتیں۔ لوک ادب ، لوک داستانوں اور قصے کہانیوں کا مزاج سمجھنے والا بہت دور اپنی نئی بستی بسا نے جا پہنچا۔ اب پتھر کے زمانے کاماحول پیش کرنے والی اس قدیم ترین بستی کے یہ قصے کون سنائے گا ؟ مختلف قدیم روایات کے حوالے سے جو باتیں میں نے محمد شفیع بلوچ سے سُنیں ان کا ملخص میں اپنے الفاظ میں پیش کرتا ہوں:
’’ مگھیانہ شہر میں سطحِ زمین سے تیس فٹ گہرے دو تالاب طوفان نوحؑ کی باقیات سمجھے جاتے تھے۔712میںمحمد بن قاسم کی شورکوٹ آمد سے صدیوں قبل مگھیانہ شہرسے ملتان جانے والی شاہراہ کے جھنگ میں نقطہ ء آغاز پر گندے پانی کا ایک جوہڑ ہوا کرتا تھا ۔اس جوہڑ کی شناخت ’’گندا ٹوڑا ‘‘ کے نام سے ہوتی تھی۔ دوسرے تالاب میں دریائے چناب سے آنے والی نہر کا صاف پانی ذخیرہ کیا جاتا تھا جو پینے کے کام آتا تھا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پینے کے پانی کی ضروریات میں اضافہ ہوا تو نظام سقے نے تالاب کی توسیع کی اور شہر کے ہر چوک پر گھڑونچی پر گھڑے رکھوا دئیے اور کئی ما شکی بھرتی کیے اور آب خورے مہیا کیے ۔یہ پُر اسرار ماشکی کسی نا معلوم جانور کی متعفن کھال میں پانی بھر کر راہ گیروں کو پلاتے تھے۔جو ماشکی یہ مشکیں بھر کر تشنہ لبوں کی تشنگی اور ان کے جگر کی آگ بجھاتے تھے ان پر یہ الزام تھا کہ وہ ان مشکوں میں آتشِ سیال بھر کر لاتے ہیں اور مے گلفام پلا کر سب کو بے خود کر دیتے ہیں۔ آتشِ سیال کے دلدادہ عیاش ان مفلس و قلاش ماشکیوں کو زرو جواہر سے مالا مال کر دیتے ۔نظام سقے کے بعد آنے والوں نے ان ناہنجار ماشکیوں سے مشکیں چھین لیںاور اُن کی مُشکیں کس کر انھیں زندان میں ڈال دیا تا کہ ان کی شورش پر قابو پایا جا سکے۔آب خورے اب عنقا ہیں ان کے بجائے مفت خورے اور حرام خورے دندناتے پھرتے ہیں۔ اس تالاب کے آثار تو اب بھی علامہ اقبال ہال کے قریب پائے جاتے ہیں مگر مشکیزے اُٹھانے والے ماشکی اپنی دکان بڑھا گئے ہیں۔سنا ہے اب ان ماشکیوں کی اولاد ہر سڑک کے کنارے خیمے لگا کر بھنگ کے گھوٹے سر عام تشنہ لبوں کو پلانے کے دھندے میں مصروف ہے اور ان کی پانچوں گھی میں ہیں ۔اس قدیم تاریخی تالاب کی حالت سقیم ہونے لگی تو بلدیہ نے ایک سکیم کے تحت اسے کثیر المقاصد کھیل کے میدان میں بدل دیا ہے مگر اس کی گہرائی اب بھی جوں کی توں ہے ۔ ہر قماش کے کھلاڑی جان ہتھیلی پر رکھ کر کئی سیڑھیوں سے گُزر کر یوں کھیل کے میدان میں اُترتے ہیں جیسے لحد میں اتر رہے ہوں ۔ وقت کے ستم اور آبی آلودگی نے اب دریائے چناب کو گندے نالے میں بدل دیا ہے جس میں کئی سیم نالے اور برساتی نالے گرتے ہیں۔ شہریوں کو پینے کا صاف پانی مہیاکرنے کی غرض سے بلدیہ نے تالاب کے کنارے پر ٹیوب ویل لگا کر اس کے ساتھ ایک فلٹر پلانٹ لگا دیا ہے جس سے بجلی ہونے کی صورت میں پانی پیا جا سکتا ہے۔بلدیہ کے حکام نے حاتم کی قبر پر جس طرح لات ماری ہے ،اسے دیکھ ک لوگ پانی پانی ہو گئے ہیں۔جن کے آبا سو کا سو پشت سے کُتے گھسیٹنے اور گھاس کاٹنے پر مدار تھا ،اورکالا دھن کما کر اپنا منہہ کالا کرنے والے جن سیاہ کاروں کو کالے پانی بھیجا جانا چاہیے تھاوہ یہیں دندناتے پھرتے ہیں اور بے بسوں کا بھیجا چاٹ رہے ہیں۔ کچھ ناظم تو چُلّو بھر پانی لے کر اس میں غواصی پر اُدھار کھائے بیٹھے ہیں اور لا حاصل ستم کش سفر رہنے کے بجائے زینہء ہستی سے اُترنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ شہر کے جنوب میں گندا ٹوڑا گزشتہ صدیوں کی تاریخ کا ایک ورق اور عبرت کا ایک سبق تھا ۔گزشتہ کئی صدیوںسے اس قدیم تاریخی جوہڑمیں شہر بھر کا کچرا بے دریغ پھینکا جاتا رہا اس طرح یہ گڑھا کچرے سے لبا لب بھر گیا تو بلدیہ کو خیال آیا کہ کیوں نہ کچرے کے اس تیس فٹ گہرے اور چارہزار مربع فٹ پر پھیلے انبار پر ایک فٹ صاف مٹی کی ایک تہہ بچھا دی جائے اور اس پر ہری خالی گھاس اُگا کر اسے ایک عقوبتی پارک کی شکل دے دی جائے۔اس چنگیزی منصوبے پر عمل کیا گیا اب گندا ٹوڑا تو دب چکا ہے لیکن وہاں ایک مندا پھوڑا نمودار ہو چُکا ہے ۔اس جگہ پر اُگی کُتا گھاس کو جب پانی سے سیراب کیاجاتا ہے تو تمام پانی نیچے دبے ہوئے کچرے کے ڈھیر میں جذب ہو جاتا ہے اس کے بعدعفونت اور سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے ہیں اور راہ چلنا دشوار ہو جاتا ہے۔کئی مضرِ صحت گیسیں یہاں سے ہر وقت خارج ہوتی رہتی ہیں ۔علم کیمیا کے طالب علم ان مہلک گیسوں کی شناخت اور تجزیے کی خاطر علم کیمیا کی اس کتاب کو ڈھونڈنے نکلتے ہیں جو اُنھوں نے دسویں جماعت کے امتحان سے فارغ ہونے کے بعد رنگو کباڑئیے کو ردی میںفروخت کر دی تھی۔ان کاخیال ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ سے شاید وہ کسی ایسی گیس کو دریافت کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو مسموم ماحول میں لاحول پڑھتے راہ گیروں کی اکھڑتی سانس کو بحال کر سکے۔
مختلف مضامین کی کتب کا مطالعہ محمد شفیع بلوچ کا مشغلہ تھا۔نادر و نایاب کتب اور مخطوطوں کی تلاش میں اس نے جس محنت اور جگر کاوی کا ثبوت دیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔کبھی وہ رنگو کباڑئیے کے پاس کتابوں کے ڈھیر میں سے اپنے ذوق سلیم کے مطابق کتابوں کی چھان پھٹک میں مصروف دیکھا گیا تو کبھی جھنگ کے علامہ اقبال ہال اور جناح ہال میں قائم کتب خانوں میں مطالعہ میں مشغول پایا گیا۔جھنگ کے تمام تعلیمی اداروں کی کتب کا اس نے مطالعہ کر لیا تو اس نے پاکستان کے بڑے کتب خانوں سے استفادہ کیا۔ان میں تما م جامعات اور سرکاری اورنجی کتب خانے شامل ہیں۔اس کے باوجود مطالعہ کے سلسلے میں اس کا مر حلہء شوق طے نہ ہو پایا ۔زندگی کے آخری ایام میں اس کے چہرے پر اطمینان اور قناعت کے آثار دیکھ کرحافظ حاجی محمد حیات نے اس سے پُوچھا :
’’کیا بات ہے کئی دنوں سے آپ کو کسی کتب خانے میں نہیں دیکھا گیا ،کیا آپ نے کتب بینی ترک کر دی ہے ‘‘
’’کتب بینی تو میری فطرتِ ثانیہ بن چُکی ہے ‘‘ محمد شفیع بلوچ نے کہا’’علم و ادب کی ویب سائٹس اور سائبر کتب خانوں نے سارا مسئلہ ہی حل کر دیا ہے۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ سے فاصلے سمٹ گئے ہیں۔اب میں دنیا بھر کے اخبارات و رسائل اور کتب کا مطالعہ انٹر نیٹ پر آسانی کے ساتھ کر لیتا ہوں۔برقی ڈاک کے ذریعے میرا پوری دنیا کے دانش وروں سے رابطہ ہے اور میرے مطلوبہ مآخذ انٹر نیٹ پر میری دسترس میں ہیں جنھیں میں ڈائون لوڈ کر کے ان کے پرنٹ حاصل کر لیتا ہوں۔ان دنوں میں علامہ اقبال سائبر لائبریری سے استفادہ کر رہا ہوں ۔‘‘
دُکھی انسانیت کے ساتھ خلوص ،دردمندی اور بے لوث محبت کے ذریعے اس نے اپنی ذات کے فروغ اور شخصیت کی نشو و نما کا موثر اہتمام کیا ۔بے لوث محبت کو وہ ایک ہاتھ کی تالی اور یک طرفہ عمل سے تعبیر کرتا تھا ۔اس کا خیال تھا کہ محبت کو تجارت بنا کر ہوس پرستوں نے محبت کا مفہوم ہی بد ل دیا ہے،بے لوث محبت میں محبوب تک رسائی کے لیے اپنی ذات اور شخصیت کو بالکل اسی طرح نکھار عطا کرنا پڑتا ہے جس طرح فطرت لالے کی حنا بندی کا فریضہ انجام دیتی ہے۔حسنِ ماہ جب بہ ہنگام ِ کمال ہو تو اس کی چاندنی سے فیض یاب ہونے کے لیے مقاصد کو رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کرنا لازم ہے ۔بے لوث محبت میں محبوب کی جستجواس امر کی متقاضی ہے کہ پہلے عاشق اپنی ذات کے جُملہ اسرار و رموز کی گرہ کُشائی کا مر حلہ طے کرے۔اپنی حقیقت کا شناسا بننے کے لیے جس تپسیا کی ضرورت ہے محمد شفیع بلوچ زندگی بھر اس چلہ کشی میں مصروف رہا ۔محمد شفیع بلوچ ایک جواں ہمت اور پُر عزم تخلیق کار تھا،اس نے انتہائی صبر آزما حالات میں بھی سعیء پیہم کو شعار بنایا۔وہ جب تک زندہ رہا مرگ آفریں قوتوں کے خلاف قلم بہ کف مجاہد کی حیثیت سے سینہ سپر رہا ۔اس نے حیات آفریں قوتوں کی نمو اور تحفظ کے لیے مقدور بھر جدو جہد کی۔جب وہ محفلوں کی جان تھا تو اپنے دبنگ لہجے میں موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرتا تھا ۔اس کی آنکھیں مُندجانے اور نہ ہونے کی ہونی کی خبر سن کر اس کے لاکھوں مداح سکتے کے عالم میں ہیں ۔مرگِ ناگہانی اورتقدیر کے چاک سوزنِ تدبیر سے کبھی رفو نہیں ہو سکتے۔ محمد شفیع بلوچ نے تو بھری بزم سے اُٹھ کر یہاں سے بہت دور اپنی بستی بسا لی لیکن اس کی یادوں کے زخم کبھی نہیں بھر سکتے۔
اپنے گرد و نواح کے ماحول،زندگی کے نشیب و فراز،ذاتی مشاہدات اور تجربات سے گزرتے ہوئے اس کی مستحکم شخصیت پروان چڑھی۔ اس نے اپنے سماج اور معاشرے میں رہتے ہوئے ہوئے تکمیلِ ذات کے کٹھن مراحل طے کیے ۔عملی زندگی میں خیر و شر اور سُود و زیاںکے مابین پائی جانے والی حدِ فاصل کی تفہیم کی جو صلاحیت اسے حاصل تھی اسے وہ معاشرے اور سماج کی عطاسمجھتا تھا ۔ محمد شفیع بلوچ نے آثار ِ قدیمہ میں ہمیشہ گہری دلچسپی لی وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ اس کی آنکھوںنے شہر کے جوہڑوں اور آثار قدیمہ کو برباد ہوتے دیکھا ہے۔سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے شہر کے جوہڑوں کو تو بہا لے گئے لیکن ان سے وابستہ یادیں اب بھی فضائوں میں پھیلی ہیں،جس سمت بھی نظر اُٹھتی ہے کئی مانوس اور منحوس چہرے دکھائی دیتے ہیں جن کی وجہ سے یہ مقامات سقر میں بدل گئے۔گندے ٹوڑے کے جنوبی کنارے پر واقع ہوش رُبا دھریس پارٹی کا ڈیرہ ہوا کرتا تھا ۔ان بھانڈوں کا جوگی والا پھیرا اور رقص و سرود کا پھریرادیکھ کر ہر وڈیرہ اپنی زندگی کی شبِ تاریک کا سویرا کرتا تھا۔اسی عفونت زدہ گندے ٹوڑے کے مشرقی کنارے پر ہر قسم کے کباڑ خانے ،چنڈو خانے ا ور قحبہ خانے تھے۔ان میں سے رنگو کباڑئیے کا نام تو ہر شخص جانتا ہے ۔ ردی فروش رنگو کباڑیا سو پشت سے اس دھندے سے وابستہ تھا اور اب تو اس کی حیاتِ رائیگاں بھی ایک گورکھ دھندے کا روپ دھار چُکی تھی۔اس کے پاس پرانی کتابیں ،مخطوطے ،مکاتیب اور درسی کتابیں ردی کے بھائو تُل کر بِک جاتی تھیں۔کبھی کبھی یہ چربہ ساز ،سارق اور کفن دُزدمتفنی کباڑیاشاعری کو بھی منہہ مار لیتا تھا ۔اس کے کباڑ خانے کے شکستہ دروازے کے بے خواب کواڑوں پر ذلت و تخریب کے جو کتبے نصب تھے ،ان میں یہ نمایاں تھا:
مال ہے کم یاب پر سارق ہیں کتنے بے خبر
شہر میں کھولی ہے رنگو نے دکاں سے الگ
رنگو کباڑیے نے قارئین ادب کو کتب خانوں سے بے نیاز کر دیا ۔اس کے کباڑ خانے میں عالمی کلاسیک کی کتابیں،کوک شاستر،لوک داستانیں،جادو ٹونے ، حسن و رومان ،علم نجوم اورلوک گیتوں کی کتب زمین پر بکھری پڑی ہوتی تھیں۔یہ کتابیں یا تو بڑے بڑے کتب خانوں سے چوری کی گئی تھیں یا مر حوم ادیبوں کے علم و ادب سے بے بہرہ لواحقین انھیں یہاں ردی کے بھائو فروخت کر جاتے تھے۔رنگو کباڑئیے نے ردی کی دکان کیا کھولی کتب خانوں کے مہتمم صاحبان اور مر حوم ادیبوں کے پس ماندگان نے اپنی علمی و ادبی میراث یہاں کھودی۔ملک کے کئی چربہ ساز محققین اپنی جسارت سارقانہ کے سلسلے میں رنگو کباڑئیے کے شرمندہء احسان ہیں۔
گندے پانی کے جوہڑ کے کنارے پر رہنے والا تُفتہ فرنگی نامی ایک کندہء نا تراش جاہل متفنی ڈُوم اس قدر شوم تھاکہ اپنی جہالت کا انعام پانے کی توقع میں رواقیت کا داعی بن بیٹھا۔ تُفتہ فرنگی بھی عجیب خبطی تھا ۔مشکوک نسب کا یہ ابلہ کھینچ تان کر اپنا شجرہ نسب واسکوڈے گاما سے ملاتا یہ جو پُرانی وضع کاجامہ پہنتا ،اُسے خودسکوڈے گاما نے عالم ِ شباب میں پہنا تھا۔یہ کالا انگریز اپنے موہوم اور مشکوک نسلی تفاخر پر خوب ہنہناتا،سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہو جاتا اور پریوں کا اکھاڑہ سجا کر اس میں راجا اندر بن کر دادِ عیش دیتا۔یہ متفنی بر صغیر میںبرطانوی استعمار کا سودائی تھا اور 1857کے بعد برطانوی استبداد کو اپنے آبا واجداد کی حکومت کا یادگار دور قرار دیتا۔مقامی یونین کونسل کاایک انگوٹھا چھاپ کونسلراس کا بہنوئی تھا۔تُفتہ فرنگی جہاں جاتا اپنے بہنوئی کا نام لے کر سب حاضرین کومرعوب کرتا مگر زیرک تخلیق کار اس رسوائے زمانہ چربہ ساز،سارق،کفن دُزد اور جعل ساز کو دیکھ کر لاحول پڑھتے اور جل تُو جلا ل تُو،آئی بلا کوٹا ل تُو کا ورد شروع کر دیتے۔ دو سال قبل ایک دیہی ادبی تنظیم کے زیر اہتمام محمدشفیع بلوچ کی تصنیف ’’سیر آفاق ‘‘کی تقریب رونمائی تھی ۔ ادبی نشستوں میں بِن بلائے شامل ہونا تُفتہ فرنگی کا وتیرہ تھا۔ اپنی قبیح عادت سے مجبور تُفتہ فرنگی بھی اس تقریب میں جاگُھسالیکن محمد شفیع بلوچ نے اس گُھس بیٹھیے پر کوئی توجہ نہ دی اور اس کی آمد سے بے خبر ر ہا ۔محمدشفیع بلوچ نے تقریب میںشامل ہونے والی ممتاز علمی و ادبی شخصیات کا پُرجوش خیر مقدم کیا اور اپنے دست خط کے ساتھ کتاب ان کی خدمت میں پیش کی۔ تُفتہ فرنگی کو اس بات کا شکوہ تھاکہ کسی نے اس کی آمد پر خوشی کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی اس کا خیر مقدم کیا گیا ۔ تُفتہ فرنگی کھسیانی بلی کی طرح آگے بڑھا اور ناک بھوں چڑھاتے ہوئے نہایت ڈھٹائی سے بو لا: ’’ آپ کے ساتھیوں نے تو یہ سمجھ رکھا ہے کہ میں نہ تین میں ہوں نہ تیرہ میں ۔شاید آپ نے بھی مجھے نہیں پہچانا ،مقامی کونسلر سارق خان میرے بہنوئی ہیں۔میں،میری بہن اور میرا بہنوئی آپ کے مداح ہیں اور آپ کو اچھی طرح سے جانتے ہیں لیکن کسی نے ہماری یہاں قدر ہی نہیں کی۔‘‘
’’ یہ میری بد قسمتی ہے کہ آپ مجھے اچھی طر ح جانتے ہیں۔کیا آپ نے کبھی میری کوئی کتاب پڑھی ہے ؟‘‘ محمد شفیع بلوچ نے پوچھا’’وادیء جنوں کے خارزار اور پُر پیچ راستوں پر چلنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔یہ تو بتائیں آپ مجھے کس حوالے سے اور کب سے جانتے ہیں؟‘‘
’’میری بہن اور بہنوئی دونوں ان پڑھ ہیں لیکن انھوں نے آپ کا نام سُن رکھا ہے، اس شہر کا ہر شخص آپ کا شیدا اور نام لیوا ہے۔میں پڑھنا لکھنا تو بالکل نہیں جانتا لیکن پڑھے لکھے لوگوں سے ملتا رہتا ہوں۔ یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے ۔گائوں کے اصطبل میں جتنے خر ،بُو زنے ، گرگٹ،خچر اور استر ہیں میں انھیں دیکھ کر پکڑ لیتا ہوںاور ان کے رنگ کا آسمان کے بدلتے ہوئے رنگوں سے موازنہ کرتا ہوں۔پڑھے لکھے لوگوں نے میرا آئو ،جائو اور تائو نہیں دیکھا ہے۔اب میں سب کو تیل بھی دکھائوں گا اور تیل کی دھار بھی دکھائوں گا۔میں نے زندگی بھر گدھوں کے ہل چلائے ہیںاب میں کولھو چلا کر اپنے حاسدوں کو اس میں کچل کر سب کا تیل نکالوں گا۔‘‘
محمد شفیع بلوچ نے ا س بُزِ اخفش، مخبوط الحواس اور فاتر العقل جاہل کی بے سر و پا باتیں سن کر مسکراتے ہوئے کہا’’ دیوانگی کے لیے جس فرزانگی کی احتیاج ہے تم اس سے عاری ہو۔اچھا! تو یہ بات ہے ،کسی شخص کو تین سے یا تیرہ کون نکال سکتا ہے ۔ یہ سب تشویش یا اضطراب بلاوجہ اور قبل ا زمرگ واویلا ہے اب آپ ایک کے بجائے تین کتابیںلے جائیں اور تین کرسیوں پر براجمان ہو جائیں ۔پہلے ہی آپ یہاں لیٹ آئے ہیں اب ظاہر ہے ادبی نشست تاخیر سے شروع ہو گی تو آپ کو لیٹ جانا ہو گا ۔‘‘
یہ سُنتے ہی تُفتہ فرنگی بے ساختہ انداز میں سامنے میدان میں کچی مٹی کی کلر زدہ خاک پر لیٹ گیااور گرد سے اٹے ہوئے راستے کی دُھول اس کا پیرہن بن گئی۔
گدا حسین افضل نے کہا ’’ یہ شخص تین میں بھی ہے اور مارِ آستین میں بھی ہے اب تواس پر صر ف تین حرف بھیجنے کی گنجائش ہے ۔‘‘
رانا ارشد علی بولا ’’ الفاظ کی بچت کرنا بہت ضروری ہے ،اس پر صر ف دو حرف بھیجیں جو اس کے نام کا مخفف بھی ہے ۔ تُفتہ سے ’’ت‘‘ اور فرنگی سے ’’ف ‘‘ لے لیں تو’’ تُف‘‘بنتا ہے۔‘‘
ہذیان ویرانی کا تعلق نواحی گائوں بدھوانہ سے ہے اس کی ہزل گوئی چربہ ساز اور لفاظ حشرات ِ ادب کو آئینہ دکھانے کے لیے کافی ہے :
تُف ہے تم پر اے تُفتہ فرنگی
خذف ریزے ہیں تیرے سارے سنگی
کرگس چشم اور شِپرانہ خُو ہے
ہے رشک ِ بُوم تُو متفنی بھنگی
’’یہ تو آپ کی بندہ پروری ہے جو میری اس طرح عزت کی جا رہی ہے ۔‘‘ تُفتہ فرنگی نے اپنی کور مغزی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا’’میرا عر ف’’تُف ‘‘ ہی ہے سب لوگ مجھے پیار سے کہتے ہیں تُف ہے تم پر ۔ یہ بے تکلفانہ انداز گفتگو مجھے بہت اچھا لگتا ہے اور میں احباب کی پُر تکلف ضیافت کرتا ہوں۔دعوت کے بعد سب مجھ پر تُف بھیجتے ہیں اور ہنسی خوشی اپنے گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں۔‘‘
تُفتہ فرنگی نے جب تین کتابیں اُچک لیں تو خوشی سے پُھول کر کُپا ہو گیا اور وہاں سے ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
معاشرتی زندگی کے تضادات ،بے ہنگم کیفیات ،نا ہمواریوں،کجیوں اور ناگوار ارتعاشات کو دیکھ کر محمد شفیع بلوچ بہت دل گرفتہ ہوتا اور ان سب کے بارے میں فن کارانہ انداز میں ہمدردانہ شعور پیدا کر کے عصری آگہی کو پروان چڑھانے کی سعی کرتا تھا۔جھنگ کی سڑکیں اور چوک جو شیر شاہ سوری کے عہد میں تعمیر ہوئے قدیم فنِ تعمیر کی یاد دلاتے ہیں ۔اپنی تعمیر کے زمانے سے لے کر اب تک یہ سڑکیں اور چوک اپنے قدیم گڑھوں کی امانت اپنے سینے پر سنبھالے تاریخ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے حسرتِ تعمیر میں خجل ہو رہے ہیں۔ اس شہرِ نا پُرساں میں جولوگ بلدیہ کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں وہ ایسے کا م کر تے ہیں جنھیں دیکھ کر ہر شخص دنگ رہ جاتا ہے اور فیصلے کرنے والوں کی عقل پر ماتم کرنے لگتا ہے۔کچھ عرصہ قبل ایک انہونی یہ ہوئی کہ اس شہر کی چار ہزار سال قبل مسیح کی تہذیب و ثقافت کی یاد تازہ کرنے کے لیے شہر کے ہر مصروف چوک پرکسی گدھے،خچر،گھوڑے ،چِیل،تانگے،رتھ،کوچوان، گدھا گاڑی اور نیزہ باز کا بہت بڑا دھاتی مجسمہ نصب کر دیا گیا ۔ ان بد وضع اور بے رنگ مجسموں کو ہر چوک پرنصب دیکھ کر شہر کے دانش ور ششدررہ گئے۔ایک ادبی نشست میں شہر کے ہر مصروف چوک اور ہر سڑک کے کنارے نصب کیے جانے والے ان کریہہ مجسموں کے بارے میں بات چیت کا سلسلہ جاری تھا ۔ سب کی متفقہ رائے تھی کہ جانوروں کے ان مجسموں کے بجائے آیات قرآنی ،احادیث،اقوالِ زریں، مینار ،گنبداور بُور لدے اشجار سے شہر کے حسن میں اضافہ ہو گا۔ ممتاز ادیب امیر اختر بھٹی نے کہا :
’’کیا پہلے اس شہر میں گدھے ،خچر ،گھوڑے اور کوّے کم تھے ؟ان کے مجسموں کی تنصیب کی کیا ضرورت تھی؟ یہ دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ بلدیہ نے ہر چوک کو اصطبل اور طویلا بنا دیا ہے ‘‘
شہر میں جانوروں کے بُتوں کی تنصیب پر ادیبوں اور دانش وروں کی تشویش اور اضطراب کو محسوس کرتے ہوئے محمد شفیع بلوچ نے بے ساختہ کہا :
ابتدائے جہل ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
’’پُوری دنیا میں یہ روایت پروان چڑھ رہی ہے کہ وہاں کے لوگ اپنی محبوب شخصیات کے بڑے بڑے مجسمے گزرگاہوں کے کنارے نصب کر کے ان کے ساتھ اپنی عقیدت ،ممنونیت،قلبی وابستگی اور اپنے ان محسنوںکے ساتھ سعادت مندی کا اظہار کرتے ہیں۔اپنے رفتگاں کو یاد رکھنے اور انھیں خراجِ تحسین پیش کرنے کا یہ طریقہ دنیاکے تمام ممالک میں مقبول ہو رہا ہے۔ امریکہ میں ابراہم لنکن ،چین میں ماوزے تنگ اور روس میں لینن کے مجسمے شاہراہوں پر نصب ہیں۔اگر اس شہر میں بھی یہ سلسلہ چل نکلا ہے تو اس میں کیا قباحت ہے ؟ ‘‘
’’سچ ہے اب یہاں بھی چام کے دام چلائے جائیں گے اور مقتدر لوگ اسی طرح اپنے ابنائے جنس اور نایاب نسل کے جانوروںکے مجسمے سر عام نصب کرکے خوابوں کے صورت گروں کے حقوق غصب کریں گے۔‘‘سجاد بخاری (بار ایٹ لا) نے پُر نم آنکھوں سے کہا’’وہ دن دور نہیں جب چُغد ،کرگس ،بُوم ،شپر ،زاغ و زغن ،گندی مچھلیاں اور کالی بھیڑیں یہاں عام ہوں گی۔‘‘
’’اپنی اصلاح کر لیں سجاد بخاری صاحب ‘‘محمد شفیع بلوچ نے گلو گیر لہجے میں کہا’’جس مخلوق کا آپ نے ذکر کیا ہے وہ تو تخت و کُلاہ و تاج کی بارہ دریوں اور ایوانوں میں جا گُھسی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری شامت اعمال کسی ہلاکو ،چنگیز اور نادر کی صورت میں سامنے آئے گی اور سیلِ زماں کے تھپیڑوں میں سب گدھے،خچر ،استر،گھوڑے،لوٹے ،لُٹیرے،کرگس زادے،بُوم ،شپر ،گندی مچھلیاں ،سفید کوے،بگلا بھگت،گرگٹ اور مگر مچھ نیست و نابود ہو جائیں گے۔‘‘
فصیلِ جبر کو تیشہء حرف سے منہدم کرنے کے سلسلے میں محمد شفیع بلوچ وہ کام کر دکھاتا جو اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں۔ محمدشفیع بلوچ نے ہمیشہ اپنی ذات کو معاشرے کے حوالے سے دیکھا اور احتسابِ ذات کو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا۔طنز کے شدید وار سے ہر انتہا کا کام تما م کرنا زندگی بھر اس کا شیوہ رہا۔ہوسِ زر ،افراتفری اور بیگانگی کے اس دور میں ابن الوقت عناصر کی بو العجبی نے گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے۔اللہ کریم نے محمد شفیع بلوچ کو انسانی ہمدردی اور انسان شناسی کی جن صفات سے نوازا تھا ان کے اعجاز سے اس کی شخصیت میں نکھار پیدا ہو گیا۔انسانی ہمدردی کے جذبات لہو کے مانند اس کے ریشے ریشے میں سرایت کر گئے تھے۔ وہ عجز و انکسار کا پیکر اور سراپا شفقت و خلوص تھا۔وہ کیا گیا کہ دیوار و در کی صور ت ہی بدل گئی اور گلشن ہستی سے فصلِ گُل نے مستقل طور پر رختِ سفر باندھ لیا۔اس شہر نا پرساںکی بے چراغ گلیوں میںاُداسی بال کھولے آہ و فغاں میں مصروف ہے ۔ پُورا شہر سائیں سائیں کر رہا ہے ،اُداس بام اور کُھلے در حسرت و یاس کی تصویر بن گئے ہیں۔ حسن و عشق کی لفظی مرقع نگاری کرنے والا جب سے اُٹھاہے زندگی کی رعنائیوں کا اعتبار ہی اُٹھ گیا ہے۔
زندگی کے آخری ایام میں محمد شفیع بلوچ نے اپنی حقیقت سے آگاہی اور شہر عرفان کی جانب روشنی کا سفر جاری رکھا ۔ جب اس نے پھنکارتی ہوئی تنہائیوں سے نجات حاصل کرلی ۔ تو پر چھائیوں سے دور ذات کے عرفان و ادراک کی منزل اس کی منتظر تھی ۔ یہاں پہنچ کر اس نے خیال و خواب کے راز ہا ئے سر بستہ اور وارداتِ قلبی کے انکشاف کے مراحل سے آگہی حاصل کی۔آگہی کے سرور کے حصول کے لیے وہ آبلہ پا مسافر کے مانند دشتِ عرفان میں پیہم صحرانوردی کر تا رہا۔ یہ آگہی کا دان اس کی زندگی میں ایک ایسا نیا اور غیر معمولی وردان بن کر سامنے آیا جس کے چمتکار نے قارئین ادب کوحیرت زدہ کر دیا ۔ چربہ ساز ،سارق اور کفن دزد عناصر نے رواقیت کا جو مکھوٹاچڑھا رکھا ہے اس کاپردہ فاش کر کے محمد شفیع بلوچ نے اہم خدمت انجام دی ۔ حریتِ فکر کے اس مجاہد کی زندگی کا سفرتو جیسے تیسے کٹ گیا مگر اس کا پوراوجود کر چیوں میں بٹ گیا ۔ تیر کھا کر جب وہ کمین گاہ کی طرف دیکھتا تو اس کی اپنے ہی دوستوںسے ملا قات ہو جا تی ۔کئی جو فروش گندم نما لوگ اس کے در پئے پندار رہتے ۔اس کے عزیز و اقارب میں بھی کئی عقرب گھس آئے جن کی نیش زنی سے اس کی روح زخم زخم اور دل کر چی کر چی ہو جاتامگر اس نے اپنوںکے دکھوں کا بھیدکبھی نہ کھولا اور بغیر آنسوئوں کے گریہ میں مصروف رہا اور اس طرح تزکیہ نفس کی ایک صورت تلاش کر لی۔
جن لو گوںسے اسے توقع تھی کہ وہ اسے راحتوں ،مسرتوںاور سکون کا دوشالہ اوڑھنے کو دیں گے اُن کی طرف سے مصائب و آلام کی رِدااُس کے سرپر رکھی گئی۔ خزاںکے لہجے میں متکلم اشجارنے یہ با ت ببا نگ دہل کہی کہ ابھی بہار کا کوئی امکان نہیں۔ وہ زندگی بھر بگولوں اور سرابوں کا ہم سفر رہا یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ اسے عجیب کیفیت کا سامناتھا نہ تو وہ سیراب تھا اور نہ ہی تشنہ کا م ۔ اسی کشمکش میں اس کی زندگی بیت گئی اوروہ راہِ جہاں سے گُزر گیا۔اس وقت میرے لبوں پر لفظ پتھرا گئے ہیں ۔اس دیرینہ رفیق کی دائمی مفارقت کی خبر سن کر پُورا وجود کر چیوں میں بٹ گیا ہے۔جیسے جیسے وقت گزرے گا اس عظیم انسان کی جدائی اور احساسِ زیاں کے کرب میں اضافہ ہو تا چلا جائے گا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیںمحمد شفیع بلوچ کبھی نہیں مر سکتا ۔اگرچہ و ہ ہماری بزمِ ادب سے جا چکا ہے لیکن اس کے مداح اس کی آواز کی باز گشت پر کان دھرے اس کے منتظر ہیں اور ہر محفل میں اس کے وجود کی مہک قریہء جاں کو معطر کر دیتی ہے ۔حسین، منفرد اور ابد آشنا اسلوب کی بنا پر ہر عہد کے ادب میں محمد شفیع بلوچ کے اثرات ملیں گے ۔ ممتاز شاعر سردار جعفری نے کہا تھا :
لیکن میں یہاں پھر آئوں گا
بچوں کے دہن سے بولوں گا
چڑیوں کی زباں سے گائوں گا
میں پتی پتی ،گلی گلی
اپنی آنکھیں پھر کھولوں گا