حریت فکر و عمل کے مجاہد منو بھائی ( منیر احمد قریشی )کے نہ ہونے کی ہونی دیکھ کر دِل پر جوگھاؤ لگا اس نے علم و ادب اور صحافت سے وابستہ افراد کو جذباتی اعتبار سے مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیا۔احساس ِ زیاں اور فرط ِ غم سے نڈھال دنیا بھر میں منو بھائی کے لاکھوں مداح سکتے کے عالم میں ہیں ۔ حریت فکر ،جرأتِ اظہاراور انسانیت کے وقار او ر سر بلندی کو شعار بناکر سفا ک ظلمتوں کو کافور کرنے والا وہ نیر تابا ں جو چھے فروری 1933کو وزیر آباد ( پنجاب ،پاکستان) سے افق ادب پر طلوع ہوا ،انیس جنوری 2018کو لاہور میں غروب ہو گیا ۔ اجل کے بے رحم ہاتھوں سے اردو صحافت کی وہ دبنگ آواز جوجبر کے ایوانوں پر لرزہ طار ی کر دیتی تھی ہمیشہ کے لیے مہیب سناٹوں اور جان لیوا سکوت کی بھینٹ چڑھ گئی ۔ زندگی کی درخشاں اقدار و روایات کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی موت کے تند و تیز بگولوں کی زد میں آ کرزمیں بوس ہو گئی ۔ قسمت سے محروم پا بہ گِل محروم اور مظلوم طبقے کو فسطائی جبر کے شکنجے سے رہا کرانے کی تدابیر پر غور کرنے والا مخلص ، بے باک اور جری صحافی ہماری بزم ِ وفا سے اُٹھ کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب چل دیا ۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں بے حسی کی زد میں آئے ہوئے اورمصلحت اندیشی کا شکار دست بستہ کورنش بجالانے والے معاشرے میں طوق و سلاسل کے کھلنے کے امکانات معدوم ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔ آمریت ، سرمایہ دارانہ نظام اور جاگیردارانہ نظام کے شکنجے میں جکڑے تیسری دنیا کے مظلوم انسانوں کے حقوق کی جنگ لڑنے والاقلم بہ کف مجاہد دیکھتے ہی دیکھتے دنیا سے اُٹھ گیا اور ہماری آ نکھیں دیکھتی کی دیکھتی رہ گئیں ۔مارکسزم اور ٹراٹسکی ازم کے بارے چشم کشا صداقتوں پر مبنی جو تجزیاتی مطالعات منو بھائی نے پیش کیے وہ اس کی بصیر ت اور وسعت نظر کی دلیل ہیں ۔ان موضوعا ت پر منو بھائی کی مدلل تجزیاتی تحریریں اس کی تنقیدی ،تاریخی اور عمرانی مسائل پر کامل دسترس اور وسعتِ نظرکا منھ بولتا ثبوت ہیں۔وہ روس کے انقلابی تھیورسٹ لیون ٹراٹسکی ( Leon Trotosky:1879-1940)کی سال 1920میں شائع ہونے والی معرکہ آراعلمی ،ادبی اور تاریخی تصنیف(Literature And Revolution) کی بنا پر اس تخلیق کار کی ادبی فعالیت کا مدا ح تھا۔وہ اس با ت پر اصرار کرتا تھا کہ قسمت سے محروم پس ماندہ طبقے کو طویل عرصے سے سمے کے سم کا جو ثمر مل رہا ہے وہ سب جاگیرادارانہ ، سرمایہ دارانہ اور آمرانہ نظام کا کیا دھرا ہے ۔جب تک اس ظالمانہ کو بیخ و بن سے اکھاڑ کر نہیںپھینکا جاتااس وقت تک معاشرتی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر رہیں گی اور مظلوموں کی آہیں بے اثر ثابت ہوں گی ۔ رخشِ حیات پیہم رو میں ہے ۔ہر ابتدا کی ایک انتہا ،ہر آغاز کا ایک انجام اور ہر کمال کا زوال نوشتۂ تقدیر ہے ۔تقدیر جب ہر مرحلۂ زیست پر انسانی تدبیر کی دھجیاں اُڑا دیتی ہے تو انسانی بے بضاعتی،کارِ جہاں کے ہیچ ہونے اور زندگی کی کم مائیگی کے بارے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہتا ۔ یہ بات کسی کو معلوم نہیں کہ زندگی کا سفر کہاں اور کس وقت اختتام پذیر ہو گا۔جس وقت تمام بلائیں تمام ہو جاتی ہیںتو مرگِ نا گہانی کاعفریت ہر سُو منڈلانے لگتا ہے ۔ ایام گزشتہ کی کتاب جب اپنے اختتام کو پہنچ جاتی ہے تو خار زارِ حیات کا ہر آ بلہ پا مسافر اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ سیرِ جہاں کا حاصل حیرت ، حسر ت اور یاس و اضطراب کے سواکچھ بھی نہیں ۔وہ سفر کی دُھول کو اپنا پیرہن بنا کر ہمیشہ کے لیے آسودۂ خاک ہو جاتا ہے ۔
منو بھائی نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ کالج اٹک سے حاصل کی ۔ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ترجمہ نگاری اورصحافت کی طرف توجہ دی ۔گزشتہ صدی کی ساٹھ کی دہائی میں ایوب خان کی آمریت کے خلاف منو بھائی نے بھر پور جد و جہد کی ۔ اس نے پاکستا ن فیڈرل یو نین آ ف جر نلسٹس میں شامل ہو کر صحافت میں آزادی ٔ اظہارکے لیے انتھک جد و جہد کی ۔اس عرصے ( 1968-1969)میں منو بھائی نے صحافیوں کو حریت ضمیر سے جینے کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کرنے پر آمادہ کیا ۔گزشتہ صدی کے ساتویں عشرے میں جب ذو الفقار علی بھٹو کی جماعت پاکستان میںبر سرِ اقتدار آئی تو منو بھائی اس جماعت کے ترجمان اخبار ’ مساوات سے وابستہ ہو گیا۔ منو بھائی کا اخباری کالم ’ گریبان‘ جبر کے خلاف پیکار اور ضمیر کی للکار کی حیثیت سے اپنی مثال آپ ہے ۔ اپنی کالم نگاری سے منو بھائی نے مسائل عصر کے بارے میںقارئین میں مثبت شعور و آ گہی پیدا کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ۔منو بھائی کے ترقی پسندانہ خیالات کو اس کا سب سے بڑا اعزاز و امتیاز سمجھا جاتا ہے ۔ اس نے غربت ،بے روزگاری ،ناداری ،انصاف کشی ،طبقاتی نا ہمواری ،معاشرتی زندگی کے تضادات ،استحصالی عناصر کی شقاوت آمیز نا انصافیوں ،عمرانی مسائل ،دہشت گردی ،سیاسی عدم استحکام ،اقدار و روایات کی زبوں حالی اور انسانیت کو درپیش مسائل پر کُھل کر لکھا ۔اس نے مظلوم طبقے سے جو عہدِ وفا استوار کیا اسی کو علاج گردشِ لیل و نہار سمجھتے ہوئے سدا اُس پر عمل کیا ۔قدرت کاملہ نے منو بھائی کو ذوق سلیم اور فقید المثال تخلیقی صلاحیتوں سے متمتع کیا تھا ۔ سال 1964میں جب پاکستان ٹیلی ویژن نے لاہور سے اپنی نشریات کا آغاز کیا تو منو بھائی نے قلمی معاون کے طور پر اسلم اظہر کے ساتھمِل کر کام کیا۔ ٹیلی ویژن کے لیے منو بھائی کے لکھے ہوئے جو ڈرامے ناظرین میں بے حد مقبول ہوئے ان میں ’ سونا چاندی ‘ ( 1982) ،’ آشیانہ ‘ ،’ دشت ‘ ،’ گم شدہ ‘ اور خوب صور ت شامل ہیں ۔ حکومت پاکستان نے منو بھائی کی علمی ،ادبی اور قومی خدمات کے اعتراف میں اس عظیم انسان اور محب وطن پاکستانی کو سال 2007میں پرائڈ آ ف پرفارمنس سے نوازا ۔ منو بھائی کی وابستگی نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط ہے ۔زندگی کے آخری ایام میں جب منو بھائی کو گردے اور قلب کے امراض نے مضمحل کر دیا تھا وہ ادبی محفلوں میں کم کم شرکت کرتا ۔سال 2014میں منو بھائی نے نادر و نایاب کتب پر مشتمل اپنا بہت بڑا ذاتی کتب خانہ علم و ادب کے فروغ کی خاطر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کو بہ طور عطیہ پیش کیا ۔ تئیس مارچ 2018کو حکومت ِ پاکستان نے منو بھائی کی فقید المثال علمی،ادبی،قومی ،ملی اور صحافتی خدمات کی بنا پر اس یگانۂ روزگاردانش ور کے لیے ہلالِ امتیاز کا علان کیا ۔
گزشتہ صدی کے ساٹھ کے عشرے میں منو بھائی کی ترقی پسند شعور سے مزین شاعری کی ہر سُو دُھوم تھی ۔بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لفظ کی حرمت کے نگہبان اس بہادر تخلیق کار نے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے آزمائش و ابتلا کی گھڑی میں حریت فکر کا علم بلند رکھنے پر اصرار کیا ۔اس کی گل افشانیٔ گفتار سے ہرمحفل کِشتِ زعفران میں بدل جاتی تھی ۔ جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے سوشلسٹ تھیورسٹ ٹیڈ گرانٹ ( Ted Grant,) کے افکار میں منوبھائی نے گہری دلچسپی لی ۔ ٹیڈ گرانٹ ( 1913-2006)کے افکارسے جاوید شاہین بھی متاثر تھا۔ وفیات نگاری میں بھی منو بھائی نے اپنی خداد اد صلاحیتوں کا لو ہا منوایا ۔اس موضوع پر اس کی کتا ب ’جنگل اُداس ہے ‘ ہمیشہ یاد رکھی جائے گیا ۔اس کتا ب میں منو بھائی نے راہِ جہا ں سے گزر جانے والے جن ممتاز ادیبوں کی یادوں کو سمیٹا ہے ان میں احمد ندیم قاسمی ، دلدار پرویز بھٹی ،شفقت تنویر مرزا اوراستاد دامن شامل ہیں ۔ قارئین کے قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آ فرینی سے لبریز منو بھائی کی پنجابی شاعری سنگلاخ چٹانوں اور جامد و ساکت پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے ۔منو بھائی کی پنجابی شاعری پر جن ممتاز نقادوں نے دادِ تحقیق دی ہے ان میں نثار احمد قریشی،بشیر سیفی ،خاطر غزنوی ،انعام الحق کو ثر ، دیوان احمد الیاس نصیب،اقتدار واجد ،نو ر احمد ثاقب ، سجاد رانا ،عبدالحلیم انصاری ،فیض محمد خان ،غلام علی خان چینؔ ،گدا حسین افضلؔ ،احمد بخش ناصرؔ ،ذکیہ بدر ، کوثر پروین ، فضل بی بی ،شبیر احمد اختر ،ارشاد گرامی ،محمد فیروز شاہ ،حاجی محمد یوسف ،ڈاکٹر محمد کبیر خان ،شریف خان ،شفیع بلوچ ،سجاد بخاری اور مظفر علی ظفر ؔ شامل ہیں ۔ اپنی تخلیقی تحریروں میںمنو بھائی نے اس جانب متوجہ کیا کہ زندگی اور موت کے بارے میںمثبت شعور و آ گہی پروان چڑھانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔ اُس نے ہمیشہ طوطا چشم ، خفاش منش مفاد پرست ،ابن الوقت او رجو فروش گندم درندوں کے مکرکا پردہ فاش کرتے ہوئے ان کے قبیح کردار کو ہدفِ تنقید بنایا ہے ۔ فصیلِ جبر کو تیشۂ حرف سیمنہدم کرنا منو بھائی کے اسلوب کا امتیازی وصف قرار دیا جاتا ہے ۔اپنی پنجابی شاعری میں منو بھائی نے اس المیے پر کرب کا اظہار کیا ہے کہ وہ سفہا ،زاغ و زغن ،کرگس ،بُوم و شپر منزل کے آ شیاں میں گھس گئے ہیں جن کا قومی زندگی میں کوئی کردا رہی نہ تھا ۔منو بھائی نے اس بات پر دلی کرب کا اظہار کیا کہ اس بے حس معاشرے میں جاہل کو اس کی جہالت کا انعام دیا جاتا ہے مگر جوہرِ قابل کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ۔وقت کے ایسے سانحات کو کس نام سے تعبیر کیا جائے ۔منو بھائی کی شاعری میں دھنک رنگ منظر نامہ دکھائی دیتا ہے جس میں رومان ،احتجاج اور اِنقلاب کے رنگوں کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے ۔
ظالم ہتھ بہبود دے
قاتل کول فلاح
ڈُبدے کنڈھیاں کولوں پُچھے
محمد علی جناح
کِدھر گئیاں بیڑیاں
کِدھر گئے ملاح
یہ فطرت کا اصول ہے کہ جب انسان کے اعضا مضمحل ہو جاتے ہیں تو عناصر میں اعتدال بھی رفتہ رفتہ عنقا ہونے لگتا ہے ۔یہی وہ لرزہ خیز مرحلۂ زیست ہے جہاں انسا ن یہ جان کر دم بہ خود رہ جاتا ہے کہ اس کی زندگی کا سفر تو اُفتاں و خیزاں کٹ گیا مگر سرابوں کے عذابوں کی مظہر اس صحرانوردی کے نتیجے میںاس کا پورا وجود کِرچیوں میں بٹ گیا۔اسی اعصاب شکن لمحے میں ہوا کے دوش پہ رکھی ہوئی اس کی مشعلِ زیست بُجھنے سے پہلے ٹمٹماتے ہوئے اُسے ہونی کے وار کے بارے میں متنبہ کرتی ہے ۔کارِ جہاں اس قدر پیچ در پیچ اور دراز ہے کہ انسان اس میں اُلجھ کر رہ جاتا ہے ۔سلسلۂ روز و شب میں اُلجھا پریشان حال انسان بعض اوقا ت اپنے حال اور مستقبل کے بارے میں کوئی واضح حکمت ِ عملی وضع کرنے سے گریز کرتا ہے اور حقائق سے شپرانہ چشم پوشی اس کا وتیرہ بن جاتا ہے ۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ تاریخ کا ایک مسلسل عمل ہوتا ہے جو پیہم روا ںدواں رہتا ہے ۔ہر شخص کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ درپیش حالات کے بارے میں جو چاہے فیصلہ کرے ۔اگر وہ اپنے مستقبل کے بارے میں کوئی حکمت عملی مرتب کرنے سے قاصر رہتا ہے تو تاریخ کا عمل اس کی اس مہلک غلطی کے بارے میں ایک حکمت عملی مرتب کرنے میں کبھی تامل نہیں کرتا ۔کوئی شخص اپنی کور مغزی ،بے بصری اور ذہنی افلاس کے باعث جب اپنے حالات کے بدلنے کے بارے میں کوئی ٹھوس لائحۂ عمل اور واضح حکمت عملی پیش نظر نہیں رکھتاتو وہ در اصل اپنی ہی تخریب کرنے کی مجنونانہ روش اپناتا ہے ۔آئینۂ ایام میں اس کی یہ کج ادائی دیکھ کر تقدیر مسکراتی ہے اور حکمت عملی ایسے شخص کی بے عملی کو دیکھتے ہوئے حسر ت ناک المیے کی مثال بنا دیتی ہے اورتساہل کے سب شاخسانے اور ان کے پس پردہ کارفرما عوامل کے افسانے عبرت کے تازیانے بن جاتے ہیں ۔سیلِ زماں کے تھپیڑے ایسے عناصر کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں ۔یہ تقدیر کی حکمت عملی ہی ہے جو زندگی کے نشیب و فراز کے جملہ اسرار و رموز پر کڑی نظر رکھتی ہے اور عرصۂ محشر کو نظر انداز کرنے والے حشرات کے کبر و نخوت کی ہر واردات کے اسباب کو طشت از بام کر کے اپنی اٹل او رنا گزیر اہمیت کا اثبات کرتی ہے ۔
تحقیق اور تفحص کا عنصر منو بھائی کی جبلت میںشامل تھا ۔فلسطینی شاعر محمود درویش ( 1941-2008)کے کلام کے تراجم منو بھائی کا اہم کام ہے ۔جب تک اس کی جان میں جان رہی اس نے انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو اپنا شعار بناتے ہوئے مظلوم انسانوں کی بے لوث خدمت کو اپنا لائحۂ عمل بنائے رکھا ۔منو بھائی نے اس حقیقت پر زور دیا کہ عملی زندگی میں ستیز ہی جذبۂ مسابقت کو مہمیز کرنے کا موثر ترین وسیلہ ہے ۔ طوفانِ حوادث کے سامنے سینہ سِپر ہونا منو بھائی کے کردار کی عظمت اور مستحکم شخصیت کی دلیل ہے۔ منو بھائی کے بیٹے ( کاشی ) کو جب بون میر و بیماری (Bone Marrow Disease) لاحق ہوئی تو منو بھائی اندر سے کھو کھلا ہو گیا ۔ اس کے بعد اس نے فلاحی کاموں میںبڑھ چڑھ کر حصہ لیااور اپنی بقیہ زندگی دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دی ۔تھیلے سیمیا کے مریضوں کے علاج کے لیے مطلوبہ فنڈز جمع کرنے کے سلسلے میں اس نے مقدور بھر جد و جہد کی ۔ سرابوں کے عذابوں اور زندگی کے بے آ ب و گیاہ راستے میں بکھرے ہوئے خارِ مغیلاںکو دیکھ کر جس صبر و استقامت کے ساتھ حریتِ فکر کے اس مجاہد نے حوصلے اور اُمید کی شمع فروزاں رکھی اُس سے ہر عہد میں دلوں کو ایک و لولۂ تازہ نصیب ہو گا ۔منو بھائی نے ہمیشہ یہی پیغا م دیا کہ ہوائے جورو ستم میں بھی وفا ،خلوص ،مروّت اور ایثار کی شمع فروزاں رکھی جائے ۔اس کے اسلوب سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حیاتِ جاوداں کا راز ستیز میں پنہاں ہے ۔ منو بھائی جیسے با ہمت اورپُر عزم انسان ہر آزمائش میںثابت قدم رہتے ہیں اور جریدۂ عالم پر اپنا دوام ثبت کر دیتے ہیں ۔