پاکستان کے ممتاز ادیب ،مورخ اور ماہر علم بشریات مختار مسعودنے پندرہ اپریل 2017کوعدم کے کُوچ کے لیے رختِ سفرباندھ لیا۔مختار مسعود کے والد شیخ عطا اللہ (1896-1968)کا آبائی وطن سیال کوٹ تھا ۔ یہیں مختار مسعود نے پندرہ دسمبر1926کو جنم لیا۔ شیخ عطااللہ کا شمار اپنے عہد کے ممتاز ماہرین معاشیات میں ہوتاتھا۔شیخ عطا اللہ نے کچھ عرصہ کے لیے جلال پور جٹاں( گجرات ،پنجاب پاکستان) میں سکونت اختیارکی اور یہیں سے وہ علی گڑھ منتقل ہو گئے ۔ وہ بیس سال (1929-1948)تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں معاشیات کی تدریس پر مامور رہے ۔شیخ عطااللہ کے علامہ اقبال کے ساتھ قریبی تعلقات تھے ۔سال 1944میں شیخ عطا اللہ نے دو جلدوں پر مشتمل علامہ اقبال کے تین سو اٹھاسی (388)مکاتیب نہایت اہتمام سے شائع کیے ۔مختار مسعود نے پہلی جماعت سے لے کر ایم ۔اے تک اپنی تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں امتیازی نمبر حاصل کر کے مکمل کی ۔علی گڑھ میں انھوں نے ممتاز ادیب رشید احمد صدیقی سے اکتساب فیض کیا ۔مختار مسعود نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے سال 1946میں فرسٹ ڈویژن میں بی۔اے کیا اس کے بعد انھوں نے اِسی جامعہ سے معاشیات میں ایم۔اے کیا اور پُوری جامعہ میں پہلی پوزیشن حاصل کی ۔اُسی زمانے میں مشتاق احمد یوسفی ،تقی الدین انجم اور میاں علی محمدبھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے ۔
مختار مسعود کی تصانیف درج ذیل ہیں ۔
1۔آواز دوست (1973)
2۔سفر نصیب (1981)
3۔لو ح ِایام (1996)
4۔حرفِ شوق ( ستمبر 2017) بعد از وفات
جب آزادی کی صبح درخشاں طلوع ہوئی تو مختار مسعود نے سال 1949 میں پاکستان کی وفاقی حکومت کے مقابلے کے امتحان ( CCS )میں شرکت کی۔ وفاقی حکومت کی کلیدی آسامیوں پر تعینات کرنے کے لیے موزوں امیدواوں کے انتخاب کے لیے مقابلے کے اس امتحان میں صرف تین امیدواروں میں سے وہ واحد امید وار تھے جسے کامیابی حاصل ہوئی۔ مختار مسعود نے پاکستان کی وفاقی حکومت کے جن اہم مناصب پر خدمات انجام دیں اُن میںڈپٹی کمشنر ، کمشنر،وفاقی سیکرٹری اور سفیرشامل ہیں ۔وہ وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات میں وفاقی سیکرٹری کے منصب پر فائز تھے ۔تئیس مارچ 1960کو جب لاہور کے اقبال پارک میں سترمیٹر بلند مینارِ پاکستان کا سنگِ بنیاد رکھا گیا اس وقت لاہور میںمختار مسعودبہ حیثیت ڈپٹی کمشنر تعینات تھے ۔مینار پاکستان کے عظیم منصوبے کی تکمیل ( 21۔اکتوبر 1968)تک مختار مسعود کی مشاورت شامل رہی ۔روس سے تعلق کھنے والے عالمی شہرت کے حامل ترکی النسل سول انجنئیر نصر الدین مراد خان ( 1904-1970) نے مینار پاکستان کا نقشہ تیار کرتے وقت مختار مسعود سے معتبر ربط رکھا۔ مختار مسعود کی علمی ،ادبی اورقومی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انھیںسال 2003میںستارۂ امتیاز سے نوازا ۔ سرکاری ملازمت کے عرصے میںمختا رمسعود پاکستان میں درج ذیل کلیدی عہدوں پر تعینات رہے :
۱۔ چیرمین پاکستان انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ بورڈ (PIDC)
۲۔چیرمین پاکستان زرعی ترقیاتی بنک ( ADBP)
۳۔سیکرٹری جنرل علاقائی تعاون برائے ترقی (RCD)
پاکستان ،ایران اور ترکی کے ا شتراک سے قائم ہونے والی علاقائی تعاون برائے ترقی کی تنظیم ( RCD)نے سال 1964میں روشنی کے سفر کا آغاز کیا اور سال 1979میں اسے ایرانی انقلاب کے بعد تحلیل کر دیا گیا ۔مختار مسعود اس تنظیم کے آخری سیکرٹری جنرل تھے ۔ جب مختا رمسعود زرعی ترقیاتی بنک پاکستان کے چیرمین تھے اس وقت اسلام آباد ( آب پارہ ) میںبنک کی گیارہ منزلہ پر شکوہ عمارت مکمل ہوئی۔ مختار مسعود نے کسی وزیر ، سفیر،شاہ یا شاہ کے مصاحب کو اس سر بہ فلک عمارت کے افتتاح کی زحمت دینے کے بجائے بنک کی عمار ت کاافتتاح بنک کے سب سے معمر چوکیدار سے کرایا ۔مختار مسعود کا یہ اقدام ان کی انسا ن دوستی کی عمدہ مثال ہے ۔مختار مسعود سال 1985میں عرصۂ ملازمت کی تکمیل کر کے لاہور میں مقیم ہو گئے ۔مختار مسعود کا شمار اپنے عہد کے انتہائی فرض شناس،مستعد ،محب وطن اور قابل ِ اعتماد افسروں میں ہوتا تھا ۔جنرل محمد ضیا الحق نے ہمیشہ مختار مسعود کی خدمات کو قدر کی نگا ہ سے دیکھا ۔عرصہ ٔ ملازمت کی تکمیل کے بعد مختار مسعود نے اپنا وقت پرورش لوح و قلم میں گزارا اور کبھی کسی منصب کی تمنا نہ کی ۔
ایک با وقا راور با اصول ادیب کی حیثیت سے مختار مسعود نے ہمیشہ لفظ کی حرمت کو ملحوظ رکھا۔زندگی کی اقدارِ عالیہ اور ارفع اصولوں کی بالا دستی کو سدا مطمح نظر بنایا اور کسی مصلحت وقت کی کبھی پروا نہ کی ۔اپنے ذاتی مفادات کو پس ِپشت ڈالتے ہوئے مختا رمسعود نے ہمیشہ قومی اور مِلی مفادات کو اوّلیت دی۔ایک عظیم انسان اور محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے مختار مسعود نے انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے مقدور بھر جد و جہد کی۔اپنے اصولوں پر وہ کسی صورت میں سمجھوتہ نہیں کرتے تھے ۔ مختار مسعود کی فکر پرور اور خیال آ فریں تحریروں کو عالمی سطح پر مثالی حوالہ اور ضرب المثل کا درجہ حاصل تھا ۔ادبی دنیا کے جو ممتازادیب اور نقاد مختا رمسعود کے منفرد اسلوب کے مدا ح تھے ان میں ڈاکٹر نثار احمد قریشی ،ڈاکٹر بشیر سیفی ، غلام رسول مہر ، رضا ہمدانی ، محسن احسان، حسرت کا س گنجوی،محسن بھوپالی، عطا شاد ،جمیلہ ہاشمی ،کوثر پروین ،سجاد رانا ،محمد طفیل ،ابو الفضل صدیقی ، رحیم بخش شاہین ،محمد فیروز شاہ ، دانیال طریر ،غلام علی خان چین ، اطہر ناسک ، صاحب زادہ رفعت سلطان ،محمد شیرافضل جعفری ،سید جعفر طاہر ،رام ریاض ، امیر اختر بھٹی ،رشید احمد صدیقی ،سید وقار عظیم ،ابن حسن برنی،عبدالستار چاولہ ، اور ملا واحدی شامل ہیں ۔ مختا ر مسعودنے بھی قدرت اللہ شہاب کے مانند فکر و فلسفہ کے امتزاج سے ایک منفرد اسلوب اپنا یا۔ جہاں تک مضمون نگاری کا تعلق ہے مختا رمسعود کے منفرد اسلوب میں فلسفہ ،سیاست ،تہذیب و ثقافت ،تمدن و معاشرت ،تاریخ اور حالات ِحاضرہ جیسے اہم مو ضوعات پر ان کی اشہب قلم کی جولانیاں قاری کو حیر ت زدہ کر د یتی ہیں ۔اپنے اسلاف اور ملی تاریخ کے بارے میں احساس تفاخر مختار مسعود کی تحریروں کا امتیازی وصف سمجھا جاتا ہے۔مختار مسعود نے اسلامی قدارکی ترجمانی کرتے ہوئے مسلم قوم پرستی کے ارفع جذبات کو مہمیز کیا ۔اپنی انتہائی پر زوراور پر جوش تحریروںمیں مختار مسعود نے وہ سما ںباندھا ہے کہ ادب کا عام قاری بعض اوقات کئی موضوعات کو سرحدِاِدراک سے بھی پرے محسوس کرتا ہے لیکن اس کے باوجود قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میںاُتر جانے والی اثر آفرینی کے معجز نما اثرسے وہ اش اش کر اُٹھتاہے ۔مختا رمسعود کا کمال یہ ہے کہ تخلیق فن کے لمحوں میں وہ خون بن کے رگِ سنگ میں اُتر جانے کا فن خوب جانتا ہے اورزبان و بیان پر اس کی خلاقانہ گرفت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ۔ا س ذہین تخلیق کار کا واضح بیانیہ اور دل کش اسلوب آبلہ پا قاری کو یاس و ہراس کے سرابوں کی صحرا نوردی سے نجات دلا کر نشانِ منزل سے آ شنا کرتا ہے ۔ذیل میں اس کی چندمثالیں پیش ہیں :
ـــــ’’ قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اورقحط الرجال میںزندگی ۔ مرگِ انبوہ کا جشن ہو تو قحط ، حیاتِ بے مصرف کا ماتم ہو تو
قحط الرجال ۔ ایک عالم موت کی ناحق زحمت کا دوسرا زندگی کی ناحق تہمت کا۔ ایک سماں حشر کا دوسرا محض حشرات الارض کا۔
زندگی کے تعاقب میں رہنے والے قحط سے زیادہ قحط الرجال کا غم کھاتے ہیں۔‘‘ (آوازِ دوست)
اس عالمِ آب و گِل میں ہر شے مسافر ہے اور یہاں کی ہر چیز راہی ہے ۔ہمارا رخشِ حیات سدا رو میں رہتا ہے اس کٹھن سفر میں ہماری بے بسی کا یہ حال ہے کہ نہ تو ہمارا ہاتھ باگ پر ہے اور نہ ہی ہمارا پاؤ ں رکاب میں ہے ۔ اس سے یہ حقیقت روز ِروشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ہمیںمراحلِ زیست کے چلنے اور ٹھہرنے پر کوئی اختیار نہیں ۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ بے ثبات کارِ جہاں میںانسان کی تمام مساعی اسی سفر کی آئینہ دار ہیں۔ خارزارِ جہاں میں سرابوں کے عذابوں کے باوجود ستم کشِ سفر رہنے والے آبلہ پا مسافر کی جملہ فعالیتیںاپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک سفرنامہ ہی تو ہیں ۔اس سفرنامہ کے مندرجات وقت کے ایسے سانحات ہیں جنھیں مستقبل کا مورخ بلاکم و کاست پیش کر دے گا اور اس کا یہ استفہامیہ قاری کو جھنجوڑ تا رہے گا کہ اے راہِ جہاں کے غافل مسافرو یہ سفر کب ختم ہو گا اور کبھی تمھیں نشانِ منزل بھی مل سکے گا ؟ اپنی کتاب ’ سفر نصیب ‘ میں مصنف نے فلسفہ اور افکارِ تازہ کے امتزاج سے اپنے اسلوب کو جو گہری معنویت اور وسعت عطا کی ہے وہ قاری کو ایک جہانِ تازہ میں پہنچادیتی ہے ۔
’’ سفر اور حضر کی تفریق غلط ،جادہ و منزل کی تقسیم بے کار،مسافر اورمقیم کا فرق محض فریب،راہ خود سفر میں ہے ،منزل خود مقصود کی تلاش
میں ہے ۔ سکون بھی ایک مسافر ہے ،بہت سے مسافر ایک دوسرے پر سوار بہ یک وقت مختلف سمتوں میں سر گرمِ سفر ہیں ۔ایک سفر سے دوسرا
سفر یوں پیوست ہے جیسے ایک روشنی سے دوسری روشنی مِل کر روشن تر ۔‘‘ ( سفر نصیب )
اردو زبان کے کلاسیکی شعر ا بالخصوص مرزا اسداللہ خان غالبؔ(1797-1869)سے مختار مسعود کو بہت عقیدت تھی ۔ غالبؔ کی شاعری میں جدت ِ فکر کو زادِ راہ بنا کر مختار مسعود نے اپنی نثر کو سحر نگار بنا دیا ہے ۔ ’ لوح ِ ایام ‘کے آغاز میں غالبؔ کا یہ شعر اسی قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کا مظہر ہے :
لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالبؔ
جادۂ رہ کششِ کاف ِ کرم ہے ہم کو ( غالبؔ)
اپنی عملی زندگی میںمختار مسعود نے دِل و نگاہ میں نمو پانے والی تمناؤں اور فرائض منصبی کے مقام ِاتصال تک رسائی کو اپنی خوش قسمتی سے تعبیر کیا۔ اپنی کتاب ’ لوحِ ایام ‘ کاانتساب ’ چراغ اوردریچہ ‘ کے نام کرتے ہوئے مختار مسعود نے لکھا ہے :
’’ وہ چراغ جس سے اندھیرے چھٹ جائیں گے اُجالا ہی اُجالا ہو گا بے سمت سفر کو سمت میسر آئے گی اور
وہ دریچہ جو ایک روشن مستقبل کی جانب کُھلتا ہے جس سے تازہ ہوا آئے گیاورجہانِ تازہ کی خبر لائے گی۔‘‘ ( لوحِ ایام)
’ لوحِ ایام‘ میں مختار مسعود نے تاریخ اوراس کے پیہم رواں عمل کی جانب متوجہ کیا ہے ۔اس کتاب میں مصنف نے ایران میں بادشاہت کے خاتمے اور ایرانی انقلاب کے چشم دید واقعات کی نہایت دیانت اوربے باکی سے لفظی مرقع نگاری کی ہے ۔مصنف کا اسلوب قاری کو آ ئینہ ایام میں اپنی ادا دیکھ کر احتساب ذات پر مائل کرتا ہے :
’’ خود فریبی اتنی کہ ہم نے مغربی پاکستان ہی کو پورا پاکستان سمجھ لیا ہے اور خود فراموشی ایسی کہ ہم نے مشرقی پاکستان کو
یاد کرنا بھی چھوڑ دیا ہے ۔‘‘ ( لوحِ ایام )
جس وقت پورا بر صغیر برطانوی استعمار کے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا اور ہر طرف جنگل کا قانون نافذتھا ۔اس وقت جن اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانو ںنے نو آبادیاتی دورکے مسموم ماحو ل میں بھی اُمیدوں کا چمن کھلنے کی تمنا کی ان میںسردار باقر علی خان بھی شامل ہیں ۔سردار باقر علی خان نے آزادی سے دس سال قبل انڈین سول سروس کا مقابلے کا امتحان پاس کیا اورکچھ عرصہ علی گڑھ میں مقیم رہے ۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا اور اساتذہ سے انھیں دلی لگاؤ تھا ۔مختار مسعو د کے زمانہ طالب علمی کی ہم نصابی سرگرمیوں کی بنا پر وہ انھیں اُمیدفردا قرار دیتے تھے ۔مختار مسعود کا شمار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ذہین ترین طلبا میں ہوتا تھا۔انھوں نے متعدد مقابلوں میں بہترین مقرر اورمناظر کی حیثیت سے اپنی خدادا دصلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ زمانہ طالب علمی میںمختار مسعود کو گھڑ سواری کا بہت شوق تھا،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں وہ مسلسل دو سال ( 1946-47) گھڑ سواری ٹیم کے کپتان رہے ۔ جب آزادی کی صبح درخشاں طلوع ہوئی تو کچھ عرصہ بعد سردار باقر علی خان ملتان کے کمشنر کے منصب پر فائز ہوئے ۔ اس عرصہ میں مختار مسعو د اور سردار باقر علی خان کے روابط بر قرا رہے ۔ایک ملاقات میں سردار باقر علی خان نے بتایا کہ مختار مسعود کی حب الوطنی ،شانِ استغنا ،ایثار ،وفا ،دبنگ لہجہ ،پر شکوہ اسلوب اور فلسفیانہ پیرایۂ اظہار کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔قدر ت اللہ شہاب کے معتمد ساتھی اور معاون اللہ دتہ سٹینونے ایک ملاقات میں بتایاکہ قدرت اللہ شہاب نے مختار مسعود کے اسلوب کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔غلام علی خان چین ،اللہ دتہ سٹینو اور امیر اختر بھٹی کی متفقہ رائے تھی کہ اردو نثر کو مختار مسعود نے مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کر دیا۔اس صاحب طرز ادیب نے وطن ،اہلِ وطن اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی ۔علم دوستی ،ادب پروری اور حق و انصاف کی بالا دستی کی تمنا مختار مسعود کی مستحکم شخصیت کے وہ امتیازی اوصاف ہیں جو انھیں کردار اور وقار کی عظمت پر فائز کرتے ہیں ۔فطرت کے عظیم مقاصد کی ترجمانی کرتے ہوئے مختار مسعود نے لکھا ہے :
’’ قدر ت کا نظام اصولوں کے تابع ہے ،بڑ ے آدمیوں کی پیدائش کے بھی تو کچھ اصول ہوں گے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بڑ ے آدمی
انعام کے طور پر دئیے جاتے ہیں اور سزا کے طور پر روک لیے جاتے ہیں۔عطا تو اُسی کے حق میں ہوتی ہے جو حق دار ہو ۔آخر قدرت ایک
سپاس ناآشنا قوم کو بڑے آدمی کیوں عطا کرے ، اُسے اپنے عطیے کی رسوائی اور بے قدری ناگوار گزرتی ہے ۔عطا کا پہلا حق یہ ہے کہ انسان اس
کا شکر ادا کرے۔دِل شکر سے لبریز ہو تو روشن ہو جاتا ہے ،شکوہ کیجیے تو بُجھ جاتا ہے ،ناشکر گزار ہو تو پتھر بن جاتا ہے ۔شکر گزار ہمیشہ روشن ضمیر اور
روشن دماغ ہوتا ہے،ناشکر گزاربے ضمیر اور بد دماغ ہو جاتا ہے ۔‘‘ ( آوازِ دوست )
قحط الرجال کے موجودہ دور میں ہوس نے نوع انساں کو انتشار کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔ ہر طرف بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے ،اپنا اُلو سیدھا کرنے والے،جو فروش گندم نما ،ابن الوقت ،آستین کے سانپ اور بروٹس قماش کے عیار مسخروں،بھڑووں ،آدم خور بُھوتوں ،چڑیلوں ،ڈائنوں اور طوائفوں کا جھمکاہے ۔ سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا مشکو ک نسب کے یہ سفہا اور اجلاف و ارزال محسن کُشی کا قبیح کردار اپنا کر ہمیشہ اہلِ ہنر کے در پئے آزار رہتے ہیں ۔ اِن سفید کووں ،کالی بھیڑوں،گندی مچھلیوں اورعفونت زدہ انڈوں کے باعث مسموم معاشرتی ماحول سے عفونت و سڑاند کے بھبھوکے اُٹھ رہے ہیں ۔یہ ابن الوقت درندے جس تھالی میں کھاتے ہیں اُسی میں چھید کرتے ہیں اور اسی شجر سایہ د ار کی شاخیں کاٹنے اور اس کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں جو ان کے سر پر سایہ فگن ہے ۔کسی معاشرے میں منافقت ،خست و خجالت ،انصاف کُشی او ربے حسی کا بڑھنا اس معاشرے کے وجود اور بقاکے لیے بہت بُرا شگون ہے ۔ پس نو آبادیاتی دور میںتیسری دنیا کے پس ماندہ ممالک میں چور محل میں جنم لینے والے ،کُوڑے کے ہر ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں نوچنے اور بھنبھوڑنے والے اور چور دروازے سے گُھس کر اپنی جہالت کا انعام ہتھیانے والے سگانِ راہ نے سماجی اورمعاشرتی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر،کلیاں شرر ،زندگیاں پُر خطر اورآ ہیں بے اثر کر دی ہیں ۔ ان حالات میں طلوع ِ صبح ِ بہاراں کا یقین کیسے کر لیا جائے کہ ان چربہ ساز ،سارق اور کفن دُزد متفنی سفہاکی چیر ہ دستیوںاور خزاں کے سیکڑوں مناظر نے تمام منظر نامہ ہی گہنا دیا ہے ۔ مختار مسعود نے ان طالع آزما مرغانِ باد نما کے مکر کی چالوں کا پردہ فاش کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’نا شکر گزاری کا نتیجہ بے ہنری کی صورت میں سامنے آتا ہے اور جہاں نا شکر گزار اور بے ہنر جمع ہو جائیں وہاں منافقت کادور دورہ رہتا ہے۔جب
اشراف کی حاجت نہ رہے تو کوئی اُن کی تلاش اور دل جوئی کیوں کرے ؟ہنرور کی قدر نا شناسی سے بے ہنری کو فرو غ مِلتا ہے ۔کم ظرف کو سر آ نکھوںپر بٹھایا
جائے تو اشراف کی عزت میں کمی ہوتی ہے۔منافقت کے لیے یہ فضا بڑی سازگار ہوتی ہے ۔‘‘
ہوائے جورو ستم میں بھی شمع ِ وفا کو فروزاں رکھنا ،حریت ِ ضمیر سے جینا اور حریتِ فکر کا علم بلند رکھنا زندگی بھر مختار مسعود کا شیوہ رہا ۔مختار مسعود کا شمار اپنے عہد کے ان جری تخلیق کاروں میں ہوتا تھا جنھوں نے حق گوئی و بے باکی کو سدا اپنا شعار بنایا ۔جرأت ِ اظہار کے موضوع پر مختار مسعود نے لکھا ہے:
’’ در اصل جرأت ایک کیفیت ہے اورقربانی اس کیفیت پر گواہی ہے ۔جرأت ایک طرزِ اختیار کا نام ہے اورقربانی ایک طریق ِ ترک کو کہتے ہیں ۔
اس ترک و اختیارمیں بسر ہو جائے تو زندگی جہاد اور موت شہادت کا نام پاتی ہے۔‘‘ (آوازِدوست)
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مختار مسعود کو اس بات کا شدید قلق تھا کہ معاشرے میں محسن کشی کی وہی قبیح صور ت نمو پا رہی ہے جو بروٹس اور جولیس سیزر کے زمانے میں تھی ۔جب محسن کش اور نمک حرام بروٹس سنگِ ملامت لیے اہلِ درد کے خلاف صف آرا ہوتے ہیں تو ہر حساس تخلیق کار کو دلی صدمہ ہوتا ہے ۔اپنے محسن کے ٹکڑوں پر پلنے والے وہ بروٹس جن کے بارے میںیہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ آزمائش و ابتلا کی گھڑی میںمرہم بہ دست آ ئیںگے ،انہی کو جب اپنے کرم فرما پر خنجر آزما ہوتے دیکھتا ہے تو اس کا جی گھبر جاتا ہے اور اُس کے دِلِ صد چاک سے آ ہ نکلتی ہے ۔ وقت کی مثال بھی سیلِ رواں کی تند و تیزموجوں کی سی ہے ۔اس دنیا میں کوئی بھی شخص خواہ اس کی قوت و ہیبت کتنی ہی جہاں گیرکیوں نہ ہوسیلِ زماں کے تھپیڑوں کے سامنے بے بس دکھائی دیتا ہے۔درِ کسریٰ سے یہی صدا سنائی دیتی ہے کہ کوئی شخص ایڑی چوٹی کا زور لگا لے وہ بیتے لمحات کی چاپ اورپُلوں کے نیچے سے بہہ جانے والے آبِ رواں کے لمس سے دوبارہ کسی صورت میں فیض یاب نہیں ہو سکتا۔مختار مسعود اب ہمارے درمیان موجود نہیں مگر ان کا ابد آ شنا اسلوب جریدۂ عالم پر ان کا دوام ثبت کر چکا ہے ۔