خزاں کے سکیڑوں مناظر دیکھنے کے بعد بشیر نامی ایک ضعیف معلم اپنے کمرے میں تنہا بیٹھا بہاروں کے لرزہ خیز اور اعصاب شکن سوگ میں گزرنے والی اپنی زندگی کی کلفتوں اور فراموش کردہ اُلفتوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اپنی کٹھن زندگی کی بھیانک تیرگیوں کے چیتھڑے اوڑھے اور مہیب سناٹوں سے حواس باختہ اور غر قابِ غم نشیبِ زینۂ ایام پر عصا ٹیک کر وہ اپنی خمیدہ کمر پر ہاتھ رکھے کراہتے ہوئے دیر تک تیزی سے بدلتے ہوئے موسموں کی ہر ادا پر غور کرتا رہا۔ وہ اِس سوچ میں کھو گیا تھا کہ موقع پرست لوگ ہوا کا رُخ دیکھ کر بدل جانے کے بعد اپنی آنکھوں پر ٹھیکری کیوں رکھ لیتے ہیں؟ اس دنیا کے آئینہ خانے میں آستین کے سانپوں، برادرانِ یوسف، ابن الوقت عیاروں اور ہوس پرست حاسدوں کی شقاوت آمیز نا انصافیوں نے اسے پورے معاشرے میں تماشا بنا دیا تھا۔ اس نے اپنی کشت جاں میں رشتہ و پیوند کا جو نرم و نازک پودا لگایا تھا وہ پیہم جگر کے خون سے اُسے سیراب کرتا رہا مگر اجلاف و ارذال اور سفہا کے پروردہ مشکوک نسب کے درندوں نے اُس پودے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور پامال کر دیا۔ چھے جولائی 2017ء کو بشیر کے نوجوان بیٹے نے اچانک عارضۂ قلب کے باعث عدم کے کوچ کے لیے رختِ سفر باندھ لیا۔ نوجوان بیٹے کی اچانک وفات کے گہرے گھاؤ نے بشیر کو زندہ در گور کر دیا۔ بشیر نے سدا اپنے رفتگاں کو یاد کرتے ہوئے اپنے قلب حزیں کو ان کی یاد سے آباد کرنے کی سعی کی۔ اپنے نوجوان بیٹے کی دائمی مفارقت کے جان لیوا صدمے سے نڈھال بشیر اپنے دِل سے کہنے لگا:
’’سجاد حسین! میں تو تمھیں دیکھ دیکھ کر جیتا تھا، اجل کر فرمان سنتے ہی تم نے میرا خیال کیے بغیر فوراً دشت عدم میں خیمے لگا لیے۔ جب سے تم میری آنکھوں سے اوجھل ہوئے ہو میری بصارت بھی رخصت ہو گئی ہے۔ تقدیر کے ہاتھوں تمھارا چاند چہرہ دائمی مفارقت کی بھینٹ چڑھ گیا اور میں اپنا خورشید جمال لخت جگر منوں مٹی میں چھپا کر دامن جھاڑ کر اپنے گھر میں بیٹھا سوچتا ہوں اس ضعیفی میں باقی ماندہ زندگی کا یہ سفر اب تنہا کیسے کٹے گا؟ تمھارے بعد میری زندگی کو عجیب حالات کا سامنا ہے، گردو نواح کی ساری فضا مسموم ہو گئی اور آبِ رواں نے شعلۂ جوالا کی شکل اختیار کر لی ہے۔ مجھ جیسے نا تواں ضعیف باپ کے لیے تمھارے جیسے وجیہہ اور کڑیل نو جوان بیٹے کو لحد میں اُتارنا کتنی بڑی آزمائش تھی اور یہ کس قدر جان لیوا صدمہ تھا یہ دُکھ تو میں قبر میں بھی اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ چھے جولائی دو ہزار سترہ کی صبح فرشتۂ اجل نے میری زندگی کے گلشن کا سب سے حسین اور عنبر فشاں پھول توڑ کر مجھے وقفِ خزاں کر دیا۔ یہ عطر بیز گلاب کھِلا تو اجل نے اس میں ایساکانٹا چبھا دیا کہ نہ صرف پھول مرجھا گیا بل کہ اس کی نگہداشت کرنے والا بوڑھا باغبان بھی حیرت و حسرت میں ڈوب گیا۔ سجاد حسین تمھاری دائمی مفارقت ایسا دردِ لادوا ہے جس سے میرا دِل دہل گیا۔ تم میرے دل کی دنیا میں ایسی حسین یادیں چھوڑ گئے ہو جو اندیشۂ زوال سے نا آشنا ہیں۔ فضاؤں میں ہر طرف تمھاری یادیں بکھری ہیں، میری پتھرائی ہوئی آنکھیں جس طرف بھی دیکھتی ہیں تمھاری تصویر سامنے آ جاتی ہے۔ میرے کانوں میں تمھاری مانوس آواز کی باز گشت ہر وقت سنائی دیتی ہے۔ میں تمھارا الم نصیب ضعیف باپ ہوں جس نے اپنے دِلِ حزیں میں تمھاری یادوں کا بیش بہا اثاثہ سنبھال رکھا ہے اور میری آنکھوں سے بے اختیار بہنے والے آنسو دل پہ گزرنے والی سب کیفیات کو سامنے لاتے ہیں۔ اب یہ بات تو صرف میرے خالق ہی کو معلوم ہے کہ میں اپنے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے کب تک اپنی تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتا رہوں گا۔ اے میرے دِل تو اب اس بات کا یقین کر لے کہ زندگی بس خواب ہی خواب ہے اور کارِ جہاں محض سراب ہے۔‘‘
بشیر اپنے دل کے معاملات میں بالعموم صرف اپنی ذات سے مشورہ کرتا تھا۔ اس کی طبیعت بہت خراب تھی اور کچھ کھانے پر مائل نہ تھی۔ آج شام سے اس کی آنکھیں ساون کے بادلوں کے مانند برس رہی تھیں۔ اس نے اپنے دِل پر ہاتھ رکھا اور آہ بھر کر کہا:
’’رضوان نے اپنی زندگی میں اپنی بیٹی کی منگنی میرے بیٹے سے کر دی۔ یہ سمے کے سم کا مسموم ثمر ہے کہ آج مجھے انتہائی کٹھن اور صبر آزما حالات کا سامنا ہے؟ اس پریشاں حالی اور درماندگی میں مفاد پرست لوگ مجھے دیکھ کر راستہ بدل لیتے ہیں۔ میں نے جن کے لیے اپنی جان تک داؤ پر لگا دی آج وہی میری جان لینے پر تُل گئے ہیں۔ رضوان جب بیمار ہوا تو میں اس کو لے کر سرگودھا، فیصل آباد، راول پنڈی اور جھنگ کے شفا خانوں میں پھرتا رہا۔ رضوان کی اچانک وفات کے بعد اس کی بیوہ اور اس کی اولاد نے مجھے نفرت اور حقارت سے دیکھنا شروع کر دیا۔‘‘
سال 2019ء آہستہ آہستہ اپنا سفر طے کر رہا تھا، مارچ کی اکتیس تاریخ تھی۔ اگر چہ موسم سرماکی شدت میں کسی حد تک کمی واقع ہو چکی تھی مگربوسیدہ کمبل اوڑھنے کے باوجود اس کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو چکے تھے۔ اسی دِن عادی دروغ گو اور پیشہ ور ٹھگوں نے بشیر کی زندگی کی تمام رُتوں کو بے ثمر کر دیا تھا۔ یہ خیال آتے ہی اس کی آنکھیں پر نم ہو گئیں کہ وہ لوگ جو نہ گرد تھے نہ ہی دھُول بل کہ پوہلی، حنظل اور دھتورے کے پھُول تھے اب ٹھگی کے بعد پھُول کر کُپاہو گئے ہیں۔ جان پہچان سے عاری خارش زدہ لومڑیاں بھی ٹھگوں کی شہ پر کتان پہن کر اہلِ درد کو بے دردی سے لوٹتی رہیں۔ ان ٹھگوں کے چور محل میں پروان چڑھنے والا مریل ٹٹو تو اسپان ترکی و تازی کو لات مارنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ بشیر نے رضوان کی اولاد کو متنبہ کیا کہ وہ جور و ستم اور تکبر سے کام نہ لیں۔ اس کی دوربین نگاہ اور اسلوب کی گرفت سے پناہ مانگیں ورنہ ان کے مکر کی چالوں کے سب حوالوں سے دنیا آگاہ ہو جائے گی۔ یہ سوچتے سوچتے بشیر کی آنکھ لگ گئی۔
اچا نک بشیر نے دیکھا کہ فردوس بریں سے اس کی غم گساری کے لیے کئی رفتگان جن میں اُس کا باپ سلطان خان، ماں اللہ وسائی، بڑا بھائی شیر خان، بہن عزیز فاطمہ، چھوٹا بھائی منیر حسین، بیٹی کوثر پروین اور نوجوان بیٹا سجاد حسین آئے ہیں۔ بشیر نے جب عالمِ خواب میں اپنے ان رفتگاں کو دیکھا تو اُسے بے حد سکون ملا۔ یہی وہ عزیز تھے جن کی یاد سے اس کے دِل کی دنیا آباد تھی۔ بشیرنے کروٹ لی اور آہ بھر کر دائمی مفارقت دینے والے اپنے قریبی عزیزوں سے مخاطب ہوا:
’’آج میرے پاس کچھ بن بلائے مہمان آنے والے ہیں جن میں سے کچھ تو ہاویہ سے آئے ہیں اور کچھ آفت ارضی کے روپ میں یہاں موجود ہیں۔ یہ سب لوگ واہی تباہی بکنے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ارضی و سماوی آفات کے چشم دید گواہ آج اس نشست پر حاوی رہیں گے۔ یہ بن بلائے خانہ بر انداز مہمان اپنی خرافت سے حاضرین کی ضیافت کریں گے۔ ذرا غور سے دیکھو پرانے کھنڈرات جو گزشتہ صدیوں کی تاریخ کا ورق اور عبرت کا ایک سبق ہیں وہاں سے چمگاڈر، کرگس، چِیل، چغد اور کلاغ اپنے اپنے ایاغ ڈکا رنے کے بعد اس طرف منڈلا رہے ہیں۔‘‘
دفعتاً مدن محل قلعہ سے کچھ دُور پہاڑی سلسلے میں واقع جبل پور کی طرف سے گرد باد کا ایک بگولہ اُٹھا اور سرخ آندھی کی شکل اختیار کر گیا۔ خراباتوں سے اُٹھنے والی آندھی میں سے اچانک خر قۂ سالوس پہنے ایک آدم خور نمودار ہوا، وہ کفن پھاڑ کر ہرزہ سرا ہوا:
’’بے ادب، بے ملاحظہ بد اطوار، اب یہاں اٹھارہوں صدی عیسوی کے اواخر اور انیسویں صدی عیسوی کے وسط تک نو سو اکتیس بے گناہ انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے اور پس ماندگان کے گھروں کو مسمار کرنے والے جلاد، صیاد، ابلیس نژاد درندے اور پیشہ ور قاتل بہرام کا کہرام مچے گا۔ جب تک دنیا باقی ہے بہرام کے نام پر اس بات کی پھٹکار پڑتی رہے گی کہ اس نے اس خطے میں ٹھگی کی بنیاد رکھی۔ میں یہ شعر بہرام کی نذر کر کے اسے خار افشانی ٔ تُو تکار کی زحمت دوں گا:
کس نے پہلی ٹھگی کی، ٹھگی کی بنیاد رکھی
ذلت کے سارے افسانے خرکاروں کے ساتھ رہے
اب تشریک کرے گا اپنے ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ساتھیوں سے بہرام ٹھگ۔ اِس ٹھگ کی بے سروپا گفتگو سے اُس کے گروہ کی نامرادانہ زیست کے سب راز طشت از بام ہو جائیں گے۔ بہرام ٹھگ کے تَطاول سے انسانوں کے تناول کا سلسلہ رُک جاتا تھا۔ وہ طمع کے تین حرفوں کے مانند تہی اور مثنیٰ تھا اور لوگ زندگی بھر اس پر تین حرف ہی بھیجتے رہے۔
’’تُف ہے تیری اوقات اور خرافات پر! تھوہر کا پتا کیا چھوٹا کیا بڑا جس سے بھی واسطہ پڑا معاملہ نکلا بہت ہی کڑا۔ کالی دیوی کے پجاری ایسے ننگ وجود ڈاکو کی تعریف کے پُل باندھنے کی کیا ضرورت ہے ذلت عام اور فنائے مدام کے اس بے ہنگم ہجوم میں سے ایک آواز آئی:
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ٹُک نگاہ چُوکی اور مال دوستوں کا
عقبی دروازے سے نکل کر کمر بند سے زرد رنگ کا ریشمی رو مال باندھے ایک شقی القلب ڈاکو آگے بڑھا۔ یہ ٹھگ بہرام تھا جسے اَودھ کے لوگ برہام جمعدار کے نام سے جانتے تھے۔ اس سفاک ٹھگ کی کھلی باچھوں سے خون ٹپک رہا تھا اور ہاتھ اور کلائیاں تازہ خون سے تر تھیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ ناہنجار ٹھگ اور پیشہ ور قزاق ابھی ابھی کسی مظلوم کا خون پی کر اور اس کے خون سے ہاتھ رنگ کر یہاں آیا ہے۔ رسوائے زمانہ ٹھگ بہرام کی آمد پر وہاں موجود جو ڈائنیں، چڑیلیں اور بھُوت بے انتہا خوشی کا اظہار کر رہے تھے اُن میں قفسی، مسبی، ظلی، ثباتی، سمی، جھاڑو، مُر لی، اذکار، گنواراور پتوار شامل ہیں۔
کالی دیوی کی دیوانی بیوہ نائکہ قفسی جو باسٹھ سال کی عمر میں تین ہزار تین سو باسٹھ بیواؤں سے ہاتھ مِل اچکی تھی، ایک ہزار شادی شدہ عورتوں کو طلاق دلوا کر ہزاروں بھڑووں سے آنکھ لڑ اچکی تھی اپنی نحوست دیوانگی اور خست و خجالت پر کبھی شرمندہ نہ ہوئی بل کہ اپنی شرمندگی چھپانے کی غرض سے اس نے درندگی کو وتیرہ بنا رکھا تھا۔ یہ بھیڑیا نژاد ڈائن جس نے کالی بھیڑ کا لباس پہن رکھا تھامرغزاروں کے کئی ہرن چبا گئی اور گرد و نواح کے سیکڑوں گاؤں چر گئی مگر اِس کے مکر کی چالوں کے سامنے مظلوموں کی آہ بے اثر گئی۔
نائکہ قفسی نے اپنا تنور جیسا منھ کھول کر کہا: ’’ہمارے خاندان کا وہ قدیم اور لحیم و شحیم مورث آ گیا جس کے منھ سے نکلنے والا صرف ایک ہی لفظ ’ راموس ‘ سرمایہ داروں، تاجروں، سیاحوں اور عیاشوں کو زینۂ ہستی سے اُتار دیتا تھا۔ میں اور میرے خاندان کے افراد آج جو کچھ بھی ہیں وہ سب اسی ٹھگ کی جوتیوں کا ثمر ہے۔‘‘
گِدھ، چغد اور زاغ و زغن کے ہم سفر سفاک ٹھگ جمعدار بہرام کی کرگسی آنکھوں میں درندگی نمایاں تھی۔ وہ اپنی مخمور آنکھوں کو گھُما کر اس انداز سے دیکھتا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا تھا اس کی آنکھوں میں خنزیر کا بال ہے اس نے سہمے ہوئے حاضرین پر سرسری سی نگاہ ڈالی اور کہا:
’’اے قلعۂ فراموشی کے اسیرو! میری حیات کا افسانہ سننے کی تمنا رکھنے والے دل گیرو، میرے ساتھ ساتھ چلو اور کفِ افسوس مَلو، اب میری کہانی میری زبانی سنو اور سر دھُنو۔ میری زندگی میں قتل و غارت اور گناہ کی آلودگی کے سوا کیا رکھا ہے؟ تکلف کی رواداری، مصنوعی وضع داری، جعلی ایثار، مفادات کے حصول کی خاطر کی گئی فریب کاری اور مروّت کی اداکاری میری خونخواری سے کم نہیں ہے۔ میں نے سال 1765ء میں مدھیہ پردیش کے شہر جبل پور کے ایک ہندو گھرانے میں آنکھ کھولی۔ جب میں دس سال کا ہو گیا تو میں نے اپنی شریک جرم محبوبہ ڈولی کے ساتھ مِل کر قتل و غارت اور ٹھگی کا سلسلہ شروع کر دیا۔ میرے گروہ میں دو سو ٹھگ، قاتل، رہزن اور اُچکے شامل تھے۔ زر، زن اور زمین بٹورنے کی ہوس کے ہاتھوں مجبور ہو کر ورانسی، سوناگاچی کلکتہ، کماتھی پورہ ممبئی، بدھورا پتھ، پونے، میر گنج الہ آباد، دہلی، مظفر پور، ناگ پور سے تعلق رکھنے والی ہر کٹنی، داشتہ دیوداسی، بیسوا، چھنال، نائکہ، گشتی، کسبی اور خواجہ سرا سے میرے گروہ کا پیہم رابطہ رہتا تھا۔ سوچتا ہوں ہونی سے بچنا محال ہے، میری قسمت کا لکھا ہی میرا وبال ہے یا میرا عبرت ناک انجام شامت اعمال ہے۔ مجھ پر مقدمہ چلا اور عدالتی احکامات کے نتیجے میں مجھے سال 1840ء میں دار پر کھنچوا دیا گیا اور میری لاش ایک بلند درخت کی مضبوط ٹہنی سے کئی دِن لٹکتی رہی۔‘‘
یہ باتیں سُن کر رسوائے زمانہ نائکہ قفسی آگے بڑھی اور بہرام ٹھگ کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا اور کہا:
’’مجھے یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ تم ہی ہم قحبہ خانوں کے مکینوں کے مورث ادنیٰ ہو۔ گلزار ہست و بُود کو پوہلی، حنظل، دھتورا، اکڑا، کریروں، لیدھا، کسکوٹا اور تھو ہر سے بھر دینے والے میرے پیارے بابا یہ تو بتاؤ تم کن سازشوں کے باعث دامِ اجل میں گرفتار ہو گئے؟
’’اے میری پڑپوتی قفسی! تو ایک آزمودہ کار نائکہ اور جہاں دیدہ کسبی ہے؟ تم نے اپنے بھڑوے شوہرر منو کے ساتھ مِل کر جو لُوٹ مار کی اسے دیکھ کر امریکی ڈاکو جوڑے بونی اور کلائیڈ کی غارت گری ہیچ نظر آتی ہے۔ ‘ ‘ جمعدار بہرام نے اپنے ہاتھ میں تھاما ہوا ریشمی رو مال فضا میں لہرا کر کہا ’’تیری باتیں سُن کر دِل کو تسلی ہوئی کہ میرے بعد تم نے اور تیری اولاد نے اپنی سادیت پسندی سے سادہ لوح لوگوں کا جینا دشوار کر دیا ہے۔ قحبہ خانے، چنڈو خانے، عقوبت خانے اور چور محل سے نکل کر عشرت کدے تک کا تمھارے صبر آزماسفر کی کیفیات دیکھ کر میں جان گیا کہ جرائم کے دشت خار میں تم نے اپنے جسم کی بازی لگا کر میری اور میرے جرائم پیشہ ٹولے کی پیروی کی۔ گردشِ ایام سدا میرے ساتھ رہی یہ سال 1822ء کی بات ہے کہ میرے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا۔ ولیم بینٹنک کی ہدایت پر مدھیہ پردیش کے ضلع نر سنگھ پور کے انگریز مجسٹریٹ ولیم ہینری سلیمان کے حکم پر متعدد سراغ رساں میرے پیچھے لگا دئیے گئے۔ یہ جاسوس ہر شہر، گاؤں، قصبے، گوٹھ اور گراں میں پھیل گئے اور شکاری کتوں کی طرح میری تلاش میں مصروف ہو گئے۔ سال 1832ء میں آستین کے سانپ میرے درپئے آزار ہو گئے اور میرے ساتھ وہی سلوک کیا جو بروٹس نے جولیس سیزر کے ساتھ کیا تھا۔‘‘
اس انبوہ باد کشاں میں بناؤ سنگھار کیے ہوئے اور محمد شاہ رنگیلے کے دور کی رذیل طوائف ادھم بائی جیسا نیم عریاں لباس پہنے جنسی جنون میں مبتلا ایک لڑکی کافی دیر سے پیچ و تاب کھا رہی تھی۔ مورخین نے لکھا ہے کہ رذیل طوائف ادھم بائی لباس کے تکلف سے بے نیاز رہتی اور اپنی ٹانگوں پر ماہر مصور سے ایسے بیل بوٹے بنو الیتی کے جن پر چست لباس کا گمان گزرتا۔ شراب کے نشے میں دھت اس دبلی پتلی طوائف زادی کی عمر اکتیس برس کے لگ بھگ تھی۔ اس عیاش لڑکی کی ہئیت کذائی دیکھ کر میر تقی میر کا یہ شعر یاد آ جاتا تھا:
جی پھٹ گیا ہے رشک سے چسپاں لباس کے
کیا تنگ جامہ لپٹا ہے اُس کے بدن کے ساتھ
قحبہ خانے کی مکین اس چڑیل کے چہرے سے گردشِ مہ و سال کے نقوش صاف بتار ہے تھے کہ اس چمن کو تاراجِ خزاں ہوئے بیس برس ہو چکے ہیں اور اِسے ہزاروں مرتبہ لُوٹا گیا ہے۔ ہزاروں بھنورے اور زنبور اِس گل کا رس چُوس کر لمبی اُڑان بھر چکے ہیں۔ اس لڑکی کا نام مس بی جمالو تھا مگرقحبہ خانے اور بازار حسن میں اِس کال گرل کو مس بی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ مِس بی آگے بڑھ کر اپنے رذیل خاندان کے سر براہ کے حضور کو رنش بجا لائی اور کہنے لگی:
’’سب لوگ جانتے ہیں کہ آخری عہدِ مغلیہ میں ہمارا تعلق مطلق العنان مغل حاکم جہاں دار شاہ (1661-1713) سے تھا۔ مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلے (1702-1748) کے عہد میں ہمارے خاندان کی طوائفوں نور بائی اور ادھم بائی کے عشوہ و غمزہ و ادا کے ہند سندھ میں چرچے تھے۔ ادھم بائی نے ملکہ ہند بننے کے بعد اپنی سال گرہ پر دو کروڑ روپے خرچ کیے۔ ادھم بائی کا بھائی مان خان جو آوارہ گرد رقاص تھا وہ منصب دار بن بیٹھا۔ محمد شاہ رنگیلے کی زندگی میں اور اس کی موت کے بعد جاہل اور کندۂ ناتراش پچاس سالہ جاوید خان نے ادھم بائی کے ساتھ قصر شاہی میں رنگر لیاں منائیں اور سائیں سائیں کرتے جنگل میں درندوں کا راج تھا۔ اس کے بعد فطرت کی تعزیروں کے نتیجے میں سیلِ زماں کے تھپڑوں نے سب کچھ تہس نہس کر دیا اور ادھم بائی کو اندھا کر دیا گیا۔ کچھ عرصہ گم نامی کی زندگی بسر کرنے کے بعد زینۂ ہستی سے اُتر گئی۔ محمد شاہ رنگیلے کی محبوب بیوی اور اس کے بیٹے احمد شاہ کی ماں ادھم بائی (مادر ملکہ) جس نے دہلی میں قدسیہ باغ اور سنہری مسجد تعمیر کرائی اس کے مدفن کانشان بھی اب باقی نہیں ہے۔ نور بائی کوقصر شاہی کے سب راز معلوم تھے اوروہ محمدشاہ رنگیلے کی منظور نظر طوائف تھی۔ ایرانی مہم جُو نادر شاہ نے جس نے ہندوستان پر یلغار کے وقت تیس ہزار بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور ستر کروڑ روپے لوٹ لیے وہ بھی نور بائی کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہو گیا اور متاع دِل گنوا بیٹھا۔ کوہ نور ہیرے کا راز نادر شاہ کو نوربائی نے بتایا تھا کہ یہ بیش بہا ہیرا محمد شاہ رنگیلا نے اپنی پگڑی میں چھپا رکھا ہے۔ اس طرح نادر شاہ نے محمد شاہ رنگیلا کو پگڑی بدل بھائی بنا لیا اور کوہ نور ہیرا مفتوح بادشاہ سے ہتھیا لیا۔ میری نانی ملکۂ ہند لال کنور کی نواسی تھی اور میرانانا تشفی جو اپنے عہد کا خطرناک ٹھگ تھا نعمت خان کلانونت کا پوتا تھا۔ زہرہ کنجڑن جو قصر شاہی میں لال کنور کے ساتھ رہتی تھی وہ لال کنور کی منھ بولی بہن تھی۔ چونکہ میرا تعلق پس نو آبادیاتی دور سے ہے اس لیے میں نے امریکہ کی قاتل حسینہ ویلما بارفیلڈ (1932-1984: Velma Barfield)، انسانوں کو لقمۂ تر بنانے والے خون آشام نہنگ جو پال (1896-1938: Joe Ball) امریکہ سے تعلق رکھنے والے درندے ٹیڈ بنڈی (1946-1989: Ted Bundy) کی جرائم سے بھر پور زندگی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ سادیت پسندی میری گھٹی میں پڑی ہے اور اب تک میں نے سیکڑوں نوجوانوں کو شادی کا جھانسہ دے کر انھیں کوڑی کوڑی کا محتاج کیا اور وہ در در کی خاک چھانتے پھرتے ہیں۔ میری ماں کی ہدایت پر میری بہنیں بھی قحبہ خانے کے دستور کے مطابق خرچی کی کمائی سے بڑے شہروں میں عشرت کدے بن اچکی ہیں۔ آج میری بہنوں اور بھائیوں، ظلی، ثباتی، سمی، جھاڑو، مُر لی، گنوار، اذکار اور پتوار نے ہر طرف اپنی لُوٹ مار کی دہشت بٹھا رکھی ہے۔ شہر کے لوگ کہتے ہیں کہ نائکہ قفسی کی اولاد ایسی ناگنیں اور ناگ ہیں جن کا کاٹا پانی تک نہیں مانگتا۔ یہ سب کچھ میری ماں قفسی کے قحبہ خانے اور چنڈوخانے کا ثمر ہے جہاں شرم و حیا کوغرقاب کر کے زرو مال بٹورنے پر توجہ دی جاتی ہے۔ میں نے اکتیس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے جن رسوائے زمانہ عیار حسیناؤں کی مجرمانہ زیست سے لُوٹ مار کے حربے سیکھے ہیں اُن میں امریکی لٹیری بونی پار کر (1910-1934: Bonnie Elizabeth Parker)، ما بار کر (1910-1934: Ma Barker)، ماری صورت (1823-1865: Mary Surratt)، فرانس کی چارلٹ کورڈے (1768-1793: Charlotte Corday)، آئر لینڈ کی اینے بونی (1697-1782: Anne Bonny)، اور امریکی ڈاکو بیلے سٹار (1848-1889: Belle Starr) شامل ہیں۔ یہ سب میری محبوب جرائم پیشہ خواتین ہیں۔