جب وہ اسپتال پہنچے تو ارسل سیدھا ریسیپشن کی طرف گیا۔
"ایکسکیوز می؟"وہ بولا۔تو ریسیپشن پر موجود لڑکی نے اسے سر اٹھا کر دیکھا۔
"جی کہئے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتی ہوں؟"وہ بولی۔
"مس آیت ارمغان کس روم میں ہیں؟"اس نے پوچھا۔
"جی میں ابھی دیکھتی ہوں۔"وہ بولی۔
کچھ دیر بعد سر اٹھائے بغیر بولی۔
"یہاں اس نام کی کوئی پیشنٹ نہیں ہیں۔"
"آپ دیکھیں انھیں برین ہیمریج ہوا ہے وہ اسی ہاسپٹل ایڈمٹ ہیں۔مجھے یہیں سے کال آئی تھی۔"وہ پریشانی سے بولا۔
"یہاں مسز آیت ارسل ہیں۔"وہ بولی۔
"جی انہی کا پوچھ رہا ہوں۔پلیز انکا روم نمبر بتا دیں۔"اسے خوشگوار حیرت ہوئی۔
"جی انکا روم نمبر 30 ہے۔"وہ بولی۔
"تھینکس!"وہ کہہ کر آگے بڑھا طیبہ بیگم اسکے پیچھے چل دیں۔
☆♡☆♡☆♡☆
"وہ ابھی تک نہیں آیا۔آپ اسکو خود کال کرتے تو وہ آجاتا۔آپ پلیز اس کو کال کریں۔"میرب بولیں۔
"تمہیں یقین نہیں وہ لڑکی کہہ کر تو گئی ہے کہ وہ آرہاہے۔"وہ بولے۔
"جب تک وہ نہیں آئے گا مجھے سکون نہیں ملے گا۔"وہ بولیں۔
"تم صبر کرو اللہ ہماری بیٹی کو صحت دے گا۔"وہ بولا۔
☆♡☆♡☆♡☆
جب وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آیا تو اس نے ان دونوں کو وہاں بیٹھے دیکھا تو آگے بڑھا۔
ابھی وہ انکے قریب پہنچا ہی تھاکہ ڈاکٹر احمر وہاں سے باہر نکلے۔وہ ان کے قریب آیا۔
"احمر بھائی!آیت کیسی ہے؟وہ ٹھیک تو ہے ناں؟"وہ بولا۔
"ارسل بھابی ٹھیک ہیں تم پریشان نہ ہو۔وہ اس وقت گولیوں کے زیر اثر سو رہی ہیں۔"وہ بولے۔
"بھائی میں اسکے پاس جاسکتا ہوں کیا؟"وہ بولا۔
"ہاں تم جائو مگر زیادہ بات چیت نہ کرنا۔"وہ اسکا کندھا تھپک کر آگے بڑھ گئے۔
وہ دروازے کی کھڑکی سے دیکھا۔وہ اس کو اس حالت میں دیکھ کر بہت نادم ہوا۔وہ تمام رات بھی نہیں سو سکا تھا۔اسے اسکی روتی آنکھیں بار بار اسکے سامنے آرہی تھیں۔
'تمہاری اس حالت میں میرا قصور نہیں ہے،آیت۔میں تمہیں اس حالت تک نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔'وہ سوچے گیا۔
"اگر میری آیت کو کچھ ہوا تو میں آپ کو کبھی معاف نہیں کرونگا۔کبھی بھی نہیں۔"یہ بولتے ہوئے اسکی آواز رندھ گئی۔ارمغان اٹھ کر اسکے پاس گیا اور اسکو سینے سے لگا لیا۔
"میری آیت کو کچھ نہیں ہو گا انکل!" وہ بولا۔
"ہاں کچھ نہیں ہو گا۔"جس کے پاس تم جیسا انسان ہو اس کو کبھی کچھ نہیں ہو سکتاارسل۔"انکی آواز بھی رندھ گئی۔وہ انکے ساتھ لگ کر رو دیا۔
☆♡☆♡☆♡☆
وہ اسکے پاس کمرے میں گیا۔طیبہ بیگم میرب اورارمغان کے پاس باہر ہی ٹھہر گئیں۔
"آیت اٹھو نہ دیکھو میں تمہارا ارسل تمہارے پاس آیا ہوں۔"وہ اسکے قریب جا کر دھیرے سے بولا۔
"دیکھو میں آگیا ہوں نہ اب تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔"وہ آنسؤوں سے تر لہجے میں بولا۔
"دیکھو میں تم سے معافی مانگنے آیا ہوں۔"وہ بولا۔
"مجھے معاف کر دو۔اپنے ارسل کو معاف کر دو۔"وہ بولا۔
"میں نے آنٹی انکل کو بھی معاف کر دیا ہے اور اپنی بدتمیزی پہ معافی بھی مانگ لی ہے۔اٹھونہ آیت!"وہ ابھی چپ ہی ہوا تھا کہ وہ ہلکا سا کسمسائی۔
"آیت!تم ٹھیک ہو نہ۔"وہ اسکو چیک کرنے لگ گیا۔
"ارسل!"وہ دھیرے سے بولی۔
"جی،آیت تمہارا ارسل تمہارے پاس ہی ہے کہیں نہیں گیا۔"وہ آگے ہو کر بولا۔
"ارسل!مجھے معاف کر دیں۔"وہ بولی۔
"نہیں آیت تم مجھے معاف کر دو غلطی سراسر میری ہے مجھے تمہارے ساتھ یہ سب نہیں کرنا چاہیئے تھا۔"وہ شرمندگی سے بولا۔
"آپ مجھے کبھی چھوڑکر تو نہیں جائیں گے نہ؟"اس نے پوچھا۔
"نہیں کبھی بھی نہیں۔"وہ بولا۔
"اگر کبھی چھوڑنے کا سوچا تو میں مر جاؤنگی ارسل!"وہ بولی۔
آج تم نے مرنے کی بات کی ہے۔آئندہ کبھی مت کرنا۔"وہ محبت بھرے لہجے میں بولا۔
٭٭٭٭٭٭
کچھ چیک اپ کے بعد اسے اسپتال سے فارغ کر دیا گیا۔اب ارسل باقاعدہ ان کے گھر جاتا۔خود اسکو دوا دیتا۔یونیورسٹی لانے لیجانے کی ذمہ داری خود بخود اس نے لے لی تھی۔وہ اس کا ہر طرح سے خیال رکھ رہا تھا۔
آخری سمیسٹر تھا۔اس کے بعد آیت کی رخصتی عمل میں لائی جانی تھی۔
٭٭٭٭٭
"ارسل آج تم دونوں جلدی یونیورسٹی سے آجانا۔"طیبہ بیگم اسکو جاتے دیکھ کر بولیں۔ ابھی اس نے آیت کو پک کرنا تھا۔
"کیوں بھابھی؟"وہ بولا۔
"بھئی،آج تم لوگوں کی شادی کی تاریخ طے کرنی ہے۔"انھوں نے اس کو خوشخبری سنائی۔
"واقعی بھابھی،پھرتو آج کا آئس کریم کا پلین کینسل میرے پیسے بچ گئے۔"وہ پرجوش لہجے میں بولا۔
"کوئی پلین کینسل نہیں،اسکو آئس کریم کھلانی ہے تم نے اوکے۔"وہ بولیں تو وہ ہنس دیا۔
"اف یہ دیورانی جیٹحانی میں اتنا پیار بھیا ہم دونوں مارے جائیں گے۔"وہ آتے ہوئے فہیم صاحب کو دیکھ کر بولا۔
٭٭٭٭٭٭٭
پھر شادی کی تاریخ اسی مہینے کی 25 تاریخ رکھ دی گئی۔شادی پرتمام لوگ آئے۔ زیغم بھی اپنی فیملی کے ساتھ آگیا۔ان لوگوں نے ارسل کی تمام تر تیاریاں کروائیں۔ تبھی ارسل کی دونوں بہنوں کا رشتہ بھی زیغم نے اپنے بیٹوں کے لئے مانگ لیا جس کو قبول کر لیا گیا۔
آیت ارسل اپنے سسرال میں آگئی۔وہ لوگ ابھی فہیم صاحب اور طیبہ بیگم کے ساتھ ہی رہنے لگے۔
٭٭٭٭٭٭
ختم شد۔