"کون ہو تم ؟؟؟؟؟"ارمغان چیخا۔
"آپکی سزا!!!!"ارسل بھی اسی انداز میں بولا۔
"میں نے ایسا کچھ نہیں کیا جس کی سزا مجھے ملے۔"ارمغان ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
"تو کیا میری ماں نے اس ڈائری میں جھوٹ بولا ہے؟"اس نے ڈائری اسکے سامنے کی۔جس کومیرب نے پکڑ لیا اور دیکھنے لگیں۔
ارمغان کے ہوش اڑ گئے۔
"کیا تم سب جانتے ہو؟"انھیں اب بھی یقین نہیں آیا۔
"ہاں،سب جانتا ہوں۔"وہ بولا۔
"تم میری بیٹی کو اس کی وجہ سے کچھ نہیں کہو گے۔"وہ بولی۔
"کیوں کیا میری ماں کسی کی بیٹی نہیں تھیں؟"اس نے سوال داغا۔
"لیکن میری بیٹی کا کیا قصور ہے وہ تو تم سے محبت کرتی ہے۔"اس نےکمزور سی دلیل دی۔
"میری ماں نے بھی تو آپ سے محبت کی تھی ناں۔"اسکے پاس جواب تیار تھا۔
"میں نے اس کو خود پر الزام لینے کو تو نہیں کہا تھا۔یہ اس نے خود کیا تھا۔"ارمغان بولا۔
"انھوں نے یہ سب آپ کی محبت میں کیا۔یہ الزام خود پرصرف آپ کی محبت میں لیا۔"اس نے جواب دیا۔
"مگر میری بیٹی کا کوئی قصور نہیں اس کو سزا مت دو۔"اس نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے۔
"کیوں نہ دوں؟میں نہ تو اس کو اپنے پاس رکھوں گا نہ ہی طلاق دوں گا۔ساری زندگی یونہی لٹکی رہے گی وہ۔"وہ تلخی سے بولا۔
"یہ سب کیا ہو رہا ہے؟اور کون ہے یہ ارمغان بھائی؟"حیات نہ جانے کب وہاں آئی۔
"خالہ،پہچانا نہیں آپ نے مجھے؟اوہ آپ کیسےپہچانیں گی،آپ کی آنکھوں کےسامنے تو آپکے ارمغان بھائی ہی بھت اچھے ہیں۔"ارسل اسکی طرف مڑا۔
":ارسل!تم یہاں؟"اس نے اسے فورا"پہچان لیا۔
"ہاں خالہ میں ہی وہ بدنصیب ہوں جو بچپن میں ہی اپنے ماں باپ سے محروم ہو گیا۔ ننھیال سے بھی محروم ہوا۔ یہ تو اچھا تھا کہ میرے بڑے بہن بھائی بہت اچھے تھے۔انھوں نے مجھے اور میری بہنوں کو سنبھالا۔"اس نے جواب دیا۔
یہ سب کہنے ا کیا مقصد ہے تمہارا اور کیوں آئے ہو یہاں؟"اس نے پوچھا۔
"خالہ آج میں حقیقت بتانے آیا ہوں ان کی حقیقت۔ان دونوں میاں بیوی کی حقیقت۔"اس نے جواب دیا۔
"کیسی حقیقت؟"اس نے پوچھا۔
"وہی حقیقت جس کو آپ نہیں جانتیں۔"ارسل نے جواب دیا۔
"آپکی نظروں میں میری ماں قصوروار تھیں مگر میری ماں نے کچھ نہیں کیا تھا یہ سب انھوں نے میری ماں سے کروایا تھا۔"اس نے ان کے نی سمجھ آنے والے انداز کو دیکھ کر وضاحت دی۔
"کیا مطلب؟تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ تمہاری ماں بے قصور اور ارمغان بھائی نے یہ سب کیا تھا؟"انھوں نے اس سے پوچھا۔
"ہاں میں نے ہی اس کو کہا تھا،اس شادی کو ختم کروانے کا کیوںکہ میں اور میرب شادی کرنا چاہتے تھے۔"اب کہ ارمغان بولا۔
"کیا؟میری بہن کے ساتھ اتنا بڑا دھوکا؟؟؟؟"حیات رونے لگیں۔
"وہ مجھے آخری وقت بھی ملنے آئیمیں نے اس کو دھتکار دیا۔میں بھی ظالم نکلی۔وہ کتنے مان سے آئیں تھیں میرے پاس۔"ان کے رونے میں شدت آگئی۔
"خالہ،مت روئیں مرتے مرتے آپ سب کو معاف کر گئیں تھیں امی۔مگر میں ین سب کو معاف نہیں کروں گا۔انھوں نے میری ماں کو آخری وقت میں بھی بہت تکلیف دی تھی۔میری ماں پہ چوری کا الزام لگا کر انھیں گھر سے نکالا تھاان لوگوں نے۔"وہ بولا۔
"کیا؟میری بہن پر چوری کا الزام بھی لگایا خدا کا خوف نہیں آیا تم لوگوں کو۔ظالمو!میری بہن نے کیا بگاڑا تھا تم لوگوں کا۔"اس نے ارمغان اور میرب کی ترف دیکھا۔
"خالہ،چلیں یہاں سے ایسے لوگوں سے سوال جواب کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ اس قابل نہیں،"ارسل بولا۔اور ان کلو لے کر چل پڑا۔
"مجھے کس چیز کی سزا دے رہے ہیں آپ؟"آیت اس کے سامنے آئی۔
"تمہاری سزاکے لئے یہی کافی ہے کہ تم ارمغان احمد اور میرب ارمغان کی بیٹی ہو۔"یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا۔
٭٭٭٭٭٭
"کیوں کیا آپ نے یہ سب کیوں آخر؟؟؟میں آپ کو کبھی بھی معاف نہیں کروں گی کبھی بھی نہیں۔"
ارمغان کے کانوں میں آیت کے آخری الفاظ ہتھوڑے بن کر برس رہے تھے۔ آیت اس وقت آئی سی یو میں زندگی موت کی کشمکش میں تھی اسے برین ہیمریج کا مائنر اٹیک ہوا تھا۔
'اے اللہ میری بیٹی کو زندگی بخش دے۔اللہ میرے کیے کی سزا میری بیٹی کو نہ دے۔ اے اللہ میں تو اس عورت کو طلاق بھی دینے لگا تھا۔جسکی وجہ سے یہ سب ہوا تھا،اگر امی نہ روکتین تو میں تب ہی اسے چھوڑ دیتا جب ارمنہ مری تھی۔ اے اللہ میری بیٹی کو صحت دے دے۔
٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے۔
ناول:اپنی آہت رہنے دو
رائٹر:یاسمین ملک
قسط نمبر:18
٭٭٭٭٭٭٭٭
"کون ہو تم ؟؟؟؟؟"ارمغان چیخا۔
"آپکی سزا!!!!"ارسل بھی اسی انداز میں بولا۔
"میں نے ایسا کچھ نہیں کیا جس کی سزا مجھے ملے۔"ارمغان ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
"تو کیا میری ماں نے اس ڈائری میں جھوٹ بولا ہے؟"اس نے ڈائری اسکے سامنے کی۔جس کومیرب نے پکڑ لیا اور دیکھنے لگیں۔
ارمغان کے ہوش اڑ گئے۔
"کیا تم سب جانتے ہو؟"انھیں اب بھی یقین نہیں آیا۔
"ہاں،سب جانتا ہوں۔"وہ بولا۔
"تم میری بیٹی کو اس کی وجہ سے کچھ نہیں کہو گے۔"وہ بولی۔
"کیوں کیا میری ماں کسی کی بیٹی نہیں تھیں؟"اس نے سوال داغا۔
"لیکن میری بیٹی کا کیا قصور ہے وہ تو تم سے محبت کرتی ہے۔"اس نےکمزور سی دلیل دی۔
"میری ماں نے بھی تو آپ سے محبت کی تھی ناں۔"اسکے پاس جواب تیار تھا۔
"میں نے اس کو خود پر الزام لینے کو تو نہیں کہا تھا۔یہ اس نے خود کیا تھا۔"ارمغان بولا۔
"انھوں نے یہ سب آپ کی محبت میں کیا۔یہ الزام خود پرصرف آپ کی محبت میں لیا۔"اس نے جواب دیا۔
"مگر میری بیٹی کا کوئی قصور نہیں اس کو سزا مت دو۔"اس نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے۔
"کیوں نہ دوں؟میں نہ تو اس کو اپنے پاس رکھوں گا نہ ہی طلاق دوں گا۔ساری زندگی یونہی لٹکی رہے گی وہ۔"وہ تلخی سے بولا۔
"یہ سب کیا ہو رہا ہے؟اور کون ہے یہ ارمغان بھائی؟"حیات نہ جانے کب وہاں آئی۔
"خالہ،پہچانا نہیں آپ نے مجھے؟اوہ آپ کیسےپہچانیں گی،آپ کی آنکھوں کےسامنے تو آپکے ارمغان بھائی ہی بھت اچھے ہیں۔"ارسل اسکی طرف مڑا۔
":ارسل!تم یہاں؟"اس نے اسے فورا"پہچان لیا۔
"ہاں خالہ میں ہی وہ بدنصیب ہوں جو بچپن میں ہی اپنے ماں باپ سے محروم ہو گیا۔ ننھیال سے بھی محروم ہوا۔ یہ تو اچھا تھا کہ میرے بڑے بہن بھائی بہت اچھے تھے۔انھوں نے مجھے اور میری بہنوں کو سنبھالا۔"اس نے جواب دیا۔
یہ سب کہنے ا کیا مقصد ہے تمہارا اور کیوں آئے ہو یہاں؟"اس نے پوچھا۔
"خالہ آج میں حقیقت بتانے آیا ہوں ان کی حقیقت۔ان دونوں میاں بیوی کی حقیقت۔"اس نے جواب دیا۔
"کیسی حقیقت؟"اس نے پوچھا۔
"وہی حقیقت جس کو آپ نہیں جانتیں۔"ارسل نے جواب دیا۔
"آپکی نظروں میں میری ماں قصوروار تھیں مگر میری ماں نے کچھ نہیں کیا تھا یہ سب انھوں نے میری ماں سے کروایا تھا۔"اس نے ان کے نی سمجھ آنے والے انداز کو دیکھ کر وضاحت دی۔
"کیا مطلب؟تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ تمہاری ماں بے قصور اور ارمغان بھائی نے یہ سب کیا تھا؟"انھوں نے اس سے پوچھا۔
"ہاں میں نے ہی اس کو کہا تھا،اس شادی کو ختم کروانے کا کیوںکہ میں اور میرب شادی کرنا چاہتے تھے۔"اب کہ ارمغان بولا۔
"کیا؟میری بہن کے ساتھ اتنا بڑا دھوکا؟؟؟؟"حیات رونے لگیں۔
"وہ مجھے آخری وقت بھی ملنے آئیمیں نے اس کو دھتکار دیا۔میں بھی ظالم نکلی۔وہ کتنے مان سے آئیں تھیں میرے پاس۔"ان کے رونے میں شدت آگئی۔
"خالہ،مت روئیں مرتے مرتے آپ سب کو معاف کر گئیں تھیں امی۔مگر میں ین سب کو معاف نہیں کروں گا۔انھوں نے میری ماں کو آخری وقت میں بھی بہت تکلیف دی تھی۔میری ماں پہ چوری کا الزام لگا کر انھیں گھر سے نکالا تھاان لوگوں نے۔"وہ بولا۔
"کیا؟میری بہن پر چوری کا الزام بھی لگایا خدا کا خوف نہیں آیا تم لوگوں کو۔ظالمو!میری بہن نے کیا بگاڑا تھا تم لوگوں کا۔"اس نے ارمغان اور میرب کی ترف دیکھا۔
"خالہ،چلیں یہاں سے ایسے لوگوں سے سوال جواب کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ اس قابل نہیں،"ارسل بولا۔اور ان کلو لے کر چل پڑا۔
"مجھے کس چیز کی سزا دے رہے ہیں آپ؟"آیت اس کے سامنے آئی۔
"تمہاری سزاکے لئے یہی کافی ہے کہ تم ارمغان احمد اور میرب ارمغان کی بیٹی ہو۔"یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا۔
٭٭٭٭٭٭
"کیوں کیا آپ نے یہ سب کیوں آخر؟؟؟میں آپ کو کبھی بھی معاف نہیں کروں گی کبھی بھی نہیں۔"
ارمغان کے کانوں میں آیت کے آخری الفاظ ہتھوڑے بن کر برس رہے تھے۔ آیت اس وقت آئی سی یو میں زندگی موت کی کشمکش میں تھی اسے برین ہیمریج کا مائنر اٹیک ہوا تھا۔
'اے اللہ میری بیٹی کو زندگی بخش دے۔اللہ میرے کیے کی سزا میری بیٹی کو نہ دے۔ اے اللہ میں تو اس عورت کو طلاق بھی دینے لگا تھا۔جسکی وجہ سے یہ سب ہوا تھا،اگر امی نہ روکتین تو میں تب ہی اسے چھوڑ دیتا جب ارمنہ مری تھی۔ اے اللہ میری بیٹی کو صحت دے دے۔
٭٭٭******:؛
جب وہ ہوش میں آیاتو اسے میرب کا خیال آیا۔
"امی!۔۔۔امی!۔۔۔؟"کہاں ہیں آپ؟"ارمغان بولا۔
"میں یہیں ہوں بیٹا۔"امبر بیگم بولیں۔
"امی ارمنہ کہاں ہے مجھے اس کے پاس لے چلیں۔پلیز امی!"ارمغان بولا۔
"بیٹا۔۔۔وہ۔۔۔"وہ بولتے بولتے رکیں۔
"کیا ہواامی؟؟؟"وہ بولا۔
"ارمنہ کو تو کل ہی دفنادیاگیاتھا۔"وہ بول کررونے لگیں۔
"کیا؟ ارمنہ کو دفنا دیا گیا؟؟؟میں اس کی میت کو کاندھا بھی نہیں دے سکا؟"وہ بھی رونے لگا۔
"ہاں بیٹا،تمہیں ہوش نہیں آیا تو اسے دفنانا پڑا۔"وہ بولیں۔
"ارسل لوگ کہاں ہیں ان کو میرے پاس بھیجیں میں ان سے ہی معافی مانگ لوں۔"وہ بولا۔
"ان لوگوں کو ان کے بھائی فہیم لے گیا ہے اپنے ساتھ۔"انھوں نے اسے اطلاع دی۔
"یعنی میں ہمیشہ کےلیےہیان سے محروم ہوگیا۔"وہ بولا۔
"نہیں بیٹا کوشش کر کے تم انھیں ڈھونڈ لو گے۔"وہ بولیں۔
"امی،۔۔۔۔!"وہ پرسوچ لہجے میں بولا۔
"ہاں بیٹا،بولو۔"وہ بولیں۔
"امی،میرب کہاں ہے؟"وہ بولا۔
"وہ یہیں ہے بیٹا۔"وہ بولیں۔
"امی اسے گھر سے نکال دیں میں اسکی منحوس شکل اس گھر میں برداشت نہیں کر سکتا۔ اسسے کہیں چلی جائے یہاں سے۔میں اسکے گھر طلاق بھجوا دوں گا۔"وہ چلایا۔
"ارمغان پلیز یوں نہ کریں میں نے کیا کیا ہے ؟مجھے کس بات کی سزا دے رہے ہو؟"میرب بولی/
"میں نے تمھاری ہی وجہ سے ارمنہ کو طلاق دی اورتمھاری ہی وجہ سے اسے گھر سے نکالا۔"وہ بولا۔
"ارمغان وہ تمھاری غلطی تھی اب میں تمھیں دوبارہ وہی غلطی نہیں دہرانے دوں گی۔"امبر ببیگم بولیں۔
"امی آپ کچھ نہیں جانتیں آپکو نہیں معلوم اسکے کہنے پر ہی میں نے ارمنہ کو طلاق دی اور اسکو اس حال تک پہنچایا۔"وہ بولا۔
"ارمغان میرب مجھے سب بتا چکی ہے وہ اپنے کیے پر نادم ہے۔میں تمھیں اب وہ غلطی نہیں کرنے دوں گی جو تم نے ارمنہ کے معاملے میں کی۔"وہ بولیں۔
"ٹھیک ہے آپ کے کہنے پر اسکو طلاق نہیں دے رہامگر میں اسکو کوئی خوشی نہیں دے سکوں گا۔"یہ کہہ کر وہ اٹح کر باہر چلا گیا۔
٭٭٭٭٭٭
"تم ارسل کو کیوں نہیں بلا لیتے۔"میرب بیگم بولیں
"وہ نہیں آئے گا۔"ارمغان بولا۔
کوشش کرنے میں کیا حرج ہے؟"میرب بولیں۔
"وہ نہ آیا تو میرا دل ٹوٹ جائے گامیرب۔"وہ بولے۔
"ہم سب نے جو اسکا دل توڑا اسکے سامنے یہ بہت چھوٹا ہے ارمغان!"وہ بولیں۔
"میں کیسے اس سے کہوں کہ ارسل میری بیٹی مر رہی ہے اسکو آکے بچا لو۔وہ کیونکرمجھ جیسے شخص کی بات مانے گا۔"ارمغان کی آواز رندھ گئی۔
"ارمغان تم اس سے بات تو کر کے دیکھو۔ افر اسے واقعی آیت سے محبت ہو گی تو وہ ضرور آئے گا۔"وہ پر اعتماد طریقے سے بولیں۔
"اور اگر محبت نہ ہوئی تو؟؟؟؟؟"اس نے اپنا شک ظاہر کیا۔
"ارمغان نکاح کا رشتہ اتنا مضبوط ہوتاہے کہ دودشمنوں کے دلوں میں بھی محبت ڈال دیتاہے۔کیا تمہیں ارمنہ سے محبت نہیں تھی؟"وہ بولیں۔
"ہاں تھی جس کو تمہاری خوبصرتی نے ماند کردیا۔"وہ ماضی میں ڈوب کر بولا۔
"السلام علیکم! ارسل صاحب بات کر رہے ہیں۔"ایک زنانہ آواز آئی۔
"جی،میں ارسل ہی بات کررہا ہوں آپ کون؟"وہ بولا۔
"جی میں الائیڈ ہاسپٹل سے بات کر رہی ہوں۔آپکی وائف ہمارے پاس ایڈمٹ ہیں۔ آپ لیز جلدی سے یہاں آجائیں۔"ریسیپشنسٹ بولی۔
"میری وائف؟"وہ حیران ہوا۔
"جی آپکی وائف ان کو برین یمریج ہوا ہے۔انکی کنڈیشن بہت سیریس ہےاور بے ہوشی میں مسلسل آپکو ہی بلا رہی ہیں۔ہم نے آپکا نمبر ان کے والدین سے لیاہے۔"وہ بولی۔
"برین ہیمریج؟؟؟اوکے فائن میں ابھی آرہا ہوں آپ پلیز بتائیں آن ڈیوٹی کونسے ڈاکٹڑ ہیں؟"وہ جلدی سے بولا۔
"ڈاکٹر احمر طاہر ہیں۔"وہ بولی۔
"ٹھیک ہے آپ ان کو میرا بتائیں کہ میں ارسل ارشد ہوں۔وہ مجھے جانتے ہیں اور کہیں کہ میری وائف کا خاص خیال رکھا جائے۔ میں کچھ دیر میں آتا ہوں۔"وہ بول کر وہاں سے فورا'' اٹھا۔
وہ نیچے آیا تو طیبہ بیگم اسے کہیں جاتا دیکھ کر حیران ہوئیں۔کیونکہ آج سنڈے تھا اور وہ سنڈے ان لوگوں کے ساتھ ہی گزارتا تھا۔ کہیں نہین جاتا تھا۔
"ارسل کہاں جا رہے ہو؟"اسے طیبہ بیگم کی آواز آئی تو وہ مڑا۔
"بھابھی آیت کو برین ہیمریج ہوا ہے مجھے جانا ہو گا۔ اسکو میری ضرورت ہے۔اس وقت۔"وہ جلدی سے بولا۔
وہ رات ہی ان کو تمام بات بتا چکا تھا۔اور حیات بھی ان لوگوں سے مل گئیں تھیں۔
"مگر ارسل رکو انے بھیا کو تو آلینے دو انکے ساتھ جانا۔"وہ بولیں۔
"نہیں بھابھی اس وقت نہیں۔ میں ان کو تنگ نہیں کر سکتا۔"وہ بولا۔
اچھا تھہرو میں بھی تمھارے ساتھ چلتی ہوں۔"وہ بول کر اٹھیں اور تیر ہو کر کطھ پیسے بھی ساتھ پکڑ لیے کہ کہیں ضرورت ہی نہ پڑ جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭