اس سےجان چھراتا ارسل سیدھا پروفیسر احمد کےآفس پہنچا-وہ ابھی کچھ دن پہلےہی یہاں آئےتھے-اسکی آمد ان کےلئے حیران کن تھی-
"السلام علیکم سر!"وہ اندر داخل ہوتے بولا-
"وعلیکم السلام!آئیں-"وہ بولے-
"سر مجھے آپ سے ضروری کام تھا-"وہ بولا-
"آپ وہ ضروری بات کلاس میں بھی کرسکتےہیں-"وہ بولے-
"سر پرسنل بات کرنی تھی-"وہ بولا-
"پرسنل بات مجھ سے؟"وہ حیران ہوئے-
اس پر جو اس نے جواب دیا-اس نے ان کو حیران کر کے رکھ دیا-
☆♡☆♡☆♡☆
"امغان!بات سنو میری-"وہ بولا-
"ہاں بولو-"اس نے جواب دیا-
"ارمغان میں ارمنہ کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں-"وہ بولا-
"کیا پوچھنا چاہتے ہو؟"اس نے پوچھا-
"ارمنہ کی کوئی منگنی وغیرہ تو نہیں ہوئی کہیں؟"اس نے پوچھا-
"نہیں یار نہیں ہوئی-کیوں پوچھ رہے ہو؟"اس نے پوچھا-
"میں ارمنہ کا رشتہ لانا چاہتا ہوں-"وہ بولا-
"ٹھیک ہے تم لے آءو-"اسکا لہجہ بہت عجیب تھا-
☆♡☆♡☆♡☆
"آپ ارمنہ اشعر کو جانتے ہیں؟"اس نے پوچھا-
"ارمنہ۔۔۔ مگر تم کیوں پوچھ رہے ہو؟"وہ بولے۔
"کیونکہ میں ان کا بیٹا ہوں-"اس نے گویا ان کے سر پر بم پھوڑا-
"اوہ ہ ہ ہ۔۔۔۔۔"
☆♡☆♡☆♡☆
ارسل آج اسی یونیورسٹی میں میڈیکل کا سٹوڈنٹ تھا- جہاں کئی سال پہلے اسکی ما پڑھتی تھی-
یہ وہی احمد تھے جو کہ ارمنہ کا رشتہ لانا چاہتے تھے-
جب انھوں نے ارمنہ کے بارے میں ارمغان سے پوچھا تھا تب ارمنہ کی رخصتی کی بات چل رہی تھی اور ارمغان نے اس سے جان چھرانے کی خاطر اسے یہ نہ بتایا کہ وہ میری منکوحہ ہے-
☆♡☆♡☆♡☆
"میں آپ سے یہ پوچھ سکتا ہوں کہہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میری ماں ارمغان صاحب کی منکوحہ ہیں آپ نے انہیں شادی کا پیغام کیوں بھجوایا؟"اس نے پوچھا-
"کیا ارمنہ ارمغان کی منکوحہ تھی؟" اب کہ وہ حیران ہوئے-اور وسے تب کی اپنی اور ارمغان کی ہونے والی گفتگو بتا دی-
☆♡☆♡☆♡
"میں نہیں جانتا تھا کہ ارمنہ ارمغان کی منکوحہ ہے-"وہ بولا-
"یعنی ارمغان صاحب نے آپ سےجھوٹ بولا-"وہ بھی پریشان تھا-
"ہاں،۔۔۔اور ہاں ۔۔۔میں جب ارمنہ کا رشتہ لے کر گیا تھاتوتمہاری خالہ نےمجھے یہ کہہ کر بھیج دیا کہ اس کی شادی ہو گئی ہے-" وہ بولا-
"ہاں ان کی شادی ہو گئی تھی-میرے ابو کے ساتھ جو ان سے عمر میں دوگنا تھے-"وہ پر سوچ لہجے میں بولا-
"مگر کیوں؟۔۔۔اس سے دوگنا عمر کے شخص کے ساتھ کیوں؟"انھوں نے پوچھا-
جوابا"اس نےتمام واقعات انکےگوش گزار کر دئیے-وہ شرمندہ سے ہو کر رہ گئے-
"شکریہ۔۔۔ سر مجھے وقت دینے کا-"وہ شکریہ ادا کرتا وہاں سے چلا گیا-احمد صاحب اس کے جانے کے بعد بہت دیر تک ارمنہ کے بارے میں سوچتے رہے-
☆♡☆♡☆♡☆
"میں تمہارے گھر رشتہ بھیجنا چاہتا ہوں-"ارسل بولا-
"مگر۔۔۔مگر ابھی میں اپنے گھر والوں کو نہیں منا سکتی-"وہ بولی-
"تو تم اس بچپن کے نکاح سے ساری زندگی بندھے رہنا چاہتی ہو؟ایک ان چاہے رشتے کےساتھ ساری زندگی گزارنا چاہتی ہو کیا؟"اس نے پوچھا-وہ اسکو صرف دیکھ کر رہ گئی-
☆♡☆♡☆♡
"ارسل مجھے کچھ وقت دو میں بات کروں گی-"وہ بولی-
"نہیں میں ابھی تمہارے ساتھ تمہارے گھر جارہاہوں-"وہ بولا-
"پلیز ارسل!پاپا اسطرح نہیں مانیں گے-"وہ خوف بھرے لہجے میں بولی-
"ٹھیک ہےاگرآج تم نےجاکربات نہ کی تو کل میں تمہارے ساتھ ہی جاءوں گا-"وہ ڈراتےہوئےبولا-
اسکےجانےکےبعداس نے سکھ کاسانس لیا-
'آج میں بات کرکےرہوں گی-چاہےکچھ بھی ہو جائے-'اس نے سوچا-
☆♡☆♡☆♡☆
"پاپا! مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے-"وہ بولی-
"جی پاپاکی جان بولے-"وہ مان بھرے لہجے میں بولے-
"پاپا!پہلےوعدہ کریں آپ ناراض نہیں ہونگے-"وہ بولی-
"پہلے کبھی ناراض ہوا ہوں اپنی جان سے جو اب ناراض ہوں گا-"وہ اسکو پچکارتےہوئےبولے-
"پاپا!وعدہ ناں!"وہ بولی-
"پاپاکی جان وعدہ!"وہ بولے-
"پاپامیں کسی اور سے شادی کرنا چاہتی ہوں-"وہ بولی مگرانکےچہرےکے تاثرات دیکھ کر فورا"بولی-
"پاپا وہ بہت اچھالڑکاہے-اور ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ لوگ کہاں ہیں-میں اس رشتے سے کب تک جڑی رہوں گی؟"وہ بولی-
"اسکانام کیا ہے؟"انھوں نےپوچھا-
"احمد!"اس نے جواب دیا-
اس نام پہ وہ چونک گیا-
☆♡☆♡☆♡☆
"ارسل تم کیا چاہتے ہو اب-"جاوید بولا-
"میں اب سب سے بدلا لینا چاہتاہوں اپنی اوراپنی ماں کی بربادی کا-"اس نے جواب دیا-
"ارسل میری بات سنو-اس سب کا فائدہ کیا؟تمہاری امی واپس تو نہیں آجائیں گی نا؟"اس نے پوچھا-
"نہیں آئیں گی مگر انکی روح کو سکون تو ملے گانا-"اس نے جواب دیا-
جاوید اسکو دیکھ کر رہ گیا-
'اسکا کچھ نہیں ہو سکتا-'اس نے سوچا-
☆♡☆♡☆♡☆
"پاپا!احمد بہت اچھا ہے مجھے بہت خوش رکھےگا-پلیز پاپا!"وہ بولی-
"اس سے بولوگھرآئے-"وہ ضبط کئے بولے-
"تھینک یوپاپا!"وہ پرجوش لہجے میں بولی-
"آپ جانتے ہیں کہ اسکانکاح ہوا تھابچپن میں-چاہےمیری مرضی کے خلاف تھا-مگر نکاح پر نکاح جائز نہیں- آپ یہ سب تو نہ کریں-"انکی بیگم بولیں-
"میں اپنی بیٹی کو دکھ نہیں دینا چاہتا-وہ جس سے شادی کرناچاہتی ہے اسی سے شادی کرونگا اسکی-خلع کا کیس دائر کروالیں گے-"وہ پرسوچ لہجے میں بولے-
☆♡☆♡☆♡☆
"پاپا تم سے ملنا چاہتے ہیں-"وہ اسے دیکھتے ہی اسکے پاس آگئی-
"انکو بتایاکہ میرےماں باپ نہیں ہیں میں خود ہی آءونگا۔"اس نےپوچھا-
"انھوں نےکچھ نہیں پوچھا-انھوں نے بس کہاکہ تم گھر آءو-"اس نے اسےبتایا-
"ٹھیک ہے میں آج ہی یونی سے واپسی پر تمہارے گھر آءونگا-"اس نےاپنا فیصلہ سنایا-
☆♡☆♡☆♡☆
"السلام علیکم!ارمغان صاحب!"وہ وہاں پہنچ گیا تھا-
"وعلیکم السلام!"انھوں نے جواب دیا-
"بیٹھو،بیٹا-"وہ بولے-
"آپ جانتے تو ہیں میں کس سلسلے میں آیا ہوں-"وہ بولا-
"جی بیٹا،مگراس سے پہلےمیں آپکے ماں باپ سے ملنا چاہوں گا-"وہ بولے-
"وہ نہیں ہیں-"وہ ضبط کرکے بولا-
"اوہ ہ ہ۔۔۔۔سوری مجھے آیت نے بتایا نہیں تھا-"وہ بولے-
"اچھا آپکو پتہ ہے کہ آیت کابچپن میں نکاح ہوا تھا-"انھوں نےپوچھا-
"جی،جانتاہوں-مچھے اس سے کوئی اعتراض نہیں-شادی سے پہلے ہم خلع لے لیں گے-ویسے بھی بچپن کےنکاح کی کیا اہمیت ہوتی ہے؟"اسکا لہجہ بہت عجیب تھا۔
"ہاں مگر نکاح تو نکاح ہوتا ہے ناں-" میرب بولیں-
"ہاں مگرکچھ لوگ اسکو اہم نہیں سمجھتے-"وہ بولا-
"چلو ہم باہر لان میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں-"وہ بولے-
"چلتے ہیں مگراس سے پہلے میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں-"وہ بولا-
"ہاں پوچھو بیٹا؟"انھوں نے بولا-
"آپ نے ارمنہ اشعر سے یوں کیوں کیا؟"اسکے سوال سے انکے ہوش اڑ گئے-