پروفیسر ڈاکٹر شیریں اسلامک ڈیپارٹمنٹ کی اسٹوڈنٹ ایڈوائزر تھیں۔شام کو وہ فی سبیل اللہ عورتوں کو قرآن پاک پڑھاتی تھیں،جمعرات کو انکے یہاں درس ہوتا تھا۔،اور اس دن انکے یہاں ہمیشہ ہی رش ہوتا تھا۔
اتفاق سے آج جمعرات تھا،جب نساء اور فرحین وہاں پہنچے تو پورا کمرہ بھر چکا تھا،وہ لوگ خاموشی سے پیچھے قطار میں بیٹھ گئیں اور درس سننے لگیں۔انکاآج کاموضوع” شوہر و بیوی کے حقوق و فرائض” تھا۔درس کے اختتام پر سوالات کاسلسلہ شروع ہوا۔
“کیا عورت کےلئے طلاق کامطالبہ کرنا جائزہے؟”
ایک عورت جو نساء کےبرابر ہی بیٹھی تھی ،اس نےہاتھ اٹھا کر سوال کیا۔
“ ہاں،اگرزوجین میں نا اتفاقی ہے،اور یہ اندیشہ ہوکہ دونوں احکام شرعیہ کی پابندی نہ کر سکیں گے تو عورت خلع کے ذریعے طلاق لے سکتی ہے،لیکن اگر شوہر کی طرف سے کوئی اذیت اور تکلیف کے بغیر عورت طلاق کامطالبہ کرتی ہے وہ اسپر حرام ہے۔”
حدیثِ مبارکہ ہے:”جس عورت نے اپنے شوہر سے بغیر شدید ضرورت کے طلاق کامطالبہ کیا،اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے”
لیکن آج کل کی عورتیں اعلیٰ قسم کا لائف اسٹائل نہ ملنے پر،الگ گھر کا مطالبہ نہ پورا کرنے پر،اور اسی قسم کی معمولی باتوں پر طلاق کا مطالبہ کرتی ہیں یہ نا جائز و گناہ ہے۔اور ایسی عورتیں مذکورہ بالا وعید کی مستحق ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر شیریں نے مفصل جواب دیا۔ایسے ہی چند سوالوں کے بعد درس کا سلسلہ ختم ہوگیا اورآہستہ آہستہ کمرہ خالی ہونے لگا۔
نساء اور فرحین اٹھ کر آگے آگیئں۔
“اسلام وعلیکم آنٹی۔”
اس نے انکو سلام کیا۔وہاں موجود سب ہی خواتین انکو آنٹی کہ کر بلا رہی تھیں۔
“وعلیکم اسلام۔”
انہوں نے شفقت سے جواب دیا۔اور اپنے برابررکھی چئیر پر اسکو جگہ دی۔انکے پاس اکثر ہی خواتین درس کے بعد اپنے مسائل لیکر آتی تھیں،اسلئے وہ سمجھ گئیں کہ نساء کا بھی کوئی خاص مسئلہ ہے۔
نساء کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کہاں سے شروع کرے۔وہ اپنے ہاتھوں کی انگلیاں مروڑ رہی تھی،جس سے اسکے اندر کا اضطراب جھلک رہا تھا۔شیریں آنٹی نے اسکو بغور دیکھتے ہوۓ پانی کا گلاس دیا۔جو اس نے دو گھونٹ پی کر رکھ دیا۔
“کیا بات ہےبچے کیوں اتنی پریشان ہو؟”
انہوںنےشفقت سے اس سے پوچھا۔انکی اتنی اپنائیت پر نساء کا اعتماد تھوڑابحال ہوا ،اور پھر اس نے الف سے ے تک ساری کہانی روتے ہوۓ سنادی۔شیریں آنٹی بغور اسکو سن رہی تھیں۔
“ہمم م م۔۔۔تو تم اسکو ابھی بھی چاہتی ہو؟”
نساء کے خاموش ہونے پر انہوں نے اس کو دیکھتے ہوۓ پوچھا۔نساء نے اثبات میں گردن ہلائ۔
“یہ جانتے ہوۓبھی کہ اسکے دل میں تمھارے لیے جگہ نہیں ہے،وہ تم سے مخلص نہیں تھا۔”
انہوں نے نساء کو بغور دیکھتے ہوۓ پوچھا۔نساء کے آنسوؤں میں شدت آگئ۔اس نے اپنے ہونٹ کاٹنے شروع کردئے۔
“دیکھو بچے یہ بس ایک وقتی جذبہ ہے،یہ محبت نہیں ہے۔اس کا تم سے کوئ شرعی رشتہ نہیں تھا،اور بغیر شرعی رشتے کے محبت کیسے پنپ سکتی ہے؟محبت تو نکاح کے بعد ہوتی ہے،جو اللہ پاک اپنے بندوں کے دل میں ڈالتا ہے۔جو پاکیزہ ہوتی ہے۔یہ تو وقتی کشش اور لگاؤ تھا،جو شیطان ہمارے دلوں میں ڈالتا ہے۔”
وہ سانس لینے کو دو منٹ رکیں،نساء انکو غورسے سن رہی تھی۔
“نکاح کےبغیر عورت مرد کا کوئی رشتہ نہیں بن سکتا،یہ منگنی وغیرہ کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ہے۔اصل محبت تم کو شادی کے بعد ہوگی۔اسکا احساس بھی تم کو شادی کے بعد ہوگا کہ ارے میں کس سراب کےپیچھے بھاگ رہی تھی۔کیا بچپنہ تھا وہ میرا۔اللہ پاک کے فیصلوں میں مصلحت ہوتی ہے،اسکو دل سے قبول کرلو،وہ خود تمھارے راستے آسان کردے گا،وہ شخص تمھارے لئے ٹھیک نہیں ہوگا،اسلئے اللہ پاک نے تم کو کسی بڑی مصیبت سے بچالیا۔”
انہوں نے اسکو پیار سے سمجھاتے ہوۓ کہا۔
“مگر آنٹی اگر وہ میرے لیۓ ٹھیک نہیں تھا تو یہ رشتہ ہی نہ جڑتا “
۔نساء نے تڑپ کر کہا۔
“دیکھو بچے انسان اس دنیا میں امتحان دینے ہی آیا ہے۔کسی کو بغیر آزمائش سب مل جاتا ہے ،کسی کو آزمائشش کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔کبھی کبھار چھوٹی چھوٹی آزمائشیں بڑے بڑے انعام لیکر آتی ہیں۔ہوسکتا ہے تم اللہ پاک سے ایک پھول کی ضد لگا کر بیٹھی ہو اور اس نے تمھارے لیے پورا باغ چنا ہو۔”
انہوں نے مسکراتے ہوۓ اسکو دیکھا۔
“مگر آنٹی مجھے کسی چیز کی خواہش نہیں ہے،بس وہ مل جاۓ تو شاید خود ہی سکون آجاۓ گا۔آپ دعا کریں وہ خود سے دوبارہ بات کرلے۔”
اس نے انکو آس سے دیکھا۔ڈاکٹر شیریں نے ایک لمبی سانس بھرتے ہوۓ نساء کو دیکھا اور گویا ہوئیں۔
“اللہ پاک فرماتا ہے:
“اے ابنِ آدم ایک تیری چاہت ہے، اور ایک میری چاہت ہے،ہوگا وہی جو میری چاہت ہے۔پس اگر تونے سپرد کردیا خود کو اسکے جو میری چاہت ہے تو میں بخش دونگا تجھ کو وہ بھی جو تیری چاہت ہے ،اگر تونے مخالفت کی اس کی جو میری چاہت ہےتو میں تھکا دونگا تجھ کو اس سے جو تیری چاہت ہے،اورہوگا پھر وہی جو میری چاہت ہے”تو میری جان اللہ پاک فیصلوں کے آگے سر تسلیمِ خم کردو،چھوڑ دو سب اس خالق کی مرضی پر،ہم اس سےضد نہیں کرسکتے،بس دعا کرسکتے ہیں۔تم بس اپنے دل کے سکون اور بہتر مستقبل کی دعامانگو،تم کو نہیں پتہ تمھارے لئے کیا بہتر ہے،بس اس سے بہتری مانگو۔”
انہوں نے اسکو پیار سے سمجھاتے ہوۓ کہا۔نساء خاموشی سے انکو سن رہی تھی۔
“دیکھو بیٹا،بچہ بھی ماں سے دہکتا ہوا کوئلہ مانگے گا نہ تو ماں نہیں دے گی،پھر چاہے وہ روۓ،گڑگڑاۓ یا ضد کرے۔وہ جانتی ہوگی کہ یہ صرف اسکےخوبصورت رنگ کو دیکھ کر مانگ رہا ہے،مگر میں نے اسکو دیا تو اسکا ہاتھ جل جاۓ گا۔مگر بچہ سوچے گا میری ماں میری خواہش پوری نہیں کر رہی۔تو وہ رب کریم تو سترماوں سے زیادہ چاہنے والا ہے،وہ ہم کو کیسے وہ چیز دے سکتا ہے جو ہمارے لئے نقصان دہ ہوگی۔یہ کیسےممکن ہے وہ تمھارے دل کی آواز نہیں سے گا۔میرے بچے وہ تم کو بہترین سے نوازے گا۔”
شیریں آنٹی نے اسکو تھپکتے ہوۓ کہا۔نساء نے ٹشو سے آنکھیں خشک کیں۔اسکو لگ رہا تھا جیسے اسکا دل ہلکا ہوا ہو۔اس نے گردن ہلا کے انکی بات کی تائید کی۔
“تم نمازپڑھتی ہو؟”
انہوں نے نساء سے سوال کیا۔نساء نے شرمندگی سے نفی میں گردن ہلادی۔
“نماز پڑھا کرو بچے،اللہ پاک سورہ بقرہ میں فرماتا ہے:اے ایمان والوں!صبر اورنمازسے مددمانگو،بے شک اللہ پاک صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔نماز سے دوری ہی دل میں وسوسے ڈالتی ہے۔شیطان ہم پر آسانی سے حاوی ہوجاتا ہے،وہ ہم کو ہر برے اور حرام کام کی طرف باسانی راغب کرتا ہے۔دیکھو وہ لڑکا تمھارے لئے نا محرم تھا اور تم اسکے لئے بے تاب ہو،یہ شیطان کی چال نہیں تو اور کیا ہے؟”
انہوں نے اس سے سوال کیا۔
“تم اس سے بات بھی کرتی ہوگی؟”
نساء نے آہستہ سے جی بولا۔
“ہاں تو میرےبچے نا محرم آدمی سے فون پر بات کرنا بھی مسلمان عورت کے لئے حرام ہے۔”
“مگر آنٹی میرے گھر والوں کو پتہ تھا اور وہ میرا ہونے والا شوہر تھا،میں سب سے بات نہیں کرتی۔”
نساء نے اپنی صفائ پیش کی۔
“بیٹا تو غلط کام گھر والوں کے سامنے کیا جاۓ تو کیا وہ غلط نہیں رہتا؟اور دیکھ لو آخر اب وہ نہیں ہوگا نہ تمھارا شوہر،تو تم نے ایک نامحرم مرد سے اتنے عرصے بات کی،صرف تھوڑی دیر کے زبان کے چٹخارے کے لئے ہم اپنی عاقبت خراب کرلیتے ہیں۔آئندہ تمھارا جہاں بھی رشتہ ہو،تم فون پر بات نہ کرنا،پھر دیکھنا اللہ پاک تمھارے رشتے میں کیسی برکت اور محبت ڈالے گا۔جب تم جائزطریقےسے سنت پوری کرو گی تونتیجہ بھی اچھا ہوگا۔شادی جیسے اچھے کام کو آجکل ہم شروع ہی حرام کام سے کرتے ہیں تو آگے اچھے کی امید بھی کیسے رکھ سکتے ہیں۔اسی لئے طلاق کی شرح بھی بڑھ گئ ہے۔ایک توہم اللہ کو ناراض کرتے ہیں،دوسرے ہم یہ سمجھتےہیں اس بات چیت سے انڈرسٹینڈنگ پیداہوگی،جو سراسر غلط اندازہ ہے،اس سے ہی اصل میں مس انڈرسٹینڈنگ پیدا ہوتی ہے،لڑکا لڑکی ایک دوسرےسے اتنی توقعات باندھ لیتے ہیں کہ بعد میں دوسرے کے لئے انکو پورا کرنا ناممکن ہوتا ہے اور یہیں سے رشتے کمزور ہوجاتے ہیں۔تو بس یہ عہد کرلو کہ تم اپنے شوہر سے شادی کے بعد ہی بات کرو گی،اور نماز شروع کردو۔”
شیریں آنٹی نے پانی کا گلاس اٹھاتے ہوۓ کہا۔نساء نے اثبات میں گردن ہلائ۔انہوں نے دو گھوںٹ پانی پی کر واپس گلاس ٹیبل پر رکھا اور دوبارہ گویا ہوئیں۔
“اللہ پاک سورہ الم نشرح میں فرماتا ہے:
“بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے،تو بس دیکھناانشااللہ جلد ہی تم مجھے خوشخبری سنانے آوگی۔”
انہوں نے اسکومسکراتے ہوۓ دیکھا۔نساء بھی انکو دیکھ کر مسکرا دی۔فرحین نےبھی دل سے انشا اللہ کہا۔نساء کو لگ رہا تھا جیسے اسکو شیریں آنٹی سے بات کرکے سکون ملا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نساء گھر واپس آئی تو سجل اور کلثوم بیگم میں زور و شور سےبحث جاری تھی،نساء کو اندازہ تھا کہ آجکل وہ دونوں سجل کے گھر واپس جانے کو لیکر ہی بحث کرتی تھیں۔وہ سلام کرکے اپنے بیڈ روم میں چلی گئ۔کلثوم بیگم نے بھی نساء کو آتا دیکھا تو اٹھ کر اسکے پیچھے گئیں۔سجل لاؤنج میں بیٹھی رہ گئ۔عنایہ اسکی گود میں سورہی تھی۔اور اسجد اپنے ٹیب پر گیم کھیلنے میں مصروف تھا۔وہ خاموشی سے آنسو پوچھتی عنایہ کو دیکھے گئ۔ماضی کے منظر اسکی آنکھوں میں دھندلانے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسجد اور سجل کی مشترکہ پسند کی شادی تھی،جہاں آرا بیگم کی اس رشتے میں شروع سےہی خوشی نہیں تھی،یہی وجہ تھی کہ سجل کبھی انکی پسندیدہ بہو نہ بن سکی۔اگر اسجد اتنی ضدنہ کرتا تو وہ کبھی سجل کو بیاہ کرنہ لاتیں۔اب بیٹے کی ضدکے آگے لے تو آئ تھیں، مگر دل سے تسلیم نہیں کرپارہی تھیں۔
ان دونوں کا پہلہ معرکہ شادی کے بارہ دن بعدہی شروع ہوگیا تھا۔جب سجل اسجد کے ساتھ ہنی مون منا کر واپس آئ تواگلے دن ہی انہوں نے سجل کو یہ کہ کر اس کے چھکے چھڑا دئے کہ اب سے کچن کی ساری ذمہ داری سجل کی ہے کیونکہ وہ اب کام نہیں کرسکتیں ہیں،اور فاریہ کو یونیورسٹی جانا ہوتا ہے۔انکا یہ فرمان سن کر سجل نے بیڈ روم میں جاکر اسجد کی خوب کلاس لی،کہ انکے گھر والے جانتے ہیں کہ وہ بہت زیادہ کام نہیں جانتی ہے،ایکدم سے پورا کچن کیسے سنبھالے گی۔اس کے گھر میں تو کک ہے،وہ کام ضرور کرے گی مگر اسکو ممانی جان اور فاریہ کی مدد بھی چاہیے ہوگی۔
اسجد بھی اس صورتِ حال پر بوکھلا گیا،اور شادی کے دوسرے ہفتے ہی جہاں اسکو ریفری کی خدمات سر انجام دینی پڑیں،وہیں ماں سے زن مرید جیسا لقب بھی مل گیا۔ماں سے بات کرکے باہر نکلا تو دوسری طرف سجل کو منانے کا مرحلہ ابھی باقی تھا۔
بہرحال یہ مسئلہ ایسے حل ہوا کہ اب گھر میں کک بھی رکھا جاۓ گا تاکہ کام کا بوجھ کسی کے سر پر نہ آے۔مگر یہ مرحلہ بھی اتنی آسانی سے طے نہیں ہوا،جو لڑکی سجل کو سمجھ آتی تھی،جہاں آراء بیگم اس میں سو نقص نکال کے منع کر دیتی تھیں۔ویسے تو سجل کو ہی اتنی آسانی سے کوئ کام والی پسند نہ آتی تھی۔
آخر کار تنگ آکر اسجد نے اپنے دوست کے گھر کام کرنے والی ماسی کی بیٹی کو رکھ لیا۔مگر سجل کی فرمائش کا پورا خیال رکھا گیا تھا،اور یہیں سے جہاں آرا بیگم کے دل میں بیٹے بہو کے لئے ایک گانٹھ کا اور اضافہ ہوگیا۔
شادی کے دو مہینے بعد ہی سجل کے یہاں خوشخبری تھی،اور اسجد تو گویا خوشی سے پاگل ہوگیا تھا،اس نےسجل کے نخرے اٹھانے میں کوئ کسر نہیں چھوڑی تھی۔اور یہی بات جہاں آرا کو اندر تک کلسا دیتی تھی۔وہ اسجد کی غیر موجودگی میں اپنی بہن کو فون ملا کر سجل کو خوب باتیں سناتی تھیں۔
“ارے ہم نے توتین تین بچے پیدا کرلئے،مجال ہے جو گھر کے کسی کام میں کوئ کوتاہی ہوئ ہو،ساس سسر سے لیکر میاں تک کے سارے کام ٹائم پر ہوتے تھے،یہاں تو چونچلے ہی ختم نہیں ہوتے،لگتا ہے دنیا سے کوئی انوکھا کام ہورہا ہے۔”
سجل کا دل چاہتا کہ وہ پوچھے کہ اسکی نانی تو اسجد کی پیدائش سے بھی پہلے چل بسی تھیں،اورنانا تین سال بعد،جب صرف انکے گود میں اسجد تھا ،تو وہ باقی بچوں کی پیدائش پر کراۓ سے ساس سسر لے کر آئ تھیں۔مگر بقول شاعر:
تھی خاموشی ہماری فطرت
جو چند برسوں بھی نبھ گئی ہے
جو ہمارے منہ میں جواب ہوتے
تو سوچو کتنے فساد ہوتے۔۔۔۔
شروع شروع سجل نے کوشش کی کہ وہ ممانی جان سے تعلقات بہتر بناۓ،مگر جب بھی وہ انکے پاس جاکر بیٹھتی تو وہ ٹی وی کا والیوم تیز آوازمیں کھول کر بیٹھ جاتیں یاسجل کو سنانے کے لئے بہن کو فون ملا لیتیں۔اور انکے جوانی میں کئے گئے کاموں کی لسٹ سننے کی سجل میں ہرگزہمت نہ ہوتی ،سو وہ خاموشی سے اٹھ کر اپنے بیڈ روم میں آجاتی تھی۔
آہستہ آہستہ اس کو اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ اسکو بلکل پسند نہیں کرتی ہیں،سو اس نے بھی انکو مخاطب کرنا چھوڑ دیا تھا۔دن یوںہی گزر رہے تھے،آذر کی پیدئش سےتھوڑے پہلے،وہ اپنے روم میں آرام کر رہی تھی،جب اسکی آنکھ لائٹ جانے سے کھلی۔وہ اٹھ کر لاؤنج میں بیٹھنے کی غرض سےباہر آئ تو جہاں آرا بیگم کی نفرت بھری آواز اسکی سماعت سے ٹکرائ،جو فون پر اپنی بہن سے مخاطب تھیں۔
“ارے بچپن سےپھنسا کے رکھا ہے،میرے سیدھے سادے بچے کو،تم لکھ لو دل آرا ماں بیٹی نے کالا جادو کروایاہے اسجد پر،جو اسکو اس ڈائن کی کوئی غلطی کبھی نظر ہی نہیں آتی ہے۔ماں سے دوبدو ہوتا ہے اس عورت کی خاطر۔”
اس سے آگے سننے کے تاب سجل میں نہ تھی،وہ جیسے تیسے اپنے روم میں جاکر بیڈ پر گر سی گئ۔اتنی نفرت ،کیا کوئ کسی سے بلا وجہ اتنی نفرت کر سکتا ہے؟؟وہ سوچ سوچ کر پاگل ہورہی تھی۔رو رو کر اسکی آنکھیں سوج گئ تھیں۔
رات کو اسجد نے اسکی یہ حالت دیکھی تو وہ پریشان ہوگیا۔سجل نے روتے ہوۓ اسکو ساری رودادسنادی۔اسجدسرپکڑکربیٹھ گیا۔اسکی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ماں کوکچھ بولے تو ان کے پاس بیوہ ہونے کے ایموشنل ڈائلاگ سے لیکر زن مریدی تک کے طعنے پڑے تھے،اور سجل کی تو بہرحال کوئی غلطی نہیں تھی،وہ اسکو کب تک اور کس حساب میں چپ کرواتا رہے گا۔مگر پھر ایک بار اس نے سجل کو یہ کہ کر تسلی دی کہ وہ سجل کے ساتھ ہے،وہ جانتاہے کہ سجل اسکیوجہ سے سفر کر رہی ہے،مگر وہ بھی مجبور ہے،وہ ماں کا اکلوتا بیٹا ہے،وہ انکو اکیلا نہیں چھوڑ نہیں سکتا تھا۔اور ایک بار پھر سجل نے اسجد کی محبت میں زہر کا گھونٹ پی لیاتھا،وہ اسکی مجبوریوں کو سمجھتی تھی۔
اسجد کی دوبہنیں تھیں،دونوں اس سے چھوٹی تھیں،ایک کی شادی ہوگئ تھی اور دوسری کی ہونے والی تھی۔سجل نے بھی اب جہاں آرا کی فطرت کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا تھا،ویسے بھی آذر اور عنایہ کے گود میں آنے کے بعد وہ اس قدر مصروف ہو چکی تھی کہ اس کے پاس فالتو باتوں کو سوچنے کا وقت نہیں تھا۔اور ویسے بھی اسجد کی محبت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی تھی،وہ لوگ اپنی چھوٹی سی دنیا میں بہت خوش تھے۔کہ ایک دن اسجد کو آفس میں سجل کی کال آئ،کہ وہ مزید اب اس گھر میں نہیں رہے گی ،اگر اسجد کو اب اسکو رکھنا ہے تو اسکو الگ گھر کا بندوبست کرکے دینا ہوگا۔
اسجد فوراً سارے کام چھوڑ کے گھر پہنچا تو پتہ لگا سجل تو جاچکی ہے۔اس نے سجل کو کال ملائی تو جو اسکو سننے کوملا،وہ اسکا خون کھولانے کے لئے کافی تھا۔
فاریہ کی ساس نے فاریہ سے کہا تھا کہ وہ اپنے میکہ کا زیور لیتی آے،خاندان کی کسی قریبی شادی میں پہننا تھا۔وہ زیور فاریہ نے جہاں آرا کے پاس رکھوایا ہوا تھا۔فاریہ نے صبح ہی کال کرکے جہاں آرا کوبتا دیا تھاکہ وہ اسکی ساس بس کھڑے کھڑے زیور لینے آئیں گی۔مگر ان لوگ کے آنے پر جہاں آرا بیگم نے انکے پاؤں سے یہ کہ کر زمیں نکال دی کہ وہ زیور تو انکی الماری میں نہیں ہے،اور اب وہ سجل کا کمرہ چیک کرنے جارہی ہیں،سجل کوتھوڑی ہی دیر پہلے انہوں نے اپنی دوا لینے مارکیٹ بھیجا تھا۔واپسی سجل کے لئے کچھ خاص خوشگوار نہیں تھی۔اسکی پوری الماری الٹی ہوئ تھی،اورجہاں آرا دیدہ دلیری سے اسکے کمرے سے” گمشدہ مال” برآمد کر چکی تھیں۔اور ساتھ ہی واویلہ بھی کر رہی تھیں کہ وہ سخت شرمندہ ہیں فاریہ کی ساس سے کہ انکی بہو نے ایسی نیچ حرکت کی۔سجل کے تو تلوؤں میں لگی اور سر پر بجھی۔اتنی تضحیک اور اتناگھٹیا الزام تو کوئ گھر کے نوکر پر نہ لگاۓ نہ کہ گھر کی بہو۔۔۔اس دن ہر حد ٹوٹ گئ،ہر پیمانہ لبریزہوگیا۔اسکی آنکھوں میں مرچیں سی بھرنے لگ گئیں۔اس نے فوراً اپناسامان سمیٹا،اور اسجد کو کال کرکے گھر سے نکل گئ۔
وہ دن اور آج کا دن تھا ،اسکی سمجھ نہیں ارہا تھا وہ کیا کرے،واپس لوٹتی ہے تو اسکی تذلیل ہے،نہیں جاتی تو اسجد کی مجبوریاں۔ایک طرف وہ انااور محبت کے بیچ جھول رہی تھی۔تو دوسری طرف کلثوم بیگم کا روز کابڑھتا ہوا اصرار،انکا کہنا تھایہ باتیں توزندگی کے ساتھ چلتی ہیں ،مگر شوہر کا مجبوری میں ساتھ نہ دینا خود غرضی ہے۔وہ عجیب مخمصے کا شکار تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔