میرم کو آفس سنبھالے ایک ہفتہ ہوچکا تھا،اور اس نے بڑی تیزی سے سارا کام سیکھ لیا تھا،شاہ ویر کی پہلے دن والی نا پسندیدگی بھی میرم کی جا نفشانی اور محنت دیکھ کر کسی حد تک ختم ہوچکی تھی۔اور اس سب میں سب سے زیادہ ہاتھ احد تھا،اس نے شاہویر کی پسند ناپسند اور اسکے مزاج سے میرم کو بہت اچھے سے آگاہ کردیا تھا۔ان دونوں کے درمیاں ایک اچھی دوستی قائم ہوچکی تھی۔
آج احد کے بہت اصرار پر میرم اسکے ساتھ فوڈ کورٹ آئی تھی،ورنہ وہ اپنا لنچ گھر سے ہی لےکر آتی تھی۔ وہ دونوں آرڈر کرکے آگۓ تھے اور اب وقت گزاری کے لئے ادھر ادھر کی بات کرہے تھے۔
باتوں باتوں میں احد کو پتہ لگا کہ میرم کے والد محمد رضوان کی ڈیتھ ہو چکی ہے اور اسکے دو چھوٹے بہن بھائی ہیں جو ابھی زیرِ تعلیم ہیں۔رضوان صاحب کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے تھا،انکے یہاں تعلیم کا خاص رواج نہیں تھا،مگر رضوان صاحب نے خودبھی تھوڑا بہت پڑھا تھا اور اپنےبچوں کو بھی پڑھانا چاہتے تھے،وہ اس فرسودہ نظام سے چھٹکارا پانا چاہتے تھے،اسی لئے وہ اپنے بچوں کو لیکر شہر آگئے تھے۔مگر انکے اس قدم کی وجہ سے انکے والد نے جائیداد سے عاق کردیا اور پورے گاؤں نے انکا بایئکاٹ کردیا تھا۔مگر وہ خوش تھے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم کا زیور دیں گے۔
مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا،شہر آنے کے ایک سال بعد ہی ایک ایکسیڈنٹ میں انکا انتقال ہوگیا۔مگر انکی بیوی نے انکے خواب کوپورا کرنے کے لئے دن رات محنت کرکے بچوں کو تعلیم دلوائی تھی۔وہ ایک ہوزری میں بطور سپر وائزر کام کرتی تھیں۔مگر میرم نے جاب ملتے ہی سب سے پہلے ان سے ریزائن کروایا تھا،اب وہ چاہتی تھی باقی ذمہ دای وہ پوری کرے۔اسکی بہن کراچی یونیورسٹی سے بائیو ٹیک میں آنرزکر رہی تھی اوربھائی ابھی انٹر پری انجینرنگ میں تھا۔
باتوں کے دوران وہ لوگ اپنا کھانا لاکر اورختم کر چکے تھے،احد کے دل میں میرم کے حالات جان کر اس کے لیے عزت اور پسند میں اور اضافہ ہو گیا تھا۔
اس نے خود سے عہد کرلیا تھا،کہ وہ اس امر کو یقینی بناۓ گاکہ میرم کی جاب جب تک چلتی رہے جب تک وہ خود اسکوچھوڑنانہ چاہے۔کھانا ختم کرتے ہی میرم نے فوراً اپنا بیگ اٹھایا اور کھڑی ہوگئ،وہ شاہ ویر کو شکایت کاموقع نہیں دینا چاہتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہویر گھر میں داخل ہوا تو رابعہ عالم کو دیکھ کر اسکو خوشگوار حیرت ہوئی۔وہ اس وقت ملازموں کی کلاس لے رہی تھیں،جنھوں نے انکی غیر موجودگی میں گھر کا سارا نظام درہم برہم کیا ہوا تھا۔
“ارے ممی آپ کب آئیں؟مجھے بتایا بھی نہیں میں ائر پورٹ آجاتا آپکو لینے”
اس نے رابعہ عالم جو گلےلگاتے ہوۓ کہا۔
“تو یہ اچانک دیکھ کر جو خوشی ہوئی تم کو وہ کیسے ہوتی پھر”؟
انہوں نے اسکی پیشانی پر بوسہ دیا۔
“ہاں یہ توہے”۔
شاہ ویر ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتا صوفے پر بیٹھ گیا۔
“ ارحم اور اذلان کیسے ہیں؟”
اس نے بہن اور بھانجے کی خیریت پوچھی۔
“ہاں اللہ کا کرم بلکل ٹھیک ہیں۔میری تو خوشی ہی ادھوری رہ گئی،دل سارا وقت تم میں ہی لگا رہا۔مگر مجھے خوشی ہے کہ تم اپنے روٹین کی طرف آگئے۔”
انہوں نے شاہ ویر کوپیار سے دیکھتے ہوۓ کہا۔
“ہم م م۔۔۔آپ سنائیں سفر کیسا رہا؟”
شاہ ویر نے بات گھمانے کی کوشش کی۔
“ہاں سفر تو بہت تھکانے والا تھا۔اتنی لمبی فلائٹ،اب اس عمر میں نہیں ہوتا اتنا لمبا سفر۔”
رابعہ عالم نے دہائی دی۔
“بس اب تو ایک ہی خواہش ہے کہ اپنے پوتا پوتی کھلا لوں،بس بہت جی لی،اسکے بعد بس آخرت کا سفر ہی کروں۔”
انہوں نے لمبی سانس بھرتے ہوۓ کہا۔
“ارے کیسی بات کرتی ہیں ممی،اللہ پاک آپکو لمبی عمر دے،اور ممی پلیز اب مجھ سے شادی کے ٹاپک پر بات نہیں کرئے گا۔میں شادی کر چکا ہوں۔بس میرے نصیب میں جو تھا مل گیا۔دوبارہ میں شادی نہیں کروں گا۔”
شاہ ویر ناراضگی سے کہتا اٹھ کر چلا گیا۔رابعہ عالم افسردگی سے اسکو جاتا دیکھتی رہیں۔
بیڈ روم میں آکر اس نے اپنا کوٹ اور ٹائی بیڈ پر پھینکا،اور خودجوتوں سمیت ہی بیڈ پر لیٹ گیا۔وہ جتنا اس بارے میں بات کرنے سے کتراتا تھا اتنا ہی یہ ذکر نکل جاتاتھا۔وہ آنکھوں پرہاتھ رکھ کر لیٹ گیا۔پرانے زخم پھر سے رسنے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جینیفر کی ظبیعت کچھ ٹھیک نہ تھی اسلیۓ وہ آفس نہیں گئ تھی،اسی لئے شاہویربھی آج جلدہی آفس سے گھر آگیا تھا تاکہ اسکو ڈاکٹر کے پاس لے جاسکے۔
گھر پہنچنے پر اسکو کچھ ڈرائنگ روم میں کچھ گہما گہمی کا اندازہ ہوا۔ہدایت نےبتایا کہ چھوٹی بی بی صاحب کے کوئی دوست آۓ ہوۓ ہیں۔شاہ ویر فریش ہونے کی غرض سے بیڈ روم کی طرف چلا گیا،اسکا ارادہ تھا کہ فریش ہوکر ڈرائنگ روم میں جاۓ گا۔مگر جب وہ شاور لیکر باہر نکلا،تو جینیفر کو کاؤچ پر دونوں ہاتھوں میں سر گراۓ پایا۔وہ ایکدم پریشان ہوگیا
(واٹ ہیپنڈ جینی؟؟آر یو آلرائٹ؟؟)
“جینی کیا ہوگیا؟تم ٹھیک تو ہو؟”
اس نے جینیفر کے ہاتھ پکڑتے ہوۓ کہا۔
جینیفر نے گردن اٹھائی تو اسکی آنکھوں میں آنسو تھے۔
(شاہ آئی ھیو ٹو گو ٹو یو ایس،آئی ھیو سم پراپرٹی ایشوز دئیریو نو دیٹ دا ہاؤس ان وچ مائی مام لوز از مائی اینسسٹرز ہاؤس اینڈ ناؤ مائی انکلز آر کلیمنگ فار دیٹ۔مائی مام از الون دئیر۔آئی ھیو ٹو گو۔ مائیکل کیم ان ھز فرینڈز ویڈنگ سو ہی ٹولڈ می اباؤٹ اٹ۔۔۔۔۔)
“شاہ مجھے یو ایس جانا ہوگا،وہاں کچھ پراپرٹی کے ایشوز ہیں،تمھیں تو پتہ ہے جس گھر میں میری مام رہتی ہیں وہ میرے آباو اجداد کا ہے۔میرے چچا لوگ اسکے لئے کیس کر رہے ہیں ،میری مام اکیلی ہیں،مجھے جانا ہوگا،مائکل کسی فرینڈ کی شادی میں پاکستان آیا تھا تو اس نے مجھے بتایا”
جینیفر نے ایک ہی سانس میں ساری روداد سنائ
“ اوہ ،مگر تم پریشان نہیں ہو میں تمھاری ٹکٹ کروادیتاہوں”
شاہ ویر نے لیپ ٹاپ اٹھاتے ہوۓ کہا۔
“(شاہ کانٹ یو کم ود می؟؟”)
“مگر شاہ تم کیا تم میرے ساتھ نہیں چل سکتے؟؟”
جینیفر نے شاہ ویر کو آس سے دیکھا۔
“(جینی یو نو دیٹ آئی ھیو ٹو ٹیک کئیر آف بزنس ٹو۔احد از آلسو آؤٹ آف کنٹری۔آئی ول ڈیفینٹلی کم وین ہی ول کم بیک”۔)
.”جینی تم کوپتہ ہے نہ مجھے بزنس بھی دیکھنا ہے ،احد بھی ملک سے باہر گیا ہوا ہے، جیسے ہی احد واپس آئے گا
،میں ضرور آونگا۔”
شاہ ویر نے اس کے گال تھپتھپا کے اسکو تسلی دی۔جینیفر نے ہلکے سے گردن ہلادی۔
“(جینی ڈو یو وانٹ این اوپن ٹکٹ؟”)
“جینیفر کیا میں تمھاری اوپن ٹکٹ کرواوں”؟
(اوپن ٹکٹ وہ ہوتی ہے جس میں واپسی کا کوئی ٹائم فکس نہیں ہوتا،آپ ٹکٹ کروانے کے ایک سال کے اندر اندر کبھی بھی واپسی کی ڈیٹ سیٹ کر سکتے ہیں)۔
شاہ ویر نے لیپ ٹاپ پر نظریں جماۓ ہوۓ پوچھا۔
“(یس ،آئی ڈونٹ نو،ہاؤ لونگ دس کیس ول پروسیڈ”)
.”ہاں مجھے نہیں پتہ کیس کتنا ٹائم لے گا،تم اوپن ٹکٹ ہی کروادو”۔
۔جینیفر نے اپنا ٹرالی بیگ الماری میں سے نکالتے ہوۓ کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جینیفر کو گئے 6 ماہ کا عرصہ بیت چکا تھا،دونوں کی اسکائپ پر بات ہوتی رہتی تھی۔
جینیفر کا مطالبہ تھا کہ شاہ ویر اپنا بزنس یو ایس آکر شروع کرلے،کیونکہ اسکے گھر کا کیس بیچ میں پھنسا ہوا تھا اور وہ اپنی ماں کو ایسے میں چھوڑ کر نہیں آسکتی تھی۔
شاہویر کا کہنا تھا کہ وہ اسکو وقتاً فوقتاً یو ایس بھیجتا رہے گا،ایسے وہ کب تک الگ الگ رہ کرلائف گزاریں گے؟ اس بیچ شاہ ویر یو ایس کا چکر بھی لگا آیا تھا۔مگر وہاں بھی دونوں کا سارا ٹائم اسی بحث کی نظر ہوگیا کہ دونوں میں سے کوئ بھی اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھا۔
شاہ ویر کو اتنے چلتے ہوۓ بزنس کو بند کرکے یو ایس میں نئے سرے سے سب شروع کرنے کا سوچ کر ہی ٹینشن ہوجاتی تھی۔اور اگر وہ جینیفر کی خاطر رسک لے بھی لیتا تو اسکو پتہ تھا رابعہ عالم کبھی بھی یہ بات نہیں مانیں گی۔اور انکو چھوڑ کر جانے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
جینیفر کو حیرت ہوتی تھی کہ لوگ تو گرین کارڈ کے چکر میں یوایس نیشنل سے خاص کرکے شادی کرتے ہیں،یہ کیسا آدمی ہے جو ایسے موقع کو ٹھکرا رہا ہے ۔اس نے شادی کے ٹائم بھی یہی سوچا تھا کہ وہ شاہ ویر کو یو ایس رہنے کے لئے منا لے گی۔مگر شاہ ویر اسکی سوچ کے بر عکس نکلا۔
ادھر شاہ ویر اسی کشمکش میں تھا کہ کیا کرے کہ ایک دن اسکو جینیفر کی ایک لمبی چوڑی میل موصول ہوئ۔اسنے اسمیں ڈایورس کا مطالبہ کیا تھا۔
اسکا کہنا تھا کہ اس کی ماں چاہتی ہے کہ وہ مائیکل سے شادی کرلے ،اور اس صورت میں اسکے چچا نے وعدہ کیا ہے کہ وہ کیس واپس لے لیں گے۔اور فی الحال وہ اپنی ماں سے چھت نہیں چھین سکتی،کیونکہ انکے پاس کیس لڑنے کے لئے نہ سرمایہ ہے،اور ہارنے کی صورت میں اسکی ماں دربدر ہوجاۓ گی۔اسکے خاندان والے اسکی شادی ایک مسلمان سے ہونے کے حق میں نہیں تھے ،اسکی ماں نے سب سے لڑ کر اسکی شادی کردی تھی،اور اب وہ لوگ اپنا بدلہ لے رہے تھے۔
جوں جوں میل آگے بڑھتی جارہی تھی،شاہ ویر کے چہرے کا رنگ بدلتا جارہا تھا۔اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ جینیفر اس سے اتنی آسانی سے الگ ہوجاۓ گی۔اس نے تو پہلی بار کسی سے محبت کی تھی،کسی کا اعتبار کیا تھا،اور اسکو بدلے میں یہ ملا۔اسکا دماغ ماؤف ہورہا تھا۔
رابعہ عالم ان دنوں ارحم کی ڈلیوری کے سلسلے میں کینیڈا گئ ہوئی تھیں۔اسکی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔تین رات مسلسل جاگنے کے بعد اس نے جینیفر کو آزاد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔وہ زبردستی کے رشتے کا قائل نہیں تھا۔اس نےفیصلہ کرنے کے اگلے ہی دن جاکر پیپر بنوا کر جینیفر کو کورئیر کردئیے۔
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
کیسےے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نساء بظاہر اپنے پیپر کے تیاری میں لگی ہوئی تھی۔مگر دل و دماغ مسلسل ایقان کے گرد گھوم رہے تھے۔وہ بہت ہی مشکل حالات میں پھنس گئ تھی۔نہ ایقان کو دماغ سے نکال پا رہی تھی نہ اس سے بات کرنے کی ہمت کر پارہی تھی کہ یہ اسکے گھر والوں کی بے عزتی تھی۔سب سے بڑھ کر وہ سب کچھ اندر رکھ کر گھٹ رہی تھی۔
نساء بچپن سے ہی ایسی تھی،اپنا دکھ تکلیف کسی سے نہ شئیر والی۔سجل سے اسکا 7سال کا فرق تھا جس وجہ سے ان دونوں کے درمیاں بچپن میں کبھی خاص دوستی نہ رہی۔سجل اس کو بس گڑیا سمجھ کر کھیلتی تھی ،مگر اس سے کوئی بات یا راز شئیر کرنے کے حساب سے وہ اسکو بچی لگتی تھی۔
اور جب نساء تھوڑی بڑی ہوئ تو سجل کی شادی ہوگئ۔اسلئے اس نے اپنے مسئلے ہمیشہ خود حل کئے۔والدین کو ستانا یا پریشان کرنا تو اسکی فطرت کا حصہ کبھی رہا ہی نہیں۔مگر اس بار وہ اس سچوئیشن سے کسی صورت نہیں نکل پا رہی تھی ۔
جب ہی اچانک اسکو پروفیسر شیریں کا خیال آیا۔اس نے فرحین کو کال کرکے تیار رہنے کو کہا کہ وہ اسکو آدھے گھنٹے میں پک کرلے گی اور خود کلثوم بیگم سے فرحین کے ساتھ کمبائن اسٹڈی پر جانے کی اجازت مانگنے چلی گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔