کلثوم کی زندگی کی گاڑی یونہی چل رہی تھی،سجل سات سال کی ہونے کو آرہی تھی اور انکے یہاں دوبارہ خوشخبری آنے والی تھی۔کلثوم کا تو میکے جانا کم ہی ہوتا تھا،مگر اسجد وقتاً فوقتًا کلثوم کے پاس رہنے آجاتا تھا،اسکو اپنی پھپھو سے تو پیار تھا ہی مگر اصل وجہ سجل تھی،جس میں اسکی جان تھی۔شاکرہ بیگم کو یوں تو کلثوم کے گھر کا ایک فرد بھی گوارا نہیں تھا،مگر وہ وقار احمد کی وجہ سے چپ تھیں کیونکہ سجل وقار احمد کی لاڈوں پلی،تھوڑی نخریلی مزاج بیٹی تھی جسکو اسجد سے بہت لگاؤ تھا اور جو چیز سجل کو عزیز ہو وہ وقار احمد کو خود بھی بہت عزیز ہوجاتی تھی۔اسلئے وہ چاہ کر بھی اسجد کو اپنے گھر آنے سے روک نہیں پاتی تھیں۔
نساء کی پیدائش میں تھوڑے دن رہ گئے تھے جب وقار کے ماموں جو فیصل آباد میں رہتے تھے انکے گھر آنے والے تھے۔وہ ایک بہت دین دار،سلجھے ہوۓاور مشفق انسان تھے،انکی بیٹی کا رشتہ کراچی سے آیا تھا،اسلئے وہ معلومات کے لئے کراچی آرہے تھے۔
یوں تو شاکرہ بیگم انکو خاص پسند نہ کرتی تھیں اسلئے وہ بھی انکے گھر آنے سے کتراتے تھے،مگر بچپن سے ہی وقار احمد کو اپنے یہ ماموں بہت پسند تھے اور انکے ہی پرُ زور اصرار پر اب وہ وقار احمد کے گھر رہنے بھی آرہے تھے۔وہ شاکرہ بیگم کے بھائ کہیں سے نہیں لگتے تھے،وہ ہمیشہ ہی انکو غلط بات پر ٹوک دیتے تھے اسلئے شاکرہ بیگم ان سے خار کھاۓ رہتی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے دو دن سے اکبر ماموں شاکرہ بیگم کا رویہ کلثوم کو ساتھ دیکھ رہے تھے۔وہ بات بے بات کلثوم کو بے عزت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھیں۔حالانکہ گھر میں کل وقتی ملازمہ تھی،مگرپھر بھی شاکرہ بیگم کلثوم کو کسی نہ کسی کام میں الجھاۓ رکھتی تھیں۔اور سب سےبڑھ کر اکبر ماموں کو وقار احمد کا نظر انداز کرتا رویہ بہت کھٹک رہا تھا،وہ ان سے اکیلے میں بات کرنے کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ انکو یہ موقع اگلے ہی دن ہاتھ آگیا۔
وقار احمد اکبر ماموں کو لیکر بازار گئے تھے،انکو اپنے پوتے نواسوں کے لئے تحائف لینے تھے ،واپسی پر انکو دیر ہوگئ تھی۔زینت بوا سرونٹ کوارٹر میں جا چکی تھیں۔اور شاکرہ بیگم اور کلثوم اپنے کمروں میں۔وقار احمد فوراً کلثوم کو آواز دینے لگے کہ وہ ان دونوں کا کھانا نکال کر لے آۓ۔اکبر ماموں نے انکو روک دیا،اور خود انکو لیکر کچن کی طرف بڑھ گۓ۔
“یار ایک کھانا ہی تو گرم کرنا ہے اسکے لئے اس غریب کو کیوں تنگ کرتے ہو؟”
انہوں نے فرج سے کھانا نکالتے ہوۓ کہا۔
“تم کو معلوم ہے اگر بیوی سوئی ہوئی ہو تو اسکو اٹھانا سنت کے خلاف ہے،حدیث شریف ہے،حضرت عائشہ رضہ فرماتی ہیں :
اگر میں سوئی ہوتی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بستر سے بہت آہستہ سے اترتے اور پھر جوتا پہنے بغیر ننگے پاؤں چلتے،تاکہ آواز نہ ہو۔جب میں نے پوچھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے ایسے کیوں کیا؟تو فرمایا:تم سو رہی تھیں،تو میرا دل چاہا تمہاری نیند میں خلل نہ آۓ۔”
اکبر ماموں نے مائکرو ویو کا بٹن دباتے ہوۓ اپنی بات مکمل کی پھر وقار احمد کو دیکھتے ہوۓ گویا ہوۓ۔”تو اب بتاؤ وہ دو جہاں کے سردار اپنی بیوی کے آرام کا اتنا خیال رکھتے تھے تو ہم تو انکی دھول بھی نہیں ہیں ،ہم چھوٹی چھوٹی سنتیں تو پوری کر ہی سکتے ہیں۔”
وہ پلیٹ دھو کر ٹیبل پر رکھ رہے تھے۔وقار احمد کے چہرے پر شرمندگی تھی۔وہ بھی اکبر ماموں کاہاتھ بٹانے کی غرض سے پانی کی بوتل اور گلاس وغیرہ ٹیبل پر رکھنے لگے۔اکبر ماموں مسکرا کر مائکرو ویو سے کھانا باہر نکالنے لگے۔
“میں نے محسوس کیا ہے تم شاکرہ کے کہنے پر کلثوم کے ساتھ زیادتی کر جاتے ہو”۔
اکبر ماموں نے سالن کا ڈش ٹیبل پر رکھا۔
“نہیں ماموں دراصل اماں کی دل آزاری نہ ہو،اس خیال سے میں انکی بات مان لیتا ہوں۔”
وقار احمد نے صفائی پیش کی۔اکبر ماموں نے ہاٹ پاٹ ٹیبل پر رکھتے ہوۓ کہا۔
“اور بیوی کی جو حق تلفی ہوئی اسکا کیا۔روز آخرت بیوی کی حقوق کا بھی جواب دینا ہوگا۔”
“مگر ماموں ماں کا درجہ تو سب سے اونچا ہے نہ،بیوی کے لئے انکو ناراض تو نہیں کر سکتا۔”
وقار احمد نے اپنے تئیں بہت سمجھداری کی بات کی تھی۔اکبر ماموں اب بیٹھ چکے تھے وہ دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بناۓ منہ پر رکھے وقار احمد کو سن رہے تھے۔پھر وہ مسکرا کر گویا ہوۓ۔
“بیٹا ماں کا درجہ دنیا میں سب سے بڑا ہے،مگر ماں حق تلفی کرنے کو کہے تو یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ انکی بات مان لی جاۓ۔ماں تم کو دنیا میں لائی ہے تو بیوی تمھاری اولاد کو۔دونوں کو دونوں کے حقوق میانہ روی سے دینا ہی اصل امتحان ہے۔امتحان میں تین سوال کرنے ہوں اور تم ساری محنت اور وقت ایک سوال کو ہی دے دو تو کیا تم اچھے نمبر لا پاؤ گے؟؟نہیں نہ۔۔ایسے ہی زندگی کے ہر امتحان میں عدل بہت ضروری ہے،ماں کی نا فرمانی نہ کرو مگر بیوی کو صرف ماں کو خوش کرنے کے لئے تکلیف نہ دو۔”
انہوں نے سالن پلیٹ میں نکالتے ہوے کہا۔
“ماموں جان اصل میں شروع سے ہی اماں نے مجھ سے کہا تھا کہ کلثوم پر سختی رکھنا،ورنہ بھابھیوں کی طرح سر پر چڑھ جاۓ گی۔”
وقار احمد نے تھوڑا شرمندہ ہوتے ہوۓ کہا۔
“نہ بیٹا عورت پر سختی بلکل جائز نہیں۔”
انہوں نے روٹی پلیٹ میں رکھی۔
“سوائے اسکے کہ وہ شرعی احکام کی پابندی نہ کرے۔تم نے سنا تو ہوگا نہ کہ عورت ٹیڑھی پسلی کی طرح ہے اگر تم اسکو بلکل سیدھا کرنا چاہو گے تو تم اسکو توڑ دو گے(یعنی جدائی کی نوبت آجاۓ گی)تم کو اسکا ٹیڑھا پن برداشت کرتے ہوۓفائدہ اٹھانا ہوگا۔”
انہوں نے بسم اللہ پڑھتے ہوۓ نوالہ لیا۔وقار احمد بھی خاموشی سے اپنا کھانا نکالنے لگے۔کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ماموں جان اب کھانا شروع کر چکے وہ اب گفتگو نہیں کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نساء آئینے کے سامنے کھڑی بال برش کررہی تھی۔اس نے بے بی پنک لان پر آف وہائٹ ایمبرائڈری کاسوٹ پہن رکھا تھا۔ساتھ ہی پنک اور آف وائٹ پرنٹدشفون دوپٹہ سلیقے سے بیڈ پر پھیلا تھا۔
سجل روم میں داخل ہوئی تو اسکو نساء کو دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔وہ پہلے کی نسبت کافی سنبھلی ہوئی لگ رہی تھی۔سادگی میں بھی اسکا اداس حسن قیامت ڈھا رہا تھا۔سجل نے اسکو دیکھ کر دل ہی دل میں نظر اتاری۔
“اور کہاں کی تیاری ہے؟”
سجل نے حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثر سے پوچھا۔
“وہ آپی فرحین نے یونیورسٹی بلایا ہے،کچھ نوٹس ڈسکس کرنے تھے اور نیکسٹ پیپرز کے ہینڈ آوٹ تھے کچھ، وہ پک کرنے ہیں۔”
نساء نے تفصیل سے جواب دیا۔
“چلا اچھا ہے تھوڑا باہر نکلو گی تو فریش ہوگی۔”
سبجل کو اچھا لگا کہ نساء نے جلد ہی خود کو اس ڈیپریسنگ فیز سے نکال لیا تھا۔نساءنے پھیکی سی مسکراہٹ سے سجل کو دیکھتے ہوۓ دوپٹہ شانوں پر پھیلایا اور ہینڈ بیگ اٹھاتی ہوئی باہر نکل گئ۔
کلثوم بیگم کو اللہ حافظ کہتی وہ گاڑی میں بیٹھ گئ۔کلثوم بیگم نے اس پر دعائیں پڑھ کر پھونکیں۔وہ بھی مطمئن تھیں کہ نساء نے اس واقعہ کو دل پر نہیں لیا تھا۔
نساء یونیورسٹی پہنچی تو فرحین لائبریری میں پہلے سے اسکا ویٹ کر رہی تھی۔وہ جانتی تھیں لائبریرین انکو یہاں بیٹھ کربات نہیں کرنے دے گی ،اسلئے دونوں مین کیفے ٹیریا آگئیں۔نسبتاً وہ ایک سنسان گوشے کی طرف آگئیں۔
“تم نے ایقان سے بات کی دوبارہ؟؟”
فرحین نے بیٹھتے ہوۓ پوچھا۔
“نہیں یار فائدہ نہیں ہے،وہ نہیں مانیں گے،اچھے سے جانتی ہوں میں انکو “۔
اس نے گردن نفی میں ہلاتے ہوۓ کہا۔
“بس تم کو دل ہلکا کرنے کو بلایا ہے،گھر پر مجھے گھٹن ہورہی تھی۔پاپا میری وجہ سے شرمندہ ہیں،اتنے پیار کرنے والےباپ کی نظریں جھکی ہوئی نہیں دیکھ سکتی۔آپی کے گھر کے مسائل الگ چل رہے ہیں،میں مزید سبکے لئے پریشانی نہیں بن سکتی۔مگر تم سے بھی نہ کہتی تو دل پھٹ جاتا۔”
نساء نے آنسو ٹشو میں جذب کرتے ہوۓ کہا،جو نہ چاہتے ہوۓ بھی اسکی آنکھوں سے ٹپک گئے تھے۔
“بہت بدقسمت ہے ویسے ایقان،جو اس نےتم جیسی لڑکی کو چھوڑا ہے،بہت پچھتاۓ گا وہ۔”
فرحین نے تاسف سے کہا۔
“پتہ نہیں فرحین کون بدقسمت ہے،فی الحال تو مجھے اپنا آپ سب سے زیادہ بدقسمت لگ رہا ہے۔”
اس نے طنزیہ ہنسی ہنسی۔
“یار نساء تم تو بہت کئرنگ ہو،تمھارےلئے اللہّ پاک نے بہت خاص بندہ رکھا ہوگا۔”
فرحین نے اسکا ہاتھ دباتے ہوۓ کہا۔
“نہیں یار فرحین مجھے لگتا ہے مجھ سے کوئی غلطی ہوگئ ہے جس کی سزا ہے یہ،اتنے سالوں تک ایک شخص سے یہ سوچ کر بات کی کہ میرا ہونے والا شوہر ہے،میری ہر سوچ ہر خواہش اسی سے شروع ہوکر اسی پر ختم ہوجاتی تھی،اور اللہ ّ پاک نے مجھ سے اسکوچھین لیا،کیوں کیا اللہّ پاک نے میرے ساتھ ایسا؟؟”
اس نے خالی نظروں سے فرحین کو دیکھا۔
“پتہ نہیں نساء میں کوئی بہت بڑی عالمہ نہیں ہوں مگر اتنا ضرور پتہ ہے کہ اللہ پاک کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے،وہ فیصلے ہمارے بہتری کے لئے ہوتے ہیں۔”
تم نے سورہ بقرہ کی وہ آیت تو پڑھی ہوگی نہ،
“عجب نہیں کوئی بات تم کو بری لگے اور وہ ہی تمھارے حق میں بہتر ہو،اور عجب نہیں کہ کوئی بات تمھیں بھلی لگے اور وہی تمھارے حق میں مضر ہو اور ان باتوں کو خدا ہی بہتر جانتاہے اور تم نہیں جانتے”
فرحین نے اسکو دلاسہ دیتے ہوۓ کہا۔
“مگر فرحین اگر کوئ چیز میرے لئے بہتر نہیں تھی تو اللہّ پاک مجھے دیتا ہی نہیں نہ،دے کے واپس لے لیا۔”
نساء نے شکوہ کیا۔
“میری جان یہی تو آزمائش ہے۔”
اسی اثناء میں ایک لڑکی جس نے عبایا پہنا ہوا تھا انکے قریب آئی اور بولی:
“کیا میں آپ لوگ کے پاس ۵منٹ بیٹھ سکتی ہوں؟؟”
اس نے دونوں سے اجازت لیکر باری باری دونوں کو دیکھا۔دونوں نے تذبذب سے اسکو دیکھا۔
“اصل میں میں کافی دیر سے آپ لوگ کی گفتگو سن رہی تھی،ویسے تو یہ اچھی بات نہیں ہے،مگر میں نے انٹینشنلی ایسا نہیں کیا۔اگر آپ لوگ کچھ مدد کرسکوں تو مجھے خوشی ہوگی۔”
اس نے خود ہی انکی مشکل آسان کی۔دونوں نے نا سمجھی سے اسکو دیکھا۔
“اصل میں میں اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹرز کر رہی ہوں،میری ٹیچر پروفیسر ڈاکٹر شیریں ایک بہت اچھی اسکالر ہیں،وہ بہت اچھی رہنما بھی ہیں،آپ چاہیں تو ان سے مل لیں۔”
اس نے ان دونوں کو مسکرا کر دیکھا۔
دراصل ہم کو تو دیر ہورہی ہے،گھر کے لئے اٹھ رہے تھے بس۔”
فرحین نے معذرت کرتے ہوۓ کہا۔
“اٹس اوکے ،آپ ان سے گھر پر مل سکتی ہیں،وہ شام کو درس بھی دیتی ہیں اپنے گھر پر”۔
اس نے ایک کارڈ نساء کی طرف بڑھایا۔
“آپ جب چاہیں ان سے مل لیں۔نساء نے خاموشی سے کارڈ لیکر بیگ میں رکھ لیا۔اوکے میں چلتی ہوں،اللہّ حافظ۔”
وہ مسکرا کر کہتی ہوئی کھڑی ہوگئ۔وہ دونوں بھی گھرجانے کے لئے کھڑی ہوگئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔